کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسٔلہ کے بارے میں جو کہ میت پر چار اہم سوال ہیں کہ
(1️⃣)میت کو اتر دکھن یعنی اتر کی جانب سر دکھن کی جانب پیر کے بجائے پورب کی طرف سر اور پچھم کی طرف پیر کر کے لٹانا کیسا ہے؟
(2️⃣)میت کو نہلا دھلا کر کفن پہنانے کے بعد ٹوپی و سرمہ لگانا کیسا ہے؟
(3️⃣)زید نے نماز جنازہ سے پہلے اعلان کیا کہ حدیث پاک میں ہے کہ میت کے بارے میں تین شخص یا دو یا ایک شخص نے بھی اگر گواہی دی کہ میت نیک ہے ، نیک ہے ، نیک ہے جنتی ہے جنتی ہے جنتی ہے بظاہر میت گنہگار کیوں نہ ہو وہ جنتی ہوجائے گی۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
(4️⃣) میت کو دفن کرنے کے تین دن بعد ثواب و عذاب ، سزا و جزا کے فیصلے لیے جاتے ہیں کیا یہ بھی حدیث ہے ؟
برائے کرم قرآن اور حدیث کی روشنی میں مکمل و مفصل جواب عنایت فرمائیں کرم ہوگا
المستفتی: محمد اویس رضا قادری
اڈریس: اندرانگر قادرباغ حیدرآباد تلنگانہ اسٹیٹ
♦️♦️♦️⚡⚡⚡♦️♦️♦️♦️♦️
📚بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم📚
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میت پر چار اہم سوال کے جواب
📚 الجواب بعون الملک الوھاب 📚
👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻
(1️⃣)صورت مسٔولہ میں جواب یہ ہے کہ میت کے سر کو پورب طرف اور پیر قبلہ کی طرف لٹانا جائز ہے اس میں شرعا کوئی حرج و قباحت نہیں البتہ جب اس طرح میت کو لٹائیں تو سر کی جانب تھوڑا اونچا کردیں تاکہ میت کا چہرہ قبلہ کی طرف متوجہ رہے
((جیسا کہ حضور صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں))
جب موت کا وقت قریب آئے اور علامتیں پائی جائیں تو سنت یہ ہے کہ داہنی کروٹ پر لٹا کر قبلہ کی طرف منہ کردیں اور یہ بھی جائز ہے کہ چت لٹائیں اور قبلہ کو پاؤں کریں کہ یوں بھی قبلہ کو منہ ہوجائے گا مگر اس صورت میں سر کو قدرے اونچا رکھیں اور قبلہ کو منہ کرنا دشوار ہو کہ اس کو تکلیف ہوتی ہو تو جس حالت پر ہے چھوڑ دیں
((📚))فتاوی امجدیہ جلداول ،ص: ٣٣٢، فتاوی فقیہ ملت جلد اول، ص: ٢٧۵، بہار شریعت حصہ چہارم ،ص: ٨٠٨ ، دعوت اسلامی))_
امام اہلسنت ، اعلی حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ
میت کو نہلانے کے لیے جو تختے پر لٹائیں تو شرقا غربا لٹائیں کہ پاؤں قبلے کو ہوں یا جنوبا شمالا کہ داہنی کروٹ قبلہ کو ہو؟
((🖊️))تو اس کے جواب میں آپ رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
سب طرح درست ہے مذہب اصح میں اس باب میں کوئ تعیین و قید نہیں جو صورت میسر ہو اس پر عمل کریں
فی الھندیة عن الظھیریة کیفیة الوضع عند بعض اصحابنا الوضع طولا کما فی حالۃ المرض اذا ارادالصلوۃ بایماءومنھم من اختارالوضع کما یوضع فی القبر والاصح انما یوضع کما تیسر
یعنی: ہندیہ یعنی فتاوی عالمگیری میں ظہیریہ سے منقول ہے کہ ہمارے بعض علماء کے نزدیک لٹانے کی صورت یہ ہے طول میں لٹایا جائے جیسے بیماری کی حالت میں جب اشارے سے نماز پڑھنا چاہے تو یہی صورت ہے اور بعض حضرات نے عرض میں لٹانا پسند کیا ہے جیسے قبر میں لٹایا جاتا ہے اور اصح یہ ہے کہ جیسے میسر ہو لٹایا جائے اسی طرح بحرالرائق و درمختار وغیرھما میں ہے
((📚))فتاوی رضویہ ،جلد نہم ،ص:٩٢)
((درمختار مع شامی” میں ہے))
وعلامتہ استرخاء قدمیہ واعوجاج منخرہ وانخساف صدغیہ (القبلة)علی یمینہ ھو السنة (وجازالاستلقاء)علی ظھرہ (وقدماہ الیھا)وھوالمعتاد فی زماننا (و)لکن (یرفع راسہ قلیلا)لیتوجہ للقبلة (وقیل یوضع کماتیسر علی الاصح)صححہ فی المبتغی( وان شق علیہ ترک علی حالہ
