میلاد مصطفی کی شرعی حیثیت

میلاد مصطفی اورمعمولات رضا یعنی کہ میلاد مصطفی کی شرعی حیثیت علمائے اعلام کے نزدیک کیسا ہے دنیا کے بڑے بڑے علمائے اعلام اور محققین نے میلاد مصطفی پر کیا کچھ کہا ہے ان سب کو یہاں نقل کیا جارہا ہے
از:مفتی محمد عبدالرحیم نشترؔفاروقی
ایڈیٹر ماہنامہ سنی دنیا و مفتی مرکزی دارالافتا، بریلی شریف
سرکار ابد قرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یوم میلاد بنانا اہل ایمان کا شیوہ رہاہے، عید میلادالنبی ﷺمنانا دراصل تحدیث نعمت الٰہیہ ہے، جس کاحکم ہمیں خود رب کائنات جل شانہ نے فرمایا، چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
’’وامابنعمت ربک فحدث۔ یعنی اپنے رب کی نعمتوں کاخوب خوب چرچا کرو۔‘‘(سورۂ والضحیٰ ،پ۳۰؍آیت ۱۰-۱۱)
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے ہمیں اپنی دی ہوئی نعمتوں کاچرچاکرنے کاحکم دیاہے ،مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ کی عطا فرمودہ تمام نعمتوں میں سب سے عظیم الشان نعمت ’’مصطفےٰ جان رحمت‘‘صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہے ،اللہ رب العزت نے ہمیں یہ نعمت غیر مترقبہ عطا فرمائی، اس لئے ہمیں چاہئے کہ اللہ رب العزت کی اس عظیم نعمت کاخوب خوب چرچا اور اس کا تذکرہ کریں، کیوںکہ خالق کائنات کا مصطفےٰ جان رحمت ﷺکوہم انسانوں میں مبعوث فرماناہم پرایک ایسااحسان ہے جس کااظہاراللہ رب العزت نے یوں فرمایاہے:
’’لقدمن اللہ علی المؤمنین اذبعث فیہم رسولاًمن انفسہم۔یعنی بے شک اللہ کابڑا احسان ہوامسلمانوں پرکہ ان میں انھیں میں سے ایک رسول بھیجا۔‘‘(سورۂ آل عمران، پ۴؍آیت۱۶۴)


اورحدیث پاک میں ہے میلاد مصطفی کی شرعی حیثیت کہ جس کے ساتھ احسان کیاجائے، اس کوچاہئے کہ اس کابدلہ دے یالوگوں میں اس کا ذکر کیا کرے، چناںچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ
’’رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس کے ساتھ نیکی کی جائے یعنی جس پراحسان کیاجائے اسے چاہئے کہ اس کابدلہ دے، اگراس کی طاقت نہیں رکھتا تو اس کوچاہئے کہ اس کا ذکر کرے، بے شک جس نے اس کا ذکر کیا تو یقینی طور پر اس نے شکر ادا کیا۔‘‘(بیہقی)
ظاہرہےکہ ہم نحیف وناتواں تو کیا دنیا کا کوئی بھی بڑا سے بڑا انسان اپنے رب کے احسان کابدلہ ہرگز ہرگز نہیں چکا سکتا، تولامحالہ عافیت وسعادت اسی میں ہے اور احسان مندی کاتقاضہ بھی یہی ہے کہ اپنے رب کا شکر بجا لا یاجائے اوراس کی اس بے مثال نعمت کاخوب چرچا کیا جائے ۔

