میلاد کی شرعی اور تاریخی حیثیت دلائل کی روشنی میں

میلاد کی شرعی اور تاریخی حیثیت کو میلاد منانے سے پہلے ضرور جاینں برادران اسلام: مسلمانان عالم کی ایک اچھی خاصی تعداد ر سال 12 ربیع الاول کو رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) کا جشن پیدائش عید میلاد النبی (صلى الله عليه و سلم) کے نام سے منائی جاتی ہے۔اور اس موقعے پر جن رسوم ورواج کا التزام کیا جاتا ہے جن کا دین اسلا م سے کئی تعلق نہیں ہے۔ اور اس قسم کا میلاد کا ثبوت قرآن وحدیث میں نہیں ہے بلکہ یہ ساتویں صدی میں مروج ہوا ہے جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے۔ اس لئے موجودہ مروجہ میلاد کے حقیقت بارے اس مختصر مضمون میں روشنی ڈالی گی ہے۔

میلاد کی شرعی اور تاریخی حیثیت

عید میلاد کو لوگ مولود بھی کہا جا تا ہے۔مولود کے لفظی معنی پیدائش ہے اور اس کو عید میلادبھی کہا جا تا ہے۔ میلاد کی شرعی اور تاریخی حیثیت کو سمجھیں اسلام میں عیدیں صرف دو ہیں،عید الفطر اور عید الاضحی۔اس کے علاوہ کسی عید کو اسلام نے مشروع قرار نہیں دیا۔مگر ملت کے ایک طبقہ نے اپنی طرف سے ایک اور عید کا اضافہ کردیا ہے اور وہ ہے عید میلاد النبی۔ نبی (صلى الله عليه و سلم)کی پیدائش کے دن کو عید کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اور اس تقریب کا انعقاد کرنے والے اسے کار ثواب سمجھ کر کرتے ہیں۔جگہ جگہ جلوس نکالتے ہیں گلی کوچوں کو کو چراغاں کیا جا تا ہے کھانے پکانے کابھی خوب خوب اہتمام کیا جاتا ہے حالانکہ یہ کام صحابہ کرام،تابعین عظام، اور ائمہ دین میں سے کسی نے بھی نہیں کیا،نہ کسی نے اس کا حکم دیا۔میلاد منانا سراسرعیسائیوں کی تقلیدہے اس لئے عیسائی مسیح عیسی علیہ السلام کی ولادت کا دن مناتے ہیں۔میلاد کی شرعی اور تاریخی حیثیت عیسائیوں کے کرسمس کو دیکھا دیکھی مصری فاطمیوں نے جشن میلاد کو رواج دیا ہے۔ ابن خلقان کے قول کے مطابق میلاد کی مجالیس ومحافل اور اس کا جشن ساتویں صدی ہجری کے شروع تقربیا604ہجری میں سب سے پہلے منا یا گیا ہے۔ اس کا اول موجد الملک مظفر الدین المتوفی630 ہجری ہے۔

تاریخ ولادت میں اختلاف

آپ (صلى الله عليه و سلم) کا یوم پیدائش یقینی طور سے معلوم نہیں مورخین کی درمیان تار یخ میں اختلاف ہے۔کوئی ۹ ربیع الاول بتاتا ہے توکوئی12 ربیع لاول تو کوئی اور تاریخ بتاتاہے۔ان سب تاریخوں میں ۸ یا ۹ربیع الاول زیادہ رائح ہے۔ میلاد کی شرعی اور تاریخی حیثیت اس سے معلوم ہوگیا ہوگا

تاریخ وفات

12ربیع الاول کو آپ (صلى الله عليه و سلم) کی وفات ہوئی ہے جیسا کہ معروف کتب تاریخ وسیر نے بیان کیا ہے۔ اس لئے اس دن مسرت کا اظہار سخت نا مناسب با ت ہے۔ آپ (صلى الله عليه و سلم) اپنی نبوت کے بعد23سال زندہ رہے لیکن آپ (صلى الله عليه و سلم) نے کبھی بھی محفل میلا د منعقد نہیں کی نہ آپ (صلى الله عليه و سلم) نے ان کا اہتمام کیا تہ تابعین اور تبع تابعین اور دیگر فقہاء اور محدثین (ائمہ اربعہ)کے قول وعمل سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ اسلام کے ابتدائی 625 برس تک موجودنہ تھی۔

