مکمل تفصیل وتشریح ضرور پڑھیں میں گدا ہوں اپنے کریم کا اگر مزہ نہ آئے تو کہنا اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کی شاعری میں گدا ہوں اپنے کریم کا پر بات کرنے کے لیے ان گنت جہتوں کو سامنے رکھنا پڑتا ہے ، یہی سبب ہے کہ آج تک کسی ایک فرد نے آپ کی شاعری کی تمام جہتوں کا احاطہ نہیں کیا ، ایسا نہیں کہ اہلِ صلاحیت نہیں رہے ، نہ ہی ایسا ہے کہ لکھنے والے نہیں رہے ، بلکہ مشکل یہ ہے کہ اس کام کے لیے اتنا وقت دینے کی گنجائش ہی نہیں نکلتی ، اسی وجہ سے لکھنے والوں نے ایک ایک جہت کا انتخاب کرلیا اور اس پر اپنی قابلیت و استعداد اور اپنے وقت و وسائل کے پیشِ نظر جو اور جتنا مناسب سمجھا ، لکھا ، لیکن شاعری پر بات کرنے سے پہلے شعر کے شرف و تقدس پر بات کرنا میں مناسب سمجھتا ہوں ، کیونکہ یہ کڑی اختصاریۂ تعارف کی آخری کڑی سے جڑی ہوئی ہے
میں گدا ہوں اپنے کریم کا
شرف و تقدیسِ سخن :
اشرافِ اقلیمِ سخن کا یہ طرۂ امتیاز ہے کہ وہ شعر کو بیچتے نہیں ، لیکن پھر بھی جب ہم تاریخ کے اوراق الٹ پلٹ کرتے ہیں تو فکر و تخیل کی دنیا کے بڑے بڑے نام سامنے آتے ہیں جنہوں نے شعر جیسے شہ کلام کو بدصورت حبشی غلاموں سے بھی زیادہ سستا بیچا ، اور بعضوں نے ایک ایک حرف کی جواہراتِ بیش قیمت کے بدلے مشتریوں سے بیع کی ، چاہے وجہ کوئی بھی رہی ہو ، بہرحال شعر کی عظمت و تقدیس کا سودا ضرور ہوا
اگر آپ تاریخِ عرب پر نظر ماریں تو لاتعداد شعرا اس آفت میں مبتلا نظر آئیں گے ، جیسا کہ نابغہ ذبیانی کو دیکھ لیجیے
یہ عرب شعرا کا باپ تصور کیا جاتا ہے ، نابغہ نے بادشاہوں کی مدح کی ، اپنے سخن پر انعام و اکرام حاصل کیا ، نعمان بن منذر کے سامنے سر خم کیا ، بادشاہوں نے اس پر خزانوں کے منہ کھول دئیے ، اس کا کھانا پینا سونے اور چاندی کے برتنوں میں ہونے لگا ، لیکن اس کے باوجود اس کی اس حرکت کی وجہ سے اشرافِ عرب نے اسے میلی آنکھ سے دیکھا
ابو عمرو بن العلاء سے کسی نے پوچھا
نابغہ نے نعمان کے سامنے کیوں اظہارِ عجز کیا ؟
اس نے جواب دیا
,, نعمان کے عطیوں اور اصیل اونٹوں کے لالچ میں ،،
اسی طرح زہیر بن سلمی کو دیکھیے جس نےتھوڑے سے مال کے عوض قیمتی ترین فکر و تخیل ہرم بن سنان کے قدموں میں ڈھیر کردئیے
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زہیر بن سلمی کی بیٹی سے پوچھا
وہ دو چادریں کہاں ہیں جو تمہارے باپ کو ہرم بن سنان نے دی تھیں ؟
اس کی بیٹی نے کہا
زمانے نے انہیں بوسیدہ کردیا
اس پر حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا
,, لیکن جو لباس تمہارے باپ نے ہرم کو پہنایا تھا اسے زمانے نے بوسیدہ نہیں کیا ،،
ایک مرتبہ حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ نے ہرم بن سنان کے بیٹے سے کہا
مجھے وہ اشعار سناؤ جو زہیر نے تمہارے بارے میں کہے تھے
اس نے وہ اشعار سناے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، تمہارے متعلق وہ کیا خوب کہتا تھا
اس نے جواب دیا ، ہم بھی اسے کیا خوب عطیے دیا کرتے تھے
حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا
,, جو کچھ تم نے اسے دیا تھا وہ تو جاتا رہا ہے ، اور جو کچھ اس نے تمہیں دیا وہ باقی ہے ، یہ سب پڑھیں تب معلوم ہوگا میں گدا ہوں اپنے کریم کا
اسی طرح اعشیٰ کو دیکھیے
جسے اہلِ عرب صنّاجۃ العرب کہتے ہیں ، جس نے شاعری کو تجارت بنا کر رکھ دیا تھا ، یہاں تک کہ عرب سے نکل کر وہ ایران کے بادشاہ کے پاس پہنچا ، اس کی شان میں قصیدے کہے اور اس انعام و اکرام سے نوازا گیا جس کی طمع کے لیے اس نے صحراؤں کی خاک چھانی تھی
پھر ذرا آپ حطیّہ کو بھی دیکھیے
جس نے شعر کو کاسہ بنایا اور بھیک مانگنے کی حد کردی ، اس نے اس عمل سے اپنے خاندان کی عزت کو خاک میں ملا دیا
اور اگر آپ تاریخِ فارس پر نظر ماریں تو ایسے شعرا کا وہ باب کھل جاتا ہے جسے پڑھتے پڑھتے آنکھیں تھک جاتی ہیں اور زبانیں لڑکھڑا جاتی ہیں
ذرا فردوسی کو ہی دیکھ لیں
محمود غزنوی کے دربار میں شعر کی عظمت کا سودا کرتا نظر آتا ہے ، اگرچہ اس کے ساتھ درباری انصاف نہ ہوا لیکن عزتِ سخن تو لٹی !
رودکی کو دیکھ لیں
جسے تاریخ نے ایک درباری شاعر کی حیثیت سے مغلوب کردیا
آذری اصفہانی کو دیکھ لیں
جس نے احمد شاہ بہمنی کی تعمیر کردہ عمارت دارالامارہ کی ستائش میں اشعار کہے جس پر احمد شاہ بہمنی نے اس وقتوں میں اسے ساٹھ ہزار روپے انعام دیا
اور پھر ذرا جغرافیہ اردو بھی ملاحظہ کرلیں
کیا آپ نے استاذ ابراہیم ذوق دہلوی کے قصائد نہیں پڑھے ؟ جو اس نے بہادر شاہ ظفر کی شان میں کہے یہ وہی ذوقٓ ہیں جنہیں ایک قصیدے پر بادشاہ نے پورا گاؤں جاگیر میں دے دیا تھا
اور پھر حضرتِ غالب کا حال بھی ملاحظہ کرلیں ، اس سے زیادہ پستی کا عالم کیا ہوگا کہ بادشاہ نے کھانے کو دال بھیج دی تو دال کی تعریف میں فکر و تخیل کا ضیاع کر دیا ، کہتے ہیں
بھیجی ہے جو مجھ کو شہِ جمجاہ نے دال
ہے لطف و عنایاتِ شہنشاہ پہ دال
یہ شاہ پسند دال بے بحث و جدال
ہے دولت و دین و دانش و داد کی دال
مختصر یہ کہ ان تمام واقعات کو پڑھیے ، پھر ان کے محرکات کو پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ ہر کسی کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ تھی جس نے اسے بربطِ درباری بننے پر مجبور کیا ، اب یہاں سوال یہ ہوتا ہے کہ اعلیحضرت رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی راجے مہاراجے تو تھے ، نواب اور امیر بھی تھے ، لیکن اعلیٰ حضرت نے اس وادئ پر عیب میں قدم کیوں نہ رکھا ؟ اس کا جواب خود اعلیحضرت رضی اللہ عنہ دیتے ہیں ، فرماتے ہیں
,, جب سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تڑپاتی ہے
تو میں نعتیہ اشعار سے بے قرار دل کو تسکین دیتا ہوں
ورنہ شعر و سخن میرا مذاقِ طبع نہیں ،،
یہی وجہ تھی کہ جب نواب آف ریاستِ نان پارہ نے خواہش کی کہ مولانا میرے لیے کچھ اشعار کہہ دیں تو آپ نے اس کی اس خواہش کو تیغِ مدحِ رسول سے ذبح کردیا ، اسی وقت ایک نعت لکھی جس کے مقطع میں کہا
کروں مدح اہلِ دول رضآ پڑے اس بلا میں مری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا مرا دین پارۂ ناں نہیں یہ ہے میں گدا ہوں اپنے کریم کا
اقتباس از : مقدمۂ مفاتیح الالہام شرح سلام الامام
بندۂ لاشئ
میرزا امجد رازی