امام احمد رضا خان میلاد مصطفی کی شرعی حیثیت

امام احمدرضاتاریخ ولادت مصطفےٰ ﷺسے متعلق ارشادفرماتے ہیں:
’’اس میں اقوال بہت مختلف ہیں، دو، آٹھ، دس، بارہ، سترہ، اٹھارہ، بائیس، سات قول ہیں مگر اشہر و اکثر و ماخوذ و معتبر بارہویں ہے۔ مکۂ معظمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ کو مکانِ مولدِ اقدس کی زیارت کرتے ہیں کما فی المواہب والمدارج اور خاص اس مکانِ جنت نشان میں اِسی تاریخ کو مجلس میلادِ مقدس ہوتی ہے، علامہ قسطلانی و فاضل زرقانی فرماتے ہیں: اَلْمَشھُوْرُ اَنَّہ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وُلِدَ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ ثَانِیَ عَشَرَ رَبِیْعِ الْاَوَّلِ وَھُوَ قَوْلُ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقِ اِمَامِ الْمَغَازِیْ وَغَیْرِہ (یعنی : مشہور یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بارہ ربیع الاول بروز پیر پیدا ہوئے، امام المغازی محمد بن اسحاق کا یہی قول ہے۔شرح الزرقانی علی المواہب الدنیۃ، دار المعرفۃ بیروت1/132)‘‘(فتاوٰی رضویہ، جلد: 26، صفحات: 411 تا 412)

محفل میلاد اورامام قسطلانی

اس موقع پرمسرت وشادمانی کااظہاراہل ایمان کاشیوہ ہے، میلاد مصطفی کی شرعی حیثیت کو سمجھیں چناںچہ شارح بخاری حضرت امام قسطلانی قدس سرہ الربانی لکھتے ہیں:
’’ربیع الاوّل چونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادتِ باسعادت کا مہینہ ہے، لہٰذا اس میں تمام اہلِ اسلام ہمیشہ سے میلاد کی خوشی میں محافل کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں، اس کی راتوں میں صدقات اور اچھے اعمال میں کثرت کرتے ہیں، خصوصاً ان محافل میں آپ کی میلاد کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں حاصل کرتے ہیں، محفل میلاد کی یہ برکت مجرب ہے کہ اس کی وجہ سے یہ سال امن کے ساتھ گزرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس آدمی پر اپنا فضل و احسان کرے جس نے آپ کے میلاد مبارک کو عید بناکر ایسے شخص پر شدّت کی جس کے دل میں مرض ہے۔‘‘ (المواہب اللدنیہ،ج 1؍ص27)

محقق دہلوی

حضرت شیخ عبدالحق محدّث دِہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: میلاد مصطفی کی شرعی حیثیت پر
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے مہینے میں محفلِ میلاد کا انعقاد تمام عالم اسلام کا ہمیشہ سے معمول رہا ہے، اس کی راتوں میں صدقہ خوشی کا اظہار اور اس موقع پر خصوصاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر ظاہر ہونے والے واقعات کا تذکرہ مسلمانوں کا خصوصی معمول ہے۔ (ماثبت بالسنہ،ص102)

امام جمال الدین اور محفل میلاد

امام جمالُ الدّین الکتانی لکھتے ہیں: میلاد مصطفی کی شرعی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے
’’حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت کا دن نہایت ہی معظم، مقدّس اور محترم و مبارک ہے، آپ کا وجودمسعود اتباع کرنے والوں کے لئے ذریعۂ نجات ہے، جس نے بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا اس نے اپنے آپ کو جہنّم سے محفوظ کرلیا، لہٰذا ایسے موقع پر خوشی کا اظہار کرنا اور حسبِ توفیق خرچ کرنا نہایت ہی مناسب ہے۔‘‘(سبل الہدیٰ والرشاد، ج1،ص364)
چودھویں صدی ہجری کے بعدامام احمدرضاجیساعاشق رسول چشم فلک نے نہیں دیکھا، آپ کی تحریر ہو یا تقریر، نثر ہو یا نظم، فتویٰ ہو یا تقویٰ، قول ہو یا فعل! ہر جگہ عشق رسول ﷺکے جلوے بکھرے نظر آتے ہیں، آپ عشق رسول کے اس اعلیٰ مقام پرفائزتھے جہاں ہرسو، ہرلمحہ، ہر آن رسول کردگار کے جمال وکمال کے جلوؤں کا نظارہ ہوتاہے، جس طرح امام احمدرضا کی نظم عشق رسول مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سوز وگداز سے لبریز ہے، اسی طرح نثر بھی گونا گوں عشق رسالت کی قندیلوں سے روشن ہے، الغرض عشق رسول مقبول کے رنگ وبو سے نظم و نثر دونوں یکساں معطر ہیں، امام احمدرضا کا یہ اصرار تھا کہ ع
ذکر ان کا چھیڑئے ہر بات میں
یہی وجہ ہے کہ آپ کی کوئی بھی تحریر عشق رسول کی چاشنی سے خالی نہیں، کیوں کہ حیات مومن کی اساس عشق رسول ﷺہے، بلکہ حیات ِایمان نام ہے عشق رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا، جیساکہ امام اہل سنت خود ارشاد فرماتے ہیں:
’’الآلاایمان لمن لامحبۃ لہ۔خبر دار! اس شخص کاایمان نہیں، جس کو نبی کریم سے محبت نہیں۔‘‘(خطبۂ رضویہ،ص)
بایں سبب آپ ہروقت نعت مصطفےٰ اور میلاد مصطفےٰ میں رطب اللسان نظرآتے تھے، حدیث قدسی ’’لَوْ لَاْکَ لَمَا خَلَقْتُ اْلَافْلَاکَ ‘‘ کی ترجمانی کرتے ہوئے یوں میلاد مصطفےٰ پڑھتے ہیں۔ ؎