((📚))جلدسوم ‘کتاب الصلاۃ ‘ باب صلاۃ الجنائز ‘ ص: ۹۱))
((📚)) البتہ اتر جانب سر اور دکھن جانب پیر کرلے لٹانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔لیکن جب میت کو اس طرح اتر دکھن جانب کرکے لٹائیں تو منہ قبلہ کی طرف کردیں
((2️⃣))فقہاءکرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین نے بعد مرگ ہر اس فعل سے منع فرمایا ہے جو داخل زینت ہو فلہذا میت کو سرمہ لگانا جائز و درست نہیں
((جیساکہ فتاوى شامى میں ہے))
” ان التزين بعد موتها والامتشاط وقطع الشعر لا يجوز”
((📚))فتاویٰ شامی جلد سوم، ص: ٨٩))
((🖊️))نیز مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ))
سرمہ سے زندوں کا سرمہ مراد ہے کیونکہ مردے کو سرمہ لگانا سنت نہیں
((📚))مرأة المناجيح جلد دوم ، ص: ۴٧٧))
((🖊️))اور عمدة المحققين حضرت علامہ مفتی حبیب اللہ اشرفی بھاگل پوری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ))
میت کو غسل دینے کے بعد سرمہ لگانا نہ چاہیے ،چوں کہ میت کو نہ زینت کی ضرورت ہے نہ آنکھوں کی حفاظت کی حاجت ہے لہذا یہ فعل عبث ہے۔ سرمہ میت کو ہرگز نہ لگایا جاۓ
((📚))حبیب الفتاوی جلد اول ،ص: ۵۴۵))
رہی بات ٹوپی کی تو خالص ٹوپی کے تعلق سے اب تک میرے ناقص مطالعہ سے کوئی فقہی عبارت نہیں گزری ہے ۔تاہم مجھ کم علم و فہم کے نزدیک صرف ٹوپی نہ لگانا ہی بہتر ہے کہ اس کی حاجت ہی نہیں ہے
ہاں میت اگر عالم یا شیخ کامل ہو توں تو اسے عمامہ پہنا سکتے ہیں کہ بعض فقھاء کرام علیھم الرحمة والرضوان نے کہا ہے کہ علماء ومشایخ کو عمامہ کے ساتھ دفن کرنا جائز ہے اور عوام کے لیے مکروہِ تنزیہی ہے
عامۃ الناس کو عمامہ کے ساتھ دفن نہ کریں ،لیکن اگر پہنادیا تو گنہگار نہیں ہوگا
((جیساکہ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے))
ترجمہ:’’صحیح ترین قول کے مطابق میت کے سر پر عمامہ باندھنا مکروہ ہے
((📚))بحوالہ’’مُجتبٰی‘‘))
اوربعض متاخرین نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ علمائے کرام ومشایخین عظام کے لیے عمامہ باندھنا مستحسن ہے اور (مرد کے کفن میں) تین کپڑوں سے زیادہ کرنے میں حرج نہیں ہے اور کفن اچھا بنانا چاہیے کیونکہ حدیث پاک میں ہے : مُردوں کے اچھے کفن بناؤ کیونکہ وہ باہم ملاقات کرتے ہیں اور اچھے کفن پر باہم فخر کرتے ہیں
((📚))بحوالہ: فتاوی ظھیریة))
اور خاتم المحققین حضرت علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اس سے قبل ’’المُجتبیٰ‘‘سے کراہت کو نقل کیا ہے ،لیکن ’’الحلیة‘‘ میں ’’الذخیرہ‘‘ کے حوالے سے ہے اوراُنہوں نے ’’عِصام‘‘ کی طرف منسوب کرتے ہوئے کہا: پانچ تک کپڑے مکروہ نہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں ، پھرکہا: اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھما نے اپنے بیٹے واقد کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا ،قمیص ، عمامہ اور تین لفافے اور عمامے کو اس کی ٹھوڑی کے نیچے سے گھمایا، اسے سعید بن منصور نے روایت کیا
((📚))حاشیہ ابن عابدین شامی، جلد پنجم ، ص: ٢٢٦ تا -٢٢٧، مطبوعہ دمشق ))
لیکن یہ بات یاد رہے کہ جہاں لوگوں کے لیے میت کو عمامہ پہنانا مانوس ہو ، تو ایسی جگہوں میں ایسی چیزوں کو اختلاف کا سبب نہ بنائیں حکمت و مصلحت سمجھائیں سمجھ جائیں تو فبھا ورنہ اس کے سبب کسی لعن طعن اور ملامت نہ کریں اس لیے کہ کسی امر مستحب پر اصرار اور اس کے ترک پر ملامت کرنا اسے واجب کا درجہ دینا ہے اوریہ درست نہیں ہے۔ اور اگر کوئی اپنے ذوق کے مطابق کر رہا ہے تو دوسروں کو اس پر بلاوجہ اعتراض نہیں کرنا چاہیے ،بہر حال عوام کے لیے یہ مکروہ تنزیہی ہے
