مفتی نظام الدین مصباحی صاحب ! حد ہوگئی کچھ تو شرم کیجئیے گانا سننے کا حکم ششریعت ی نظر میں کیا ہے مکمل پڑھ کر خود فیصلہ کریں گے
قاضی مشتاق احمد رضوی نظامی، کرناٹک،
بروز سنیچر 31دسمبرء2022
9916767092
جدید تحقیق کے نام پر آپ کو اس بات کا حق ہی نہیں بنتا کہ آپ اکابرین کے اُن تمام تحقیق شدہ متحقق مسائل جو نص قطعی سے ثابت ہوں اُن مسائل کو کریدنے کی کوشش کریں،
گانا سننے کا حکم
مسلمان کا بچہ بچہ جانتا ہے فلمی گانے گانا حرام و ناجائز ہے
مگر آپ گانا گانے، سننے، سنانے، کو لیکر اس قدر من مانی کرینگے کوئی سوچا بھی نہیں تھا،
ابھی چند سال قبل حضورِ تاج الشریعہ علیہ الرحمہ سے گانوں کے سننے کو لیکر سوال ہوا تھا تو حضورِ تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے قرآن و احادیث کی روشنی میں کیا ہی ایمان افروز جواب عنایت فریا تھا،
جو کہ وہ ایمان افروز جواب آج بھی اوڈیو کی شکل میں یو ٹوب پر محفوظ ہے،
میں سمجھتا ہوں اس ایمان افروز جواب کو ہر ایک مسلمان مرد و عورت اور خاص کر نوجوانوں کو بچوں کو سننا بہت ہی ضروری ہے،
الحاصل جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ گانے کسی بھی طرح کے ہوں سننا سنانا حرام و ناجائز ہے، یہی گانا سننے کا حکم ہے جو کہ سب کو معلوم ہے
راقم کا ماننا ہے
یہ بات سب پر عیاں ہے کہ جب سے گانوں کا وجود ہوا ہے “گانا” اسی کو کہا جاتا ہے جس میں مزامیر و موسیقی کی شمولیت ہوتی ہے، اور اس کو خصوصاً فلموں اور ڈراموں میں گایاجاتا ہے، اور اس دور میں تو خاص کر گانوں کے البم بنائے جاتے ہیں مزامیر موسیقی کے ساتھ ویڈیو کی شارٹ فلمیں البم کی شکل میں بنائی جارہی ہیں ،
اب سوچنے کی بات ہے اُن فلم اور ڈراموں میں گائے گئے گانوں (جسمیں کوئی کفریہ بول یا شرکیہ اشعار نہ ہوں) کو کوئی اپنے گھر میں گاتا ہے یا گنگناتا ہے تو وہاں صرف اس کی بیوی اکیلی تو نہیں ہوگی، بچے بھی تو ہونگے، والدین بھی ہونگے،
اور وہ گانا گانے والا گرچہ سارنگی ڈھول باجے کے ساتھ نہ بھی گاتا ہو تو اتنا تو ضرور ہوگا کہ اُن فلمی اداکاروں کا ناچنا گانا تو اس کے ذہن میں آتا ہی ہوگا جنہوں نے اس گانے میں ناچا ہے؟
اور گانا گانے کے لئے اس کو یہ تو معلوم کرنا ہی ہوگا کہ یہ گانا فلاں فلم کا ہے
فلاں گلوکار نے اس کو گایا ہے،
فلاں اداکار و اداکارہ نے اس گانا گانے میں اداکاری کی ہے،
فلاں اداکار و اداکارہ نے فلاں گانے میں ناچا ہے گایا ہے،
اگر مان لیا جائے کہ وہ فلم دیکھتا نہیں ہے صرف گانا سنتا ہے،
تو گانا بغیر مزامیر و موسیقی کے تو سنا نہیں ہوگا ؟
موسیقی و مزامیر ہی کے ذریعے سنا ہوگا،
اور گانا یاد کئے بغیر گنگنانا بھی آسان نہیں،
گانا یاد کرنے کے لئے بار بار اس گانے کو سننا بھی ضروری رہیگا،
اور گانا یاد کرنے کے لئے جب جب گانا سنیگا تب تب مزامیر و موسیقی کو سننا لازم آئےگا،
تو کیا ان صورتوں میں گناہ نہیں ہوگا؟
بقول آپ کے دل بہلانے کے لئے اکیلا بھی گانا گنگنائےگا
یا بیوی کے دل کو بہلانے کے لئے گانا سنائےگا تو کیا گانا بغیر یاد کئے کسی کو یاد ہوجائےگا ؟
اس طرح موسیقی کے ساتھ کسی بھی گانے کو بار بار سننا کیا جائز و مباح ہوجائےگا ؟
تو ایسی صورت میں فلمی گانے گانا یا بیوی بچوں کے سامنے اور اپنے بزرگ والدین کے سامنے گنگنانا کیونکر جائز و مباح ہو سکتا ہے؟
بیچاری وہ عورت جس نے آپ سے
یہ مطلق سوال کی تھی کہ “میرا شوہر حرام گانے گاتا ہے “
وہ یہی سوچ کر سوال کی ہوگی کہ میرے شوہر سے یہ حرام گانے گانے کی بُری عادت چھوٹ جائے
مگر واہ رے محقق صاحب!!!
