🌹کرامت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ🌹
تفسیر کبیر میں امام فخرالدین رازی نے اس منظر کو حضرت ابوبکر صدیق کی کرامت قرار دیا ہے جیساکہ آپ بیان فرماتے ہیں۔۔۔ أما أبو بكر رضى الله عنه فمن كراماته أنه لما حملت جنازته إلى باب قبر النبي ونودى السلام عليك يارسول الله هذا أبو بكر بالباب فاذا الباب قد انفتح وإذا بهاتف يهتف من القبر أدخلوا الحبيب إلى الحبيب،
ترجمہ: یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کرامات میں سے ہے یہ کہ جب ان کا جنازہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر اٹھاکر لایا گیا اور “السلام علیک یارسول اللہ” عرض کرکے کہا گیا کہ یہ ابوبکر دروازے پر حاضر ہیں تو دروازہ کھل گیا اور قبر مبارک سے آواز دینے والے کی آواز آئی”” أدخلوا الحبيب إلى الحبيب “” کہ دوست کو دوست کے پاس داخل کردو۔
(تفسیر کبیر جلد 21 پارہ نمبر 15 سورۃ کہف آیت نمبر 11 کی تفسیر)
انبانا أبو على محمد بن محمد بن عبد العزيز بن المهدي۔۔۔ وَأَخْبَرَنَا عنه أبو طاهر إبراهيم بن الحسن بن طاهر الحموي عنه، أنا أبو الحسن أحمد بن محمد بن أحمد العتيقي سنة سبع وثلاثين وأربع مائة، نا عمر بن محمد الزيات ، نا عبد الله بن الصقر ، نا الحسن بن موسى، نا مُحَمَّد بن عبد الله الطحان حدثني أبو طاهر المقدسي، عن عبد الجليل المزني، عن حبة العُرْنِي، عَن علي بن أبي طالب قال :
لما حضرت أبا بكر الوفاة أقعدني عند رأسه وقال لي: يا علي إذا أنا مت فغسلني بالكفّ الذي غسلت به رسول الله ، وحنطوني واذهبوا بي إلى البيت الذي فيه رسول الله ، فاستأذنوا فإن رأيتم الباب قد يفتح فادخلوا بي، وإلا فردوني إلى مقابر المسلمين حتى يحكم الله بين عباده :قال: فقل وكفن وكنت أول من يأذن إلى الباب، فقلت: يا رسول الله هذا أبو بكر ،مستأذن، فرأيت الباب قد تفتح، وسمعت قائلاً يقول : ادخلوا الحبيب إلى حبيبه، فإن الحبيب إلى الحبيب مشتاق . هذا منكر وراويه أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي، وعبد الجليل مجہول۔
(تاریخ مدینہ دمشق۔۔ابن عساکر, جلد نمبر 30 صفحہ نمبر 436)
ترجمہ : حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے بیان فرمایا : جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے اپنے سرہانے بٹھایا اور فرمایا : اے علی! جب میرا انتقال ہو جائے تو آپ خود مجھے اپنے ان ہاتھوں سے غسل دینا جن ہاتھوں سے آپ نے رسولﷺ کو غسل دیا تھا اور مجھے خوشبو لگانا اور (مجھے) حضورﷺ کے روضہ اقدس کے پاس لے جانا اگر تم دیکھو کہ (خود بخود) دروازہ کھول دیا جائے تو مجھے وہاں دفن کر دینا ورنہ واپس لا کر عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا اس وقت تک کہ جب ﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ نہ فرما دے۔ اور پھر انہیں غسل اور کفن دیا گیا اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے میں نے روضہ رسولﷺ کے دروازے پر پہنچ کر اجازت طلب کی اور عرض کیا : یارسول ﷲﷺ یہ ابو بکر ہیں جو اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ پھر میں نے دیکھا کہ روضہ اَقدس کا دروازہ (خود بخود) کھل گیا اور میں نے سنا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے “” ادخلوا الحبيب إلى حبيبه، فإن الحبيب إلى الحبيب مشتاق”” حبیب کو اس کے حبیب کے ہاں داخل کردو۔ بے شک حبیب بھی ملاقاتِ حبیب کے لیے مشتاق ہے۔