اسلام میں یوم ولادت اور یوم وفات منانے کا کوئی حکم نہیں🔥

اسلام میں یوم پیدائش منانا ثابت نہیں ہے پھر ہم کس کس کی یوم پیدائش منائیں میلاد کی شرعی اور تاریخی حیثیت اس سے بھی اجاگر ہوجاتا ہے۔ صحابہ کرام ائمہ دین کی محفل میلاد قائم کی جائیں تو ایک دن میں کئی کئی بار محفلیں قائم کرنی پڑے گی۔اسی طرح اگر یوم وفات پر اعراس کا انعقاد کیا جائے تو ایک ہی دن میں متعدد بار خوشی اور غم کی محفلیں قائم کرنا پڑیں گی۔اسی لئے اسلام نے کسی انسان کوحکم نہیں دیا۔چنانچہ دور رسالت سے لے کر عصر مجتہدین کے مبارک زمانے میں ان اشیاء کا قطعا ثبوت نہیں ہے۔

محبت کا معیار

محبت کا معیار نعرہ بازی نہیں اور نہ عشق کا تقاضہ ریاکاری اور دکھلاوا ہے۔ہمارے برصغیر پاک وہند میں عید میلاد منانے والے نماز جمعہ نہیں پڑھیں گے۔ باجماعت نماز میں شامل نہیں ہو نگے۔میلاد کی جلوس میں ضرور شامل ہو نگے۔نماز جو فرض ہے اس کو بھلا دیا لیکن جلوس جس کے دین میں کوئی اصل نہیں ضروری اور اہم قرار دیا۔میلاد نبی کے جشن منانے پر بے دریغ خرچ کئے جاتے ہیں۔کیا یہ فضول خرچی نہیں؟کیا یہ آپ (صلى الله عليه و سلم) سے محبت کا اظہار ہے؟آپ (صلى الله عليه و سلم) سے محبت رکھتا ہے تو زندگی بھر آپ کی سنت پر عمل کریں۔صرف سال میں ایک دن اظہار محبت کریں اور وہ بھی آپ (صلى الله عليه و سلم)کی شریعت کے خلاف۔

6شیخ بن باز ؒکا فتوی

اس سلسلہ میں شیخ عبدالعزیز بن باز ؒ لکھتے ہیںمیلاد کی شرعی اور تاریخی حیثیت پر “ولادت نبوی (صلى الله عليه و سلم) کی مناسبت سے ماہ ربیع الاول کی بارھویں رات،اور دیگر راتوں میں مسلمانوں کے لئے میلاد النبی کے اجتماع کا اہتمام کرنا جائز نہیں ہے۔اسی طرح ان کے لئے غیر نبی کی ولادت کے اہتمام میں اجتماع کرنا بھی جائز نہیں،کیوں کہ نبی (صلى الله عليه و سلم)نے اپنی پوری حیات میں کبھی بھی ولادت کا جشن نہیں منایا اور نہ آپ نے اس کا حکم دیا،اور نہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کے خلفاء راشدین اور نہ صحابہ کرامؓ اجمین نے اس کو کیا جس کے دور کو خیر القرون کا دور کہا جاتا ہے، معلوم ہوا کہ یہ بدعت ہے اور نبی (صلى الله عليه و سلم) نے فرمایا “جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کی حو اس میں نہیں وہ مردود ہے “جشن میلادالنبی آپ (صلى الله عليه و سلم) کے دین سے نہیں بلکہ یہ ان بدعات میں سے ہے جس کو بعد کے ادوار میں لوگوں نے دین میں ایجاد کرلیا لہذا یہ مردود ہو گا یہ ہے میلاد کی شرعی اور تاریخی حیثیت(فتوی کتاب الدعوۃ شیخ عبدالعزیز عبداللہ بن باز)۔

میلاد کی شرعی اور تاریخی حیثیت کا خلاصہ

👈ہماری دعوت صرف قرآن وحدیث کی طرف رہنمائی ھے فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر ہمارے پیج کو لائیک کریں اور ہماری دعوت پوری دنیا میں پہنچانے کے لیے ہمارا ساتھ دیں جزاکم اللہ

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x