میلاد مصطفی کی شرعی حیثیت پر اشعار

ہوتے کہاں خلیل و بنا کعبہ و منیٰ
لو لاک والے صا حبی سب تیرے گھر کی ہے
میلاد مصطفےٰ کا ایک یہ بھی انداز ملاحظہ فرمائیں: ؎
تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا
تیری ہیبت تھی کہ ہر بت تھر تھر ا کر گر گیا
تیری رحمت سے صفی اللہ کا بیڑا پار تھا
تیرے صدقے میں نجی اللہ کا بجرا تر گیا
بڑھ چلی تیری ضیااندھیر عالم سے گھٹا
کھل گیا گیسو تیرارحمت کا بادل گھر گیا
میلادمصطفےٰ کایہ اندازبھی عاشقان مصطفےٰ کے عشق کودوآتشہ کرنے والاہے ؎
بزم آخر کا شمع فروزاں ہوا
نور اوّل کا جلوہ ہمارا نبی
جس کو شایاں ہے عرش خدا پر جلوس
ہے وہ سلطان والا ہمارا نبی

اعلی حضرت اور میلاد مصطفی

امام احمد رضا اپنے رسالۂ مبارکہ ’’ختم النبوۃ ‘‘میں میلاد مصطفےٰ کی بشارت عظمیٰ پرمشتمل ایک واقعہ نقل فرماتے ہیں:
’’ابو نعیم بطریق شہربن کوشب اور ابن عساکر بطریق مسیب بن رازع وغیرہ حضرت کعب احبار سے راوی ہیں ،انہوں نے فرمایا میلاد مصطفی کی شرعی حیثیت :میرے باپ اعلم علمائے تورات تھے ، اللہ عزوجل نے جو کچھ موسیٰ علیہ السلام پر اتارا اس کا علم ان کے برابر کسی کو نہ تھا، وہ اپنے علم سے کوئی شئے مجھ سے نہ چھپاتے، میلاد مصطفی کی شرعی حیثیت کو مزید سمجھیں جب مرنے لگے، مجھے بلا کر کہا: اے میرے بیٹے! تجھے معلوم ہے کہ میں نے اپنے علم سے کوئی شئے تجھ سے نہ چھپائی مگر ہاں دو ورق روک رکھے ہیں، ان میں ایک نبی کا بیان ہے جس کی بعثت کا زمانہ قریب آپہنچا ہے، میں نے اس اندیشے سے تجھے ان دو ورقوں کی خبر نہ دی کہ شاید کوئی جھوٹا مدعی نکل کھڑا ہو اور تو اس کی پیروی کرے، یہ طاق تیرے سامنے ہے، میں نے اس میں دو ورق رکھ چھوڑے ہیں ،اوپر سے مٹی لگا دی ہے، ابھی ان سے تعرض نہ کرنا نہ انھیں دیکھنا، جب وہ نبی جلوہ فرما ہو اگر اللہ تیرا بھلا چاہے گا تو تو آپ ہی اس کا پیرو ہو جائے گا، یہ کہہ کر وہ مر گئے، ہم ان کے دفن سے فارغ ہوئے مجھے ان دو ورقوں کے دیکھنے کا شوق ہر چیز سے زیادہ تھا، میں نے طاق کھولا ورق نکالے تو کیا دیکھتا ہوں کہ ان میں لکھا ہے: محمد رسول اللہ خاتم النبین لا نبی بعدہ مولدہ بمکة و مہاجرة بطیبة—”( ختم النبوة ،ص ۱۷)
یہ توامام احمدرضانے نظم ونثرمیں حضورنبی کریم ﷺکی میلادبیان فرمائی اورعملی طور پر بھی آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب بارہ ربیع النورکی تاریخ آتی تونہ صرف اس حسین موقع پرپرُمغزخطا ب فرماتے بلکہ اپنے دولت کدے پرنہایت تزک واحتشام کے ساتھ محفل میلاد مصطفےٰ ﷺکاانعقادفرماتے، اہلیان شہر کو بہزارشوق دعوت دے کر مدعو فرماتے اوران کی پرتکلف ضیافت فرماتے تھے، حالاں کہ آپ کی مصروفیات دینی ایسی تھیں کہ تقاریر خطابات کے لئے وقت ہی نہیں بچتالیکن میلاد مصطفےٰ کی محفل کے لئے جیسے وقت ہی وقت تھا، خودہی اہتمام وانتظام بھی فرماتے اور خطاب بھی فرماتے، چناں چہ خلیفۂ اعلیٰ حضرت حضورملک العلمااس سلسلے میں تحریر فرماتے ہیں:
’’اعلیٰ حضرت کامعمول تھاکہ سال میں تین وعظ بہت زبردست فرمایا کرتے تھے، ایک سالانہ جلسۂ دستاربندی طلبائے فارغ التحصیل مدرسہ اہل سنت وجماعت مسجدبی بی جی محلہ بہاری پورمیں!دوسرا مجلس میلاد سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں! جوحضورکی طرف سے ہرسال۱۲؍ربیع الاوّل شریف کو دونوں وقت صبح آٹھ بجے اورشب کو بعد نماز عشاحضرت مولاناحسن رضاخان صاحب کے مکان میں کہ وہی آبائی مکان اعلیٰ حضرت کاہے، منعقد ہوتی تھی، جس میں شہر بھر کے عمائدومعززین مطبوعہ دعوت نامہ کے ذریعہ مدعو ہوتے اوراس مجلس کااہتمام اور وعظ کی اہمیت شہر بھر میں ایسی تھی کہ اس تاریخ کوکسی دوسری جگہ اہتمام وانتظام کے ساتھ مجلس نہیں ہوتی تھی، جملہ شائقین یہیں آکر شریک جلسہ ہوتے تھے تیسرا وعظ ۱۸؍ذی الحجۃ الحرام عرس سراپا قدس حضرت خاتم الاکابر، وارث العلم والمجد والفضل کابراًعن کابرٍحضرت سیدی ومرشدی شیخی جناب سیدشاہ آل رسول صاحب مارہروی قدس سرہ کے موقع پر!جواعلیٰ حضرت کے کاشانۂ اقدس پرانجام پاتاتھا۔
ان کے علاوہ کبھی کبھی اہل شہرکی دعوت اورعرض وتمنا پر بھی شہرکی بعض مجلس میلاد میں بیان فرمایا کرتے تھے، مگر ان تین جگہوں میں، تین موقعوں پر بالالتزام حضور کی تقریر ضرور ہوا کرتی تھی، افسوس کہ وہ سب مواعظ حسنہ قلم بندنہ کئے گئے ورنہ بیش بہا معلومات کاذریعہ اورعلمی دریا کے بیش بہا در بے بہا ہوتے۔‘‘ (حیات اعلیٰ حضرت ،جلداوّل،ص۳۵۶-۳۵۷) یہ ہے میلاد مصطفی کی شرعی حیثیت
مکرمہ معظمہ حضور پرانی امّی صاحبہ مدظلہاعلینا(اہلیہ محترمہ حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ)کا بیان ہے کہ اگر کوئی اعلیٰ حضرت کے بچوں کی شادی وغیرہ کی تقریب میں شریک نہیں ہوتا تو آپ اس کی کچھ پرواہ نہیں کرتے لیکن اگر کوئی۱۲؍ربیع النور کی محفل میلاد مصطفےٰ ﷺمیں شریک نہیں ہوتا توآپ اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار ضرور فرماتے اور کبیدہ خاطر ہوتے تھے،۱۲؍ربیع الاوّل کےموقع پرمحفل میلاد کے قیام کی اس روایت کو دو سو سال سے زائد کاعرصہ گزرگیا۔