(تاریخ مدینہ دمشق۔۔ابن عساکر جلد نمبر 30 صفحہ نمبر 436,,, الخصائص الکبری مترجم,جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 613 بسندمنکر۔ مگر حضورﷺ سے منسوب کیے بغیر فضائل میں بیان کرنا جائز ہے)
🌹مجدد وقت اعلحضرت امام احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ۔۔۔فضائل اعمال میں منکر روایت اور فضائل صحابہ میں کیسی ہی روایت ہو اور 2 غریب روایات کا ذکر اور موقف🌹
آپ لکھتے ہیں کہ۔۔۔ (1) رواہ الترمذی وقال ھذا حدیث غریب والعمل علی ھذا عند اھل العلم, ترجمہ: یعنی امام ترمذی نے فرمایا یہ حدیث غریب ہے اور اہل علم کا اس پر عمل ہے۔ (2) امام صابونی نے فرمایا: ھذا حدیث غریب الاسناد والمتن وھو فی المعجزات حسن, ترجمہ: یہ حدیث اسناد ومتن کے اعتبار سے غریب ہے اور وہ معجزات میں حسن ہے۔
(3)رسالہ قاری ومرقاۃ وشرح ابن حجر مکی وتعقبات ولآلی امام سیوطی وقول مسدد امام عسقلانی کی پانچ عبارتیں افادہ دوم وسوم وچہارم ودہم میں گزریں،عبارت تعقبات میں تصریح تھی کہ نہ صرف ضعیف محض بلکہ منکر بھی فضائل اعمال میں مقبول ہے، بآنکہ اس میں ضعف راوی کے ساتھ اپنے سے اوثق کی مخالفت بھی ہوتی ہے کہ تنہا ضعف سے کہیں بدتر ہے۔
الاحادیث فی فضائل الاعمال وتفضیل الاصحاب متقبلۃ محتملۃ علی کل حال مقاطیعھا ومراسیلھا لاتعارض ولاترد، کذلک کان السلف یفعلون ۱؎۔
(۱؎ قوت القلوب فی معاملۃ المحبوب فصل الحادی والعشرون مطبوعہ دارصادر مصر ۱/۱۷۸)
ترجمہ: فضائل اعمال اور فضائل صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی حدیثیں کیسی ہی ہوں ہر حال میں مقبول وماخوذ ہیں مقطوع ہوں خواہ مرسل نہ ان کی مخالفت کی جائے نہ انہیں رد کریں، ائمہ سلف کا یہی طریقہ تھا۔
(فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 5)
کرامت صدیق اکبر
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ ، قَالَ : قُلْتُ لِأَبِي : أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ : قُلْتُ : ثُمَّ مَنْ ، قَالَ : ثُمَّ عُمَرُ
ترجمہ: محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں میں نے اپنے والد ماجد (حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ ) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد لوگوں میں سب سے افضل کون ہیں۔۔ انہوں نے بتلایا کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ میں نے پوچھا پھر کون ہیں۔۔ انہوں نے بتلایا ، اس کے بعد عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔
(صحیح بخاری حدیث 3671)
🌹بچپن کا حیرت انگیز واقعہ🌹
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چندبر س کی عمر تھی کہ آپ کے والد آپ کو بْت خانے میں لے گئے اورکہا :یہ تمہارے بلند و بالا خدا ہیں، انہیں سجدہ کرو۔ جب آپ(رضی اللہ تعالٰی عنہ)بُت کے سامنے تشریف لے گئے، فرمایا :’’مجھے بھوک لگی ہے مجھے کھانا دے ، میرے پاس لباس نہیں مجھے کپڑے دے، میں تجھے پتَّھر مارنے لگا ہوں اگر تو خدا ہے تو آپنے آپ کو بچا لے۔ وہ بُت بَھلا کیا جواب دیتا۔ آپ(رضی اللہ تعالٰی عنہ) نے ایک پتَّھر اس کو مارا جس کے لگتے ہی وہ گر پڑا اور قْوّتِ خدا داد کی تاب نہ لاسکا۔ باپ نے یہ حالت دیکھی انہیں غصّہ آیا، اْنہوں نے آپ کو تھپڑ رسید کردیا اور وہاں سے آپ کی ماں کے پاس لائے ، سارا واقِعہ بیان کیا۔ ماں نے کہا :اسے اس کے حال پر چھوڑ دو کیونکہ جب یہ پیدا ہوا تھا تو مجھے غیب سے آواز آئی تھی کہ ’’ یَا اَمَۃَ اللّٰہِ عَلَی التَّحْقِیقِ اَبْشِرِی بِالوَلَدِ العَتِیقِ اِسمْہ فِی السَّمَاءِ الصِّدِّیقْ لِمْحَمَّدٍ صَاحِبٌ وَّ رَفِیْقٌ۔‘‘ اے اللہ(عَزَّوَجَلَّ)کی سچی بندی ! تجھے خوشخبری ہو یہ بچہ عتیق ہے ، آسمانوں میں اس کا نام صدیق ہے ، محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم کا صاحب اور رفیق ہے۔
یہ روایت حضرت سیدنا صدِّیقِ اَکبر (رضی اللہ تعالٰی عنہ)نے خود مجلسِ اقدس (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم ) میں بیان کی۔ جب یہ بیان کرچکے ، جبریلِ امین ( عَلَیہِ الصَّلوٰۃ وَالسَّلام ) حاضرِ بارگاہ ہوئے اور عرض کی: صَدَقَ اَبْوبَکرٍ وَّھْوَ الصِّدِّیقْ ابوبکر نے سچ کہا اور وہ صدِّیق ہیں۔
( ارشاد الساری شرح صحیح بخاری ج۸ص۰۷۳ ,,,کتاب: النبراس شرح عقائد)
تدفین کےلیے روضہ رسولﷺ کا دروازہ کھل گیا آواز آئی ادخلوا وکرامة
واخرج الخطيب في (رواة مالك)، عن عائشة قالت: لما مرض أبي أوصى أن يؤتى به إلى قبر النبي الله ويستأذن له، ويقال هذا ابو بكر يدفن عندك يا رسول الله فإن أذن لكن فادفنوني وان لم يؤذن لكم فاذهبوا بي إلى البقيع، فاتي به إلى الباب فقيل هذا ابو بكر قد اشتهى أن يدفن عند رسول الله الله وقد أوصانا فإن اذن لنا دخلنا، وان لم يؤذن لنا اتصرفنا فنودينا أن ادخلوا وكرامة وسمعنا كلاماً ولم نر احداً. قال الخطيب: غريب جدا.
ترجمہ: خطیب علیہ الرحمۃ نے رواۃ مالک میں ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی۔ آپ فرماتی ہیں جب میرے والد ماجد بیمار ہوئے تو انہوں نے وصیت کی کہ مجھے حضور نبی اکرمﷺ کی قبر انور کے پاس لے جایا جائے اور آپ سے اجازت مانگی جائے اور کہا جائے کہ یہ ابوبکر ہیں یارسول اللہﷺ کیا انہیں آپ کے پہلو میں دفن کیا جائے؟ اب اگر تمہیں اجازت مل جائے تو مجھے دفن کر دینا اور اگر تمہیں اجازت نہ ملے تو مجھے بقیع لے جانا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق کے جنازہ کو آپ کے دروازے تک لایا گیا اور یہ عرض کیا گیا یہ ابوبکر حاضر ہیں ان کی خواہش تھی کہ رسول اللہﷺ کے پہلو میں دفن کیا جائے اور ہمیں اس کی وصیت کی ہے۔ اب اگر ہمارے لئے اجازت ہو تو ہم اندر داخل ہوں اور اگر ہمیں اجازت نہ ہو تو ہم پلٹ جائیں تو ہمیں ندا کی گئی کہ ادخلوا وكرامة انہیں عزت و کرامت کے ساتھ اندر لے آؤ۔ اور ہم نے کلام تو سنا لیکن کسی کو ہم نے دیکھا نہیں۔
(((الخصائص الکبری,عربی, جلد 2 صفحہ 491 تا 492,, بسندغریب, مگر فضائل میں معتبر ہے کیونکہ امام جلال الدین سیوطی نے اس روایت کو حیات النبیﷺ کے باب میں فضائل کی طرح بیان کیا ہے۔)))
شمس العارفین✍🏻ازقلم: قاری اسداللہ سلطانی سروری قادری, شادیوال گجرات, 03442439840