ویلنٹائن ڈے پر اہم مضمونن جو دل کو غم ناک کردے

میں اچھی نہیں ہوں ۔ صرف آپکو اچھی لگتی ہوں ۔ “ویلنٹائن ڈے پر اہم مضمونن یہ ایسا مضمون ہے جسے ہر کسی کو پڑھنا چاہیے

جویریہ اس کے سوال پر بے ساختہ مسکرا دی ۔ پھر نظروں کو سامنے جماتے ہوئے جذب دروں گویا ہوئی ۔

کوئی بھی انسان اس دنیا میں مکمل اچھا یا برا نہیں ہوتا ۔ وہ کسی کی زندگی میں ہیرو کا کردار ادا کر رہا ہوتا ہے تو کسی کی زندگی میں اسی وقت ویلن ہوتا ہے ۔ کبھی کبھار ہم چاہ کر بھی کسی کے ساتھ اچھے نہیں ہو پاتے اور کبھی کسی کے لئے ہم سے زیادہ پرخلوص اور اچھا کوئی نہیں ہوتا ۔ “

” مجھے یقین ہے تم کبھی کسی کے لئے بری نہیں ہو سکتی ۔ ” یہ ویلنٹائن ڈے پر اہم مضموننہے

دران نے فوراً اس کی بات کاٹتے ہوئے نفی میں سر ہلایا ۔ وہ مبہم سا مسکائی ۔

” یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں ؟ میں آپ کے لئے لاکھ اچھی سہی لیکن اپنے ماں باپ اور بھائی کے لئے ایک ایسی باغی لڑکی ہوں جس نے ان سے چھپ کر مذہب بدل لیا ۔ ان کی باتوں کے خلاف گئی ۔ میری وجہ سے ان کو خاندانوں والوں کی اور دنیا سے باتیں سننا پڑیں ۔ میرے باپ کا سر جھک گیا ۔ وہ میری پریشانی لے کر اس دنیا سے گئے ۔ “

آخری جملہ ادا کرتے ہوئے اس کے چہرے پر گہرا سایہ لہرا گیا ۔ دران اس کی بات میں خلل دیے بنا اسے سن رہا تھا ۔

” یہ حقیقیت ہے ہم انسان اپنی ہر کوشش کے باوجود دنیا میں موجود سب لوگوں کو خوش نہیں کر سکتے ۔ بس کچھ گنے چنے لوگ اور رشتے ہوں گے جو ہمارے ساتھ مخلص ہوں گے ۔ ہم سے پوری طرح خوش ہوں گے ۔ ہمیں اچھا سمجھتے ہوں گے ۔ “

” پھر تم نے مجھے روبی اور برھان کے لئے اچھا بننے پر مجبور کیوں کیا ؟ میں نے ان کے ساتھ جو بھی کیا اس کے لئے میں دل سے تیار نہیں تھا ۔ “

دران نے خفگی بھرے لہجے میں شکوہ کیا تو وہ ایک سکینڈ کے لئے خاموشی سے اسے دیکھے گئی ۔

” میں نے آپکو اچھا بننے پر مجبور نہیں کیا بس برا نہ بننے کا کہا تھا کیونکہ اچھا بننے کی کوشش کرنا بیکار ہے کیونکہ آپ دنیا والوں کے لئے لاکھ اچھے بن جائیں وہ کبھی آپ کو اچھا نہیں کہیں گے اور نہ اس اچھائی کا اجر دیں گے , اس لئے کوشش صرف برا نہ بننے کی کرنی چاہیے ۔ ایسا کرنے سے ہمیں ان کے رویوں کی تکلیف کم ہو گی ۔ “

” ہاہ۔ہ۔۔ہ تمھاری باتیں ۔۔۔۔ سچ میں لاجواب کر دیتی ہو۔ “

دران نے اس کی بات پر اثبات میں سر کو جنبش دیتے ہوئے سراہا۔ وہ مسکراہٹ کو مزید گہرا کرتی مکمل طور پر دران کی جانب رخ موڑ گئی اور دلچسپی سے گویا ہوئی ۔

” اچھا مجھے اپنے استاد کے بارے میں بتائیں نہ اور کچھ “

دران نے اس کی دلچسپی پر محبت سے اسے دیکھا اور پھر گہری سانس لیتے ہوئے اس کے ہاتھ کو چھوڑ کر دونوں ہاتھ سٹیرنگ پر جمائے سنجیدگی سے گویا ہوا ۔

