ماشکک مسائل کثیرہ نے گانا گانا اور سننا مباح کر دیا معاذاللہ
پردیسی پردیسی جانا نہیں
مجھے چھوڑ کے مجھے چھوڑ کے
دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے
ہم وفا کر کے بھی تنہا رہ گئے
جا رہی ہے دلہن جا رہی ہے دلہن
آ گئے لیکے چندہ کی ڈولی سجن
یہ دوستی ہم نہیں توڑیں گے
توڑیں گے ہم مگر تیرا ساتھ نہ چھوڑیں گے
سندیس آتے ہیں سندیس جاتے ہیں
کہ گھر کب آؤ گے ، لکھو کب آؤ گے
کہ تم بن یہ گھر سونا سونا ہے
دنیا میں کتنا غم ہے میرا غم کتنا کم ہے
لوگوں کا غم دیکھا تو میں اپنا غم بھول گیا
تجھے یاد نہ میری آئے کسی سے اب کیا کہنا
دل رویا کہ انکھ بھر آئی کسی سے اب کیا کہنا
تجھکو نہ دیکھوں تو جی گھبراتا ہے
دیکھ کے تجھکو دل کو میرے چین آتا ہے
قارئین شش و پنج میں ہوں گے کہ آخر اس تحریر میں مشہور و معروف گانے کی ایک ایک لائن کیوں لکھی گئی ہے ۔ اور وہ پڑھ کر مسکرا بھی رہے ہوں گے ۔ بات در اصل ایسی ہے کہ ہمارے ہر دل عزیز مشکک مسائل کثیرہ نے پھر ایسی تشکیک سے بھری تحقیق لانچ کی ہے جس سے عوام و خواص میں بے چینی دیکھی جا رہی ہے ۔ مشکک صاحب مفتی نظام الدین نے گانے کی تین قسمیں کیں ہیں ۔ ایک قسم کفر ، دوسری حرام ۔ تیسری مباح ۔
جس گانے کا مضمون کفر پر مشتمل ہو وہ کفر ۔ جس گانے کا مضمون حرام پر مشتمل ہو وہ حرام ۔ اور جو ان دونوں سے خالی ہو وہ مباح
پوچھنے والے نے پوچھا مباح سے کیا مراد ہے ، تو مشکک صاحب نے کہا جس کا سننا جائز و درست ہو ۔ اس لئے میں(راقم) نے وہ چند گانے لکھ دئے ہیں جو نہ کفر و شرک پر مبنی ہے نہ حرام و نا جائز پر ۔ یعنی مشکک صاحب کے کہنے کے مطابق مذکورہ گانوں کو بغیر مزامیر کے سن بھی سکتے ہیں اور گا بھی سکتے ہیں ۔ معاذاللہ
اب قارئین فیصلہ کریں کہ کیا یہ فتنوں کا دروازہ کھولنا نہیں ہے ؟ کیا یہ گانا سننے اور گانے پر دلائل فراہم کرنا نہیں ہے ؟
پھر یہ بھی کہ جو گانا حرام مضمون پر مشتمل ہے یعنی غیر محرم کے دیکھنے سننے یاد کرنے سے متعلق ہیں اسے اگر بغیر شادی شدہ پڑھے یا سنے تو نا جائز ہوگا ۔ اور شادی شدہ پڑھے تو جائز ہوگا ۔ کیوں کہ شادی شدہ یہ عذر کر سکتا ہے کہ میں اپنی بیوی کے لیے پڑھ رہا ہوں ۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوگی ۔ قوالی مع مزامیر جن کے نزدیک زبردستی جائز ہے وہ تو بڑے مزے سے مع مزامیر ایسے گانے بجائیں گے اور سنیں گے ۔ تو بتائیے یہ تحقیق اس دور کا سب سے بڑا تعجب خیز ہے یا نہیں ۔
ویسے یہ کوئی تعجب والی بات نہیں کی مشکک صاحب نے گانے کو جائز بتا دیا ۔ اس سے قبل نہ جانے کتنے مسئلے بدل چکے ہیں اور مزید بدلنے کی کوشش میں لگے ہیں ۔ بس دیکھتے جائیے اور کیا کیا حلال کرتے ہیں ۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے:
مجھے نہ چھیڑو میں محقق جدیدہ ہوں
دو چار سال میں سب کچھ حلال کردونگا
ممبئی کے ایک چاپلوس ہیں جو مشکک مسائل کثیرہ کی نا فہمی نا سمجھی و نا دانی کو امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللّہ عنہ کی بے مثل و بے مثال عقل و فہم سے ملا رہے ہیں ، معاذاللہ ۔ کہاں پوری دنیا کے امام اور کہاں یہ مشکک مسائل کثیرہ جو آئے دن اپنی تحقیق سے اختلاف و انتشار پھیلاتے ہی رہتے ہیں ۔
سوال گانا سننے کے متعلق تھا کہ میرے شوہر حرام گانے سنتے ہیں اس سے ہمارے نکاح پر اثر پڑے گا یا نہیں ۔ لیکن مشکک صاحب شروع سے آخر تک یہی بتاتے رہے کہ مباح گانا گا سکتے ہیں ۔ اور اس میں مزامیر کا ذکر بھی نہ کیا ۔ لیکن جب سوال کرنے والے نے پوچھا کہ کیا مزامیر کے ساتھ بھی مباح ہے تو مشکک صاحب کہتے ہیں کہ * اصل میں انہوں نے اپنے گھر کا مسئلہ پوچھا ہے کہ میرا شوہر پڑھتا ہے تو ظاہر ہے کہ گھر میں شوہر عام طور پر ہارمونیم وغیرہ لیکر نہیں پڑھتے ہیں۔ ( سنی دعوت اسلامی پروگرام کلپ) ۔ یعنی شوہر ہارمونیم وغیرہ لیکر نہیں پڑھے گا تو جائز ہو گا ۔ معاذاللہ ۔
اس سے یہی نہ مسئلہ نکل کر آیا کہ جو گانے کفر و شرک سے خالی ہوں تو وہ بغیر ہارمونیم ( آلات لہو و لعب میوزک وغیرہ) کے پڑھنا سننا سب جائز و درست ہے ؟
پھر اس کا جواب تو مشکک صاحب نے دیا ہی نہیں کہ میرے شوہر حرام گانے سنتے ہیں ۔ کیوں کہ گانا خود سے گانا اس میں تو بغیر ہارمونیم کے ہو سکتا ہے ، مگر سننے میں یہ نہیں ہو سکتا ، یعنی بغیر ہارمونیم کے کوئی گانا عرف عام میں رائج ہی نہیں ہے ۔ سوال سے خود ظاہر ہے کہ سائلہ گانے کو حرام سمجھ رہی ہے تبھی تو کہہ رہی ہے کہ میرے شوہر حرام گانے سنتے ہیں اس سے ہمارے نکاح پر اثر ہوگا یا نہیں ۔ مشکک صاحب کو چاہیے تھا کہ پہلے حرام کے ارتکاب سے روکتے پھر نکاح ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے کی بات کرتے ۔
جس کو اتنی بھی تمیز نہیں کہ سوال کیا ہے وہ محقق بنے پھر رہے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسے نا اہل نا فہم نا سمجھ محقق کو ممبئی کے چاپلوس امام اعظم کے منصب پر بٹھا رہے ہیں ۔ غیرت مر چکی ہے ان چاپلوسی کرنے والوں کی ۔
پہلے تو خود محقق صاحب تحقیق کرنے کی کھوج میں مگن رہتے تھے لیکن اب عام آدمی کو بھی محقق بنا رہے ہیں کہ وہ پہلے گانے کی تحقیق کرے کہ کفر و حرام ہے یا مباح ، اگر مباح ہے تو بلا جھجک پڑھے ۔ اب بے چارہ آم آدمی کیسے تحقیق کرے گا کہ یہ گانا کفر ہے یا حرام ۔
بے چاری سوال کرنے والی بہن بھی پریشان ہو گئی ہوگی کہ ہم نے تو مفتی صاحب سے صاف صاف کہا تھا کہ میرے شوہر حرام گانے سنتے ہیں ۔ لیکن مفتی صاحب پتہ نہیں کہاں کھو گئے اور سوال ہی بدل کر سننے کی جگہ گاتے ہیں کر دیا ۔ سوال چنیں جواب دیگر مارے گھٹنا پھوٹے سر ۔
جن حضرات کو مشکک صاحب کی نا فہمی دیکھنی ہو وہ اس نمبر پر واٹساپ کریں 8617537986
غلام تاج الشریعہ
محمد جمشید رضوی ، مقیم حال بوکارو اسٹیل سٹی جھارکھنڈ
امام اعظم قدس سرہ العزیز کی حد درجہ احتیاطی اور مشکک مسائل کثیرہ کی لا پرواہی و بے احتیاطی
میں نے گزشتہ تحریر میں ممبئی کے چاپلوس سے کہا تھ کہ کہاں پوری دنیا کے امام اعظم ابوحنیفہ جو تقویٰ و پرہیز گاری میں بے مثال اور کہاں یہ مشکک مسائل کثیرہ جو لا پرواہی بے احتیاطی میں بے مثال ۔
ایسے عجلت پسند لا پرواہ و بے احتیاط مشکک صاحب کو سرکار امام اعظم قدس سرہ العزیز کے عقل و فہم کے برابر لا کھڑا کرنا سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ ان سے اپنا مطلب نکالنا ہے ۔
پہلے ممبئی کے چاپلوس کی چاپلوسی ملاحظہ کریں پھر مشکک صاحب کی لا پرواہی و بے احتیاطی بھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔ تاکہ ایسے چاپلوسی کرنے والے رات کے اندھیرے میں بھی پہچانے جائیں ۔
اگرابو حنیفہ کی عقل تمام روئے زمین کے نصف آدمیوں کی عقلوں سے تولی جائے ابو حنیفہ کی عقل غالب آئے۔ امام بکر بن حبیش نے کہا : اگر ان کے تمام اھل زمانہ کی مجموع عقلوں کے ساتھ وزن کریں تو ایك ابو حنیفہ کی عقل ان تمام ائمہ و اکابرو مجتہدین و محدثین و عارفین سب کی عقل پر غالب آئے ۔”
(الخیرات الحسان الفصل الثالث مطبع استنبول ترکیہ ص ١٦٠)
یقینا یہی حال اس وقت حضرت محقق مسائل جدیدہ کا ہے کہ وہ مسئلہ شرعیہ بتادیتے ہیں اور کسی کے لعن و طعن کی پرواہ نہیں کرتے ہیں یہ حوصلہ ایک فقیہ میں ہی ہوسکتا ہے جو امت کے لئے مشکل کے بجاۓ شرعی حدود میں آسانیاں پیدا فرماۓ مسلک ابوحنیفہ کا فروغ اسی لئے ہوا کہ وہ دیگر مسلک کے مقابل ادائیگی میں عمل کے اعتبار سے آسان اور عقلاً قابل قبول بھی ہے ( چاپلوسی مضمون سے اخذ)
دیکھا آپ نے کہ یہ آوارہ قسم کے قلم کار مشکک صاحب کو امام اعظم سے کس طرح ملا رہے ہیں ، اور عوام الناس کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مشکک صاحب جو بھی تحقیق کریں اسے آنکھ بند کرکے مان لو جیسے امام اعظم ابو حنیفہ کی ہر تحقیق آنکھیں بند کر کے مانتے ہو ۔ یعنی دبے لفظوں میں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جیسے تم امام اعظم کے مقلد ہو ویسے ہی مشکک صاحب کے بھی مقلد بن جاؤ ۔ اور جیسے امام اعظم کا ظہور مسائل میں آسانی کے لیے ہوا ہے اسی طرح مشکک صاحب کا بھی ظہور ہوا ہے ۔
اب سمجھیں آپ کہ یہ مسائل میں آسانی کیوں تلاش کرتے ہیں ۔ مجدد اعظم سے کیوں اختلاف کرتے ہیں ، بزرگان دین سے کیوں عدول کرتے ہیں ۔ فون کی خبر پر کیوں چاند کا اعلان کرتے ہیں ۔ مسجد کا گیٹ بند کر کے کیوں جمعہ پڑھتے ہیں ۔ ماسک پہن کر کیوں نماز پڑھتے ہیں ۔ ٹوپا موڑ کر کیوں نماز پڑھتے ہیں ۔ اس لئے کہ ان کا ظہور امام اعظم کی طرح آسانی پیدا کرنے کے لیے ہوا ہے ۔
سرکار امام اعظم قدس سرہ العزیز کو امت مسلمہ بالاتفاق اپنا پیشوا اپنا امام اپنا رہنما تسلیم کرتی ہے ۔ بخلاف مشکک کے کہ ان کے ارد گرد صرف چند لوگ ہی گھومتے پھرتے ہیں ۔ کہاں وہ موجیں مارتا علم کا سمندر ، کہاں یہ اپنے گھر کے کوئیں کے پانی بھی نہیں ۔
کہاں وہ امام جنہیں یاد کرو تو ایمان میں پختگی سنیت میں ثابت قدمی آ جائے ، کہاں یہ کہ جنہیں یاد کرو تو ایمان میں لچیلہ سنیت میں ڈھیلا پن آ جائے ۔
کہاں وہ امام جو بادشاہوں وزیروں حاکموں کے سامنے بھی حق بیانی سے گریز نہ کرے ، کہاں یہ کہ رام گیتا کی تعریف کرنے والے ، صحبہ کی توہین کرنے والے سے بھی ڈر جائے۔
کہاں وہ امام جو حرام کے لقمے سے بچنے کے لیے سات سال بکری کا گوشت نہ کھائے ، کہاں یہ کہ پلپلوں صلح کلیوں کے دوستوں کے ساتھ گوشت کی دعوتیں اڑائے ۔
امام اعظم قدس سرہ العزیز کے تقوے کی ہلکی سی جھلک
ایک مرتبہ کوفہ میں کچھ بکریاں چوری ہو گئی ، تو آپ نے دریافت کیا کہ بکری زیادہ سے زیادہ کتنے سال تک زندہ رہ سکتی ہے ، لوگوں نے بتایا سات سال ، تو آپ نے سات سال بکری کا گوشت نہ کھایا ۔ کتاب ، امام اعظم ، صفحہ ، 83 مصنفہ سید شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللّٰہ علیہ پاکستان )
اسے کہتے ہیں تقویٰ کہ کہیں چوری والی بکری کا گوشت نہ کھا لیں ، تو آپ نے سات سال تک بکری گوشت ہی نہ کھایا ، سبحان اللّٰہ
اسی زمانے میں ایک فوجی نے گوشت کھا کر اس کا فضلہ کوفہ کی نہر میں پھینک دیا تو آپ نے مچھلی کی طبعی عمر دریافت کیا اور پھر اتنے سال تک مچھلی کے گوشت سے پرہیز کیا ۔ ( امام اعظم ، 83 )
حسن بن صالح فرماتے ہیں کہ آپ سخت پرہیزگار تھے ، حرام سے ڈرتے تھے اور شبہ کی وجہ سے کئی حلال چیزیں بھی چھوڑ دیتے تھے ( امام اعظم ، 81 )
ایسے ہوتے ہیں امام ! اور ایسے ہی لوگ پیشوا کہلانے کے قابل ہیں ۔ جب ایسے لوگ تحقیق کرتے ہیں تو امت میں رحمت کی بہاریں آتی ہیں ، قرآن و حدیث پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔
اور جب مشکک جیسے لا پرواہ و بے احتیاط لوگ تحقیق کرتے ہیں تو امت میں فساد پیدا ہوتا ہے ، امت میں فتنہ پھیلتا ہے ۔ عقیدے میں ڈھیلاپن آنے لگتا ہے ، سنتوں سے دوری ہوائے نفس سے جی حضوری پیدا ہو جاتی ہے ۔
مفتی نظام الدین صاحب نے جو گانے کے متعلق مسئلہ بتایا وہ جُوں کا توں ہی ہے
نچا مارا ہے یکسر کیا عرب اور کیا عجم سب کو !
خدا غارت کرے اس اختلاف دین و مذہب کو
مجھے معلوم تھا ۔ جس طرح وہابی کا ذبیحہ حلال بتانے والے محقق فتاویٰ رضویہ کا سہارا لیکر دبک گئے اسی طرح گانا مباح کرنے والے محقق صاحب بھی بہار شریعت کا سہارا لیکر کھسک جائیں گے ۔
کئی چیلے چپاٹے آئے اور ادھر ادھر کی باتیں کر کے اپنے محقق صاحب کو بچانے کی کوشش کی مگر کسی نے بھی اپنے محقق صاحب کی تحریر نہیں دکھائی کہ انہوں گانے سے مراد غیر فلمی اشعار لئے ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ
جب کہ محقق صاحب نے کھلے کھلے لفظوں میں گانے کا لفظ استعمال کیا غیر فلمی اشعار نہیں ۔ غیر فلمی اشعار تو ہر دور میں جائز رہے ہیں جو کفر و شرک اور حرام سے خالی ہو ۔ اس پر کبھی کسی نے فتویٰ نہیں پوچھا کہ یہ حرام ہے کہ جائز ۔ جلسہ جلوس میں شعر و شاعری تو عام سی بات ہے ۔
کچھ لوگ بہار شریعت کا حوالہ دے رہے ہیں کہ محقق صاحب نے وہی کہا ہے جو بہار شریعت میں لکھا ہے ۔ لیکن جب میں نے بہار شریعت میں دیکھا تو وہاں گانے کا لفظ ہی نہیں تھا بلکہ وہاں اشعار کا لفظ ہے ۔
اور غالباً قارئین محقق صاحب کی کلپ سن چکے ہوں گے کہ وہ اشعار کا نہیں گانے کا لفظ استعمال کر رہے ہیں جو فی زمانہ فلمی گانے کو ہی کہتے ہیں ۔ اگرچہ لغوی اعتبار سے چند معنی ہیں ۔ مگر عرف عام میں گانے سے مراد یہی فلمی گانا ہے ۔
جیسا کہ ہمارے علماء کرام نے فقہ کی کتابوں میں فرمایا کہ گانے کی دھن پر نعت شریف پڑھنا نا جائز ہے یوں ہی قرآن پاک کی تلاوت بھی گانے کی دھن پر پڑھنا حرام ہے ۔
اگر گانے سے فلمی گانا مراد نہ ہوتا تو وہ کیوں کہتے کہ گانے کی دھن پر نعت پڑھنا حرام ہے ۔ تو معلوم ہوا کہ عرف عام میں گانے سے مراد یہی فلمی گانا ہے ۔
اب اگر پھر بھی محقق صاحب کی بے جا حمایت کرنے والے اس بات پر بضد ہیں کہ نہیں محقق صاحب نے جو کہا وہ ٹھیک اور درست ہے تو میں ان سے کہوں گا کہ اشرفیہ کے آنے والے سالانہ دستار بندی میں ایسے نقیب کو مدعو کریں جو محقق صاحب کی زبان میں یہ کہے :
کیا کہے ؟
یہی کہ !
اب میں آپ کے سامنے محقق مسائل جدیدہ صاحب کو مائک پر آنے کی دعوت دیتا ہوں ۔قبل اس کے کہ وہ تشریف لائیں حضرت کے استقبال کے لئے میں چند گانے پیش کر رہا ہوں آپ سماعت کریں اور جو گانے آپ کو سمجھ میں آ جائے تو داد و تحسین سے ضرور نوازیں ۔
اور جب محقق صاحب کے چاہنے والوں کو وہ گانا بے حد پسند آئے تو وہ مچل کر یوں عرض کریں :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واہ واہ کیا گانا ہے اس گانے کو پھر سے پڑھیے بہت اچھا گانا ہے واہ واہ ۔
اس کے بعد جتنے بھی محقق صاحب کے چاہنے والے اسٹیج پر موجود ہوں ہر ایک کو نقیب یہی کہہ کر مائک پر آنے کی دعوت دے کہ میں اس گانے کے ساتھ حضرت کو مائک پر آنے کی دعوت دیتا ہوں ۔
وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
غلام تاج الشریعہ
محمد جمشید رضوی ، مقیم حال بوکارو اسٹیل سٹی ۔
غلام تاج الشریعہ
محمد جمشید رضوی ، مقیم حال بوکارو اسٹیل سٹی
#میدان #فقہ و #افتا کے عظیم #شہسوار ہیں #حضور #سراج #الفقہا__________روشن رضا مصباحی ازہری
اس زمین پر یوں تو لاتعداد افراد کو زندگی دی گئی اور سبھوں نے اس حیات مستعار کے لمحات گزار کر دار حقیقی کی طرف منتقل ہوگئے مگر کبھی کبھی صدیوں میں ایسی انقلابی و ہمہ جہت شخصیت جنم لیتی ہے جو ہر فن میں یکتائے روز گار ہو انہیں کثیر الجہات شخصیات میں ایک بڑا نام فقیہ اعظم ہند، وارث علوم حضور شارح بخاری، معتمد حضور فقیہ ملت، پاسبان مسلک اعلی حضرت، محقق مسائل جدیدہ، حضور سراج الفقہا حضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی صاحب دام ظلہ علینا ، سابق صدر المدرسين و موجودہ صدر شعبہ افتاجامعہ اشرفیہ مبارک پور کا آتا ہے، حضور قبلہ مفتی صاحب کو اللہ جل وعلا نے ایسی ذہانت و فطانت و ملکہ افہام و تفہیم عطا فرمایا ہے کہ ہزاروں کے مجمع میں بر سر اسٹیج جب کسی مسئلہ شرعی کے بابت استفسار کیا جاتا ہے تو یقین جانیں ایسا لگتا ہے کہ گویا بارگاہ امام اعظم سے علمی فیضان جاری ہوگیا ہو اور حضور اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان اپنے مرقد انور سے دست شفقت دراز کردیے ہوں اور حضور شارح بخاری قدس سرہ اپنے اس معتمد کے لیے دعا کر رہے ہوں اور آپ انہیں بزرگوں کے فیضان سے فی البدیہہ، مشکل سے مشکل اور لاینحل مسئلہ کی عقدہ کشائی فرمادیتے ہیں. جبھی تو برملہ ہم یہ کہتے ہیں. ع
مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ
مٹتے نہیں ہیں جن کے نشان قدم کبھی
بلامبالغہ فقہ و افتا کی دنیا میں آپ کی اتنی کثیر خدمات ہیں کہ رہتی دنیا تک تشنگان فقہ اپنی علمی و فقہی تشنگی بجھاتے رہیں گے،متعدد موضوعات پر گراں قدر آپ کی تصنیفات اور سینکڑوں تحقیقی مقالے ہیں جو آپ کی شان فقاہت کو اجاگر کر رہے ہیں.
حضور سراج الفقہا کی ذات اقدس کو راقم الحروف نے جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں دوران تعلیم بڑے قریب سے دیکھا ہے، حضور مفتی صاحب جہاں درس و تدریس، فقہ و افتا اور تصنیف و تالیف کے اعلی ترین مقام پر فائز ہیں وہیں آپ ایک مشفق و کرم فرما اور قوم و ملت کے درد رکھنے والے عظیم انسان بھی ہیں ، آپ کی پاکیزہ زندگی سنت نبوی میں ڈھلی ہوئی حسن اخلاق اور اعلی کردار و عاجزی و سادگی کی اعلی مثال ہے، آپ صبر و تحمل و اعلی ظرف و کشادہ قلب جیسے گوناگوں خصائص و ممیزات کے حامل ہیں کہ بسا اوقات آپ کو گالیاں دی جاتی ہیں، آپ کی شان میں نازیبا کلمات استعمال کیے جاتے ہیں مگر آپ ان سب کی پروا کیے بنا صبر و استقامت کے جبل شامخ بن کر کھڑے رہتے ہیں کبھی بھی آپ نے ان کی غیر مہذبانہ گفتگو اور غیر معیاری تبصرے کے جواب میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں فرمایا بلکہ آپ نے اپنے کام کی رفتار مزید بڑھا دی تو اس کا نتیجہ یہ ہواکہ مخالفین بھی آپ کے تبحر علمی و فقہی گہرائی اور گیرائی کے قائل ہوگئے اور اپنے کردہ حرکات پر نادم اور شرمسار ہوئے. حضور مفتی صاحب قبلہ نے اپنی فراغت کے بعد سے لے کر اب تک جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی علمی اور روحانی فضا میں رہ کر جہد مسلسل و پیہم کوششیں کیں اور ایک خادم کی حیثیت سے پورے اخلاص اور خالصۃ لوجہ اللہ آپ نے جامعہ کی خدمت کی.
ابتدا میں جامعہ کے اندر آپ کا عہدہ مدرس و معاون مفتی کا تھا مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور آپ کی فکری و فقہی گہرائی بڑھتی گئی تدریجا آپ کی ترقی ہوتی رہی اور ایک دن وہ بھی آیا جب جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے شیخ الجامعہ، شیخ الحدیث و رئیس دار الإفتا کے عظیم مناصب آپ کو تفویض کیے گئے، یہ آپ کے جد و جہد اور صبر و عاجزی و بے لوث خدمات کا ثمرہ تھا جو اللہ جل وعلا نے آپ کو عطا فرمایا تھا.
مگر بھلا وقت کی رفتار کہاں رکتی ہے کسی کے لیے رفتہ رفتہ وہ گھڑی بھی آگئی کہ آپ کو جامعہ سے سرکاری طور پر ریٹائر ہونا پڑے،اکتیس مارچ،، بروز بدھ، آج ہی کا وہ دن ہے جب آپ کے لیے جامعہ کے دارالافتا میں الوداعیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا، یقینا مفتی صاحب دام کرمہ کی ضرورت جامعہ کو کل بھی تھی اور آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی کیوں کہ آپ کے جانے سے جو خلا پیدا ہوگا وہ پر ہونا غیر ممکن تو نہیں البتہ مشکل ضرور ہے. اس لیے حضور والا کی ذات سے پوری امت کی توقعات وابستہ ہیں کہ آپ جامعہ سے ہی منسلک رہیں گے اور پوری دنیا میں جامعہ اشرفیہ کا نمائندہ بن کر حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی علمی مشن کو عروج و ارتقا کے سارے سرحدوں سے پار لے جائیں گے.
اور جامعہ کے ارباب حل و عقد مفتی صاحب کو جامعہ سے لاعلاقہ نہیں ہونے دیں گے.
حضور سراج الفقہا صاحب یوں تو میدان تدریس و تحریر و تالیف کے شہسوار تو ہیں ہی مگر جس میدان میں آپ کو ید طولیٰ و کامل دسترس حاصل ہے وہ ہے میدان فقہ و افتادور حاضر میں آپ کی شان فقاہت کی مثال نہیں ملتی، شریعت کے قدیم مسائل ہوں یا جدید جب جب امت کو ضرورت پڑی ہے آپ نے ہمیشہ بروقت کامل رہنمائی فرمائی ہے، اور ایسے ایسے ناپید مسائل جو بظاہر لاینحل محسوس ہوتے ہیں آپ نے اپنی فقہی خدا داد صلاحیتوں سے ان کی عقدہ کشائی کرکے قوم و ملت کی پریشانیوں کو دور فرمایا ہے.
اللہ عزوجل حضور سراج الفقہاکو ہر آفت ارضی و سماوی سے حفظ و امان عطا کرے اور آپ کا سایہ عاطفت ہم اہل سنت کے سروں پر دراز فرمائے. آمین یا رب العالمین.
حضرت سراج الفقہاء نے ایک جگہ فرمایا کہ
اگر ایسے سخن فہم مہربانوں کی مانو تو بڑی سی بڑی شخصیت طعن و تشنیع سے محفوظ نہیں رہے گی
ٹھیک ہی فرمایا
کیسے محفوظ رہے گی
کل کے الحفاۃ العراۃ جو ٹھیک سے ابھی اردو بول نہیں سکتے
لکھ نہیں سکتے
سمجھ نہیں سکتے
سہل عربی عبارات کاافہام
مغلق عربی مضامین کی تفہیم
جن کی سمجھ سے باہر ہے
ایسے لوگ جن عالی مسانید پر برا جمان ہوگئے ہیں ان سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے
ابنِ رقم مصباحی
مفتی صاحب کا تین قسمیں بیان فرمانا اور اس کا درست ہو نا اپنی جگہ پر ٹھیک ہے
مگر سائل نے گانا سنے کے متعلق سوال کیا تھا ناکہ گانے کے متعلق اور گانا سنے میں عام طور پر یہی پایا جاتا ہے کہ وہ فلمی گانے اور میوزک والے گانے ہی ہوتے ہیں اور یہی سائل کی مراد بھی ہو گی اگر یہی سائل کی مراد ہو تو پھر جواب کچھ اور انداز میں ہو نا چاہئے تھا یا میوزک وغیرہ کا ذکر ہو ناچاہئے تھا،کیونکہ اس سے پہلے ہمارے بزرگوں سے مطلقا نا جائز پر قول آیا ہواہے۔
مفتی صاحب قبلہ نے مضمون کی تقسیم فرماکر جواب دئے ہیں جو سائل کا اصل مقصد (مجھ کم فہم کے نزدیک) نہیں ہے
اتنی جرأت مجھ جیسا کم علم نہیں کر سکتا مگر کیا کروں بس ایک خلجان ہے اسلئےمفتی صاحب کا تین قسمیں بیان فرمانا اور اس کا درست ہو نا اپنی جگہ پر ٹھیک ہے
مگر سائل نے گانا سنے کے متعلق سوال کیا تھا ناکہ گانے کے متعلق اور گانا سنے میں عام طور پر یہی پایا جاتا ہے کہ وہ فلمی گانے اور میوزک والے گانے ہی ہوتے ہیں اور یہی سائل کی مراد بھی ہو گی اگر یہی سائل کی مراد ہو تو پھر جواب کچھ اور انداز میں ہو نا چاہئے تھا یا میوزک وغیرہ کا ذکر ہو ناچاہئے تھا،کیونکہ اس سے پہلے ہمارے بزرگوں سے مطلقا نا جائز پر قول آیا ہواہے۔
مفتی صاحب قبلہ نے مضمون کی تقسیم فرماکر جواب دئے ہیں جو سائل کا اصل مقصد (مجھ کم فہم کے نزدیک) نہیں ہے
اتنی جرأت مجھ جیسا کم علم نہیں کر سکتا مگر کیا کروں بس ایک خلجان ہے اسلئے
محترم
چلیے ہم مان لیتے ہیں کہ مفتی صاحب قبلہ سے تسامح ہوا، تو کیا ہمارے اکابرین میں سے کسی سے بھی کسی مسئلے میں کبھی تسامح نہیں ہوا ہے، یقیناً ہوا ہے، لولا علی لھلک عمر اس پر شاہد ہے، اس تسامح پر مولائے کائنات کی اصلاح سامنے آئی، مگر کسی صحابی نے خلیفہ دوم کی عزت کی دھجیاں نہیں اڑائی، بلکہ صحابہ کرام کا تو اندازہ اتنا نرالا تھا کہ وہ ایک دوسرے کی چوک پر پردہ پوشی فرماتے اور خیرخواہانہ انداز کے ساتھ اصلاح بھی فرماتے، کوئی کسی پر انگشت نمائی کرتا،نہ کوئی کسی کی قدر و منزلت کے ساتھ کھلواڑ کرتا. پتہ نہیں اس دور کے کچھ علمائے کرام کو کیا ہو گیا ہے کہ ہمیشہ بال کھال، شوشہ گوشہ میں لگے رہتے ہیں، اور امت مسلمہ میں انتشار کی بیج بوتے رہتے ہیں، اور کچھ علما اپنی تحقیق و تبصروں اور جواب و جواب الجواب سے اس کی آبیاری کرتے رہتے ہیں، ایسے موقعوں پر تو ایسی تنقیدات کا صرف ایک ہی جواب ہونا چاہیے کہ اتنے بڑے عالم سے ایسا موقف متصور نہیں، یہ لیجیے نمبر براہ راست خود ہی بات کر لیجیے، اگر آپ کو شریعت مطہرہ کے موافق ان کا موقف مل جائے تو فبہا، اور ان کی کہی ہوئی بات کو لغزش یا تسامح پر محمول کر لیجیے، اور اگر وہ اپنے بیان کردہ موقف پر قائم رہیں اور وہ موقف شریعت مطہرہ سے ذرہ برابر بھی ہٹا ہوا ہو تو ادب کے دائرے میں رہ کر بجائے خود ان کے اکابرین سے ان کی اصلاح کا طریقہ اپنایا جائے. اگر یہ طریقہ اپنایا گیا تو ان شاء اللہ تعالٰی امت مسلمہ میں کبھی انتشار نہیں پیدا ہوگا، علمائے کرام کا شیرازہ کبھی نہیں بکھرے گا، اصلاح بھی ہوجائے گی اور کسی کی دل شکنی بھی نہیں ہوگی اور یوں ہم عمائدین دین کی بے ادبی کے وبال سے محفوظ رہیں گے…
اللّٰہ رب العزت ہم سب کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے نقش قدم پر چلائے. آمین
محمد منہاج القادری المصباحیمحترم
چلیے ہم مان لیتے ہیں کہ مفتی صاحب قبلہ سے تسامح ہوا، تو کیا ہمارے اکابرین میں سے کسی سے بھی کسی مسئلے میں کبھی تسامح نہیں ہوا ہے، یقیناً ہوا ہے، لولا علی لھلک عمر اس پر شاہد ہے، اس تسامح پر مولائے کائنات کی اصلاح سامنے آئی، مگر کسی صحابی نے خلیفہ دوم کی عزت کی دھجیاں نہیں اڑائی، بلکہ صحابہ کرام کا تو اندازہ اتنا نرالا تھا کہ وہ ایک دوسرے کی چوک پر پردہ پوشی فرماتے اور خیرخواہانہ انداز کے ساتھ اصلاح بھی فرماتے، کوئی کسی پر انگشت نمائی کرتا،نہ کوئی کسی کی قدر و منزلت کے ساتھ کھلواڑ کرتا. پتہ نہیں اس دور کے کچھ علمائے کرام کو کیا ہو گیا ہے کہ ہمیشہ بال کھال، شوشہ گوشہ میں لگے رہتے ہیں، اور امت مسلمہ میں انتشار کی بیج بوتے رہتے ہیں، اور کچھ علما اپنی تحقیق و تبصروں اور جواب و جواب الجواب سے اس کی آبیاری کرتے رہتے ہیں، ایسے موقعوں پر تو ایسی تنقیدات کا صرف ایک ہی جواب ہونا چاہیے کہ اتنے بڑے عالم سے ایسا موقف متصور نہیں، یہ لیجیے نمبر براہ راست خود ہی بات کر لیجیے، اگر آپ کو شریعت مطہرہ کے موافق ان کا موقف مل جائے تو فبہا، اور ان کی کہی ہوئی بات کو لغزش یا تسامح پر محمول کر لیجیے، اور اگر وہ اپنے بیان کردہ موقف پر قائم رہیں اور وہ موقف شریعت مطہرہ سے ذرہ برابر بھی ہٹا ہوا ہو تو ادب کے دائرے میں رہ کر بجائے خود ان کے اکابرین سے ان کی اصلاح کا طریقہ اپنایا جائے. اگر یہ طریقہ اپنایا گیا تو ان شاء اللہ تعالٰی امت مسلمہ میں کبھی انتشار نہیں پیدا ہوگا، علمائے کرام کا شیرازہ کبھی نہیں بکھرے گا، اصلاح بھی ہوجائے گی اور کسی کی دل شکنی بھی نہیں ہوگی اور یوں ہم عمائدین دین کی بے ادبی کے وبال سے محفوظ رہیں گے…
اللّٰہ رب العزت ہم سب کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے نقش قدم پر چلائے. آمین
محمد منہاج القادری المصباحی
فتاویٰ رضویہ کی یہ عبارت بھی مسئلہ کو صاف کر رہی غور کریں!
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت لکھتے ہیں:
“ان کے علاوہ وہ گانا جس میں نہ مزامیر ہوں نہ گانے والے محل فتنہ،نہ لہو ولعب مقصود نہ کوئی ناجائز کلام بلکہ سادے عاشقانہ گیت،غزلیں،ذکر باغ وبہاروخط وخال ورخ وزلف وحسن وعشق وہجر ووصل و وفائے عشاق وجفائے معشوق وغیرہا امور عشق وتغزل پرمشتمل سنے جائیں تو فساق وفجار واہل شہوات دنیہ کو اس سے بھی روکا جائےگا۔……………. اور اہل الله کے حق میں یقینًا جائز بلکہ مستحب کہئے……….یہ اس چیز کا بیان تھا جسے عرف میں گانا کہتے ہیں…….
[فتاویٰ رضویہ مترجم ج ٢٤،ص ٨٣ تا ٨٤،مسئلہ نمبر ٢،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور]
آپ جس انداز سے مخاطب ہو رہے ہیں وہ تو بڑے ثواب کا کام کررہے ہیں😂😂😂👌👌👌
اعلیحضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں
اہل سنت سے بتقدیر الہی جو ایسی لغزش فاحش واقع ہو اس کا اخفاء واجب ہے
کہ معاذاللہ لوگ ان سے برا اعتقاد ہونگے،
تو جو نفع ان کی تقریر و تحریر سے اسلام و سنت کو پہنچتا تھا اس میں خلل واقع ہو گا
اس کی اشاعت اشاعت فاحشہ ہے
اور اشاعت فاحشہ بنص قطعی قرآن عظیم حرام ،
آیت ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشہ الخط
فتاویٰ رضویہ 12ص130
ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں
اتفاق علماء کا یہ حال کہ حسد کا بازار گرم،
ایک کا نام جھوٹوں بھی مشہور ہوا تو بہتیرے سچے اس کے مخالف ہوگئے
اس کی توہین تشنیع میں گمراہوں کے ہم زبان بنے
کہ
“ہیں” لوگ اسے پوچھتے ہیں اور ہمیں نہیں پوچھتے?
(مرکزی پہلو)
اب فرمائیں کہ وہ قوم کہ اپنے میں کسی ذی فضل کو نہ دیکھ سکے ، اپنے ناقصوں کو کامل، قاصروں کو ذی فضل بنانے کی کیا کوشش کرے گی?
ایضا ص ١٣٢
آپ سے اتنی گزارش ہے کہ گفتگو کا انداز اس سے بہتر اپنایا جاسکتاہے
ابنِ رقم مصباحی
تضییع اوقات
حالیہ ممبئی کے ایک اجتماع میں ’گانے ‘ کے حوالے سے سراج الفقہاحضرت علامہ مفتی نظام الدین صاحب مدظلہ العالی کے انداز جواب پر سوال اورجواب الجوابات کی ایک نہ ختم ہونے والی بحث شروع ہوچکی ہے ۔ ایک طبقہ اُن کی تعریف وتوصیف میں آسمان زمین کے قلابے ملا رہاہے اوردوسرا طبقہ ان کی فقہی بصیرت کا مذا ق اڑارہاہے ۔ میں سمجھتاہوں کہ یہ تضییع اوقات کی ایک بہترین مثال ہے ۔ سبھی جانتے ہیں کہ فلموںمیں جو گانے گائے جاتے ہیں ، انھیں سننا کسی طورجائز نہیں ہوسکتا۔ اور یہ حقیقت وہ ہے ، جسے ایک ذمہ دار ادارے کے تجربہ کار مفتی ہی نہیں ، بلکہ ایک عام مدرسے کے طالب علم بھی خوب جانتے ہیں اور اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔ اس حقیقت کے ادراک کے لیے نہ کسی دلیل کی ضرورت ہے ، نہ کسی سے سوال پوچھنے کی ضرورت ہے اور نہ اس حوالے سے کسی بحث ومباحثہ میں پڑنے کی ضرورت ہے ۔
میرے خیال میں حضرت مفتی صاحب قبلہ نے جواب دیتے ہوئے مناسب لفظ کا انتخاب نہیں فرمایا ہے ، جس سے بادی النظر میں عام لوگ مغالطے میں پڑ سکتے ہیں ۔ ظاہرہے کہ جب ہندوپاک کے عرف میں لفظ ’گانا‘ کہا جاتاہے ، تواس سے متبادر فلمی گانے ہی ہوتے ہیں ۔ اس لیے ’گانا‘ کی قسمیں اور اس پر جواز وعدم جواز کی باتیں کسی طور مناسب نہیں ہیں ۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ وہ یہ کہہ دیتے کہ فلمی گانے ، چونکہ مزامیر پر ہوتے ہیں ، اس لیے سب حرام ہیں ، تاہم اگر وہ کفریہ کلمات پر مشتمل ہوں ، توپھر پڑھنے والا ایمان سے خارج ہوجاتاہے اور ایسی صورت میں نکاح بھی ٹوٹ جائے گا۔ تاہم اگر وہ گانے بغیر مزامیر کے گنگنارہے ہوں ، تواس کی صورت عام غزل کی ہوجاتی ہے ، جو کفریہ بھی ہوسکتاہے ، حرام بھی اور مباح بھی ۔ اور مباح غزل توہمارے درس نظامی کے نصاب کا حصہ ہے ۔ دیوان متنبی ، دیوان حماسہ اور قصائد میں تشبیب کے اشعار ، کیا یہ سب غزل کے قبیل سے نہیں ہیں ؟
خیال رہے کہ ہم سب انسان ہیں اور بسا اوقات زبان سے ایسے کلمات نکل جاتے ہیں ، جو غلط نہ بھی ہوں ، تو کبھی کبھی غیر مناسب ہوتے ہیں ۔ اس لیے کسی کی غلط فہمی دورکرنے کے لیے جتنی جلد ہوسکے وضاحت کردینی چاہیے ، اور بس ۔
غلام زرقانی قادری