سوال ۲۲)مجلس میلاد میں ذکر ولادت کے وقت قیام کیا جاتا ہے ۔ اس کی وضاحت مطلوب ہے ! کہ میلاد میں قیام میں کیسا ہے اور یہ کس وقت ہونا چاہیے
(الجواب)یہ بھی بے اصل ہے ۔ آنحضرت ﷺ کے ارشاد اور تابعین وتبع تابعین کے قول و فعل سے ثابت نہیں ہے تو ا س کا التزام بھی بدعت ہے۔ سیرت شامی میں ہے کہ کچھ لوگوں کی عادت ہوگئی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ذکر ولادت کی وقت آپ کے لئے قیام کرتے ہیں ۔ لیکن درحقیت یہ بدعت ہے جس کی کوئی اصل نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ مروجہ مجلس میلاد کی طرح قیام بھی بے اصل ہے ۔ یعنی کہ میلاد میں قیام بالکل درست نہیں ہے اگر قیام کا مقصد ذکر ولادت شریفہ کی تعظیم ہے تو خطبوں اور وعظون کی مجلس میں یا تفسیر قرآن و احادیث پڑھتے پڑھاتے گھنٹوں تک آپ کی ولادت کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے اس وقت قیام کیوں نہیں کرتے؟
اگر قیام کرنے والوں کا اعتقاد ہو کہ مجلس میلاد میں آنحضرت ﷺ تشریف لاتے ہیں یا تشریف لاتے ہیں یا تشریف آوری کا احتمال ہے اس لئے قیام کرتے ہیں تو مذکورہ بالا مواقع مجلس میں آپ کیوں تشریف نہیں لاتے ؟ اگر تشریف فرما ہوتے ہیں یا اس کا احتمال ہے تو پھر یہاں کیوں قیام نہیں کرتے ۔ بہر حال ذکر میلاد کے وقت قیام کا التزم بدعت ہے میلاد میں قیام صحیح بات نہین ہے اس سے اجتناب ضروری ہے !
ترمذی شریف میں ہے ۔ میلاد میں قیام اس سے جانیں
عن بن عبداﷲ بن مغفل قال سمعنی ابی وانا فے الصلوٰۃ اقول بسم اﷲ الرحمن الرحیم فقال لی ای بنی محدث ایاک والحدث قال ولم ار احداً من اصحاب رسول اﷲ ﷺکان ابغض الیہ الحدث فی الا سلام یعنی منہ۔
حضرت عبداﷲ بن مغفل رضی اﷲ عنہ کے صاحبزادے نے نماز میں سورۂ فاتحہ کے شروع میں بسم اﷲ بالجہر پڑھی تو حضرت عبداﷲ بن مغفل بولے اے میرے پیارے بیٹے! یہ بدعت ہے اس سے بچتے رہو ۔ میں نے صحابۂ کرام میں سے کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ کسی چیز سے اس قدر عداوت رکھتے ہوں جتنا وہ بدعت سے رکھتے تھے۔ (ترمذی شریف ج۱ ص ۳۳ باب ماجاء فی ترک الجھر ببسم اﷲ الرحمن الرحیم)
میلاد میں قیام پردلائل
ملاحظہ فرمایئے کہ بسم اﷲ سراً (آہستہ ) پڑھنے کے بجائے جہراً (زور سے ) پڑھنے کو صحابی نا پسند فرماتے ہیں اور بدعت کا فتویٰ دیتے ہیں ۔ اور استدلال فرماتے ہیں کہ:۔
وقد صلیت مع النبی ﷺومع ابی بکر و عمر و مع عثمان فلم اسمع احداٍ منھم یقولھا فلا تقلھا اذا انت صلیت فقل الحمد ﷲ رب العلمین۔
یعنی۔ میں نے حضورﷺ ابو بکر ، عمر ، عثمان ہر ایک کے ساتھ نماز پڑھی ہے کہ کسی کو بسم اﷲ بالجھر پڑھتے نہیں سنا! (ایضاً)
عن نافع ان رجلا عطس الی جنب ابن عمرؓ فقال الحمد اﷲ والسلام علے رسول اﷲ فقال ابن عمر ؓ وانا اقول الحمد ﷲ والسلام علی رسول اﷲ ولیس ھکذا علمنا رسول اﷲ علمنا ان نقول الحمد ﷲ علیٰ کل حال!
حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ ابن عمر ؓ کے سامنے ایک شخص کو چھینک آئی اس پر اس نے کہا الحمد ﷲ والسلام علی رسول اﷲ ۔ حضرت ابن عمر ؓ نے والسلام علے رسول اﷲ کے اضافہ کو ناپسند فرماتے ہوئے کہا کہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں ا س موقع پر صرف ’’ الحمد ﷲ علے کل حال‘‘ کہنے کی تعلیم فرمائی ہے اور بس !(ترمذی شریف ص ۹۸ باب مایقول العاطس اذا عطس)
جو صحابہ ؓ اس قدر زیادتی کو برداشت نہیں کرسکتے کیا وہ قیام کے اضافہ کو گوارا کریں گے ؟ ہر گز نہیں ! خصوصاً ایسی حالت میں کہ ’’ لم یقوموا لما یعلمون من کراھیۃ لذلک‘‘۔
حضورﷺ کی آمد پر صحابہ بطور ادب کھڑے ہوجاتے تھے آپ ﷺ نے اس تکلف کو ناپسند فرمایا لہذا صحابہ پھر کبھی کھڑے نہیں ہوئے ۔شمائل ترمذی وغیرہ )
خلاف پیمبر کسے رہ گزید
کہ ہر گز بمنزل نخواہد رسید
پندار سعدی کہ راہ صفا
تو اں یافت جز درپے مصطفیٰ