” ہاں تو یہ کہانی شروع ہوتی ہے وہاں سے جب میری مستقبل میں بننے والی بیوی نے مجھے کودنے سے بچایا تھا ۔۔”

وہ دران کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی کھلکھلا کر ہنس دی۔ اس کا کھنکتا قہقہ کار میں جلترنگ کی طرح گونج اٹھا ۔ دران نے حیرت اور محبت سے اسے دیکھا ۔

” کیا بات ہے! تم یوں بھی ہنستی ہو۔؟ “

دران نے اس کی ہنسی کا ساتھ دیتے ہوئے سوال کیا تو وہ ہنسی کو بریک لگاتی ہوئی سر زور زور سے اثبات میں ہلانے لگی ۔

پھر خوشی سے نم ہوتی آنکھوں کے کونوں کو انگلی کی پوروں میں جذب کیا ۔ کیا بتاتی اس کو کہ زندگی کے بہت سے سالوں کی تلخ مسافت نے اس کی اس ہنسی کو دفن کر دیا تھا ۔ یہ تو اب اس کا ساتھ تھا جس نے اس ہنسی کو واپس لٹایا ۔ دران اب اسے احمد بیگ صاحب کے بارے میں بتا رہا تھا اور وہ دلچسپی سے سب سن رہی تھی ۔ گاڑی متوازن رفتار میں سرسبز لہلاتے کھیتوں کے بیچ و بیچ سڑک پر دوڑ رہی تھی ۔

☆☆☆☆☆

بھاری سر اور بوجھل آنکھیں وہ بمشکل آنکھیں کھولنے کی کوشش میں تھی ۔ یہ ہاسپٹل کا بیڈ تھا جس پر وہ نیم دراز تھی ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ برسوں کے بعد آنکھیں کھول رہی ہو۔ آنکھیں گد سے چپک ہوئی محسوس ہو رہی تھیں ۔ بمشکل جیسے ہی اس نے آنکھ کھولی خالی ذہن کے ساتھ چھت کو گھورنے لگی ۔

آہستہ آہستہ سب کچھ ذہن کے پردوں پر فلم کی طرح چلنے لگا وہ کب اور کیسے اس ہسپتال میں پہنچی تھی ۔

آخری منظر جو ذہن میں آیا اس میں وہ گھر میں تھی جب مارٹن اس سے ملنے آیا تھا ۔ ایک سالہ دران بھوک سے رو رہا تھا اور وہ بیڈ سے اٹھنے کی سکت میں نہیں تھی ۔

یہ کنز پارکر کی زندگی کا بدترین دور تھا جو نوین کے گزر جانے کے بعد سے شروع ہوا ۔ اسفند نوین کی لاش کے ساتھ ہی پاکستان چلا گیا تھا ۔ وہاں نوین کی موت کے خوف سے دستگیر بیگم نے دوبارہ اسفند کو واپس امریکہ نہیں آنے دیا ۔

پہلے ایک دو ماہ اسفند کا خط اسے ملا پھر دران کی پیدائش کے بعد اس کی جاب بھی ختم ہو گئی اور اسفند کا خط بھی نہیں آیا ۔ ایک ساتھ کتنی ہی پریشانیاں اسے شراب نوشی کی طرف لے آئیں ۔ وہ رات دن نوین کی یادوں کو بھلانے کے لئے شراب پینے لگی اور وہیں سے اس کی بربادی کا دور شروع ہوا اسے کسی نے نشے کی لت لگا دی ۔

ایک سال کے اندر وہ نشے کی اتنی عادی ہو گئی کہ ایک سال کے دران سے بالکل بے خبر ہونے لگی۔ حکومت دران کے خرچ اٹھائے ہوئے تھی لیکن وہ ان میں سے بھی چوری چھپے اپنا نشہ پورا کرنے لگی ۔ آہستہ آہستہ دران کی محبت پر نشے کی دھند چھانے لگی ۔

ایسا نہیں تھا کہ وہ دران سے محبت نہیں کرتی تھی ۔ دران سے وہ بے حد محبت کرتی تھی ۔ دران کا نام بھی اسفند نے ہی اسے خط میں لکھ کر بھیجا تھا مگر پھر اس کے نشے کی عادت خوفناک صورت اختیار کرنے لگی وہ نشے میں ڈوب کر دران کو بھولنے لگی اور ایسی ہی ایک شام مارٹن اسے تلاش کرتے ہوئے اس کے گھر پر پہنچا اور اس کی یہ حالت اس سے دیکھی نہیں گئی ۔ وہ اسے فوراً ہسپتال لے آیا ۔

