اللہ تعالی اپنے نبیوں کو معجزہ سے سرفراز فرماتا ہے اسی سلسلے میں 20 عظیم معجزہ نبوی جن کو پڑھ کر عقل حیران ہوجائے جیسا کہ ستر برس کا جواب اور برکت اولاد کی وجہ سے کثرت اولاد کا ہوجانا اور مردے زندہ کرنا قبر سے لڑکی کا نکلنا اس طرح کے 20 جو بڑے معجزات مصطفی ہیں ان کی تفصیل اور حوالا ذکر کردیا گیا ہے
- 20 عظیم معجزہ
- ستر برس کا جوان
- برکت اولاد کی دعا
- حضرت جریر کے حق میں دعا
- قبیلۂ دوس کا اسلام
- ایک متکبر کا انجام
- مردے زندہ ہو گئے
- لڑکی قبر سے نکل آئی
- پکی ہوئی بکری زندہ ہو گئی
- عالم جنات کے معجزاتجن نے اسلام کی ترغیب دلائی
- جنوں کا سلام و پیغام
- جن سانپ کی شکل میں آیا
- عناصر اربعہ کے عالم میں معجزاتانگشت مبارک کی نہریں
- زمین نے لاش کو ٹھکرا دیا
- جنگِ خندق کی آندھی
- مکمل واقعہ
- موئےمبارک
- آگ نہ جلا سکی
- انتباہ
20 عظیم معجزہ
یہ ہیں سب سے اہم 20 عظیم معجزہ جن کو پڑھ کر دل باغ باغ ہوجائےگا
ستر برس کا جوان
حضرت ابو قتادہ صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے حق میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ دعا فرما دی کہ اَفْلَحَ وَجْھُکَ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَہٗ فِیْ شَعْرِہٖ وَبَشَرِہٖ. یعنی فلاح والا ہوجائے تیرا چہرہ ،یااﷲ! اس کے بال اور اس کی کھال میں برکت دے۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ستر برس کی عمر پا کر وفات پائی مگر ان کا ایک بال بھی سفید نہیں ہوا تھا نہ بدن میں جھریاں پڑی تھیں، چہرے پر جوانی کی ایسی رونق تھی کہ گویا ابھی پندرہ برس کے جوان ہیں۔(2) (الکلام المبین ص۶۸ بحوالہ دلائل النبوۃ بیہقی)
برکت اولاد کی دعا
حضرت ابوطلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضرت اُمِ سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بڑی ہوشمند اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نہایت ہی جاں نثار تھیں ان کا بچہ بیمار ہو گیا اور حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ گھر سے باہر ہی تھے کہ بچے کا انتقال ہو گیا۔ حضرت اُمِ سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے بچے کو الگ مکان میں لٹا دیا اور جب حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مکان میں داخل ہوئے اور بیوی سے پوچھا کہ بچہ کیسا ہے؟ بیوی نے جواب دیا کہ اس کا سانس ٹھہر گیا ہے اور مجھے اُمید ہے کہ وہ آرام پا گیا ہے۔ حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الجھادوالسیر،باب الدعاء بالجھادوالشھادۃ…الخ،الحدیث: ۲۷۸۸،۲۷۸۹،ج۲،ص۲۵۰
2۔۔۔۔۔۔الشفا بتعریف حقوق المصطفی،الجزء الاول،ص۳۲۷
نے یہ سمجھا کہ وہ اچھا ہے۔ چنانچہ دونوں میاں بیوی ایک ہی بستر پر سوئے لیکن صبح کو جب ابو طلحہ غسل کرکے مسجد نبوی میں نمازِ فجر کے لئے جانے لگے تو بیوی نے بچے کی موت کا حال سنا دیا۔ حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے رات کا سارا ماجرا بارگاہِ نبوت میں عرض کیا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ خداوند تعالیٰ تمہاری آج کی رات میں برکت عطا فرمائے گا۔ چنانچہ اس رات کی برکت مقررہ مہینوں کے بعد ظاہر ہوئی کہ حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے فرزند حضرت عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے اور حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو اپنی گود میں بٹھا کر اور عجوہ کھجور کو چباکر ان کے منہ میں ڈالا اور ان کے چہرے پر اپنا دست رحمت پھرا دیا اور عبداﷲ نام رکھا۔
ایک انصاری حضرت عبایہ بن رفاعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ دعاءِ نبوی کی برکت کا یہ اثر ہوا کہ میں نے ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نو اولادوں کو دیکھا جو سب کے سب قرآن مجید کے قاری تھے۔(1)
(مسلم جلد۲ ص۲۹۲ باب فضائل اُمِ سلیم و بخاری جلد۱ ص۱۷۴ باب من لم یظہر حزنہ عند المصیبۃ)
حضرت جریر کے حق میں دعا
حضرت جریر بن عبداﷲ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھوڑے کی پیٹھ پر جم کر بیٹھ نہیں سکتے تھے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو ”ذوالخلصہ” کے بت خانہ کو توڑنے
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب من لم یظہرحزنہ عندالمصیبۃ،الحدیث:۱۳۰۱، ج۱،ص۴۴۰
وصحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب من فضائل ابی طلحۃالانصاری،الحدیث: ۲۱۴۴،ص۱۳۳۳
کے لئے بھیجنا چاہا تو انہوں نے یہی عذر پیش کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں گھوڑے پر جم کر بیٹھ نہیں سکتا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور یہ دعا فرمائی کہ ”یااﷲ! اس کو گھوڑے پر جم کر بیٹھنے کی قوت عطا فرما اور اس کو ہادی و مہدی بنا” اس دعا کے بعد حضرت جریر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ گھوڑے پر سوار ہوئے اور قبیلہ احمس کے ایک سو پچاس سواروں کا لشکر لے کر گئے اوراس بت خانہ کو توڑ پھوڑ کر جلا ڈالا اور مزاحمت کرنے والے کفار کو بھی قتل کر ڈالا جب واپس آئے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے لئے اور قبیلہ احمس کے حق میں دعا فرمائی۔(1) (مسلم جلد۲ ص۲۹۷ فضائل جریر)
قبیلۂ دوس کا اسلام
حضرت طفیل دوسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) قبیلۂ دوس نے اسلام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا، لہٰذا آپ اس قبیلہ کی ہلاکت کے لئے دعا فرما دیجئے۔ لوگوں نے آپس میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ اب آپ کی دعاءِ ہلاکت سے یہ قبیلہ ہلاک ہو جائے گا۔ لیکن رحمتِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قبیلۂ دوس کے لئے یہ رحمت بھری دعا فرمائی کہ”الٰہی! تو قبیلۂ دوس کو ہدایت دے اور ان کو میرے پاس لا۔” رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوئی۔ چنانچہ پورا قبیلہ مسلمان ہو کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہو گیا۔(2)(مسلم جلد۲ ص۳۰۷ باب فضائل غفار و دوس وغیرہ)
1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب من فضائل جریربن عبد ا للہ،الحدیث:۲۴۷۶،ص۱۳۴۵
2۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم ،کتاب فضائل الصحابۃ ،باب دعاء النبی بغفار واسلم ،الحدیث: ۲۵۲۴،ص۱۳۶۷
ایک متکبر کا انجام
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص بائیں ہاتھ سے کھانے لگا، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”دائیں ہاتھ سے کھاؤ” اس نے غرور سے کہا کہ ”میں دائیں ہاتھ سے نہیں کھا سکتا۔” چونکہ اس مغرور نے گھمنڈ سے ایسا کہا تھا اس لئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”خدا کرے ایسا ہی ہو” چنانچہ اس کے بعد ایسا ہی ہوا کہ وہ اپنے دائیں ہاتھ کو اٹھا کر واقعی اپنے منہ تک نہیں لے جا سکتا تھا۔ (1) (مسلم جلد۲ ص۱۷۲ باب آداب الطعام)
مردے زندہ ہو گئے
خدا عزوجل کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دینا یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک بہت ہی مشہور معجزہ ہے مگر چونکہ اﷲ تعالیٰ نے حضور رحمۃللعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو تمام انبیاء علیہم السلام کے معجزات کا جامع بنایا ہے اس لئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو بھی اس معجزہ کے ساتھ سرفراز فرمایا ہے۔ چنانچہ اس قسم کے چند معجزات احادیث اور سیرت نبویہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔
لڑکی قبر سے نکل آئی
روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے کہا کہ میں اس وقت تک آپ پر ایمان نہیں لا سکتا جب تک کہ میری مردہ بچی زندہ نہ ہو جائے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مجھے اس کی قبر دکھاؤ۔ اس نے اپنی لڑکی کی قبر دکھا دی حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس لڑکی کا نام لے کر پکارا تو اس
1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الاشربۃ،باب اداب الطعام والشراب…الخ،الحدیث:۲۰۲۱،ص۱۱۱۸
لڑکی نے قبر سے نکل کر جواب دیا کہ اے حضور! میں آپ کے دربار میں حاضر ہوں۔ پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس لڑکی سے فرمایا کہ ”کیا تم پھر دنیا میں لوٹ کر آنا پسند کرتی ہو؟ لڑکی نے جواب دیا کہ ”نہیں یا رسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں نے اﷲ تعالیٰ کو اپنے ماں باپ سے زیادہ مہربان اور آخرت کو دنیا سے بہتر پایا۔” (1)(زرقانی علی المواہب جلد۵ ص۸۲ ۱ و شفاء جلد۱ص۲۱۱)
پکی ہوئی بکری زندہ ہو گئی
حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک بکری ذبح کرکے اس کا گوشت پکایا اور روٹیوں کا چورہ کرکے ثرید بنایا اور اس کو بارگاہ نبوت میں لے کر حاضر ہوئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس کو تناول فرمایا جب سب لوگ کھانے سے فارغ ہوگئے تو حضور رحمتِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تمام ہڈیوں کو ایک برتن میں جمع فرمایا اور ان ہڈیوں پر اپنا دستِ مبارک رکھ کر کچھ کلمات ارشاد فرما دئیے تو یہ معجزہ ظاہر ہوا کہ وہ بکری زندہ ہو کر کھڑی ہو گئی اور دم ہلانے لگی پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے جابر! تم اپنی بکری اپنے گھر لے جاؤ۔ چنانچہ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب اس بکری کو لے کرمکان میں داخل ہوئے تو ان کی بیوی نے حیران ہو کر پوچھا کہ یہ بکری کہاں سے آگئی؟ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ہم نے اپنی اس بکری کو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لئے ذبح کیا تھا، انہوں نے اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگی تو اﷲ تعالیٰ نے اس بکری کو زندہ فرما دیا۔ یہ سن کر ان کی بیوی نے بلند آواز سے کلمۂ شہادت پڑھا۔اس حدیث کو جلیل القدر محدث ابو نعیم نے روایت کیا ہے اور مشہور حافظ
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی ،باب ابراء ذوی العاھات…الخ ،ج۷،ص ۶۱،۶۲
الحدیث محمد بن المنذر نے بھی ”کتاب العجائب و الغرائب” میں اس حدیث کو نقل فرمایا ہے۔(1) (زرقانی علی المواہب جلد۵ ص۱۸۴ و خصائص کبریٰ جلد۳ ص۶۷)
عالم جنات کے معجزات
جن نے اسلام کی ترغیب دلائی
حضرت سواد بن قارب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ایک جن میرا تابع ہو گیا تھا۔ وہ آئندہ کی خبریں مجھے دیا کرتا تھا اور میں لوگوں کو وہ خبریں بتا کر نذرانے وصول کیا کرتا تھا۔ ایک بار اس جن نے مجھے آکر جگایا اور کہا کہ اٹھ اور ہوش میں آ، اگر تجھ میں کچھ شعور ہے تو چل اور بنی ہاشم کے سردار کے دربار میں حاضر ہو کر ان کا دیدار کر جولوی بن غالب کی اولاد میں پیغمبر ہو کر تشریف لائے ہیں۔ حضرت سواد بن قارب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مسلسل تین راتیں ایسی گزریں کہ میرا یہ جن مجھے نیند سے جگا جگا کر برابر یہی کہتا رہا یہاں تک کہ میرے دل میں اسلام کی اُلفت و محبت پیدا ہو گئی اور میں اپنے گھر سے روانہ ہو کر مکہ مکرمہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو گیا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر ”خوش آمدید” کہا اور فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ کس سبب سے تم یہاں آئے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں نے آپ کی مدح میں ایک قصیدہ کہا ہے پہلے آپ اس کو سن لیجئے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پڑھو۔ چنانچہ میں نے اپنا قصیدۂ بائیہ جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مدح میں نظم کیا تھا پڑھ کر رحمتِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو سنایا اس قصیدہ کا آخری شعر یہ ہے کہ
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب ابراء ذوی العاھات …الخ ،ج۷، ص ۶۶
وَکُنْ لِّیْ شَفِیْعًا یَوْمَ لَا ذُوْشَفَاعَۃٍ سِوَاکَ بِمُغْنٍ عَنْ سَوَادِ بْنِ قَارِبٍ
یعنی آپ اس دن میرے شفیع بن جائیے جس دن آپ کے سواسواد بن قارب کی نہ کوئی شفاعت کرنے والا ہو گا نہ کوئی نفع پہنچانے والا ہو گا۔ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت فرمایا ہے۔ (1) (الکلام المبین ص۸۷ بحوالہ بیہقی)
جنوں کا سلام و پیغام
ابن سعد نے جعد بن قیس مرادی سے روایت کی ہے کہ ہم چار آدمی حج کا ارادہ کرکے اپنے وطن سے روانہ ہوئے یمن کے ایک جنگل میں ہم لوگ چل رہے تھے کہ ناگہاں اشعار پڑھنے کی آواز آئی ہم نے ان اشعار کو غور سے سنا تو ان کا مضمون یہ تھا کہ اے سوارو! جب تم لوگ زمزم اور حطیم پر پہنچو تو حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں ہمارا سلام عرض کر دینا جن کو اﷲ تعالیٰ نے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور ہمارا یہ پیغام بھی پہنچا دینا کہ ہم آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دین کے فرماں بردار ہیں کیونکہ حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام نے ہم لوگوں کو اس بات کی وصیت فرمائی تھی۔ (یقینا یہ یمن کے جنگل میں رہنے والے جنوں کی آواز تھی۔ )(الکلام المبین ص۹۳ بحوالہ ابن سعد)
جن سانپ کی شکل میں آیا
خطیب حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے راوی ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ ایک کھجور کے درخت کے نیچے تشریف فرما تھے کہ بالکل ہی اچانک ایک بہت بڑے کالے سانپ نے آپ کی طرف رُخ کیا،لوگوں نے اس کو مار ڈالنے کا ارادہ کیا لیکن آپ نے فرمایا کہ اس کو
1۔۔۔۔۔۔ دلائل النبوۃ للبیہقی،جماع ابواب المبعث،حدیث سواد بن قارب…الخ،ج۲،ص۲۵۰
میرے پاس آنے دو۔ جب یہ آپ کے پاس پہنچا تو اپنا سر آپ کے کانوں کے پاس کر دیا۔ پھر آپ نے اس سانپ کے منہ کے قریب اپنا منہ کرکے چپکے چپکے کچھ ارشاد فرمایا اس کے بعد اسی جگہ یکبارگی وہ سانپ اس طرح غائب ہو گیا کہ گویا زمین اس کو نگل گئی۔ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ نے سانپ کو اپنے کانوں تک پہنچنے دیا یہ منظر دیکھ کر ہم لوگ ڈر گئے کہ کہیں یہ سانپ آپ کو کاٹ نہ لے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ سانپ نہیں تھا بلکہ جنوں کی جماعت کا بھیجا ہوا ایک جن تھا۔ فلاں سورہ میں سے کچھ آیتیں یہ بھول گیا۔ ان آیتوں کو دریافت کرنے کے لئے جنوں نے اس کو میرے پاس بھیجا تھا۔ میں نے اس کو وہ آیتیں بتا دیں اور وہ ان کو یاد کرتا ہوا چلا گیا۔
(الکلام المبین ص۹۴)
عناصر اربعہ کے عالم میں معجزات
انگشت مبارک کی نہریں
