دنیا میں جو بھی کام ہوتا ہے وہ بے غیر نیت سے نہیں تو نماز جیسی اہم عبادت نماز کی نیت بھی معلوم ہونا ضروری ہے تاکہ روزہ یا نماز کی شروعات صحیح سے ہو اور اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہو
نیت کے معنی و مفہوم
نماز کا ارادہ کرنے کے بعد نماز کی نیت کرنی ہوتی ہے تو نیت کا مطلب ہے “کسی کام کا دلی عزم اور ارادہ کرنا”۔*
نیت کی موجودگی) اور درست طور پر موجودگی( کوتمام عبادات میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ہے:*
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى
“بے شک اعمال نیتوں کے ساتھ ہیں اور ہر آدمی کے لیے وہی ہے جس کی اس نے ارادہ کی”*
اعمال کی قبولیت کے لیے دو بنیادی شرطیں ہیں۔
پہلی یہ کہ وہ عمل خالص اللہ سبحانہ و تعالیٰ کےلیے کیا جائے،*
*
اور دوسری یہ کہ وہ عمل صحیح ثابت شدہ سُنت مُبارکہ کے مطابق ہو۔*
*
ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو وہ عمل قبولیت کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا۔۔* اسی لیے نماز کی نیت ضروری ہے
کسی بھی نیک عمل یا کسی بھی عبادت کا مقصد اگر اللہ کی رضا حاصل کرنے کی بجائے دکھاوا ہو ، یا کوئی بھی اور مقصد ہو تو ایسا نیک کام ، یا عبادت اللہ کے ہاں کچھ حیثیت نہیں رکھتا ، اور آخرت میں کسی فائدے کے بجائے نقصان کے اسباب میں سے بن جاتا ہے ،پس کوئی بھی نیک عمل کرنے سے پہلے ، کوئی بھی عبادت کرنے سے پہلے ہمیں اپنے دِلوں میں اپنی نیت اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے لیے خالص کر لینا چاہیے ، تا کہ وہ عمل ثواب کی بجائے عذاب کا سبب ہی نہ بن جائے۔
نیت کے بغیر نماز نہیں ہوتی
نیت نماز کے ارکان (اور بعض علماء کے نزدیک شروط) میں سے ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
نیت میں کن چیزوں کا تعین ضروری ہے
نیت تکبیر تحریمہ کہتے وقت کی جانی چاہیے اور اس میں ذیل امور کا تعین ہونا چاہیے:*
نماز کا وقت (ظہر، عصر وغیرہ)*
فرض، سنت (وتر) یا نفل میں سے کون سی نماز ہے
اس کی رکعات کتنی ہیں یہ تمام باتیں نماز کی نیت میں شامل ہے
نیت کی روح
*نیت کا مقصد یہ ہے کہ نمازی اللہ رب العالمین کے دربار میں پیش ہونے سے پہلےپوری طرح متوجہ ہو اور اس بات کو اپنے ذہن میں اچھی طرح تازہ کر لے کہ
“اے اللہ، میں صرف تجھے خوش کرنے کے لیے، تیری رضا کی طلب میں، تیرے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق یہ فلاں فلاں وقت کی نماز (فرض یا نفل)، اتنی اور اتنی رکعات ادا کرنے لگا ہوں، تو اپنی رحمت سے اسے قبول فرما لے”۔ تب ہوگا نماز کی نیت اور نماز کی شروعات
زبان سے نیت کے کلمات کہنا درست نہیں
نیت دِل میں کیے گئے عزم و ارادے کا نام ہے ، لہٰذازبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنے کی بالکل کوئی ضرورت نہیں ہے۔
زبانی نیت کے جو کلمات مشہور ہیں کہ “نیت کی میں نے اس نماز کی، خاص واسطے اللہ تعالیٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف ۔ ۔ ۔*
“یہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سکھائے ہیں، نہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ نے اس کی کوئی تعلیم دی ہے اور نہ ہی اس پر عمل کیا ہے ،اور نہ ہی ائمہ امت میں سے کسی نے انہیں کہنے کی ترغیب دی ہے۔
