ماہ شعبان اور شب برات پر وہ تمام جانکاری اس میں موجود ہیں جن کے پڑھنے کے بعد آپ کو کسی بھی طرح کی کوئی بھی جاکاری کی کوئی ضرورت نہیں
ماہ شعبان کیا ہے
ماہ شعبان، عبادات و اعمال کے اعتبار سے اہم مہینہ ہے، اس مہینہ میں شب برات بھی ہے جس کے فضائل بھی بعض روایات میں وارد ہوئے ہیں، اس ماہ مبارک میں دینی اعمال میں عوام افراط و تفریط کا شکار ہیں، اسی مناسبت سے یہ چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔
قرآن کریم میں سورہ دخان میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : [إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ ، فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ]
ترجمہ : بلاشبہ ہم نے اس قرآن کو مبارک رات میں نازل کیا ہے، بلاشبہ ہم ڈرانے والے ہیں، اس رات میں ہر امر حکیم کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
💠 ان آیات کریمہ میں میں چند امور کا ذکر ہے :
1- وہ کونسی مبارک رات ہے جس میں قرآن کا نزول ہوا ؟ : جمہور مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس سے رمضان کے مہینہ کی وہ رات مراد ہے جس کو قرآن کریم نے لیلة القدر فرمایا ہے، اس کی تائید میں قرآن کریم کی آیات موجود ہیں : [شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْه الْقُرْاٰنُ] اور دوسری آیت میں آیا ہے : [اِنَّا اَنْزَلْنٰہ فِیْ لَیْلَة ِ الْقَدْرِ] (اس سے معلوم ہوا کہ شب قدر رمضان میں ہے-)
2- اس رات میں برکت کی وجہ کیا ہے؟ : برکت (خیر کثیر) اس رات میں ہونے کی وجہ یہ ہے سے کہ اسی رات میں قرآن نازل ہوا جو تمام دینی اور دنیوی منافع کا ضامن ہے، اسی رات میں ملائکہ رحمت کا نزول ہوتا ہے اور دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اس مبارک رات سے مراد شب قدر ہے، قتادہ اور ابن زید کا یہی قول ہے، دونوں بزرگوں کا بیان ہے کہ شب قدر میں قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل ہوا، پھر بیس سال میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کی وساطت سے تھوڑا تھوڑا حضور اکرم ﷺ پر اتارا گیا، سو بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اس سے نصف شعبان کی رات مراد ہے، یہ خیال غلط ہے۔ [تفسیر مظہری سورہ دخان]
تقسیم ارزاق کی رات
3- تقسیمِ ارزاق کی رات کونسی ہے؟ : حضرت عکرمہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ اس آیت میں [لیلة مبارکة] سے مراد شب برات یعنی نصف شعبان کی رات ہے کیونکہ تقسیم ارزاق کی رات کو بعض روایات میں شب برات کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس رات کا مبارک ہونا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول کا ذکر ہے، اس کے ساتھ بعض روایات میں یہ مضمون بھی آیا ہے جو اس جگہ [لیلة مبارکة] کی صفت میں بیان فرمایا ہے یعنی [فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ امراً من عندنا] یعنی اس رات میں ہر حکمت والے معاملہ کا فیصلہ ہماری طرف سے کیا جاتا ہے، مگر یہ بات صحیح نہیں کیونکہ یہاں اس رات میں نزول قرآن کا ذکر سب سے پہلے ہے اور اس کا رمضان میں ہونا قرآنی آیات سے متعین ہے جبکہ شب برات کے متعلق جو یہ مضمون بعض روایات میں آیا ہے کہ اس میں ارزاق وغیرہ کے فیصلے ہوتے ہیں تو امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ روایت مرسل ہے اور ایسی روایت نصوص صریحہ کے مقابلہ میں قابل اعتماد نہیں ہوسکتی۔
پھر قاضی ابوبکر بن عربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نصف شعبان کی رات کے بارے میں کوئی قابل اعتماد روایت ایسی نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ رزق اور موت و حیات کے فیصلے اس رات میں ہوتے ہیں بلکہ انہوں نے فرمایا کہ اس رات کی فضیلت میں بھی کوئی قابل اعتماد حدیث نہیں آئی؛ البتہ روح المعانی میں ایک روایت بلا سند حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رزق اور موت و حیات وغیرہ کے فیصلے نصف شعبان کی رات میں لکھے جاتے ہیں اور شب قدر میں فرشتوں کے حوالے کئے جاتے ہیں اگر یہ روایت ثابت ہو تو اس طرح دونوں قول میں تطبیق ہوسکتی ہے (یعنی کہ فیصلے شبِ برات سے لکھے جاتے ہیں اور شبِ قدر میں حوالے کئے جاتے ہیں-) کیونکہ اصل بات جو قرآن اور احادیث صحیحہ کے ظاہر سے ثابت ہے وہ یہی ہے کہ سورۃ دخان کی آیت میں [لیلہ مبارکہ] اور [فیہا یفرق] وغیرہ کے سب الفاظ شب قدر ہی کے متعلق ہیں، جہاں تک معاملہ شب برات کی فضیلت کا ہے، سو وہ ایک مستقل معاملہ ہے جو بعض روایات میں منقول ہے مگر وہ اکثر ضعیف ہیں تاہم وہ روایات اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعف سے خالی نہیں لیکن تعددِ طرق اور تعددِ روایات سے ان کو ایک طرح کی قوت حاصل ہو جاتی ہے، اس لئے بہت سے مشائخ نے ان کو قبول کیا ہے کیونکہ فضائلِ اعمال میں ضعیف روایات پر عمل کر لینے کی بھی گنجائش ہے۔ واللہ اعلم [مستفاد از معارف القرآن تفسیر سورہ دخان]
حضرت مفتی محمد عاشق الہی بلند شہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : بعض حضرات نے فرمایا ہے كہ چونكہ اس رات (شب قدر) میں تمام مخلوقات كا نوشتہ آئندہ سال كے اسی رات كے آنے تك ان فرشتوں كے حوالے كر دیا جاتا ہے جو كائنات كی تدبیر اور تنفیذ امور كے لیے مامور ہیں، اس لیے اس كو [لیلة القدر] كے نام سے موسوم كیا گیا، اس میں ہر انسان كی عمر اور مال اور رزق اور بارش وغیرہ كی مقادیر مقررہ فرشتوں كے حوالہ كر دی جاتی ہیں،
محققین كے نزدیك چونكہ سورۃ دُخان كی آیت [فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍۙ] كا مصداق شب قدر ہی ہے، اس لئے یہ كہنا درست ہے كہ شب قدر میں آئندہ سال پیش ہونے والے امور كا فیصلہ كر دیا جاتا ہے یعنی لوح محفوظ سے نقل كركے فرشتوں كے حوالے كردیا جاتا ہے، شعبان كی پندرہویں شب جسے [لیلة البرأت] كہا جاتا ہے كہ اس كی جو فضیلتیں وارد ہوئی ہیں، ان كی اسانید ضعیف ہیں، ان میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا كی روایت میں یہ بھی ہے كہ شعبان كی پندرہویں رات كو لكھ دیا جاتا ہے كہ اس سال میں كونسا بچہ پیدا ہوگا اور كس آدمی كی موت ہوگی اور اس رات میں بنی آدم كے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اسی میں ان كے رزق نازل ہوتے ہیں- مشكوٰۃ المصابیح صفحہ ١١٥ میں یہ حدیث كتاب الدعوات للامام البیہقی سے نقل كی گئی ہے جسے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے اور بعض حضرات نے شب قدر اور شب برأت كے فیصلوں كے بارے میں یہ توجیہ كی ہے كہ ممكن ہے كہ واقعات شب برأت میں لكھ دیئے جاتے ہوں اور شب قدر میں فرشتوں كے حوالے كر دیئے جاتے ہوں۔ [مستفاد از انوار البیان تفسیر سورہ قدر]
ماہ شعبان کے فضائل
ماہ شعبان کے فضائل : حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے۔ [کنز العمال بحوالہ ابن عساکر ودیلمی ،فیض القدیر]
شعبان کے چاند اور تاریخ کا اہتمام : حضور اکرم ﷺ نے امت کو یہ حکم فرمایا کہ [”احصوا ہلال شعبان لرمضان“] یعنی رمضان کے لیے شعبان کے چاند کو اچھی طرح یاد رکھو۔[ترمذی]
شعبان میں برکت کی دعا : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو حضور اکرم ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
💎 [[اللّٰھمَّ باَرِکْ لَنَا فِيْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَان]]
ترجمہ : اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا۔ [مسند احمد، رقم الحدیث 2228]
ماہ شعبان کے روزے
شعبان میں روزوں کا اہتمام : ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ جب نفل روزے رکھنے شروع کرتے تو ہم کہتے کہ اب آپ روزے رکھنا ختم نہیں کریں گے اور جب روزے نہ رکھنے پر آتے تو ہم کہتے کہ اب آپ ﷺ کبھی روزہ نہیں رکھیں گے میں نے آپ ﷺ کو رمضان کے علاوہ کسی مہینہ میں پورے ماہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور میں نے آپ ﷺ کو شعبان کے علاوہ اور کسی مہینہ میں زیادہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا (یعنی آپ ﷺ شعبان کے مہینے میں جتنے زیادہ روزے رکھتے تھے اتنے اور کسی مہینہ میں علاوہ رمضان کے نہیں رکھتے تھے)
ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ شعبان کے پورے ماہ روزے رکھا کرتے تھے (یعنی) ماہ شعبان میں چند دن چھوڑ کر بقیہ دنوں میں روزے سے رہا کرتے تھے۔ [بخاری و مسلم]
ایک اہم فائدہ
فائدہ : بعض حضرات کے نزدیک مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ ایک سال تو شعبان کے پورے ماہ اور دوسرے سال شعبان کے اکثر دنوں میں روزہ رکھا کرتے تھے۔[مظاہر حق]
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ سے سوال کیا کہ میں آپ ﷺ کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینے میں (نفلی) روزے رکھتے نہیں دیکھا؟ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ رجب اور رمضان کے درمیان کا مہینہ ہے جس کی برکت سے لوگ غافل ہیں، اس ماہ میں اللہ تعالی کے سامنے اعمال پیش کئے جاتے ہیں، میری خواہش ہے کہ میرے اعمال اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزے سے ہوں۔ [نسائی، مسند احمد،ابو داؤد : 2076]
ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضور اکرم ﷺ سے معلوم کیا کہ کیا آپ شعبان کے روزے بہت پسند کرتے ہیں؟ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس سال انتقال کرنے والوں کے نام اس ماہ میں لکھتا ہے، میری خواہش ہے کہ میری موت کا فیصلہ اس حال میں ہو کہ میں روزے سے ہوں۔[رواہ ابو یعلی]
فائدہ : بعض دیگر احادیث میں شعبان کے آخری عشرے میں روزے رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے تاکہ رمضان کے روزے رکھنے میں دشواری نہ ہو۔
رمضان کے روزوں کی تقویت کے لئے کمزور افراد کا نصف شعبان کے بعد روزہ نہ رکھنا : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب شعبان کا آدھا مہینہ گزر جائے تو روزے نہ رکھو- [ابو داؤد، ترمذی ابن ماجہ ، دارمی]
فائدہ : شعبان کے آخری نصف مہینے میں قضا یا کسی واجب روزہ کے علاوہ اور روزے نہ رکھنے کی ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے اور اس کا تعلق امت کی آسانی و شفقت سے ہے یعنی آپ ﷺ نے رمضان کے بالکل قریبی ایام میں روزے رکھنے سے اس لئے منع فرمایا ہے تاکہ ان روزوں کی وجہ سے امت کو ضعف و ناتوانی لاحق نہ ہو جائے کہ جس کی وجہ سے رمضان کے روزے دشوار اور بھاری ہو جائیں، قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ اس ممانعت کا تعلق اس شخص سے ہے کہ جس کو پے درپے متواتر روزے کی طاقت میسر نہ ہو، لہٰذا اس کے لئے ان دنوں میں روزے نہ رکھنا ہی مستحب ہے جیسا کہ ان لوگوں کو جو قوتِ برداشت نہ رکھتے ہوں عرفہ کے دن روزہ نہ رکھنا مستحب ہے تاکہ وہ روزہ کی غیر متحمل مشقت سے بچ کر اس دن ذکر و دعا میں مشغول رہیں، ہاں! جن لوگوں کے اندر قوت برداشت ہو، ان کے لئے شعبان کے آخری نصف مہینے میں روزے رکھنا ممنوع نہیں ہیں کیونکہ حضور اکرم ﷺ سے شعبان کے پورے مہینے میں روزے رکھنا بھی منقول ہے- [مستفاد از : مظاہر حق]
یوم الشک میں روزہ
یوم الشک یعنی شعبان کی 29 یا 30 کو روزہ ترک کردینا : حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے یوم الشک کو روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔ [ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی]
فائدہ : شعبان کی انتیس یا تیس تاریخ کو بادل وغیرہ کی وجہ سے چاند نہیں دیکھا گیا مگر ایک شخص نے چاند دیکھنے کی شہادت دی اور اس کی شہادت قبول نہیں کی گئی، اسی طرح دو فاسق لوگوں نے چاند دیکھنے کی گواہی دی اور ان کی گواہی قبول نہیں کی گئی، اس کی صبح کو جو دن ہوگا یعنی تیس تاریخ تو وہ یوم الشک (شک کا دن) کہلائے گا کیونکہ اس دن کے بارے میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ رمضان شروع ہوگیا ہو اور یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ رمضان شروع نہ ہوا ہو، لہٰذا اس غیر یقینی صورت کی وجہ سے اسے شک کا دن کہا جاتا ہے، ہاں! اگر انتیس تاریخ کو بادل وغیرہ نہ ہو اور کوئی بھی شخص چاند نہ دیکھے تو تیس تاریخ کو یوم الشک نہ کہیں گے، اس حدیث میں اسی دن کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یوم الشک کو رمضان یا کسی واجب کی نیت سے روزہ رکھنا مکروہ ہے؛ البتہ اس دن نفل روزہ رکھنے کے بارے میں کچھ تفصیل ہے :
1- اگر کوئی شخص شعبان کی پہلی ہی تاریخ سے نفل روزہ رکھتا چلا آ رہا ہو یا تیس تاریخ اتفاق سے اس دن ہو جائے کہ جس میں کوئی شخص روزہ رکھنے کا عادی ہو مثلا پیر یا جمعرات کا دن آگیا اور وہ اس دن رکھنے کا عادی ہے تو اس کے لئے اس دن روزہ رکھنا افضل ہوگا۔
2- یوم الشک کو روزہ رکھنا اس شخص کے لئے بھی افضل ہے جو شعبان کے آخری تین دنوں میں روزے رکھتا ہو۔