احادیث کی تلاش و جستجو سے پتا چلتا ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک انگلیوں سے تقریباً تیرہ مواقع پر پانی کی نہریں جاری ہوئیں۔ ان میں سے صرف ایک موقع کا ذکر یہاں تحریر کیا جاتا ہے۔ ۶ھ میں رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم عمرہ کا ارادہ کرکے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کے لئے روانہ ہوئے اور حدیبیہ کے میدان میں اتر پڑے۔ آدمیوں کی کثرت کی وجہ سے حدیبیہ کا کنواں خشک ہو گیا اور حاضرین پانی کے ایک ایک قطرہ کے لئے محتاج ہو گئے۔ اس وقت رحمتِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دریائے رحمت میں جوش آگیا اور آپ نے ایک بڑے پیالے میں اپنا دستِ مبارک رکھ دیا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک انگلیوں سے اس طرح پانی کی نہریں جاری ہو گئیں کہ پندرہ سو کا لشکر سیراب ہوگیا۔ لوگوں نے وضو و غسل بھی کیا جانوروں کو بھی پلایا تمام مشکوں اور برتنوں کو بھی بھر لیا۔ پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پیالہ میں سے دست مبارک کو اٹھا لیا اور پانی ختم ہو گیا۔ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے لوگوں نے پوچھا کہ اس وقت تم لوگ کتنے آدمی تھے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ پندرہ سو کی تعداد میں تھے مگر پانی اس قدر زیادہ تھا کہ لَوْکُنَّا مِائَۃَ اَلْفٍ لَکَفٰنَا ۔(1)(مشکوٰۃ جلد۲ ص۵۳۲ باب المعجزات) اگر ہم لوگ ایک لاکھ بھی ہوتے تو سب کو یہ پانی کافی ہو جاتا۔ یہ حدیث بخاری شریف میں بھی ہے اور حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے علاوہ حضرت انس و حضرت براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی روایتوں سے بھی انگلیوں سے پانی کی نہریں جاری ہونے کی حدیثیں مروی ہیں ملاحظہ فرمائیے۔(بخاری جلد۱ ص۵۰۴ و ص۵۰۵ علامات النبوۃ) سبحان اﷲ!اسی حسین منظر کی تصویر کشی کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اﷲتعالیٰ علیہ نے کیا خوب فرمایا ؎ اُنگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر ندیاں پنج آبِ رحمت کی ہیں جاری واہ واہ
زمین نے لاش کو ٹھکرا دیا
ایک نصرانی مسلمان ہو کر دربار نبوت میں رہنے لگا سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران پڑھ چکا تھا۔ خوشخط کاتب تھا اس لئے اس کو وحی لکھنے کی خدمت سپرد کر دی گئی۔ 1۔۔۔۔۔۔مشکاۃ المصابیح،کتاب احوال القیامۃوبدء الخلق،باب المعجزات،الحدیث:۵۸۸۲، ج۲،ص ۳۸۳ مگر یہ بدنصیب پھر کافر و مرتد ہو کر کفار سے جا ملا اور کہنے لگا کہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں جتنا میں ان کو لکھ کر دے دیا کرتا تھا۔ قہر الٰہی نے اس گستاخ کو اپنی گرفت میں پکڑ لیا اور یہ مر گیا۔ نصرانیوں نے اس کو دفن کیا مگر زمین نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیا، نصرانیوں نے گہری قبر کھود کر تین مرتبہ اس کو دفن کیا مگر ہر مرتبہ زمین نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیا۔ چنانچہ نصرانیوں نے بھی اس بات کا یقین کر لیا کہ اسکی لاش کو زمین کے باہر نکال پھینکنا یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے اس لئے ان لوگوں نے اس کی لاش کو زمین پر ڈال دیا۔(1)(بخاری جلد۱ ص۵۱۱ علامات النبوۃ)
جنگِ خندق کی آندھی
جنگِ خندق کی آندھی حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نُصِرْتُ بِالصَّبَا وَاُھْلِکَتْ عَادُ بِالدَّبُوْرِ (بخاری جلد۲ ص۵۸۹ غزوۂ خندق) یعنی پُروا ہوا سے میری مدد کی گئی اور قوم عاد پچھوا ہو اسے ہلاک کی گئی۔(2)
مکمل واقعہ
اس کا واقعہ یہ ہے کہ غزوۂ خندق میں قبائل قریش و غطفان اور قریظہ و بنی النضیر کے یہود اور دوسرے مشرکین نے متحدہ افواج کے دل بادل لشکروں کے ساتھ مدینہ پر چڑھائی کر دی اور مسلمانوں نے مدینہ کے گرد خندق کھود کر ان افواج کے حملوں سے پناہ لی تو ان شیطانی لشکروں نے مدینہ کا ایسا سخت محاصرہ کر لیا کہ مدینہ کے اندر مدینہ کے باہر سے ایک گیہوں کا دانہ اور ایک قطرہ پانی کا جانا محال ہو گیا تھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ان مصائب و شدائد سے گو پریشان حال تھے مگر ان کے جوش ایمانی کے استقلال میں بال برابر فرق نہیں آیا تھا۔ ٹھیک اسی حالت میں نبی اکرم صلی 1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ…الخ، ا لحدیث :۳۶۱۷،ج۲، ص۵۰۶ 2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الخندق…الخ،الحدیث:۴۱۰۵،ج۳،ص۵۳ اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ معجزہ ظاہر ہوا کہ پورب کی طرف سے ایک ایسی زور دار آندھی آئی جس میں کڑاکے کا جاڑا بھی تھا اوراس میں اس شدت کے جھونکے اور جھٹکے تھے کہ گردوغبار کا بادل چھا گیا۔ کفار کی آنکھیں دھول اور کنکریوں سے بھر گئیں ان کے چولہوں کی آگ بجھ گئی اور بڑی بڑ ی دیگیں چولہوں سے الٹ پلٹ کر دور تک لڑھکتی ہوئی چلی گئیں، خیموں کی میخیں اکھڑ گئیں اور خیمے اڑ اڑ کر پھٹ گئے، گھوڑے ایک دوسرے سے ٹکرا کر لڑنے لگے، غرض یہ آندھی کفار کے لئے ایک ایسا عذاب شدید بن کر ان پر مسلط ہو گئی کہ کفار کے قدم اکھڑ گئے ان کی کمر ہمت ٹوٹ گئی اور وہ فرارپر مجبور ہو گئے اور بدحواسی کے عالم میں سر پر پیر رکھ کر بھاگ نکلے۔ یہی وہ آندھی ہے جس کا ذکر خداوند قدوس نے اپنی کتاب مقدس قرآن مجید میں ان لفظوں کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوۡا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیۡکُمْ اِذْ جَآءَتْکُمْ جُنُوۡدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیۡہِمْ رِیۡحًا وَّ جُنُوۡدًا لَّمْ تَرَوْہَا ؕ وَ کَانَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ بَصِیۡرًا ۚ﴿۹﴾(1) اے ایمان والو! اﷲ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم پر کچھ لشکر آئے تو ہم نے ان پر آندھی اور وہ لشکر بھیجے جو تمہیں نظر نہ آئے اور اﷲ تمہارے کاموں کو دیکھتا ہے۔(احزاب) آگ جلا نہ سکی حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات میں بہت سے ایسے واقعات ہیں کہ آگ ان چیزوں کو نہ جلا سکی جن کو آپ کی ذات سے کوئی تعلق رہا ہو۔ 1۔۔۔۔۔۔پ۲۱،الاحزاب:۹ چنانچہ قطب الدین قسطلانی علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب ”جمل الایجاز فی الاعجاز” میں لکھا ہے کہ وہ آگ جو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خبر غیب کے مطابق ۶۵۴ھ میں مدینہ منورہ کے پاس قبیلہ قریظہ کی پہاڑیوں سے نمودار ہوئی وہ پتھروں کو جلا دیتی تھی اور کچھ پتھروں کو گلا دیتی تھی۔ یہ آگ جب بڑھتے بڑھتے حرم مدینہ کے قریب ایک پتھر کے پاس پہنچی جس کا آدھا حصہ حرم مدینہ میں داخل تھا اور آدھا حصہ حرم مدینہ سے خارج تھا تو پتھر کا جو حصہ خارجِ حرم تھا اس کو اس آگ نے جلا دیا لیکن جب اس نصف حصہ تک پہنچی جو حرم مدینہ میں داخل تھا تو فوراً ہی وہ آگ بجھ گئی۔ اسی طرح امام قرطبی علیہ الرحمۃ نے تحریر فرمایا ہے کہ وہ آگ مدینہ طیبہ کے قریب سے ظاہر ہوئی اور دریا کی طرح موج مارتی ہوئی یمن کے ایک گاؤں تک پہنچ گئی اور اس کو جلا کر راکھ کر دیا مگر مدینہ طیبہ کی جانب اس آگ میں سے ٹھنڈی ٹھنڈی نسیم صبح جیسی ہوائیں آتی تھیں۔ اس آگ کا واقعہ چند اوراق پہلے ہم مفصل طور پر لکھ چکے ہیں۔ (الکلام المبین ص۱۰۷)
موئےمبارک
