چھوٹی داڑھی رکھنا تحقیق کے مطابق- وجوب مقدار لحیہ

اسلام میں چھوٹی داڑھی رکھنے پر آئمہ و محدثین کی رائے اور اس کا شرعی حکم: تفصیل سے پڑھیں اور چھوٹی اور بڑی داڑھی کے متلعق ساری باتیں جانین بالکل دلائل کی روشنی میں معلوم ہوجائےگا کہ چھوٹی داڑھی رکھنا بالکل درست ہے اور وجوب مقدار لحیہ کی قید کن کے زمانے میں پہلی بار لگائی گئی ہے مکمل روز روشن کی طرح اجاگر ہوجائےگا

وجوب مقدار لحیہ

ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮﺣﻨﯿﻔﮧ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻵﺛﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﻣﺤﻤﺪ ﻗﺎﻝ ﺍﺧﺒﺮﻧﺎ ﺍﺑﻮﺣﻨﯿﻔﺔ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻦ ﺍﻟﮩﯿﺜﻢ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺍﻧﮧ ﮐﺎﻥ ﯾﻘﺒﺾ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﻠﺤﯿﺔ ﺛﻢ ﯾﻘﺺ ﻣﺎ ﺗﺤﺖ ﺍﻟﻘﺒﻀﺔ ﻗﺎﻝ ﻣﺤﻤﺪ : ﻭﺑﮧ ﻧﺎﺧﺬ ﻭﮨﻮ ﻗﻮﻝ ﺍﺑﯽ ﺣﻨﯿﻔﺔ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ “۔۔
یہی حدیث حکم مقدار لحیہ میں اصل ہے ۔۔
اس حدیث کی تشریح میں اعلی حضرت رضی اللہ عنہ
اور عبد الحق محدث دہلوی رحمت اللہ علیہ کے سوا کسی فقہاء نے (یعنی ان دونوں کے قبل کا فقہاء ) قبضہ کو واجب قرار نہیں دیا ہے ۔۔
اگر دیا ہے ۔۔تو پیش کیا جائے ۔
امام محمد اور امام اعظم رضی اللہ عنہما کے نزدیک بھی سنت ہے ۔۔

اصل متن پہ بات کریں۔

امام اعظم نے امام محمد نے ابن عمر کی حدیث سے مقدار لحیہ کو واجب قرار نہیں دیا ہے ۔۔
باقی کو چھوڑ دیں ۔۔
اب اس سے قوی دلیل کیا چاہئے ۔۔

کیونکہ اس میں بھی اختلاف ہے ۔
اس لئے ۔۔

اور جس میں اختلاف ہو جائے ۔۔وہ حد وجوب کو نہیں پہنچتا ۔
اور یہ میں نہیں فقہاء حنفی نے کہا ہے ۔۔

امام عابدین شامی فرماتے ہیں:
ان الادلة السمعية اربعة :

الاول : قطعی الثبوت والدلالة کنصوص القرآن المفسره و المحکمة والسنة المتواتره التی مفهومها قطی.

الثانی : قطعی الثبوت و ظنی الدلالة کالآت الموولة.

الثالث : عکسه کاخبار الاهاد التی مفهوما قطعی.

الرابع : ظنيهما کاخبار الآحاد التی مفهوها ظنی.

فبالاول يثبت الفرض والحرام

و بالثانی والثالث الواجب والکراهة التحريم

و بالرابع السنة والمستحب.
(ابن عابدين، رد المختار، ج : 1، ص : 70)

بیشک ادلۃ سمعیۃ چار ہیں :
پہلی دلیل : قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ جیسے قرآن کی وہ مفسر اور محکم آیات اور احادیث متواتر جن کا مفہوم قطعی ہو۔
دوسری دلیل : قطعی الثبوت اور ظنی الدلالۃ جیسے مؤول آیات۔
تیسری دلیل : اس کے برعکس ہے (یعنی ظنی الثبوت اور قطعی الدلالۃ) جیسے وہ اخبار احاد جن کا مفہوم قطعی ہے۔

جس حدیث سے مقدار لحیہ ہم ثابت کرتے ہیں کیا وہ ظنی الثبوت اور قطعی الدلالہ ہے ۔۔

اور اس حدیث کا حکم قطعی ہے ۔۔
اس کے حکم میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔۔؟؟؟؟

چوتھی دلیل : ظنی الثبوت اور ظنی الدلالۃ ہے جیسے وہ اخبار احاد جو ظنی الدلالۃ ہیں۔
لہذا فرض اور حرام پہلی کی دلیل سے ثابت ہیں،

واجب اور مکروہ تحریمی دوسری اور تیسری قسم کی دلیل سے ثابت ہوتے ہیں

جبکہ چوتھی قسم کی دلیل سے سنت اور مستحب وغیرہ ثابت ہوتے ہیں۔۔۔

کیونکہ ثبوت وجوب کے لئے ۔قطعی الثبوت اور ظنی الدلالہ یا اگر اخبار احاد ہوں تو مفہوم قطعی ہو ۔۔
جبکہ ہم سب کو معلوم ہے ۔
مقدار لحیہ پر فقہاء میں اختلاف موجود ہے تو مفہوم قطعی نہ رہا ۔۔

دوسریے اور تیسرے ادلہ سمعیہ کے بغیر ثبوت وجوب ہم نہیں لا سکتے ۔۔
چونکہ ان دونوں کی تعریف مقدار لحیہ پر ثابت نہیں لہذا وجوب بھی ثابت نہیں ۔۔

مقداد ہی میں لئے ہیں ۔پر مقدار وجوب ثابت نہیں ہے ۔
لفظ وجوب یا اس کے نہ کرنے والے پر یعنی مقدار لحیہ کے غیر عامل پر کسی صریح حدیث میں عتاب یا وعید وارد ہے؟
یا امام محمد یا امام اعظم کا کوئی قول ہے جو وجوب کو مستلزم ہو ان دونوں نے فرما یا ناخذ بہ ۔ہم یہی قول لیتے ہیں پر ان کے اخذ نے ثبوت وجوب کو تو مستلزم نہیں وہ تو ان سے بہت کچھ لئے ہیں سب کو واجب کر دیں گے ۔۔
ان کے لےنے کے بعد بھی مبہم ہے کہ انھوں نے کس معنی میں لئے ۔
آیا واجب یا سنت موکد مستحب یا مباح ۔۔
پر چونکہ اکثر کبار فقہاء حنفیہ نے سنت قرار دیا ہے
اس لئے سنت لے سکتے ہیں ۔
پر واجب کیوں؟؟

یہی تو بات ہے مقدار متعین نہیں ہے ان کا عمل ہے ۔
اگر مقدار لحیہ واجب ہے ۔تو قبضہ سے کم رکھنے والے سے زیادہ عاصم قبضہ سے زیادہ رکھنے والے ہوں گے ۔
کیونکہ جب حد واجب ہے تو زیادہ رکھنا گناہ ہے ۔
جب مقدار لحیہ میں قبضہ سے کم پر کوئی حدیث نہیں ۔یہ تو بعد کی بات ہے ۔
پر قبضہ پر سب کا عمل رہا تو قبضہ سے زیادہ والے زیادہ عاصم ہوئے یا نہیں ۔کیوں کہ کم پر کوئی حدیث نہیں ۔
پر قبضہ پر دلیل ہے ۔
یہ الگ بات ہے کہ واجب ہو یا سنت ۔۔

علامہ عینی حنفی کا قول وجوب کا نہیں ۔۔

ادلہ شرعیہ کی جو تعریف ہے ۔۔
جس میں اعلی حضرت کا بھی اختلاف نہیں ہے ۔
قطعی الثبوت وظني الدلالة يا اخبار آحاد جس کا مفہوم قطعی ہو ۔۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث مقدار لحیہ میں کس ثبوت پر اترتی ہے ۔؟؟
کوئی بتائیں ۔؟

وجوب کے باب میں اکثر نہیں ہے ۔
آپ ساری کتابوں کو اٹھا کر دیکھ لیں ۔
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ
اور عبد الحق محدث دہلوی سے قبل غالبا کہیں نہیں ملے گا ۔۔۔۔

یہ تو ایک قدم آگے نکلے قبضہ سے کم کو حرام قرار دیا ۔
اب بتائیں حرام کے لئے کس درجے کی دلیل درکار ہے ۔اہل علم سے مخفی نہیں ہے؟؟
میرا کہنا ہے جب قبضہ سے کم حرام تو قبضہ فرض جبکہ قبضہ فرض نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتے کیونکہ قبضہ اور وجوب پر ادلہ سمعیہ کی کوئی دلیل نہیں ہے جب دلیل نہیں تو حرام و وجوب نہیں ۔

ایک طرف اغیار ہیں کہ وہ ہر بات کے ثبوت میں قرآن وحدیث کا نام لیتے ہیں اور ایک طرف ہم لوگ ہیں کہ اعلی حضرت رضی اللہ عنہ سے اوپر اٹھنا گوارہ نہیں کرتے ہیں جس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ہمارے اغیار ہمارے لوگوں کو یہ کہکر پھانس لیتے ہیں کہ ان لوگوں کا مسلک بریلی سے چلا ہے یہ لوگ بریلی سے آگے چل ہی نہیں سکتے ہیں۔
لھذا ضروری ہے کہ ہمارے علماء اصل مراجع کو ذہن نشیں کریں۔۔۔۔۔

نوٹ یہ میری ذاتی رائے اور تحقیق ہے ۔۔۔

سیدنا علی المرتضٰی (رض) اپنی داڑھی کو چہرے کے قریب سے کاٹتے تھے… اس روایت کو امام ابی شیبہ، امام محمد بن عبدالبر، امام زید سمیت عالم عرب کے سینکڑوں محدثین نے کتابوں کی زینت بنایا جب کہ پاکستان میں بھی بہت سارے محدثین مفتی عبدالقیوم ہزاروی، مفتی یوسف وغیرہ نے نقل کیا! 

چھوٹی موچھ یا چھوٹی داڑھی

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ، قَالَ: رَسُولُ ﷲِ

صلیٰ الله عليه وآله وسلم جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَأَرْخُوا

اللِّحَی خَالِفُوا الْمَجُوسَ:

إِنَّهُمْ يُوَفِّرُونَ سِبَالَهُمْ، وَيَحْلِقُونَ لِحَاهُمْ، فَخَالِفُوهُمْ:

“حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مونچھیں کم کرو اور داڑھیاں بڑھاؤ، مجوسیوں کی مخالفت کرو

وہ مونچھیں بڑھاتے ہیں اور داڑھیاں منڈاتے ہیں پس تم ان کی مخالفت کرو۔”” یعنی کہ چھوٹی داڑھی مسلموں کی نہیں ہوتی

📚بخارى الصحيح، 2: 875، ر قم: 5893

📚مسلم، الصحيح، 1: 222، رقم: 260

📚أحمد بن حنبل، المسند، 2: 365، رقم: 8764، مصر: مؤسسة قرطبة

📚المصنف ابن ابي شيبه:۸؍۵۶۷۔۵۶۶،

📚المعجم الاوسط للطبراني:۱۰۵۵۔۱۶۴۵،

📚السنن الكبري للبيهقي:۱؍۱۵۱،

📚شعب الايمان للبيهقي:۶۰۲۷،وسنده الصحيح،

حدیث کی تشریح:

“آقا کریم صلی علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان میں داڑھی رکھنے کا حکم تو ہے مگر داڑھی رکھنے کی کسی بھی مقدار کا حکم نہیں نبی کریم نے فقط اتنی داڑھی رکھنے کا حکم دیا جس سے داڑھی منڈوانے والے کی مخالفت ہو سکے یہی وجہ ہے کہ تمام صحابہ اکرام اپنی اپنی پسند کے مطابق داڑھی رکھتے تھے.” چھوٹی داڑھی اور بڑی کی کوئی قید نہیں

امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ مسلک حنفی یوں بیان کرتے ہیں ۔

عن أبى حنيفة عن حماد عن إبراهيم أنه قال لابأس ان ياعذ الرجل من لحية مألم مشتبه باهد الشرك

(امام ابو يوسف يعقوب بن إبراهيم متوفي ١٥٠ ه ، كتاب الآثار  ٢٣٤)

امام اعظم ابو حنیفہ روایت کرتے ہیں کہ داڑھی کو چھوٹا

 رکھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ مشرکین (داڑھی منڈوانے والے) کی مخالفت ہو ۔۔

٢٥٤٨٠– حدثنا وكيع عن أبي هلال قال : سألت الحسن و ابن سيرين فقالا : لابأس به أن نأخذ صول لحيتك :

📚كتاب المصنف ابن أبي شيبة حديث ٢٥٤٨٠

ابو الھلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حسن رضی اللہ عنہ اور ابن سرین رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ داڑھی کو چھوٹا رکھنے میں کوئی حرج نہیں  ۔۔۔

حضرت محمد صلی علیہ و آلہ وسلم 

فرماتے ہیں ۔۔

” عَنِ اِبْنِ عَبَاسْ عن النبي صلى الله عليه و آله

وسلم قَالَ مِنْ سَعَادَةِ الرَّجُلِ خِفَّةُ لِحْيَتِهِ:

” ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا داڑھی کا چھوٹا ہونا مرد کی سعادت میں سے ہے-“

📚رواه الطبرانى ،باب البأس

مطبوعة بيروت

📚شرح المشكوة جلد ٨ ص ٢٩٨

باب الرجل فصل ثانى.

الکامل، ج 7 ص 128

تشریح :ثابت ہوا کہ داڑھی کو چھوٹا رکھنا سعادت والی بات ہے۔یعنی کہ چھوٹی داڑھی رکھنا درست ہے

عَنِ سَمَاکْ رضي الله عنه

كَانَِ عَلَيً رضي الله عنه يَأخُذُ مِنْ 

لِحْيَتِهِ مِمَّا يَالِيْ وَجْهَهُ:

“حضرر علی اپنی داڑھی کو چہرے کے قریب سے داڑھی کاٹتے تھے۔”

📚المصنف ابن أبي شيبة، ٥ : ٢٢٥

رقم: ٢٥٤٨٠ مكتبة الرشد الرياض،

چھوٹی داڑھی پر اہم علمی نقطہ۔۔۔

امام اعظم ابو حنیفہ سے لے کر امام ابن عابدین شامی تک اہلسنت والجماعت کی 14 سو سالہ تاریخ میں کسی محدث  نے بھی ایک مشت داڑھی کو واجب نہیں کہا مگر برصغیر پاک وہند میں اگیارویں صدی عیسوی میں برصغیر کے ایک  متاخر عالم شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے محض اپنی رائے سے ایک مشت داڑھی کو واجب کہنے کی بدعت کا آغاز کیا ۔۔انڈیا و پاکستان میں بعد کے  محدثین نے شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی پیروی کی۔۔۔

یاد رہے کہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے داڑھی کے وجوب پر کوئی دلیل پیش نہیں کی۔۔۔

یاد رکھیں کہ اصول فقہہ کے 11 مراتب ہیں۔۔۔

ہر بڑے فتوی کے شروع کے صفحات میں علم فقہہ کے یہ 11 مراتب درج ہوتے ہیں۔۔۔

اصول فقہہ کا ایک عام سا طالب بھی اگر داڑھی کی مقدار کو ان 11 مراتب پر پرکھے تو با آسانی پتہ چل جاتا کہ کہ داڑھی کی مقدار سنت غیر موقعدہ ہے کیوں کہ نبی کریم صلی علیہ و آلہ وسلم نے داڑھی رکھنے کی کوئی مقدار مقرر نہیں۔۔۔ یعنی کہ چھوٹی داڑھی اور بڑی داڑھی پر کوئی قول منقول نہیں

“امام ابن عابدین شامی کا مایہ ناز فتوی فتوی درمختار

میں اصول فقہہ کے یہی 11 مراتب درج ہیں 

امام ابن عابدین شامی واجب کی تعریف یوں لکھتے ہیں 

واجب اسے کہتے ہیں جو دلیل ظنی سے ثابت ہو یہنی کہ جس کام کا نبی کریم صلی علیہ و آلہ وسلم حکم دیں اور پھر اس کے نا کرنے پر وعید فرمائیں اسے واجب

کہتے ہیں.”

📚شامی ، درمختار ج 1 ص 53

جب کہ دنیا جانتی ہے کہ نبی کریم نے تو داڑھی رکھنے کی کوئی بھی مقدار مقرر نہیں ۔۔۔ ایک مشت داڑھی رکھنے کا تو حکم ہی نہیں دیا وعید سنانا تو بہت دور کی بات ہے۔۔۔ ثابت ہوا کہ داڑھی کی مقدار سنت غیر موقعد ہے اس کی کوئی حد مقرر نہیں۔۔۔ یہ چھوٹی داڑھی رکھنے والوں کے لیے اہم بات ہے

میں نے یہ پوسٹ فقط اس لیے اپلوڈ کی کیوں کہ دیکھا گیا ہے کہ ملاں… شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے صرف قول کا سہارا لے کر چھوٹی داڑھی رکھنے والوں کی عزت کو مجروح کرنے سے باز نہیں آتے ۔۔۔ تاکہ  بغیر کسی شرعی دلیل کے لوگوں کی عزت کو مجروح کرنے سے باز آ جائیں۔۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x