3- اگر یہ صورتیں نہ ہوں تو پھر یوم الشک کا مسئلہ یہ ہے کہ خواص تو اس دن نفل کی نیت کے ساتھ روزہ رکھ لیں اور عوام دوپہر تک کچھ کھائے پئے بغیر انتظار کریں، اگر چاند کی کوئی قابل قبول شہادت نہ آئے تو دوپہر کے بعد افطار کرلیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ معمول نقل کیا جاتا ہے کہ یہ حضرات شعبان کی انتیس تاریخ کو چاند تلاش کرتے، اگر چاند دیکھ لیتے یا معتبر شہادت کے ذریعے رویت ہلال کا ثبوت ہوجاتا تو اگلے روز روزہ رکھتے ورنہ بصورت دیگر بادل و غبار وغیرہ سے مطلع صاف ہونے کی صورت میں روزہ نہ رکھتے، ہاں! اگر مطلع صاف نہ ہوتا تو روزہ رکھ لیتے تھے، علماء فرماتے ہیں کہ اس صورت میں ان کا یہ روزہ نفل ہوتا تھا۔ [مستفاد از : مظاہر حق]
ماہ شعبان، قضا روزے رکھنے کا عمدہ وقت : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے ذمہ رمضان کے جو روزے ہوتے ان کی قضا میں صرف شعبان ہی کے مہینہ میں رکھ سکتی تھی، راوی حضرت یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں مشغولیت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو (شعبان کے علاوہ کسی اور مہینہ میں) رمضان کے قضا روزے سے باز رکھتی تھی۔ [بخاری و مسلم]
فائدہ : یعنی رمضان کے وہ روزے جو خواتین کے ایام کی وجہ سے قضا ہوجاتے تھے، ان کو شعبان کے علاوہ اور کسی مہینہ میں رکھنے کی فرصت نہیں پاتی تھیں کیونکہ اور دنوں میں وہ آپ ﷺ کی خدمت میں ہمہ وقت مشغول رہا کرتی تھیں اور اس طرح مستعد رہا کرتی تھیں کہ آپ ﷺ جس وقت بھی خدمت کے لئے بلائیں حاضر ہوجائیں، چونکہ آپ ﷺ شعبان کے مہینے میں اکثر روزے سے رہا کرتے، اس لئے اس مہینہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو سہولت مل جاتی اور پھر جب گھر میں روزہ کا ماحول بن جائے تو رمضان کے قضا روزے رکھنا آسان ہوجاتا۔ [مستفاد از : مظاہر حق]
روزہ : بدن کی زکوة ہے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ہر چیز کے لئے زکوۃ ہے اور بدن کی زکوۃ روزہ رکھنا ہے۔ [ابن ماجہ]
فائدہ : چونکہ زکوۃ کا مفہوم “بڑھنا اور طہارت” ہے، تو مفہوم یہ ہوا کہ ہر چیز کے لئے بڑھوتری اس چیز میں سے کچھ دے کر حاصل ہوتی ہے یا ہر چیز کے لئے پاکیزگی و طہارت کا ایک ذریعہ مقرر ہے جس کی وجہ سے وہ چیز پاکیزہ و طاہر ہوتی ہے، لہذا بدن کی زکوۃ یعنی بدن کی جسمانی صحت و تندرستی اور بدن کی روحانی پاکیزگی و طہارت کا ذریعہ روزہ ہے کہ روزہ کی وجہ سے اگرچہ بظاہر جسم کی طاقت و قوت کا کچھ حصہ گھلتا اور ناقص ہوتا ہے مگر حقیقت میں روزہ جسم کے نشو نما اور صحت و تندرستی میں برکت و اضافہ کا ایک ذریعہ بنتا ہے، نیز اس کی وجہ سے بدن گناہوں سے پاک ہوتا ہے، لہٰذا زکوۃ عبادت مالیہ ہے اور روزہ طاعت بدنیہ ہے۔
سال بھر میں 51 نفلی روزے : آدمی کو اپنے لئے رمضان کے علاوہ بھی روزے کا اہتمام کرنا چاہیے، پورے سال میں مسنون روزوں کی تعداد اکیاون (51) ہے، تینتیس (33) روزے تو اس طرح کہ تین روزے ایام بیض (ہر مہینہ کی 13، 14 ، 15 تاریخ)، نو (9) روزے ذی الحجہ کے مہینہ میں پہلی تاریخ سے نویں تاریخ تک، دو (2) روزے اس طرح کہ ایک یوم عاشورہ کا روزہ اور ایک دن اس سے پہلے کا یا بعد کا، ایک روزہ شعبان کی پندرہویں تاریخ کا اور چھ روزے شوال کے جو شش عید کے روزے کہلاتے ہیں۔ [مستفاد از : مظاہر حق]
شعبان کی رات قبرستان جانا
15 شعبان کی رات قبرستان جانا : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک (مرتبہ اپنی باری میں) رات کو میں نے حضور اکرم ﷺ کو بستر پر نہیں پایا (جب میں نے تلاش کیا تو) یکایک کیا دیکھتی ہوں کہ آپ ﷺ بقیع میں موجود ہیں (مجھے دیکھ کر) آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہیں اس بات کا خوف تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے خیال ہوا تھا کہ آپ اپنی کسی اور بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات (یعنی شعبان کی پندرہویں شب) کو آسمان دنیا (یعنی پہلے آسمان) پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب (کی بکریوں) کے ریوڑ کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں گناہ بخشتا ہے۔
رزین نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ (مومنین میں سے) جو لوگ دوزخ کے مستحق ہو چکے ہیں انہیں بخشتا ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ [مشکوة بحوالہ ترمذی و ابن ماجہ]
فائدہ : “بقیع” مدینہ منورہ میں ایک قبر ستان کا نام ہے اسی کو جنت البقیع بھی کہتے ہیں، اس روایت میں واقعہ تفصیل سے نہیں ہے، جبکہ دوسری روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اسی واقعہ کو ذرا تفصیل کے ساتھ اس طرح بیان فرماتی ہیں کہ جب میں نے حضور اکرم ﷺ کو رات کو اپنی باری کے موقعہ پر بستر پر نہیں پایا تو میں نے اپنے بدن پر اپنے کپڑے لپیٹے اور آپ ﷺ کے نقش قدم ڈھونڈتی ہوئی باہر نکل گئی، اچانک میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ بقیع میں سجدے میں پڑے ہوئے اور سجدہ بھی آپ ﷺ نے اتنا دراز کیا کہ مجھے تو یہ شبہ ہوا کہ (خدا نخواستہ) آپ ﷺ کا وصال ہو گیا ہے، جب آپ ﷺ بہت دیر کے بعد سجدے سے اٹھ کر سلام پھیر چکے تو میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم ڈرتی تھی کہ اللہ اور اس کا رسول تمہارے ساتھ ظلم کا معاملہ کریں گے، یعنی تمہیں یہ خیال ہو گیا تھا کہ میں تمہاری باری چھوڑ کر کسی اور بیوی کے ہاں چلا گیا ہوں؟ (اس جملے میں “اللہ” کا ذکر زینت اور حسن کلام کے لئے ہے) اس کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ یا رسول اللہ! میں نے یہ گمان نہیں کیا (نعوذ باللہ) اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے میرے ساتھ ظلم کا معاملہ کیا ہے بلکہ مجھے تو خیال ہوگیا تھا کہ یا تو آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یا اپنے ہی اجتہاد سے میرے پاس سے اٹھ کر کسی دوسری بیوی کے ہاں چلے گئے ہیں۔
حضرت علامہ ابن حجر رحمہ اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس جواب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ خدانخواستہ اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم ﷺ کے ارشاد کے جواب میں نَعَمْ (جی ہاں) فرما دیتیں تو معاملہ اتنا نازک تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا یہ جواب کفر شمار ہوتا مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی فراست اور ذہانت سے صورت حال سمجھ گئیں، اس لئے جواب انہوں نے اس پیرایہ سے دیا کہ اس کی پریشانی و حیرانی کا عذر بیان کیا پھر حضور اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس سے اٹھ آنے کا عذر بیان کیا کہ :
شعبان کی پندرہویں شب کو اللہ جل شانہ آسمان دنیا پر نزول جلال فرماتا ہے یعنی اس کی رحمت کاملہ کا فیضان اس بیکراں طور پر ہوتا ہے کہ قبیلہ بنو قلب کے ریوڑ کے جتنے بال ہیں اس سے بھی زیادہ لوگوں کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں-
لہٰذا یہ وقت چونکہ برکاتِ ربانی اور تجلیاتِ رحمانی کے اترنے کا تھا، اس لئے میں نے چاہا کہ ایسے بابرکت اور مقدس وقت میں اپنی امت کے لوگوں کیلئے بخشش کی دعا کروں، چنانچہ میں جنت البقیع میں پہنچ کر اپنے پروردگار کی مناجات اور اس سے دعا مانگنے میں مشغول ہوگیا۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے لیلة البرأت میں آپ ﷺ کا بقیع جانا معلوم ہوا، جو شبِ برات میں قبرستان جانے کی اصل ہے، لیکن چونکہ حضور اکرم ﷺ سے اس پر مداومت ثابت نہیں، اس لیے اس کو سنتِ مستمرہ کا درجہ دینا بھی صحیح نہیں، ہاں کبھی کبھی چلا جائے تو مضائقہ نہیں- [درسِ ترمذی : 581/2]
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ بڑی کام کی بات بیان فرماتے ہیں جو ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے، فرماتے ہیں کہ جو چیز حضور اکرم ﷺ سے جس درجہ میں ثابت ہو اسی درجے میں اسے رکھنا چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے، لہٰذا ساری حیاتِ طیبہ میں حضور اکرم ﷺ سے صرف ایک مرتبہ قبرستان جانا مروی ہے۔
نوٹ : یہ اگرچہ حدیث ضعیف ہے جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کے قول سے معلوم ہوا، تاہم فضائلِ اعمال کے سلسلہ میں ضعیف احادیث پر عمل کرنا بالاتفاق جائز ہے، اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ماہ شعبان، ماہ رمضان کے لئے مقدمہ کی حیثیت رکھتا ہے، اس لئے اس مہینہ سے رمضان کی تیاری شروع کی جائے۔ [مستفاد از مظاہر حق]
ماہ شعبان کی پندرہویں رات کی فضیلت : احادیث مبارکہ میں اس رات کے بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں اور اسلاف امت بھی اس کی فضیلت کے قائل ہیں، اس رات کو ”شب برات“ کہتے ہیں، کیونکہ اس رات لا تعداد انسان رحمتِ باری تعالیٰ سے جہنم سے نجات حاصل کرتے ہیں۔
افراط وتفریط کے شکار
شب براءت کے متعلق لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں، بعض تو وہ ہیں جو سرے سے اس کی فضیلت کے قائل ہی نہیں بلکہ اس کی فضیلت میں جو احادیث مروی ہیں انھیں موضوع و من گھڑت قرار دیتے ہیں، جبکہ بعض فضیلت کے قائل تو ہیں لیکن اس فضیلت کے حصول میں بے شمار بدعات، رسومات اور خود ساختہ امور کے مرتکب ہیں، جبکہ اعتدال کا راستہ یہ ہے کہ شعبان کی اس رات کی فضیلت ثابت ہے لیکن اس کا درجہ فرض و واجب کا نہیں بلکہ محض استحباب کا ہے، سرے سے اس کی فضیلت کا انکار کرنا بھی صحیح نہیں، اس میں کئے جانے والے اعمال و عبادات کو فرائض و واجبات کا درجہ دینا بھی درست نہیں، اس رات کے فضائل میں بہت سی احادیث مروی ہیں، گرچہ ان میں سے بعض سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں لیکن چونکہ فضائل کے باب میں ضعیف احادیث تعددِ روایات کی وجہ سے مقبول ہیں، اس لئے وہ پیش خدمت ہیں، مزید یہ کہ اکابر و اسلاف اور امت کا عبادت کا تعامل بھی مؤید ہے۔
1- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نقل فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ (اے عائشہ!) کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کون سی رات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ شعبان کی پندرہویں رات ہے، اس رات اللہ رب العزت اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتے ہیں، بخشش چاہنے والوں کو بخش دیتے ہیں، رحم چاہنے والوں پر رحم فرماتے ہیں اور بغض رکھنے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں- [شعب الایمان للبیہقی: رقم الحدیث 3554، جامع الاحادیث للسیوطی: رقم 7265، کنز العمال: رقم الحدیث 7450]
2- حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں (کَمَا یَلِیقُ بِشَانِه) اس رات ہر ایک کی مغفرت کر دی جاتی ہے سوائے اس شخص کے جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے والا ہو یا وہ شخص جس کے دل میں (کسی مسلمان کے خلاف) کینہ بھرا ہو۔ [شعب الایمان للبیہقی: رقم الحدیث3546، مجمع الزوائد للہیثمی: رقم 12957]
[قال الہیثمی: رواه البزار وفيه عبد الملك بن عبد الملك ذكره ابن أبي حاتم في الجرح والتعديل ولم يضعفه وبقية رجاله ثقات] [مجمع الزوائد للہیثمی:تحت الرقم 12957]
[قال المنذری: اسنادہ لا باس بہ] [الترغیب و الترہیب: تحت الرقم 4190]
3- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ (اے عائشہ!) کیا تمھیں معلوم ہے کہ اس رات یعنی شعبان کی پندرھویں رات میں کیا ہوتا ہے؟حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس میں کیا ہوتا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس سال جتنے انسان پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ اس رات میں لکھ دئے جاتے ہیں اور جتنے لوگ اس سال میں مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ دیے جاتے ہیں، اس رات بنی آدم کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی مقررہ روزی اترتی ہے۔ [مشکوة : رقم الحدیث 1305]
فائدہ : لکھنے کا کیا مطلب یہ ہے کہ اس رات لوحِ محفوظ سے انسانی امور سے متعلقہ فہرستیں لکھ کر فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہیں، واللہ اعلم بالصواب
4- حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے
اور فرمایا کہ یہ شعبان کی پندرہویں رات ہے، اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے لیکن اس رات مشرک، کینہ رکھنے والے، قطع رحمی کرنے والے، ازار ٹخنوں سے نیچے رکھنے والے، ماں باپ کے نافرمان اور شراب کے عادی کی طرف نظر (رحمت) نہیں فرماتے۔ [شعب الایمان للبیہقی: رقم الحدیث 3556، الترغیب و الترہیب للمنذری: رقم الحدیث 1547]
🍂 شب برأت اکابرین امت کی نظر میں :
1- حضرت عطاء بن یسار تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ [مَا مِنْ لَيْلَةٍ بَعْدَ لَيْلَةِ الْقَدْرِ أَفْضَلُ مِنْ لَيْلَةِ النِّصْفِ من شَعْبَانَ] یعنی لیلۃ القدر کے بعد شعبان کی پندرھویں رات سے زیادہ افضل کوئی رات نہیں۔ [لطائف المعارف : ابن رجب الحنبلی: ص151]
2- علامہ ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہلِ شام کے تابعین حضرات مثلاً امام خالد بن معدان، امام مکحول، امام لقمان بن عامر وغیرہ شعبان کی پندرہویں رات کی تعظیم کرتے تھے اور اس رات خوب محنت سے عبادت فرماتے تھے، انہی حضرات سے لوگوں نے شبِ براءت کی فضیلت کو لیا ہے۔ [لطائف المعارف: ابن رجب الحنبلی: ص 151]
3- امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہا جاتا تھا کہ پانچ راتوں میں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے : جمعہ کی رات، عید الاضحیٰ کی رات، عید الفطر کی رات، رجب کی پہلی رات اور نصف شعبان کی رات؛ میں نے ان راتوں کے متعلق جو بیان کیا ہے اسے مستحب سمجھتا ہوں، فرض نہیں سمجھتا۔ [کتاب الام للشافعی: 231/1 العبادة لیلۃ العيدين، السنن الکبریٰ للبیہقی:319/3]
4- علامہ زین الدین بن ابراہیم المعروف بابن نجیم المصری الحنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رمضان کی آخری دس راتوں میں، عیدین کی راتوں میں، ذوالحجہ کی دس راتوں میں، شعبان کی پندرہویں رات میں شب بیداری کرنا مستحبات میں سے ہے جیسا کہ احادیث میں آیا ہےاور علامہ منذری رحمہ اللہ نے انہیں ترغیب و ترہیب میں مفصلاً بیان کیا ہے۔ [البحر الرائق لابن نجیم: 56/2]
5- حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ رات ”لیلة البرأت“ ہے اور اس لیلة البرأت کی فضیلت کے بارے میں روایات صحیح ہیں۔ [العرف الشذی: 250/2]
6- حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شبِ برأت کی اتنی اصل ہے کہ پندہویں رات اور پندرہواں دن اس مہینے کا بہت بزرگی اور برکت کا ہے۔ [بہشتی زیور : حصہ ششم، ص 58]
7- حضرت مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شعبان کی پندرہویں شب ایک افضل رات ہے۔ [کفایت المفتی : ۱ /۲۲۵،۲۲۶]
8- حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شب قدر و شب براء ت کے لئے شریعت نے عبادت، نوافل، تلاوت،ذکر، تسبیح، دعاء و استغفار کی ترغیب دی ہے- [فتاوی محمودیہ ۳ /۲۶۳، جامعہ فاروقیہ کراچی]
9- شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم فرماتے ہیں : شب برأت کی فضیلت میں بہت سی روایات مروی ہیں، جن میں سے بیشتر علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ”الدر المنثور“ میں جمع کردی ہیں، ان روایات کے ضعف کے باوجود شبِ برأت میں اہتمامِ عبادت بدعت نہیں ، اول تو اس لیے کہ روایات کا تعدد اور ان کا مجموعہ اس پر دال ہے کہ لیلة البرأت کی فضیلت بے اصل نہیں، دوسرے امت کا تعامل لیلة البرأت میں بیداری اور عبادت کا خاص اہتمام کرنے کا رہا ہے اور یہ بات کئی مرتبہ گزر چکی ہے کہ جو بھی ضعیف روایت مؤید بالتعامل ہے وہ مقبول ہوتی ہے، لہذا لیلة البرأت کی فضیلت ثابت ہے اور ہمارے زمانے کے بعض ظاہر پرست لوگوں نے احادیث کے محض اسنادی ضعف کو دیکھ کر لیلة البرأت کی فضیلت کو بے اثر قرار دینے کی جو کوشش کی ہے وہ درست نہیں۔ [درسِ ترمذی : 579/2]
پندرہویں شعبان کو عبادت کرنا : حضرت علی کرم اللہ وجہہ نقل کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب نصف شعبان کی رات ہو (یعنی شب برات) تو اس رات کو نماز پڑھو اور اس کے دن میں (یعنی پندرہویں کو) روزہ رکھو، کیونکہ اللہ جل شانہ اس رات کو آفتاب چھپنے کے وقت آسمان دنیا (یعنی نیچے کے آسمان) پر نزول فرماتا ہے، (یعنی اپنی رحمت عام کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے) اور (دنیا والوں سے) فرماتا ہے کہ آگاہ! ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ میں اسے بخشوں؟ آگاہ! ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اسے رزق دوں؟ آگاہ! ہے کوئی گرفتار مصیبت کہ میں اسے عافیت بخشوں؟ آگاہ! ہے کوئی ایسا اور ایسا (یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر ضرورت اور ہر تکلیف کا نام لے کر اپنے بندوں کو پکارتا رہتا ہے مثلاً فرماتا ہے مثلاً کوئی مانگنے والا ہے کہ میں عطا کروں؟ ہے کوئی غمگین کہ میں اسے خوشی و مسرت کے خزانے بخشوں؟ وغیرہ وغیرہ) یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔ [سنن ابن ماجہ]