اسی طرح ”نسیم الریاض” میں لکھا ہے کہ ”عدیم بن طاہر علوی” کے پاس چودہ موئے مبارک تھے انہوں نے ان کو امیر حلب کے دربار میں پیش کیا۔ امیر حلب نے خوش ہو کر اس مقدس تحفہ کو قبول کیا اور علوی صاحب کی انتہائی تعظیم و تکریم کرتے ہوئے ان کو انعام و اکرام سے مالا مال کر دیالیکن اس کے بعد جب دوبارہ علوی صاحب امیر حلب کے دربار میں گئے تو امیر نے تیوری چڑھا کر بہت ہی ترش روئی کے ساتھ بات کی اور ان کی طرف سے نہایت ہی بے التفاتی کے ساتھ منہ پھیر لیا۔ علوی صاحب نے اس بے توجہی اور ترش روئی کا سبب پوچھاتو امیر حلب نے کہا کہ میں نے لوگوں کی زبانی یہ سنا ہے کہ تم جو موئے مبارک میرے پاس لائے تھے ان کی کچھ اصل اور کوئی سند نہیں ہے۔ علوی صاحب نے کہا کہ آپ ان مقدس بالوں کو میرے سامنے لائیے۔ جب وہ آ گئے تو انہوں نے آگ منگوائی اور موئے مبارک کو دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا پوری آگ جل جل کر راکھ ہو گئی مگر موئے مبارک پر کوئی آنچ نہیں آئی بلکہ آگ کے شعلوں میں موئے مبارک کی چمک دمک اور زیادہ نکھر گئی ۔یہ منظر دیکھ کر امیر حلب نے علوی صاحب کے قدموں کا بوسہ لیا اور پھر اس قدر انعام وا کرام سے علوی صاحب کو نوازا کہ اہل دربار ان کے اعزاز و وقار کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ (الکلام المبین ص۱۰۸)
آگ نہ جلا سکی
اسی طرح حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دستر خوان کی روایت مشہور ہے کہ چونکہ اس دستر خوان سے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک اور روئے اقدس کو صاف کر لیا تھا اس لئے یہ دسترخوان آگ کے جلتے ہوئے تنور میں ڈال دیا جاتاتھا مگر آگ اس کو جلاتی نہیں تھی بلکہ اس کو صاف وستھرا کر دیتی تھی۔(1) (مثنوی شریف مولانا رومی)
انتباہ
ایک ضروری انتباہ یہ سلطان کونین و شہنشاہ دارین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ان ہزاروں معجزات میں سے صرف چند ہیں جن کے تذکروں سے احادیث و سیرت نبویہ کی کتابیں مالا مال ہیں ہم نے ان چند معجزات کو بلا کسی تصنع کے سادہ الفاظ میں نہایت ہی اختصار کے ساتھ تحریر کر دیا ہے تا کہ ان نورانی معجزات کو پڑھ کر ناظرین کے سینوں میں عظمت 1۔۔۔۔۔۔مثنوی مولانا روم(مترجم)،دفترسوم،ص۵۸ مصطفی اور محبت رسول کے ہزاروں ایمانی چراغ روشن ہو جائیں اور ہر مسلمان اپنے پیارے نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم اور ان کے اکرام و احترام کی رفعت کو پہچان لے اور اس کے گلشن ایمان میں ہر لحظہ اور ہر آن محبت و عظمت رسول کے ہزاروں پھول کھلتے رہیں اور وہ جوشِ عرفان و جذبہ ایمان کے ساتھ دونوں جہاں میں یہ اعلان کرتا رہے کہ ؎ اللہ کی سر تا بقدم شا ن ہیں یہ ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں ایمان یہ کہتا ہے مری جان ہیں یہ
اور شاید ان لوگوں کو بھی اس سے کچھ عبرت حاصل ہو جنہوں نے سیرت نبویہ کے موضوع پر قلم گھس کر اور کاغذ سیاہ کرکے سرور انبیاء، محبوب کبریا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس پیغمبرانہ زندگی کو ایک عام انسان کے روپ میں پیش کیا ہے اور بار بار اپنے اس مکروہ نظریہ اور گندے نصب العین کا اعلان کرتے رہتے ہیں کہ پیغمبر خدا کی سیرت میں ایسے کمالات کا ذکر نہیں کرنا چاہیے جس سے لوگ پیغمبر اسلام کو عام انسانوں کی سطح سے اونچاسمجھنے لگیں۔ (والعیاذ باﷲ) بہر حال اس پر تمام اہل حق کا اجماع و اتفاق ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو جن جن معجزات سے سرفراز فرمایا ہے ان تمام معجزات کو حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات والاصفات میں جمع فرما دیا ہے اور ان کے علاوہ بے شمار ایسے معجزات سے بھی حضرت حق جل جلالہ نے اپنے آخری پیغمبر، شفیع محشر صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ممتاز فرمایا جو آپ کے خصائص کہلاتے ہیں۔ یعنی یہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وہ کمالات و معجزات ہیں جو کسی نبی و رسول کو نہیں عطا کئے گئے مثلاً۔