آپ نے تو اُس حرام گانا گانے والے گویّے کو گانا گانے کا ” لائسینس ” دے دیا،
اب تو وہ بڑے مزے لے لیکے گانے گائے گا،
ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ جیسا اُس عورت نے آپ سے سیدھا سا سوال کی تھی ویسے ہی آپ سیدھے سیدھے جواب دیدیتے کہ
اگر آپ کا شوہر حرام گانے گاتا ہے تو حرام کام کرنے کا گناہ لازم آئےگا، گانا گانا، سننا سنانا، حرام و ناجائز ہے،
بات ختم ہوجاتی
اس عورت کے ایمان میں تازگی پیدا ہوتی دینداری کے معاملات میں اس کےحوصلے بلند ہوتے،
مگر آپ کے منطقی اور بے ہودہ جواب کو سن کر وہ بھی آپ کے تعلق سے سوچتی ہوگی کہ میں تو اپنے شوہر کو گانے گانے کی بری علت سے بچانا چاہ رہی تھی
مگر یہ کیسے مفتی صاحب ہیں کہ اُلٹا میرے شوہر کو حرام کام کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں گانا گانے کا سلیقہ سکھا رہے ہیں،
“معاذاللہ”
اور جہاں تک اشعار گوئی کی بات ہے
جسمیں صاف و شفاف قدرتی مناظر اور قدرتی نعمتوں کا تذکرہ ہوتا ہے،
کسی کی خوبصورتی یا نیک سیرت کو اجاگر کرنے کی نیت سے اشعار گوئی کیجاتی ہے،
اور اُن اشعار کو بغیر موسیقی و مزامیر کے کوئی کسی مجلس میں پڑھتا ہے،
یا اکیلے میں گنگناتا ہے تو اس کے پڑھنے اور سنانے کو غزل کہتے ہیں یا نظم،
جو کہ اکثر مشاعروں میں پڑھا جاتا ہے سنا جاتا ہے سنایا جاتا ہے،
اگر آپ سے اِن مشاعروں میں بغیر موسیقی و مزامیر کے پڑھے جانے والے اشعار کے متعلق سوال ہوتا تو آپ کا وہ جواب ایک حد تلک درست ہوتا
کہ اُن غزلیہ اشعار میں کسی طرح کے کفریہ اشعار نہ ہوں، کوئی بے شرمی و بے حیائی کے شعر نہ ہوں،
ورنہ ایمان جانے کا خوف گانا سننے کا حکم
گناہ مول لینے کا خطرہ
یا کم از کم بے حیائی و بے شرمی میں مبتلاء ہونے کا ڈر سنایا جاتا،
جس سے بچنا بچانا لازم و ضروری ہوتا،
وگرنہ وہ غزلیہ اشعار جو صاف و شفاف ہوں جس کے پڑھنے سننے میں
نہ بے حیائی کا شائبہ نہ بے شرمی کا گمان،
جسمیں خدائے تعالیٰ سے ملی نعمتوں کا شکر نیک عورتوں کی تعریف کسی کے اچھی صورت و سیرت کا تذکرہ ہو،
اس کے متعلق آپ سے سوال ہوتا تو
اس کو آپ مباح و جائز بتاتے تو ٹھیک تھا،
مگر جس طرح کا آپ نے اس دیندار عورت کو جواب دیا ہے
اس سے تو قوم مسلم کو اور بھی عریانیت اور فحاشی میں مبتلاء رہنے کی کھلی چھوٹ ملنے کے مصداق لگ رہا ہے،
بلکہ گانا گانے کی ایک طرح سے ہر کسی کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے،
کہ چلو اب فلمی گانے گانے کی اجازت مل گئی ہے، اور گانا سننے کا حکم اگر اس طور پر بیان کردیا جائے تو سب کو اور چھوٹ مل جائےگا
بقول آپ کے جب بیوی کے سامنے ایسے گانے گانا جسمیں مزامیر و موسیقی نہ ہو اور اُن گانوں میں کوئی کفریہ شرکیہ بول نہ ہوں
اور جس میں بے شرمی و بے حیائی پر منحصر شعر نہ ہوں تو ان گانوں کا سننا، سنانا، گنگنانا، یا بیوی کے سامنے گھر میں گاتے رہنا مباح و جائز ہوگا
تو پھر ہر ایک مجلس و محفل میں بھی گانا جائز و مباح ہو جائےگا،
اَسْتَغْفِرُللّٰہ رَبِّ مِنْ کُلِّی ذَنْبِِ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہ یہ گانا سننے کا حکم اور مفتی نظام الدین صاحب کی تحقیق