((3️⃣))جی ہاں ! اس مفہوم کی ایک حدیث بخاری شریف میں موجود ہے لیکن اس حدیث میں ایک آدمی کی گواہی کا ذکر نہیں ہے چنانچہ
“عن أبي الأسود، قال: قَدِمْتُ المدينة، فَجَلَسْتُ إلى عمر بن الخطاب رضي الله عنه فَمَرَّتْ بهم جَنازة، فَأُثْنِيَ على صاحِبِها خيراً، فقال عمر: وجَبَتْ، ثم مَرَّ بأُخْرَى فَأُثْنِيَ على صاحِبِها خيراً، فقال عمر: وجَبَتْ، ثم مَرَّ بالثالثة، فَأُثْنِيَ على صاحِبِها شَرَّا، فقال عمر: وجَبَتْ، قال أبو الأسود: فقلت: وما وجَبَتْ يا أمير المؤمنين؟ قال: قلت كما قال النبي صلى الله عليه وسلم :
أيُّما مُسلم شَهِد له أربعة بخير، أدخله الله الجنة فقلنا: وثلاثة؟ قال: وثلاثة فقلنا: واثنان؟ قال: واثنان ثم لم نَسْأَلْهُ عن الواحد”۔ (رواه البخاري)
ابوالاسود فرماتے ہیں کہ میں مدینہ میں آیا تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ لوگوں کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی تعریف کی ، تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ پھر ایک اور جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کا بھی ذکرخير کيا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”واجب ہو گئی“۔ پھر تيسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی کی
اس بار بھی عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”واجب ہو گئی“
ابو الاسود کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اميرالمومنين کيا چیز واجب ہوگئی؟ انہوں نے جواب دیا: ميں نے وہی بات کہی ہے جو نبی ﷺ نے فرمائی ہے: یعنی ”جس مسلمان کے متعلق چار آدمی بھلائی کی گواہی دے ديں تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا“، ہم نے عرض کيا: اور تين لوگ (جس کےحق ميں گواہی ديں) تو؟ آپ ﷺ نے فرمايا: ”اور تين آدمی بھی“۔ ۔ہم نے عرض کيا: اور دو لوگ (جس کےحق ميں گواہی ديں)؟ تو آپ ﷺ نے فرمايا: ”اور وہ دو لوگ بھی“۔ پھر ہم نے آپ ﷺ سے ایک شخص کے بارے میں نہیں پوچھا
((اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے))
((4️⃣)) موت کے بعد میت (یعنی مرنے والے) کے ساتھ جو حالات پیش آتے ہیں انھیں احوالِ برزخ کہا جاتا ہے، اور انسان کے مرنے کے بعد برزخ میں سوالات جوابات کے بعد اچھے اعمال ہونے کی صورت میں جزا اور برے اعمال ہونے کی صورت میں سزا کا عمل شروع ہوجاتا ہے
میت کو دفن کرنے کے تین دن بعد ثواب وعذاب جزا و سزا کے فیصلے لئے جاتے ہیں ایسی کوئی حدیث ہم نے اب تک نہیں پڑھی ہے اگر یہ واقعی کوئی حدیث ہے تو اس کا ظاہر بہت ساری اُن احادیث کے خلاف ہے جس میں صراحت کے ساتھ منقول ہے کہ جوں ہی میت کو دفن کیا جاتا ہے تو منکر نکیر اس میت کی قبر میں تشریف لے آتے ہیں اور سوال و جواب کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں اگر میت نے کئے گئے سوال کا جواب دے دیا تو غیب سے آواز آتی ہے کہ میرے بندہ نے سچ کہا، پس اس کے لیے جنت کا بستر بچھا دو، اور اس کے لیے جنت میں ایک دروازہ کھول دو، اور اسے جنت کے کپڑے پہنا دو، فرمایا کہ جنت کی ہوا اور خوشبو اس کے پاس آتی ہیں اور اس کی قبر حدِ نگاہ تک کشادہ کردی جاتی ہے
اور جو جواب نہیں دے پاتا ہے تو اس کے بارے آسمان سے ایک منادی آواز آتی ہے کہ اس نے جھوٹ بولا، اس کے لیے آگ کا بستر بچھا دو، اور آگ کا لباس پہنادو اور جہنم کا ایک دروازہ اس کی قبر میں کھول دو، فرمایا کہ جہنم کی گرمی اور گرم ہوا اس کے پاس آتی ہے اور اس کی قبر اس قدر تنگ کردی جاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہوجاتی ہیں۔ تو اس جیسی احادیث سے تو یہ صاف ظاہر ہے کہ میت جس دن مرتا ہے یا مدفون ہوتا ہے اسی روز اس کی سزا و جزا والا معاملہ شروع ہوجاتا ہے
((جیسا کہ حدیث شریف میں ہے))
“حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی انصاری آدمی کے جنازہ میں نکلے، پس ہم قبر پر جا پہنچے جو ابھی لحد نہیں بنائی گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ وہاں بیٹھ گئے اور آپ کے اردگرد ہم بھی (ادب کے ساتھ خاموشی سے) بیٹھ گئے گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ زمین پر کرید رہے تھے، آپ ﷺ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور دو یا تین مرتبہ فرمایا کہ اللہ کی پناہ مانگو عذابِ قبر سے
آگے روایت میں ہے کہ پھر مرنے والے کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں، “کہ تیرا رب کون ہے؟” وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ “تیرا دین کیا ہے؟” وہ کہتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے، وہ دونوں کہتے ہیں کہ “یہ کون صاحب ہیں جو تمہارے درمیان بھیجے گئے تھے؟” وہ کہتا ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ ہیں، وہ دونوں کہتے ہیں کہ تمہیں کیسے معلوم ہوا؟ وہ کہتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب میں پڑھا ہے، اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی۔ پھر (اللہ کی طرف سے) ایک آواز لگانے والا آواز لگاتا ہے کہ میرے بندہ نے سچ کہا، پس اس کے لیے جنت کا بستر بچھا دو، اور اس کے لیے جنت میں ایک دروازہ کھول دو، اور اسے جنت کے کپڑے پہنا دو، فرمایا کہ جنت کی ہوا اور خوشبو اس کے پاس آتی ہیں اور اس کی قبر حدِ نگاہ تک کشادہ کردی جاتی ہے
اور فرمایا کہ کافر جب مرتا ہے اس کی روح کو جسم میں لوٹایا جاتا ہے۔ اور دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، اسے بٹھلاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے کہ ہائے ہائے میں نہیں جانتا، وہ کہتے ہیں کہ یہ آدمی کون ہیں جو تم میں بھیجے گئے؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، پس آسمان سے ایک منادی آواز لگاتا ہے کہ اس نے جھوٹ بولا، اس کے لیے آگ کا بستر بچھا دو، اور آگ کا لباس پہنادو اور جہنم کا ایک دروازہ اس کی قبر میں کھول دو، فرمایا کہ جہنم کی گرمی اور گرم ہوا اس کے پاس آتی ہے اور اس کی قبر اس قدر تنگ کردی جاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہوجاتی ہیں
جریر کی حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ پھر اس پر ایک اندھا بہرا فرشتہ (یعنی جو کسی کی فریاد نہیں سنتا) مقرر کردیا جاتا ہے، اس کے پاس ایک لوہے کا ایک ایسا گرز ہوتا ہے کہ جو اگر پہاڑ پر دے مارا جائے تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائے، فرمایا کہ وہ گرز سے اس مُردے کو مارتا ہے اس کی مار کی آواز سے مشرق ومغرب کے درمیان ہر چیز سنتی ہے سوائے جن و انس کے، اور وہ مُردہ بھی مٹی ہو جاتا ہے، پھر اس میں روح دوبارہ ڈال دی جاتی ہے۔”
((📚))سنن ابی داؤد، کتاب السنة، باب فی المسئلة فی القبر وعذاب القبر، جلد چہارم ، ص: ٢٣٩))
⚡وللہ تعالیٰ اعلم بالصواب⚡
🌹🌹🌹🌹((کتبہ))🌹🌹🌹🌹
حضرت علامہ و مولانا مفتی محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی
خادم التدریس والافتاء دارالعلوم شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتاء وخطیب وامام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات