مسلک اعلی حضرت سے لوگوں کو نکالا جارہا ہے

آج کل ایک وبا پھیلائی جارہی ہے کہ مشائخ بریلوی اختلافی مسائل کی بنیاد پر سنی علمائے اہل سنت کو مسلک اعلی حضرت سے باہر نکال دیتے ہیں کیا یہ صحیح ہے.؟
(1) کیا مسلک اعلیٰ حضرت سے لوگوں کو نکالا جاتا ہے.؟
(2فروعی مسائل میں جو سرکار اعلی حضرت سے اختلاف کیا وہ مسلک سے باہر ہو جائے گا.؟
الجواب ۔ یہ بات بالکل غیر صحیح اور بے بنیاد ہے ۔اج تک مشائخ بریلی شریف کی ایسی کوئی تحریر نہیں دیکھنے میں آئی کہ فلاں شخص کو مسلک سے نکالا گیا ۔نہ کوئی تقریر سننے میں آئی کہ فلاں شخص کو مسلک سے نکالا گیا ۔مسلک اعلی حضرت کوئی نئی شریعت یا اکیڈمی یا تنظیم نہیں ہے کہ فلاں کو رکھا جائے یا فلاں کو نکالا جائے ۔یہ مسلک امام اعظم ہے یہ مسلک اہل سنت ہے یہ غیر فرقوں سے امتیاز پیدا کرنے کے لئے مذہب سنت و جماعت کا دوسرا نام ہے ۔
فتاوی اسحاقیہ میں تحریر ہے کہ
فقیہ اعظم ہند سیدی الکریم حضور شارح بخاری علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمتہ والرضوان فرماتے ہیں۔
“” مجدد اعظم اعلی حضرت قدس سرہ العزیز کی تصانیف پڑھئے ۔انہوں نے انہیں عقائد و مسائل کو تحریر فرمایا ہے جو سلف سے کے کر خلف تک اب تک اہل سنت و جماعت کا رہا ہے ۔ہر عقیدے کے ثبوت میں قرآن مجید کی آیات اور احادیث کے ساتھ ساتھ اسلاف کی کتابوں سے جو حوالہ جات تحریر کر دیئے ہیں ۔اعلی حضرت کی کتابیں سو سال سے پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ہزار شخصی اور جماعتی کوشش کے باوجود آج تک کوئی مخالف بھی کسی عقیدے کے بارے میں ثابت نہیں کرسکا کہ اہل سنت وجماعت کے خلاف ہے ۔علاوہ ازیں مجد اعظم اعلی حضرت قدس سرہ العزیز کے عہد مبارک میں انگریزوں نے اپنے پلان کے مطابق بہت سے چالاک ۔عیار ۔دنیا دار افراد کوکو خرید کر اہل سنت کے خلاف کئ فرقے کی بنیاد ڈلوائی ۔مثلا وہابی ۔نیچری ۔قادیانی ۔چکڑالوی ۔صلح کلی ان سب مذاہب کے بانیوں اور حامیوں نے اپنی ساری ذہنی و علمی توانائیوں کو صرف کرکے اہل سنت کے خلاف صف آرائی کی ۔ان سب کا مقابلہ تن تنہا مجدداعظم اعلی حضرت قدس سرہ نے فرمایا ۔اور ان سب کے عقائد باطلہ کو رد کرنے ان سب کے پرخچے اڑا دیئے ۔ان سب خدمات کو دیکھتے ہوئے مذہب اہل سنت وجماعت دوسرا نام مسلک اعلیٰ حضرت کے ۔اس زمانے میں اہل سنت کو تمام فرقہایے باطلہ سے ممتاز کرنے کے لئے سوائے مسلک اعلیٰ حضرت کے اور کوئی لفظ موزوں ہوتا ہی نہیں ۔کچھ معاندین اس کے بالمقابل مسلک امام اعظم بولتے ہیں لیکن یہ لفظ امتیاز کے لئے کافی نہیں ۔غیر مقلد ین کو چھوڑ کر سارے وہابی اپنے کو حنفی کہتے ہیں ۔مثلا دیوبندی ۔مودودی ۔نیچری ۔حتی کہ قادیانی اپنے کو مسلک امام اعظم پر گامزن بتاتے ہیں ۔اور یہی لفظ حامل اہل سنت و جماعت کے لفظ کا بھی ہے کہ ان میں کے بہت سے لوگ اپنے آپ کو سنی بتاتے ہیں ۔اس تفصیل کی روشنی میں میں نے بہت غور کیا ۔سوائے مسلک اعلی حضرت کے کوئی لفظ ایسا نہیں ہے ہی نہیں جو صحیح العقیدہ سنی مسلمانوں کو تمام بدمذہبوں سے ممتاز کردے ۔(فتاوی اسحاقیہ جلد اول ص 158 بحوالہ ماہنامہ اشرفیہ ۔اپریل 1999) ۔
آل انڈیا سنی کانفرنس کے دستور اساسی میں سنی کی تعریف یوں کی گئی ہے
سنی وہ ہے جو ماانا علیہ و اصحابی. کا مصداق ہو ۔یہ وہ لوگ ہیں جو ائمہ دین ۔خلفائے اسلام اور مسلم مشائخ طریقت اور متاخرین علمائے دین میں سے حضرت ملک العلماء سند الفضلاء ۔بحرالعلوم صاحب فرنگی محلی ۔اور حضرت مولانا فضل خیر ابادی حضرت مولانا مفتی شاہ فضل رسول صاحب بدایونی ۔حضرت مولانا مفتی ارشاد حسین رامپوری و اعلی حضرت مولانا مفتی شاہ احمد رضا خان صاحب بریلوی کے مسلک پر ہو ( تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس ص 43. 44. مطبع ۔سعید برادران کھاریا گجرات )
اور حضور علامہ سید محمد نعیم الدین مراد ابادی نے ان اسماء میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا نام بڑھایا (فتاوی اسحاقیہ جلد اول ص 109)
خیال رہے کہ یہ اسماء صرف ایک مثال کے لئے ہے کوئی یہ نہ سمجھے کہ مسلک اعلیٰ حضرت کی بنیاد یہی علماء ہیں ۔یہ وہ علمائے کرام ہیں جو قرآن و احادیث اور کلمات ائمہ سلف و خلف کی روشنی میں مذہب اہل سنت کو اس دور میں لوگوں تک پہنچایا اسی طرح ان کے پہلے کے ہر دور کے علمائے کرام یہ کام کرتے تھے اور آرہے ہیں ۔ لہذا یہ نام حصر کے لئے نہیں ہے بلکہ جتنے علماء اہل سنت تھے یا ہیں سب مراد ہیں
ان تمام تصریحات سے واضح ہوگیا کہ
حضور امام اہل سنت قدس سرہ نے اپنی کتابوں میں انہیں عقائد و مسائل کو تحریر فرمایا ہے جو سلف سے لے کر خلف تک اب تک اہل سنت وجماعت کا رہا ہے اپنے دل و دماغ سے کچھ کم و بیش نہیں کیا اور ہر عقیدے و مسائل کے ثبوت میں قرآن و احادیث کے ساتھ ساتھ اسلاف کی کتابوں حوالہ جات تحریر کردینے..
اب خود بتائیں کہ جس شخص کی تقریر یا تحریر یا قول و فعل تصنیفات اعلی حضرت کے خلاف ہوگا کیا وہ سلف و خلف کا قول ہوگا کبھی بھی نہیں ہوگا جیسے کہ ہمارے علمائے اہل سنت کی تصریحات سے واضح ہوا.
.کیا ہمارے علمائے بریلی شریف اس حدیث شریف سے غافل ہے کہ
من قال لاخیہ یا کافر فقد باء بھا احدھما., یعنی جس نے اپنے بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر لوٹا جس کو کہا اگر وہ کافر ہے تو ٹھیک ہے ورنہ کہنے والا کافر ۔
جب اس حدیث سے غافل نہیں یقینا غافل نہیں لاریب غافل نہیں تو پھر بلا ثبوت اور بلا تاویل کے کسی کو مسلک سے کیسے نکالا جائے گا ایک بھی ثبوت پیش کرکے دیکھا دیا جائے کہ حضور مفتی اعظم ہند و تاج الشریعہ رضی آللہ تعالیٰ عنھم اور علامہ تاج السنہ حضرت علامہ مفتی محمد توصیف رضا خان صاحب قبلہ نے فلاں فلاں کو مسلک اعلی حضرت سے نکال دیا
مسلمانوں یہ قول کہ لوگوں کو مسلک اعلی حضرت سے نکالا جاتا ہے بالکل دھوکا دہی قول ہے اس قول کے فریب میں نہ آئے. ہاں صلح کلی تو خود بخود نکل جاتے ہیں انہیں نکالا نہیں جاتا ہے
اب دوسری بات یہ پھیلائی جارہی ہے کہ فروعی مسائل میں اختلاف کرنے سے مسلک سے نکال دیا جاتا ہے ۔. ۔
اس میں شرعی اصول یہ ہے کہ جس زمانے میں جو نئے مسائل پیدا ہوں گے ان کا جواب اس وقت کے علماء کے ذمہ ہے لیکن وہ بھی شرعی اصول و قاعدہ کے تحت ہو
آج تک ایک بھی ثبوت نہیں ہے کہ فروعی مسائل کی وجہ سے لوگوں کو مسلک سے نکالا گیا ۔ہاں آپ خود فیصلہ کریں کہ جن کا قول علمائے اہل سنت سلف و خلف کے خلاف ہوگا کیا اس کی اتباع ضروری ہے ؟
مثلا لاؤڈ اسپیکر کا مسئلہ ۔
آج بھی علماء میں اختلاف ہے اس کے باوجود بھی کسی ایک دوسرے پر لعن طعن نہیں کیا جاتا ہے جبکہ اہک کثیر جماعت علماء اہل سنت کے اس سے منع فرماتے ہیں کہ نماز فاسد ہوجائی گی اب جن کو نماز کی فکر ہے وہ استعمال بھی نہیں کرتے ہیں دینی پروگرام کا
ویڈیو کیسٹ بنوانے میں اختلاف ہے اس میں آپ خود دیکھیں کہ شرعی کیا حکم ہوگا پھر بھی مشائخ بریلی شریف سے لعن طعن کا ثبوت نہیں ہے ہاں ان دونوں مسائل میں ایک دوسرے کے دلائل پر شرعی بحث ہے ۔چلو مان لیا جائے کہ جائز کہنے والے کے دلائل قوت پر ہے تو دوسری جماعت والے کو کوئی نقصان نہیں لیکن اگر عنداللہ وہ تحقیق غلط ہوگی تو فوٹو پر جو وعیدیں آئی ہے اس کا موجب کون ہوگا ؟ مزامیر سے قوالی کا مسئلہ میں بھی اختلاف ہے لیکن اس کے باوجود سرکار امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز کے قلم سے کسی پر لعن طعن ثابت نہیں ہے
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ۔
*حلال کو حرام ۔یا حرام کو حلال جاننا جو کفر کہا گیا ہے ۔وہ ان چیزوں میں ہے جن کا حرام یا حلال ہونا ضروریات دین سے ہے ۔یا کم از کم نصوص قطعیہ سے ثابت ہو ۔اجتہادی مسائل میں کسی پر طعن جائز نہیں ۔نہ کہ ( معاذ اللہ) ایسا خیال ( عقائد و کلام ص 88) اجتہادی مسائل میں لعن طعن کرنے کو خور اعلی حضرت منع فرماتے ہیں
دیکھیں ! خود سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت فرماتے ہیں کہ
اجتہادی مسائل میں کسی پر طعن بھی جائز نہیں٫ نہ کہ (معاذ اللہ)ایسا خیال.
(عقائد و کلام ص 88)
دیکھیں تمام صحابہ کرام خوب بہتر صحیح طریقہ سے قرآن شریف پڑھتے تھے اس کے باوجود شخصی خوبی کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
استقر آوا القرآن من اربعۃ من عبدااللہ ابن مسعود… الحدیث یعنی قرآن چار شخصوں سے پڑھو ۔۔۔۔! سب میں پہلے عبداللہ بن مسعود کا نام لیا ۔یہ حدیث صحیح بخاری ۔و صحیح مسلم میں بروایت عبداللہ ابن عمر رضی آللہ تعالیٰ عنہ
اب تیسری بات یہ پھیلائی جارہی ہے کہ جب احادیث میں اختلاف اور صحابہ کرام میں اختلاف ہے تو پھر اعلی حضرت کے اقوال میں اختلاف کیوں نہیں ہوسکتا۔.
یہ بھی ایک دھوکہ ہے ۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
قرآن عظیم میں سب کچھ موجود ہے ۔مگر اسے کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔اگر حدیث اس کی شرح نہ فرماتی ۔قال اللہ تعالیٰ ۔ولتییںن للناس مانزل الیہھم یعنی تاکہ تم لوگوں سے بیان کردو جو ان کی طرف اترا ۔
اور حدیث بھی کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔اگر ائمہ مجتہدین اس کی شرح نہ فرماتے ۔ان کی سمجھ میں مدارج مختلف ۔نبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں رب مبلغ یبلغہ آوعی لہ من سامع یعنی بہت سے لوگ جن تک بات پہنچائی جاتی ہے ۔وہ سننے والوں سے زیادہ اس کو یاد رکھنے والے ہوتے ہیں ۔اور فرماتے ہیں کہ رب حامل فقہ الی من ھو افقہ منہ یعنی بہت سے فقہ اٹھانے والوں سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے جس کو وہ پہنچاتے ہیں ۔ اس تفقہ فی الدین میں اختلاف مراتب باعث اختلاف ہوا ۔اور ادھر مصلحت الیہ احادیث مختلف آئیں ۔کسی صحابی نے کوئی حدیث سنی ۔اور کسی نے کوئی ۔اور وہ بلاد میں متفرق ہوئے ۔ہر ایک نے اپنا علم شائع فرمایا ۔ہہ دوسرا باعث اختلاف ہوا
اب چوتھی بات یہ پھیلائی جارہی ہے کہ جب ائمہ میں اختلاف ہے تو اعلی حضرت کے اقوال سے اختلاف کیوں نہیں ہوسکتا. ؟
یہ بھی دلیل قوی نہیں ہے کیونکہ ائمہ کرام کا اختلاف رحمت ہے وہ حضرات مجتہدین مذہب ہیں ۔اج کون مجتہد ہے ذرا اب بھی نام سنیں .
جن امام نے جن صحابہ کرام کے قول کو قبول کیا وہ ان کا مذہب ہوا اور اختلاف صحابہ کرام کی وجوہات اوپر نقل ہے
امام اہل سنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
عبد اللہ بن عمر کا علم امام مالک کو آیا ۔
عبداللہ بن عباس کا علم امام شافعی کو
اور افضل العبادلہ عبداللہ بن مسعود ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ کو ۔رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین ۔
(عقائد و کلام ص 88) ۔
اس فقیر نے ہر حیلہ ہر بہانہ کا جواب دے دیا ۔ لہذا اب کسی کے بہکانے میں نہ آئیں ہاں فرقہ باطلہ اور صلح کلی سے کوئی صلح نہیں۔
*اس زمانے میں سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز کے اقوال پر عمل کیوں کیا جاتا ہے ان کی تحقیق کے خلاف دوسرے کی تحقیق کو ترجیح کیوں حاصل نہیں ہوتی تو سنیں ۔
ہندوستان کے علمائے اہل سنت کا اس پر اجماع ہے کہ چودہویں صدی کے مجدد اعلی حضرت ہیں اور یہی مکہ معظمہ کے صف اول کے عالم حضرت مولانا سید اسماعیل خلیل رحمتہ اللہ علیہ نے حسام الحرمین پر اپنی جو تقریظ لکھی ہے ۔اس میں بھی اس کی نشاندھی ہے
بل اقول لو قیل فی حقہ انہ مجد ھذا القرن لکان حقا وصدقا ولیس علی اللہ بمستنکر ان یجمع العالم فی واحد.یعنی میں کہتا ہوں کہ اگر ان کے حق ہوگا ۔اور اللہ کی قدرت سے کوئی بعید نہیں کہ ایک شخص میں پوری دنیا جمع فرمادے ۔(حسام الحرمین ص132)
علماء عرب و عجم ۔حل حرم نے اعلی حضرت قدس سرہ کو چودہویں صدی کا مجدد مانا ہے ۔سب سے پہلے 1318 ھجری میں جب ندوہ کے مقابلہ میں قاضی عبد الوحید صاحب نے رئیس پٹنہ نے اصلاح ندوہ کے نام پر عظیم الشان جلسہ کیا ۔جس میں اس وقت کے تمام اکابر اہل سنت شریک تھے ۔اس جلسہ میں خود مولانا عبد الوحید صاحب نے اعلی حضرت کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا جس کا ایک مصرء یہ ہے
مجدد عصرہ الفرد الفرید.یعنی یہ اپنے زمانے کے مجددیکتا ویگانہ ہیں
نیز حضرت مولانا محمد مطیع الرسول ۔مولانا شاہ عبد المقدر صاحب قادری سجادہ نشین خانقاہ قادریہ بدایوں نے اعلی حضرت کے بارے میں فرمایا ۔
جناب عالم اہل سنت مجددمائتہ حاظرہ مولانا احمد رضا ہے خان صاحب.. جسے تمام علماء قبول فرمایا ۔کسی نے رد وانکار نہیں فرمایا ۔
,,نیز اس جلسہ میں مجدداعظم اعلی حضرت قدس سرہ نے جو وعظ فرمایا تھا اس عنوان سے چھپا
*بیان ہدایت نشان مجدد مایۃ حاضرہ مؤید ملت طاہرہ امام اہل سنت حضرت مولانا حاجی محمد احمد رضا خان صاحب سنی ۔حنفی ۔قادری ۔برکاتی ۔بریلوی دام فیضہ القوی (فتاوی شارح بخاری جلد دوم ۔ص 357)
اقول. آج کے زمانے میں
آپ مجتہدین فی المسائل ہیں.
اب کوئی اس مقام بلندی پر نہ پہنچ کر تصنیفات امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف فتویٰ دے تو کیا سنی علماء اور سنی عوام ماننے کو تیار ہوں گے ؟ بلکہ کبھی بھی تیار نہیں ہوں گے کیونکہ آج کا دور امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ کا ہے ۔سنی کے دلوں میں ان کی محبت۔ احترام ۔عزت ۔عشق کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔ یہ۔خدا کا فضل جسے عطا کرے ۔
دیکھیں ! حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ کا اتباع کرو پھر ان میں فرمایا کہ
ماحدثکم ابن مسعود فصدقوہ.یعنی جو بات تم سے ابن مسعود بیان کریں ۔اس کی تصدیق کرو ۔
پھر فرمایا ۔
ما حدثکم حذیفۃ فصدقوہ.یعنی جو بات تم سے حذیفہ بیان کرے ۔اس کی تصدیق کرو۔
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ۔میں نے اپنی امت کے لئے پسند فرمایا ۔جو اس کے لئے عبداللہ بن مسعود پسند کریں ۔اور اپنی امت کے لئے ناپسند رکھا ۔جو اس کے ابن مسعود ناپسند رکھیں ۔
۔ہمیں تمام صحابہ کرام کے اقوال و افعال کی پیروی لازم
اہل سنت کا اجماع ہے کہ صحابہ کرام افضل امت ہیں ۔
ہاں فضائل جزئیہ مورد نزاع نہیں ہوسکتے ۔
لیکن حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بن مسعود اور حذیفہ بن یمان جو تم سے بیان کریں ۔اس کی تصدیق کرو ۔ کیونکہ ان دونوں صحابہ کرام کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اسرار سکھائے ۔ان کا لقب ہی صاحب سر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔امیر المومنین فاروق اعظم رضی آللہ تعالیٰ عنہ ان سے اسرار حضور کی باتیں پوچھتے
لہذا آج کے زمانے میں اقوال اعلی حضرت کو ترجیح حاصل ہے کیونکہ آپ کی تحقیق قرآن شریف ۔مفسریں ۔احادیث شریف ۔شارح احادیث ۔صحابہ کرام ۔تابعین ائمہ مذہب سلف و خلف سے ثابت ہے اس لئے علمائے کرام کو آپ کی تحقیق پر اعتماد ہے ۔

واللہ اعلم باالصواباب جو مسئلہ امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ کے بعد یعنی ابھی پیدا ہوا اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ جو مسئلہ جس زمانہ پیدا ہو اسی زمانہ کے علماء سے تصریح مانگی جائے.
نوپید مسائل میں اس زمانہ کے مستند علماء کی سند کافی ہے.
(عقائد و کلام ص 326)
بس آپ کی مرضی ہے جن پر عمل کریں لیکن جس کے دلائل باقوت ہو اس پر عمل کرنے میں بھلائی ہے
بس اب بھی کوئی کہے کہ اختلافی مسائل پر بحث کرنے سے ان کو مسلک اعلی حضرت سے نکال دیا جاتا ہے یہ قول دھوکا ہے اس پر عمل نہ کریں
کتبہ
فقیر محمد ثناءاللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار
مورخہ 26,ربیع الاول شریف 1444
مطابق 23 اکتوبر 2022

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x