اسےبعد کے زمانوں میں کچھ علماء نے یہ کہتے ہوئے رواج دیا ہے کہ اس سے نیت کی پختگی اور توجہ حاصل ہوتی ہےلیکن حقیقت یہ ہے کہ عبادت کی کسی کیفیت اور طریقے کواپنی مرضی سے بدل دیناجائز نہیں ہے۔ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سنت پر اکتفاء کرنا چاہیے*
کیونکہ سب سے اچھی بات اللہ تعالیٰ کی بات ہے اور سب سے بہترین طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا سکھایا ہوا طریقہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دین میں نئی نئی چیزیں نکالنے سے سختی
کے ساتھ منع فرمایا ہے:
كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ*
“ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ (جہنم) میں ہے”*
صحیح البخاری کتاب البدء الوحی، حدیث نمبر1
سنن النسائی الصغریٰ کتاب صلاۃ العیدین باب کیف الخطبہ، صحیح سنن نسائی حدیث نمبر 157
نماز کی زبانی نیت ثابت نہیں
شيخ الإسلام امام أحمد بن عبد الحليم ابن تيمية الحراني – رحمه الله تعالیٰ – نماز کی نیت کے متعلق فرماتے ہیں :
اگر کوئی انسان سیدنا نوح علیه السلام کی عمر (950 سال) کے بقدر یہ تلاش کرتا رہے کہ رسول الله صلی الله علیه وسلم اور آپ کے صحابہ کرام میں سے کسی نے زبان سے نیت کی ہو تو وہ ہرگز کامیاب نہیں ہو سکے گا سوائے سفید جھوٹ کے۔*
– |[ إغاثة اللهفان : ١٥٨/١ ]|
شيخ الإسلام امام شمس الدین ابن قيّم الجوزية – رحمه الله تعالیٰ – نماز کی نیت پر فرماتے ہیں :
نبی کریم صلی الله علیه وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو صرف (الله اکبر) کہتے تھے۔
اس سے پہلے کچھ نہیں کہتے تھے، نہ ہی زبان سے نیت کرتے، نہ یوں کہتے * جیسا کہ نماز کی نیت آج کل کرتے ہیں
کہ میں الله کیلیے یہ اور یہ نماز پڑھنے لگا ہوں، منہ میرا قبلے کی طرف، چار رکعات، امام بن کر، یا پیچھے اس امام کے۔*
نہ یوں کہتے کہ یہ *
ادا نماز ہے، یا قضاء نماز ہے، یا فرض کا وقت ہے۔* (یعنی تکبیر سے قبل زبان سے نیت کے مروجہ الفاظ نہیں ادا کیا کرتے تھے)۔ یہ نماز کی نیت جدید چیزوں میں سے ہے
تو یہ دس بدعات ہیں جن کے متعلق نبی صلى الله عليه وسلم سے کوئی صحیح، ضعیف، مسند یا مرسل روایت نہیں، ایک لفظ بھی نہیں ملتا۔ نہ ہی آپ کے صحابہ سے کچھ ملتا ہے۔ پھر تابعین اور ائمہ اربعہ میں سے بھی کسی نے اسے اچھا نہیں کہا۔ (یہ بعد کی ایجاد ہے)۔*
– |[ زاد المعاد : ١٩٤/١ ]| نماز کی نیت
_اقوال_ابن_قیم _اقوال_السلف
_اقوال_ابن_تیمیہ
روزہ ہو یا نماز نیت زبان سے کرنا ثابت نہیں
اہل حق کے نذدیک دین کے احکامات اور نبی کریمﷺ کی تعلیمات کے مطابق روزہ ہو یا نماز کی نیت زبان سے نیت کرنا ہرگز بھی ثابت نہیں۔۔۔اور نہ ہی ہم زبان سے نیت کرتے ہیں الحمدللہ*
جبکہ دوسرے مسالک کے اکابرین نے کچھ اس طرح کے فتوے دے رکھے ہیں اور امت کو گمراہ کیا ہوا کہ احتیاط کے طور پر زبان سے نیت کرلینی چاہئیے ۔۔۔۔
حالانکہ یہ عمل دین کے سراسر خلاف ہے
ان ہی میں سے ایک عالم نے اپنے ہی مسالک کے فتووں کی تردید کرتے ہوئے زبان سے نیت کرنے کو نہ صرف غلط عمل قرار دیا بلکہ خوب مذاق بھی بنایا۔۔۔*
یہ ہم نہیں آپ کے علماء فرمارہے ہیں لازمی سنیں* نماز کی نیت کی معلومات تو ہوگئی ہے