یہ مختصر سا جواب تمام خلجان مفتی نظام الدین کے متعلق جو ذہن میں اٹھ رہے ہیں سب کو سمجھنے میں مدد ملےگی بس مکمل پڑھیں
بخدمت جناب مفتی ہاشم منظری ،بعد سلام عرض یہ ہے کہ
گانے یا گیت کا تعلق بہر حال اشعار سے ہوتا ہے ، نہ کے میوزک سے ۔ کیونکہ گیت اور گانے کا وجود میوزک پر موقوف نہیں۔ کہ میوزک کے بغیر گیت اور گانے کا تحقق ہی نہ ہو پائے بلکہ میوزک کے بغیر بھی گیت اور گانے کا تحقق ہو جاتا ہے ۔
رہا سوال ان اقسام کا جو محقق مسائل جدیدہ حضرت علامہ مولانا مفتی نظام الدین صاحب قبلہ نے بیان فرمائی
تو اسکے متعلق حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ حدیث شریف کی شرح کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں
روایت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس شعر کا ذکر کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ ایک کلام ہے اچھا شعر اچھا ہے اور برا شعر برا ۱؎ (دارقطنی)اور شافعی نے عروہ سے ارسالًا روایت کی۔
۱؎ یعنی شعر کی اچھائی برائی اس کے مضمون سے ہے،بعض شعر پڑھنا عبادت ہے،بعض کفر،بعض ثواب جیسا مضمون ویسا حکم۔
مستفاد از مرأۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ج6 643
مفتی نظام الدین پر جواب
موضع آخر میں مذکور ہے
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان من الشعر حکمۃ
اسکے حاشیہ میں ہے
لیس کل شعر مردود بل منہ ما ہو حق و حکمۃ
مستفاد از مشکوٰۃ المصابیح باب البیان و الشعر
یہ تو رہا بیان اسکا جو حضرت نے ارشاد فرمائی ،
اب اگر کوئی شخص اعتراض کرے کہ گانا تو مطلقا حرام تو یہ تقسیمات کیسے ؟
تو اسکا جواب ہم اوپر دے چکے کہ محقق مسائل جدیدہ نے گانے کی تقسیمات بیان نہیں فرمائی بلکہ اشعار(جو گانے کی اصل اور بنیاد ہے) کی تقسیمات بیان فرمائی کما لا یخفی علی من لہ ادنیٰ تامل
اس لئے کہ لفظ “گانا” اور “گیت” کا استعمال اکثر ان اشعار پر ہی کیا جاتا ہے جن میں میوزک ہو یا فحش گوئی ہو یا وہ لہو الحدیث کے مصداق بنتے ہو اور جو بھی ایسے گیت اور گانے ہوں گے ضرور از قسم محظورات ہونگے ۔
اور اگر یہ نہیں تو حضور اعلی حضرت عظیم البرکت مجدد دین و ملّت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں ۔۔
سماع مجرد بے مزامیر، اس کی چند صورتیں ہیں:
اول رنڈیوں ،ڈومنیوں ،محل فتنہ امردوں کاگانا۔
دوم جو چیز گائی جائے معصیت پرمشتمل ہو ،مثلافحش یاکذب یا کسی مسلمان یا ذمی کی ہجو یا شراب وزنا وغیرہ فسقیات کی ترغیب یا کسی زندہ عورت خواہ امردکی بالیقین تعریف حسن یا کسی معین عورت کا اگرچہ مردہ ہو ایسا ذکر جس سے اس کے اقارب احبا کو حیا وعار آئے ۔
سوم بطور لہوولعب سنا جائے اگرچہ اس میں کوئی ذکر مذموم نہ ہو ۔تینوں صورتیں ممنوع ہیں الاخیرتان ذاتا والاولی ذریعۃ حقیقۃ (آخری دو بلحاظ ذات اور پہلی درحقیقت ذریعہ ہے۔ت) ایسا ہی گانالہو الحدیث ہے اس کی تحریم میں اور کچھ نہ ہو تو صرف حدیث کل لعب ابن اٰدم حرام الا ثلثۃ ۱ ( ابن آدم کا ہر کھیل حرام ہے سوائے تین کھیلوں کے ۔ت) کافی ہے ،
(۱؎ جامع الترمذی ابواب الجہاد باب ماجاء فی فضل الرمی فی سبیل اللہ امین کمپنی دہلی ۱/ ۱۹۷)
(سنن ابن ماجہ ابواب الجہاد باب فی الرمی فی سبیل اللہ ص ۲۰۷)
ان کے علاوہ وہ گانا جس میں نہ مزامیر ہوں نہ گانے والے محل فتنہ ،نہ لہو ولعب مقصود نہ کوئی ناجائز کلام بلکہ سادے عاشقانہ گیت ،غزلیں ،ذکر باغ وبہار وخط وخال ورخ وزلف وحسن وعشق وہجر ووصل و وفائے عشاق وجفائے معشوق وغیرہا امور عشق وتغزل پرمشتمل سنے جائیں تو فساق وفجار واہل شہوات دنیہ کو اس سے بھی روکا جائے گا، وذلک من باب الاحتیاط القاطع ونصح الناصح وسد الذرائع المخصوص بہ ھذا الشرع البارع والدین الفارغ ۔یہ رکاوٹ یقینی احتیاط کے باب سے ہے اس میں خیر خواہ کی خیرخواہی اور ذرائع کی روک تھام موجود ہے جو اس یکتا وفائق شریعت اورخوبصورت دین سے مخصوص ہے۔(ت)
اسی طرح حدیث :
الغناء ینبت النفاق فی القلب کماینبت الماء البقل ،ناظر ۔رواہ ابن ابی الدنیا فی ذم الملاھی عن ابن مسعود والبیھقی فی شعب الایمان۲ عن جابر رضی اللہ تعالی عنہما عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔
گانا بجانا دل میں اس طرح نفاق اگاتا ہے جس طرح پانی ساگ پات اگاتا ہے،ناظر ہے محدث ابن ابی الدنیا نے اس کو حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی سند سے اور امام بیھقی نے شعب الایمان میں حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کی سند سے حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کی ۔ت)
(۲؎ شعب الایمان حدیث ۵۱۰۰ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۴/ ۲۷۹)
(کنز العمال بحوالہ ابن ابی الدنیا حدیث ۴۰۶۵۸ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۵/ ۲۱۸)
اور اہل اللہ کے حق میں یقیناً جائز بلکہ مستحب کہئے تو دور نہیں ،گانا کوئی نئی چیز پیدانہیں کرتا بلکہ دبی بات کو ابھارتا ہے جب دل میں بری خواہش بیہودہ آلائشیں ہوں تو انھیں کو ترقی دے گا اور جوپاک مبارک ستھر ے دل شہوات سے خالی اور محبت خدا ورسول سے مملو ہیں ان کے اس شوق محمود وعشق مسعود کو افزائش دے گا وحکم المقدمۃ حکم ماھی مقدمۃ لہ انصافا (مقدمہ کا حکم وہی ہے جو اس چیز کا حکم کہ جس کے لیے مقدمہ وضع کیا گیا ۔ت) ان بندگان خداکے حق میں اسے ایک عظیم دینی کام ٹھہرانا کچھ بے جانہیں ۔
فتاوی خیریہ میں ہے :
لیس فی القدر المذکو ر من السماع مایحرم بنص ولا اجماع وانما الخلاف فی غیر ماعین والنزاع فی سوی مابین وقد قال بجواز السماع من الصحابۃ جم غفیر (الی ان قال) اماسماع السادۃ الصوفیۃ رضی اللہ تعالی عنھم فبمعزل عن ھذا الخلاف بل ومرتفع عن درجۃ الاباحۃ الی رتبۃ المستحب کما صرح بہ غیر واحد من المحققین ۔۱
سماع کے متعلق قدر مذکو ر میں کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس کو نص اور اجماع سے حرام ٹھہرائے ہاں البتہ اختلاف اس کے بغیر ہے کہ جس کو معین کیا گیا اور نزاع اس کے علاوہ ہے کہ جس کو بیان کیا گیا اور صحابہ کرام اور تابعین عظام سے اہل علم کے جم غفیر نے سماع کے جواز کا قول نقل کیاہے (یہاں تک فرمایا ) رہاسادات صوفیائے کرام کا سماع تووہ اس اختلاف سے دور ہے بلکہ وہ درجہ اباحت سے رتبہ استحباب تک پہنچا ہو اہے جیساکہ بہت سے اہل تحقیق نے تصریح فرمائی ہے ۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی خیریہ کتاب الکراہۃ والاستحسان دارالمعرفۃ بیروت ۲/ ۸۴۔۱۸۳)
یہ اس چیز کا بیان تھا جسے عرف میں گانا کہتے ہیں
مستفاد از فتاویٰ رضویہ ج24
و لہذا اپنے بزرگوں پر اتنی جلدی اقدام بازی کرنا مناسب نہیں ۔
اللہ ہم کو ، مجھکو اور امت مسلمہ کو دین کی سمجھ عطا فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
کتبہ مولانا مجاہد مصباحی متعلم الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