کنز نے آنکھیں کھولیں اور آخری منظر ذہن میں گھوم گیا جب مارٹن اس کے گھر میں داخل ہوا تھا اور وہ نشے میں دھت ہوکر بے ہوش ہو گئی تھی اور اب جب آنکھ کھولی تو وہ ہسپتال کے بستر پر تھی ۔ ہوش میں آتے ہی پہلا خیال دران کا آیا۔

“دران ۔۔۔ دران ۔۔۔”

سب یاد آ جانے پر وہ ایک جھٹکے سے اٹھی بیٹھی اور اردگرد دیکھتے ہوئے دران کو پکارا ۔ کرسی پر بیٹھا مارٹن اخبار کو فولڈ کرتا ہوا اپنی جگہ سے اٹھا ۔

” مارٹن دران کہاں ہے ؟”

مارٹن کو سامنے دیکھتے ہی پریشانی سے سوال کیا ۔

” تم اٹھ گئ ۔ کیسی طبیعت ہے اب ؟ “

دران کے سوال کو نظر انداز کرتا وہ محبت سے پوچھ رہا تھا ۔

” مارٹن میرا بیٹا کہاں ہے ۔ رات۔۔۔۔جب تم میرے گھر آئے تھے ۔ وہ گھر میں تھا میرے ساتھ ۔”

وہ بے تحاشہ بوکھلائی ہوئی تھی ۔

” تم اتنا اونچا مت بولو تمھارے لئے ٹھیک نہیں اور لیٹ جاؤ ۔ابھی ۔ “

” مجھے میرے بیٹے کے بارے میں بتاؤ کہاں ہے وہ ؟ “

مارٹن کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے چیخ کر سوال کیا تو وہ بالکل خاموش ہو گیا ۔ کنز اب ہونقوں کی طرح اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی ۔ کچھ پل کی دلخراش خاموشی کے بعد مارٹن کی آواز گونجی ۔

” وہ اس دن تم نے زیادہ نشہ لے لیا تھا ۔ وہ بھوک اور بخار سے بلک رہا تھا ۔ میں جب وہاں پہنچا اس کی آخری سانسیں چل رہی تھیں ۔ میں تم دونوں کو ہسپتال بھی لے آیا لیکن میں اسے نہیں بچا سکا ۔ “

” مہ۔۔۔مطلب ؟ “

کنز کی آنکھیں تو پھٹنے کی حد تک باہر آ چکی تھیں ۔

” مطلب یہ کے تمھارا بچہ اب اس دنیا میں نہیں ہے ۔”

” نہیں ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ “

وہ پاگلوں کی طرح بے یقینی سے سر کو نفی میں ہلاتی چیخی رہی تھی ۔ مارٹن گھبرا کر اس کے قریب ہوا ۔

” کنز ۔۔۔ کنز پرسکون رہو ۔ “

وہ اسے تسلی دے رہا تھا لیکن جب کسی کی دنیا اس کی اپنی غفلت سے اجڑ جائے اس کا حال کنز پارکر جیسا ہی ہوتا ہے ۔ وہ پاگلوں کی طرح چیخ رہی تھی ۔

” ڈاکٹر ۔۔۔ ڈاکٹر ۔۔۔”

مارٹن کو جب اس کی حالت تشویش ناک لگنے لگی وہ تیزی سے ڈاکٹر کو بلانے کے لئے بھاگا ۔

☆☆☆☆

لاہور کی گہاگہمی سے بالکل برعکس ہوٹل کا یہ پرسکون کمرہ گہری خاموشی میں ڈوبا تھا ۔ سفید اور بھورے رنگ کے امتزاج کی سجاوٹ والے اس کمرے میں بھوری لکڑی کا پرانی طرز کا فرنیچر اس کی خوبصورتی کو بڑھا رہا تھا ۔

وہ سفید چادر والے جہازی سائز بیڈ پر کتابوں کے ڈھیر کے بالکل سامنے بیٹھی تھی ۔ گہرے پیلے کُرتے کے ساتھ سفید چوڑی دار پاجامہ زیب تن کئے , سفید دوپٹے کو آڑا ترچھا ایک طرف تکیے پر دھر کر , کتابوں کے ڈھیر میں سے باری باری ایک ایک کتاب اٹھاتی , اسکے ورق کو الٹ پلٹ کرتی اور پھر دوسری کتاب اُٹھا لیتی ۔ وہ پچھلے ایک گھنٹے سے اسی عمل میں مصروف تھی اور دران کچھ دور ہلکے بھورے صوفے پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر مصروف تھا ۔

احمد بیگ صاحب سے ملاقات کے بعد واپسی پر وہ لاہور کے ہوٹل میں رُکے تھے ۔ انہوں نے جویریہ کو گھر سے رخصت ہوتے ہوئے بہت سی کتابیں تحفے کے طور پر دی تھیں اور اب وہ انہی کتابوں کو دیکھ رہی تھی ۔

دران کچھ دیر پہلے ہی لیپ ٹاپ سے اٹھ کر ریسٹ روم میں گیا تھا اور اب باہر نکل کر نائٹ ٹرائیوزر شرٹ میں ملبوس ٹاول سے ہاتھ پونچھتا ہوا اسے غور سے دیکھ رہا تھا جو اردگرد کی ہر چیز , ہر بات سے بے خبر گود میں دھری کتاب پڑھنے میں محو تھی ۔

ڈھیلے سے پیلے کرتے میں وہ کمرے کی روشنی اور کپڑوں کے رنگ کے سنگ دل کو لبھانے کی حد تک حسین لگ رہی تھی ۔ ڈھیلی پونی میں سے بالوں کی بہت سی لٹیں گردن پر جھول رہی تھیں ۔ آنکھیں گھنی سیاہ لانبی پلکیں کے تلے انہماک سے ورق گردانی میں مگن تھیں ۔

ٹاول کو ایک طرف رکھتا , وہ اسے یونہی نظروں میں بھر کر آگے بڑھا اور قریب آ کر اس کے متوجہ ہونے سے پہلے ہی اس کی گود میں دھری کتاب کو اٹھایا , باقی کتابوں کو ایک طرف کیا اور سرعت سے اپنا سر کتاب کی جگہ اس کی گود میں رکھ کر لیٹ گیا ۔ دران نے یہ سب کچھ اتنی تیزی سے کیا کہ وہ ہڑبڑا گئی ۔

” دران۔ن۔ن !”

ہلکی سی چیخ نما آواز نکلی جبکہ وہ مزے سے سیدھا لیٹا اپنے سینے پر ہاتھ باندھے , پاؤں کو قینچی شکل پھنسائے اس کی طرف گہری محبت پاش نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔

” کیا یہ ساری کتابیں آج رات ہی پڑھ لو گی ۔ “

” پڑھ تو نہیں رہی تھی بس سرسری دیکھ رہی تھی ۔ بہت اچھی کتابیں ہیں اور آپ خود بھی تو لیپ ٹاپ پر مصروف تھے ۔ “

دران کی بے خود ہوتی آواز پر اس نے جھینپ کر فوراً مصنوعی خفگی سے شکوہ کیا ۔

” تو اب نہیں ہوں مصروف ۔ اس لئے تم بھی اپنی مصروفیت ختم کردو ۔ “

” ٹھیک ہے کر دی ۔ سر دباؤں آپکا ۔ “

فوراً حکم مان کر دران کے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے محبت سے پوچھا ۔ وہ دلکشی سے مسکرا دیا ۔

” نیکی اور پوچھ پوچھ دباؤ ۔ “

دران کے کہنے پر جیسے ہی اس نے آہستگی سے ہاتھ کا دباؤ اس کی پیشانی پر ڈالا دران نے پرسکون ہو کر آنکھیں موند لیں ۔

اس کی گداز ہتھیلیاں پیشانی کو چھو کر عجیب طرح سے تقویت بخش رہی تھیں ۔ اتنا سکون بخش احساس تھا کہ اسے بے اختیار غنودگی چھانے لگی ۔

” سنو ایسے تو مجھے نیند آ جائے گی ۔ “

دران نے آنکھیں موندے ہی خدشہ ظاہر کیا ۔ وہ محبت سے اس کے وجہیہ چہرے کو دیکھتے ہوئے مسکرا دی ۔

” تو سو جائیں ۔ “

” ایسے ہی ؟”

