کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ گیارہویں شریف کی حقیقت کیا ہے اور اس کے لیے کوئی خاص جگہ معین ہے یا جہاں بھی دلوائیں ، ہو سکتی ہے؟ نیز کیا کسی دوسرے بزرگ کے مزار پر غوث پاک کی گیارہویں ہو سکتی ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
گیارہویں شریف کی حقیقت
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
گیارہویں شریف حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے ایصال ثواب کے لیے منعقد کی جانے والی محفل کو کہا جاتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا یومِ وفات11ربیع الثانی ہے ، تواس مناسبت سے آپ کے ایصال ثواب کے لیے گیارہویں شریف کے نام سے محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے اور ان محافل میں قرآن خوانی،نعت خوانی و بیان وذکر و اذکار اور ذکرِ صالحین کے ساتھ ساتھ طعام و فاتحہ وغیرہ امور خیر کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ایصال ِثواب کی صورت میں سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی بارگاہ اقدس میں نذرانہ پیش کیا جاتا ہے اور ایصال ثواب کرنا قرآن پاک، احادیث مبارکہ اور اقوال فقہاء و افعال سلف صالحین سے ثابت ہے۔نیز گیارہویں شریف کی محفل اور دعا کے لیے کسی خاص جگہ یا وقت کی تعیین نہیں ہے ، بلکہ یہ کسی بھی وقت اور جگہ مثلاً مسجد، مدرسے، کسی کے گھر اور کسی بزرگ کے مزار پر بھی ہو سکتی ہے۔ جو لوگ اپنے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا ان کے بارے میں ارشاد پاک ہے : ﴿وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ ﴾ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو ان کے بعد آئے ، عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب ! ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو ، جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔(القرآن الکریم ،سورۃ الحشر ،آیت 10) اس آیت کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں : ”اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ صرف اپنے لیے دعا نہ کرے، سلف کے لیے بھی کرے، دوسرے یہ کہ بزرگان دین خصوصاً صحابہ کرام و اہل بیت کے عرس، ختم، نیاز، فاتحہ اعلی چیزیں ہیں کہ ان میں ان بزرگوں کے لیے دعا ہے۔“(تفسیر نور العرفان) بخاری شریف میں ہے:”ان رجلا قال للنبی صلی اللہ علیہ وسلم ان أمی افتلتت نفسھا و أظنھا لو تکلمت تصدقت فھل لھا أجر ان تصدقت عنھا قال نعم“ایک شخص نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میری ماں اچانک فوت ہو گئی ہیں اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ کچھ بات کر سکتیں ، تو صدقہ کرتیں ۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں ، تو کیا انہیں اجر ملے گا ؟ توآپ نے فرمایا :ہاں ملے گا۔(صحیح بخاری ، جلد1 ، صفحہ 186 مطبوعہ کراچی)ردالمحتار میں ہے کہ: ”صرح علماء نا فی باب الحج عن الغیر بأن للانسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ أوصوما أو صدقۃ أو غیرھا کذا فی الھدایۃ“یعنی ہمارے علماء نے باب الحج عن الغیر میں صراحت فرمائی ہے کہ انسان اپنے عمل کا ثواب دوسرے کے لیے کر سکتا ہے ۔ نماز ہو ،روزہ ہو ، صدقہ ہو یا کچھ اور ۔ ایسا ہی ہدایہ میں ہے۔(ردالمحتار علی الدرالمختار ، جلد 3 ، صفحہ 180 ، مطبوعہ پشاور ) سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں :”گیارہویں شریف اپنے مرتبہ فردیت میں مستحب ہے اور مرتبہ اطلاق میں کہ ایصال ثواب ہے ، سنت ہے اورسنت سے مراد سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور یہ سنت قولیہ مستحبہ ہے ، سنیوں میں کوئی اسے خاص گیارہویں تاریخ ہو نا شرعا واجب نہیں جانتا اور جو جانے محض غلطی پر ہے ۔ ایصال ثواب ہر دن ممکن ہے اور کسی خصوصیت کے سبب ایک تاریخ کا التزام ، جبکہ اسے شرعاً واجب نہ جانے ، مضائقہ نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر پیر کو نفلی روزہ رکھتے ، کیا اتوار یا منگل کو رکھتے تو نہ ہوتا ؟یا اس سے یہ سمجھا گیا کہ معاذاللہ ! حضور نے پیر کا روزہ واجب سمجھا ؟یہی حکم تیجے اور چہلم کا ہے۔ (فتاوی رضویہ ، جلد9 ، صفحہ 605 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور) علامہ فاضل عبد القادر قادری بن محی الدین الصدیقی الاربلی رحمۃ اللہ علیہ(المتوفی 1315ھ) سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی تاریخِ وصال سے متعلق فرماتے ہیں :”و توفی فی لیلۃ الإثنین بعد صلاۃ العشاء إحدی عشرۃ من ربیع الثانی سنۃ ۵۶۱ خمسمائۃ احدی و ستین و دفن بباب الأزج “ سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کا وصال پیر کی رات بعد نماز عشاء 11ربیع الثانی 561ھ کو ہوا اور آپ رضی اللہ عنہ کی تدفین باب ازج میں ہوئی۔(تفریح الخاطرفی مناقب الشیخ عبدالقادر،المنقبۃ التاسعۃ والستون فی وفاتہ، صفحہ 71) حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے عرس سے متعلق شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 1052ھ) فرماتے ہیں :ہمارے ہندوستان میں حضور غوث پاک کایوم عرس 11ربیع الآخر مشہور ہے اور یہی تاریخ آپ کی ہندی اولاد و مشائخ میں متعارف ہے۔ (ما ثبت من السنۃمترجم اردو ، صفحہ 167، اعتقاد پبلشنگ ھاؤس، دھلی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم