ناراض امام کی امامت کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زید ،جس محلے میں امام ھے، اس محلے کے آدھے لوگ، زید، کے کچھ کاموں سے ناراض ھے، زید کے جس کاموں سے لوگ ناراض ھے وہ کام شریعت کے کچھ خلاف ھے ناراض امام کی امامت کے بارے شریعت کیا کہتی ہے
،
، اور زید کے خلاف ایک دوسرے سے شکایت بھی کرتے ہیں، آپس میں، کیا ان تمام لوگوں کی نماز ھوگی،، زید کے پیچھے،،،
اور زید کو بھی پتہ ھے کہ محلے کچھ لوگ میرے خلاف ھے، صرف مجبوری، میں نماز پڑھتے ہیں، میرے پیچھے،
، زید صرف بڑے لوگوں کے سپوٹ سےاور، مسجد کے کمیٹی کے بدولت مسجد میں امام ھے، ، باکی لوگ امامت سے خلاف ھے،
کیا زید کا امامت کرنا درست ھے،، ،،،
محلے والوں کے پاس مجبوری کے، سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے،
محلے والوں کے لئے اور زید کے لئے کیا حکم ہے شریعت میں،،،
تسلی بخش مع حوالہ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی ،
المستفتی, عمران رضوی، گواباڑی پوٹھیہ ،کشنگنج بہار،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
ناراض امام کی امامت کا حکم
الجواب
صورت مسئولہ میں محلے کے آدھے لوگ زید کے کچھ کاموں سے ناراض ہیں زید کے جس کاموں سے لوگ ناراض ہیں وہ کام شریعت کے کچھ خلاف ہے اگر واقعی ناراضی کسی دینی وجہ سے ہے یعنی زید فاسق،
فاجر یا لاپرواہ ہے یا اس کا عقیدہ درست نہیں ہے یا وہ سنتوں کی رعایت نہیں کرتا ہے اور محلے کے آدھے لوگ زید سے ناراض ہیں تو ایسی ناراضی کا اعتبار ہے اور زید کی امامت مکروہ ہوگی
اور اگر محلے کے آدھے لوگ کی ناراضی دنیاوی دشمنی یا مخالفت کی وجہ سے ہے یا اس میں نفس کا دخل ہے تو ایسی ناراضی کا اعتبار نہیں ہے اور زید کی امامت بالکل درست ہے بلکہ اس صورت میں محلے کے آدھے لوگ زید سے بغیر کسی شرعی وجہ کے ناراض ہونے کی وجہ سے ملامت کے مستحق ہیں
تاہم بہر صورت ناراض ہونے کے باوجود زید کے پیچھے نمازیں ادا کرنا درست ہے اور ان نمازوں کا اعادہ بھی لازم نہیں ہوگا
نیز یہ ملحوظ رہے کہ محلے کے آدھے لوگ اگر زید سے ناراضی کی وجہ دینی یا شرعی بتاتے ہیں اور زید کے مقتدی زیادہ ہیں تو صرف ایک،دو یا دو،تین مقتدیوں کا اعتراض اور ناراضی کا اعتبار نہیں ہوگا نیز اگر اعتراض اور شکایت کرنے والے زیادہ ہیں لیکن وہ جاہل اور دین سے ناواقف لوگ ہیں تو ان کا بھی اعتبار نہیں ہوگا
ہاں علم و فضل والے لوگ بھی ان کا ساتھ دیں تو پھر زید کی امامت مکروہ ہوگی ورنہ عموماً مقتدی کسی نہ کسی بات پر امام سے ناراض ہوتے رہتے ہیں حالانکہ امامت ایک عظیم الشان منصب ہے،اس منصب کے اہل شخص کا احترام مسلمانوں پر لازم ہے امام پر بلاوجہ طعن و تشنیع کرنا یا ان کو تنگ کرنا کسی طرح درست نہیں ہے
محلے والے اگر بلا وجہ شرعی زید کے خلاف ایک دوسرے سے شکایت کرتے ہیں آپس میں تو ان تمام لوگوں کی نماز زید کے پیچھے ضرور ہوگی اگرچہ زید کو بھی پتا ہے کہ محلے کے کچھ لوگ میرے خلاف ہے صرف مجبوری میں نماز پڑھتے ہیں میرے پیچھے تو یہ مجبوری نہیں بلکہ خرابی ہے لوگوں میں جس سے لوگوں کو باز آنا ضروری ہے اور اگر محلے والے زید کے پیچھے کسی شرعی خرابی کی وجہ سے ایک دوسرے سے شکایت کرتے ہیں اور نماز بھی پڑھتے ہیں تو واقعی یہ مجبوری ہے اور زید کے پیچھے نماز پڑھنے کی وجہ سے لوگوں پر وبال نہیں بلکہ زید پر وبال ہے زید پر یہ وبال ہے کہ زید کی نماز قبول نہیں ہوتی ہے لھذا زید کے اندر جو شرعی خرابی ہے اسی دور کرنا چاہیے اور اگر زید کے اندر کوئی شرعی خرابی نہیں ہے تو پھر لوگوں کو زید کی شکایت کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے ناراض امام کی امامت
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 865):
“(وإمام قوم) أي: الإمامة الكبرى، أو إمامة الصلاة (وهم له) : وفي نسخة: لها، أي الإمامة (كارهون) أي: لمعنى مذموم في الشرع، وإن كرهوا لخلاف ذلك، فالعيب عليهم ولا كراهة، قال ابن الملك: أي كارهون لبدعته أو فسقه أو جهله، أما إذا كان بينه وبينهم كراهة وعداوة بسبب أمر دنيوي، فلا يكون له هذا الحكم. في شرح السنة قيل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنة فاللوم على من كرهه، وقيل: هو إمام الصلاة وليس من أهلها، فيتغلب فإن كان مستحقاً لها فاللوم على من كرهه، قال أحمد: إذا كرهه واحد أو اثنان أو ثلاثة، فله أن يصلي بهم حتى يكرهه أكثر الجماعة”.
وفيه أيضاً (3/ 866):
“(من تقدم) أي للإمامة الصغرى أو الكبرى (قوماً) : وهو في الأصل مصدر قام فوصف به، ثم غلب على الرجال (وهم له كارهون) أي لمذموم شرعي، أما إذا كرهه البعض فالعبرة بالعالم ولو انفرد، وقيل: العبرة بالأكثر، ورجحه ابن حجر، ولعله محمول على أكثر العلماء إذا وجدوا، وإلا فلا عبرة بكثرة الجاهلين، قال تعالى: ﴿وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ [الأنعام: 37]” .
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 559):
“(ولو أم قوماً وهم له كارهون، إن) الكراهة (لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة منه كره) له ذلك تحريماً؛ لحديث أبي داود: «لا يقبل الله صلاة من تقدم قوماً وهم له كارهون». (وإن هو أحق لا)، والكراهة عليهم”.
الفتاوى الهندية (1/ 87):
“رجل أم قوماً وهم له كارهون إن كانت الكراهة لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة يكره له ذلك، وإن كان هو أحق بالإمامة لا يكره. هكذا في المحيط؛
وتجوز الصلاۃ خلف کل بر وفاجر یہ ہے ناراض امام کی امامت
لقولہ علیہ السلام صلوا خلف کل بر وفاجر
ولان علماء الامۃ کانوا یصلون خلف الفسقۃ واھل الاھواء والبدع من غیر نکیر
اور نماز جائز ہے ہر نیک وبد کے پیچھے ،حضور اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرمان کی وجہ سے کہ ہر نیک وبد کے پیچھے نماز پڑھو
اسلئے کہ علماء امت نماز پڑھتے تھے فاسقوں اور اہل اہواء اور اہل بدعت کے پیچھے بغیر نکیر کے
شرح عقائد نسفی ص 632/633
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری برکاتی بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں ناراض امام کی امامت کے متعلق
احادیث صحیحہ میں ہے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں ؛ثلثۃ لاترفع صلاتھم فوق رؤسھم شبرا رجل ام قوما وھم لہ کارھون الحدیث
تین شخصوں کی نماز قبول نہیں ہوتی ایک وہ کہ کسی جماعت کی امامت کرے اور انھیں اس کی اقتداء ناگوار ہو
تو با آنکہ مقتدیوں کے دل میں کراہت ہے اور ناگواری کے ساتھ اس کے مقتدی ہوئے ان نماز میں نقص نہ فرمایا بلکہ امام کی نماز میں جب کہ ان کی کراہت بوجہ شرعی ہو ،ورنہ وبال ان پر ہے
فتاویٰ رضویہ ج 6ص 521
واللہ تعالیٰ ورسولہ الامی اعلم
کتبہ محمد ظہیر احمد نعمانی خادم دارالافتاء دارالعلوم انیس الغرباء مقام راجا پرسونی تھانہ راجا پرسونی ضلع سیتامڑھی بہار الھند :ساکن پرسنڈی تھانہ پریہار ضلع سیتامڑھی 12/11/2022