” ہاں ایسے ہی ۔ “

” تو تم کیسے سو گی ؟ “

” میں جاگتی رہوں گی ۔ “

” کیوں تمہیں نیند نہیں آئے گی ؟”

” ایسے تو کبھی نہیں آئے گی ۔ “

” تنگ ہو رہی ہو ؟ “

” نہیں تو ۔ “

وہ محبت سے ہولے ہولے دباتے ہوئے اس کے غنودگی میں جاتے سوالوں کے جواب دے رہی تھی جب اچانک دران نے ایک آنکھ کھول کر اس کی آبرؤ اوپر چڑھائی ۔ دیکھنے کا انداز شاکی تھا ۔

” سنو یہ مجھے دھوکا دے کر اپنی جان تو نہیں بچائی جا رہی ؟ “

دران کا انداز ایسا تھا کہ وہ کھلکھلا کر ہنس دی ۔

” نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ۔ چپ چاپ سو جائیں ۔ “

” ہوں کیوں چپ چاپ سو جائیں ۔ سب سمجھ رہا ہوں میں “

” کیا سمجھ رہے ہیں ؟ “

اس نے مصنوعی گھورتے ہوئے کہا تو دران ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گیا ۔ وہ اب بھی ہنسی کو دباتی گلال ہو رہی تھی ۔

” تم یہ کیوں بھول جاتی ہو کہ مجھے اب پتا چلا جاتا ہے جو کچھ بھی تم سوچتی ہو۔ “

دران نے لب بھینچ کر شرارت سے کہا تو وہ بے ساختہ ہنس کر نفی میں سر ہلانے لگی ۔

” میں ایسا کچھ بھی نہیں سوچ رہی ۔ آپ کل بھی ڈرائیو کرتے رہے اور پھر انکل کے گھر بھی صیح سے سوئے نہیں تو اب آرام کریں ۔ “

” بہت فکر ہے میرے آرام کی ۔ “

معنی خیز گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے وہ قریب ہوا تو اس نے گلال ہوئے گالوں پر لرزتی پلکیں جھکا دیں ۔

☆☆☆☆☆

بیورلی ہلز کی یہ دوپہر بہت روشن تھی ۔ سورج باقی دنوں کے برخلاف آج زیادہ چمک رہا تھا ۔ یونیورسٹی آف فائن آرٹس کے وسیع و عریض گیٹ سے آگے لمبی راہداری پر معمول کی چہل پہل تھی ۔ طالب علم کندھوں پر بیگ لٹکائے , ایک دوسرے سے باتوں میں مگن آ اور جا رہے تھے ۔ سیاہ سوٹ اور سرخ ٹائی میں ملبوس انل کب سے گیٹ سے کچھ آگے لگے بنچ پر بے چینی سے منتظر نگاہیں سامنے جمائے بیٹھا تھا ۔

جیسیکا کی آخری کلاس ختم ہونے کا وقت تو یہی تھا پھر وہ آ کیوں نہیں رہی تھی ؟ اس نے سرخ ٹائی کی ناٹ کو دھیرے سے دائیں بائیں گھماتے ہوئے سوچا ۔ آج پورے دو ماہ بعد وہ دل کے ہاتھوں ہار گیا تھا ۔ اسے اپنی بے چینی اور بے کلی کی سمجھ آ چکی تھی ۔ جیسیکا کے دل میں پنپتے جذبات یکہ طرفہ نہیں تھے ۔ اسکا دل بھی اس کے لئے ویسے ہی جذبات رکھتا تھا اور اب جب اس نے دل سے تسلیم کر لیا تھا تو سب جیسے ہلکا پھلکا ہو گیا تھا ۔

وہ یونہی بے چین سا بیٹھا تھا جب دو لڑکیوں کے ساتھ ہنس کر بات کرتی ہوئی جیسیکا پر نگاہ پڑی ۔ گلابی رنگ کے فر کوٹ اور جینز کے نیچے سفید جوگرز میں وہ ہمیشہ کی طرح دمک رہی تھی ۔

اس پر نگاہ پڑتے ہی وہ تیزی سے بنچ پر سے اٹھا اور اس جانب چل دیا ۔ اس کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی وہ جیسے ہی دونوں لڑکیوں کو الوداع کہتی ہوئی پلٹی سیدھی نگاہ انل پر گئی اور پھر قدم زمین پر جم گئے ۔

پل بھر کو اس کے قدم رکے اور پھر اگلے ہی لمحے چہرہ سخت ہوا اور اس نے قدم مزید تیز کر دیے جبکہ انل اب پھولی سانسوں سمیت اس کے پاس پہنچ چکا تھا۔

” ہیلو۔”

پوری بتیسی نکلاے اسے ہیلو کہتا وہ جیسے پچھلی ہر زیاتی بھلائے ہوئے تھا ۔ وہ جیسیکا کے ساتھ پوری رفتارمیں قدم ملا رہا تھا جو ہیلو کا جواب دیے بنا تیز تیز چل رہی تھی ۔

” کیسی ہو ؟ “

ہیلو کا جواب نہ پا کر اگلا سوال کیا ۔

” ٹھیک ہوں ۔ “

مختصر جواب تھا جو بے انتہا بے رخی سے دیا گیا لیکن انل اس کے بولنے پر ہی کھل اٹھا ۔

” واپس جا رہی ہو ۔ چلو میں چھوڑ دیتا ہوں ۔”

” آپ شاید بھول رہے ہیں اب میرے پاس میری اپنی کار ہے ۔ “

انل کی طرف بنا دیکھے دانت پیستے ہوئے فوراً جواب دیا ۔

” اوہ ہاں واقعی یہ تو بھول ہی گیا تھا میں ۔۔ چلیں پھر آپ مجھے اپنی کار میں لفٹ دے دیں ۔ “

” میرے خیال سے آپکے پاس بھی کار ہے ۔ “

جیسیکا نے ہنوز اسی غصے میں جواب دیے تو ہنس دیا ۔

” ہاں سو تو ہے لیکن مسئلہ دراصل یہ ہے کہ وہ خراب ہے ۔ “

کندھے اچکاتے ہوئے فوراً جھوٹ گھڑا تو وہ ایک دم رکی اور ماتھے پر ناگواری کے بل سجاتے ہوئے انل کی طرف دیکھا ۔

” جھوٹ ۔ “

” آپ کیسے یہ کہہ سکتی ہیں ؟ “

” کیونکہ میں جانتی ہوں آپکو ۔ “

” اسی لئے تو آپ سے لفٹ مانگ رہا ہوں ۔ لفٹ جاننے والوں سے ہی مانگنی چاہیے سیف رہتا ہے انسان ۔ “

بتیسی نکال کر کہا تو وہ چڑ کر دانت پیستی آگے بڑھی ۔

” میں آپکو لفٹ نہیں دوں گی ۔ “

” کیوں ابھی تو آپ نے کہا کہ آپ جانتی ہیں مجھے ۔ جاننے کے باوجود اتنی بے مروتی ؟ “

انل پھر سے اس کے ساتھ قدم ملائے اپنی پرانی ٹون میں تھا ۔

” ہاں یہ میری زندگی کی بہت بڑی غلطی تھی ۔ “

” بہت بڑی لیکن خوشگوار غلطی ۔ “

” غلطیاں خوشگوار نہیں ہوتیں ۔ “

” غلط بالکل غلط کچھ غلطیاں بہت خوشگوار ہوتی ہیں کیونکہ ان کے نیتیجے میں آپ کو جو سبق ملتا ہے یا ان کی وجہ سے زندگی میں جو تبدیلی آتی ہے وہ بہت حسین ہوتی ہے ۔ “

گہری مسکراہٹ اور شریر لہجے کے ساتھ کہتا وہ اس کے ساتھ ساتھ اب یونیورسٹی کے پارکنگ کی طرف بڑھ رہا تھا ۔

” میری اس غلطی سے مجھے سبق تو ملا ہے لیکن اس کے نتیجے میں میری زندگی میں کوئی حسین تبدیلی نہیں آئی تو ثابت ہوا یہ خوشگوار غلطی نہیں ہے ۔ “

وہ غصے میں کہتی ہوئی مزید آگے ہوئی اور کار کا لاک کھولا ۔ اس سے پہلے کہ وہ بیٹھتی انل اس سے پہلے ہی فرنٹ سیٹ سے ہوتا ہوا ڈرائیو سیٹ کے ساتھ والی نشست پر براجمان ہو گیا ۔ وہ منہ کھولے کھڑی اسے دیکھ رہی تھی جبکہ وہ اب سیٹ پر بیٹھا کوٹ کے شکن درست کر رہا تھا ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں تھا اپنی پرانی طرز میں سوٹڈ بوٹڈ وہ بہت خوبرو لگ رہا تھا ۔

” عجیب دھونس ہے ۔ میں نے کہا نہ آپکو لفٹ نہیں دے رہی میں ۔ اتریں جلدی ۔ “

وہ اب کھلے دروازے میں سے جھانکتے ہوئے غصے سے کہہ رہی تھی ۔

” جی جانتا ہوں آپ لفٹ نہیں دے رہی ہیں لیکن میں لے رہا ہوں ۔ “

خوشگواریت سے مگر ڈھیٹ پن سے جواب دیا جبکہ جیسیکا کا سرخ ہوتا چہرہ صاف ظاہر کر رہا تھا وہ بے انتہا غصے میں ہے ۔

” اچھا چلیں باہر پارکنگ تک ہی چھوڑ دیں ۔ “

انل کی گزارش پر وہ گہری سانس لیتی بیزاریت سے سیٹ پر براجمان ہوئی ۔ اور چابی کو لگایا ۔

” جیسیکا مجھے معاف کردو “

انل کی آواز پر کار سٹارٹ کرتے اس کے ہاتھ پل بھر کو رکے ۔ سختی سے جبڑے بھینچے انل کی طرف مڑی ۔

” کس بات کے لئے ؟ “

” تمھارا دل دکھا میری وجہ سے اس لئے ۔ “

” میں معاف کر چکی ہوں آپ کو ۔ “

” ہوں ۔ “

جیسیکا کی بات پر وہ کچھ دیر سر جھکائے بیٹھا رہا اور پھر اس کی مدھم آواز گونجی۔

” اصل میں مجھے جب پہلی محبت ہوئی تھی میری عمر بائیس سال تھی ۔ تب مجھے ۔۔۔”

” مجھے آپ کی پہلی محبت کے قصے نہیں سننے ۔ “

” سننے پڑیں گے ۔ “

انل نے سنجیدگی اور رعب سے کہا تو وہ مزید تپ گئی ۔ سفید چہرہ سرخ ہوا تھا ۔

” کیوں کوئی زبردستی ہے کیا ؟ میں کیوں سنوں ؟”

” کیونکہ میری دوسری اور آخری محبت تم ہو ۔ “

” جھوٹ ۔ “

وہ ساکن ہوتے وجود اور آنکھوں کے ساتھ فوراً اسے جھٹلا گئی ۔

” میں یہاں دران کا پی اے بن کر نہیں آیا ۔ اس لئے کوئی جھوٹ نہیں بول رہا ۔ “

اب کی بار انل کی بات ہر وہ بالکل چپ رہی ۔ بس ںے یقین آنکھیں اس پر ٹکی تھیں۔

“تمہیں نہیں پتا میں پچھلے دو ماہ سے کتنا پریشان رہا اور بلاآخر یہ سمجھ میں آ ہی گیا کہ میں تم سے بے حد محبت کرنے لگا ہوں ۔ “

انل نے مسکراتے ہوئے اس کے چہرے کو دیکھا ۔ وہ اسی طرح بے تاثر چہرہ لئے بیٹھی تھی ۔

” بہت کوشش کی اس بات کو جھٹلانے کی لیکن یہ سچ ہے اور میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں جیسیی ۔ “

وہ اظہار کر چکا تھا جس کے بعد سامنے خاموشی چھا گئی ۔ اچانک وہ یوں سیدھی ہوئی کہ انل ڈر گیا ۔ سٹئیرنگ پر موجود اس کے دونوں ہاتھوں کی گرفت بڑھ گئی تھی ۔

” کیا بھائی کو پتا ہے یہ سب ؟ “

اچانک جیسیکا کے سخت لہجے میں کہے الفاظ گونجے تو وہ اداس سے لہجے میں برجستہ جواب دے گیا ۔

” نہیں ۔ “

” تو پھر رشتہ تو ان سے ہی مانگو گے نہ ؟ “

وہ مسکرائی اور پھر ہنس دی ۔ جھرنے کے جیسی کھنکھتی ہنسی کے جلترنگ انل کے چہرے کو رونق بخش گئے وہ ہنس رہی تھی اور محبت اور شرارت سے دیکھ رہی تھی ۔

☆☆☆☆☆

” ہیلو باسل “

سپیکر سے آتی آواز پر دران ایک دم سے چوکنا ہوا ۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x