مفتی اعظم ہند اور حجۃ الاسلام کا میلاد منانا

حضور اعلیٰ حضرت کے بعد آپ کے شہزادگان حضورحجۃ الاسلام، حضور مفتی اعظم اور آپ کے نبیرۂ معظم حضور مفسر اعظم ہندقدست اسرارہم نے بھی محفل میلاد مصطفےٰ کے اس مبارک و مسعود سلسلے کو قائم ودائم رکھا، اس کے بعد مرشدی ومربی، استاذی وملاذی حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختررضاخاںقادری نوری ازہری بریلوی قدس سرہ نےتاحین حیات یہ سلسلۂ زرّیں جاری رکھا، راقم الحروف خود ۲۷؍سالوں سے اس محفل مبارکہ کے انتظام وانصرام کاحصہ رہا ہے اور عید میلاد النبی ﷺکی اس تاریخی محفل کے لئے حضور تاج الشریعہ کے والہانہ ذوق و شوق کاعینی شاہد بھی، کئی کئی بار استفسار فرماتے کہ کیا دعوت نامے تیار ہوگئے؟کس کس کودعوت نامے گئے؟فلاں کو دعوت دی کہ نہیں؟اگر تبلیغی دورے پرہوتے تو بھی فون کرکے اس سلسلے میں معلومات حاصل فرماتے اور ہدایات صادر فرماتے۔

محفل میلاد اور تاج الشریعہ

حضور تاج الشریعہ ملک میں تبلیغی دورے پر ہوں یابیرون ملک میں! ۱۲؍ربیع الاوّل کی مبارک ومسعود تاریخ میں بہرحال بریلی شریف اپنے دولت کدے موجود ہوتے اورنہایت ہی ذوق وشوق، عقیدت ومحبت کے ساتھ اس محفل کا انعقاد فرماتے، راقم جب سے خدمت بابرکت میں ہے عید میلاد النبی ﷺکا کوئی ایسا موقع یاد نہیں جس میں حضور تاج الشریعہ بنفس نفیس موجودنہ رہے ہوں اور آج بھی یہ سلسلۃ الذہب شہزادہ وجانشین حضور تاج الشریعہ، قائدملت حضرت علامہ مفتی محمد عسجد رضا خاں قادری نوری بریلوی مدظلہ العالی اسی شان وشوکت اورجاہ وحشمت کے ساتھ جاری وساری رکھے ہوئے ہیں۔
اس ضمن میں یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ کاشانۂ تاج الشریعہ میں ہر پیر کی شب یعنی اتوار کا دن گزار کر شب میں یوم میلاد مصطفےٰ ﷺ کی مناسبت محفل میلادکا انعقاد مسلسل بلاناغہ ہوتا آرہا ہے، یہ روایت بھی خانوادۂ رضا میں تقریباً سو سالوں سے مسلسل چلی آرہی ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے حبیب پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے آپ کے شہزادگان کو اس سلسلۂ زرّیں اور اس مبارک روایت کو قائم ودائم رکھنے کی توفیق رفیق مرحمت فرمائیں
آمین

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x