فائدہ : شب برأت کی عظمتوں اور فضیلتوں کا کیا ٹھکانہ؟ یہی وہ مقدس شب ہے کہ پروردگار عالم اپنی رحمت کاملہ اور رحمت عامہ کے ساتھ اہل دنیا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور دنیا والوں کو اپنی رحمت کی طرف بلاتے ہیں، ان کے دامن میں رحمت و بخشش اور عطاء کے خزانے بھر دیتے ہیں، خوشخبری ہو ان نفوس قدسیہ کو جو اس مقدس شب میں اپنے پروردگار کی رحمت کا سایہ ڈھونڈھتے ہیں عبادت و بندگی کرتے ہیں اپنے مولیٰ کی بارگاہ میں اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کی درخواست پیش کرتے ہیں اور مولیٰ ان کی دخواستوں کو اپنی رحمت کاملہ کے صدقے قبول فرماتا ہے، افسوس ہے ان حرماں نصیبوں پر، جو اس بابرکت و باعظمت شب کی تقدیس کا استقبال لہو و لعب سے کرتے ہیں، آتش بازی جیسے قبیح فعل میں مبتلا ہو کر اپنی نیک بختی و سعادت کو بھسم کرتے ہیں ، کھیل کود اور حلوے مانڈے کے چکر میں پڑ کر رحمت الٰہی سے بعد اختیار کرتے ہیں۔
اکثر صحابہ مثلاً حضرت عمر فاروق اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہم وغیرھما سے منقول ہے کہ وہ اس رات کو یہ دعا بطور خاص پڑھا کرتے تھے :
💎 [[اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ کَتَبْتَنَا اَشْقِیَاء فَاَمْحُه، وَاکْتُبْتَنَا سَعداء وَاِنْ کُنْت کَتَبْتَنَا سَعْدَاء فَاثْبِتْنَا فَاِنَّکَ تَمْحُوْمَنْ تَشَاْءَ وَتُثْبِتْ عِنْدَکَ اُمُّ الْکِتَابُ]]
ترجمہ : “اے پروردگار! اگر تو نے (لوح محفوظ میں) ہمیں شقی لکھ رکھا ہے تو اسے مٹا دے اور ہمیں سعید و نیک بخت لکھ دے اور اگر تو نے (لوح محفوظ میں) ہمیں سعید و نیک بخت لکھ رکھا ہے تو اسے قائم رکھ، بیشک جسے تو چاہے مٹائے اور جسے چاہے قائم رکھے اور تیرے ہی پاس امر الکتاب (لوح محفوظ) ہے۔
پندرہویں شعبان کی شب میں اس دعا کا پڑھنا حدیث میں منقول ہے لیکن یہ حدیث قوی نہیں ہے، اس دعا کے الفاظ [اِنْ کُنْتَ کَتَبْتَنَا اَشْقِیَاء] میں کتابت یعنی لکھنے سے مراد ” کتابت معلقہ” ہے کہ اس میں تغیر و تبدل ممکن ہے یہاں “کتابت محکمہ” مراد نہیں ہے، کیونکہ لوح محفوظ میں آخری طور پر جو بات محکم لکھ دی گئی ہے اس میں تغیر و تبدل ممکن نہیں ہے۔ [مستفاد از مظاہر حق]
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا اس رات میں بلا کسی قید و خصوصیت کے مطلق نماز کا ثبوت ہے، ہر شخص اپنے طور پر انفرادی عبادت کرے، جس میں نمائش یا کسی اور کیفیت مخصوصہ کی پابندی نہ ہو تو مستحسن ہے اور اگر اس میں رسوم اور ایسی کیفیتِ مخصوصہ کی پابندی جو شرعا ثابت نہ ہو اور اس کو عبادت اور ثواب کی نیت سے کیا جائے تو بدعت ہے، حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جمہور انفراداً عبادت کے قائل ہیں، اس پر پوری امت کا اجماع ہے، اس رات میں کسی قسم کی عبادت کی تعیین، مختلف قسم کے تقییدات و اجتماعات وغیرہ سب خرافات و بدعات ہیں۔ [احسن الفتاوی : 80 / 10]
عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں : یہ بات بھی واضح رہے کہ اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقے سے عبادت کی جائے ، جیسے بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ گھڑ کر یہ کہہ دیا کہ شب ِ برات میں اس خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے ، مثلاََ پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ، اس کا کوئی ثبوت نہیں، یہ بالکل بے بنیاد بات ہے، بلکہ نفلی عبادت جس قدر ہوسکے وہ اس رات میں انجام دی جائے، نفل نماز پڑھیں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں، ذکرکریں، تسبیح پڑھیں، دعائیں کریں، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں۔
شب برأت کی رات مغفرت سے محروم افراد : حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ جل شانہ نصف شعبان کی رات کو (یعنی شب برأت کو) دنیا والوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور مشرک اور کینہ رکھنے والے کے علاوہ اپنی تمام مخلوق کی بخشش فرماتے ہیں۔ [سنن ابن ماجہ]
امام احمد نے اس روایت کو عبداللہ بن عمرو بن العاص سے نقل کیا ہے اور ان کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ کینہ رکھنے والے (اور ناحق کسی کی) زندگی ختم کر دینے والے کے علاوہ اللہ تعالیٰ اس شب کو تمام مخلوق کی بخشش فرماتا ہے-
فائدہ : حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس با برکت اور مقدس رات کو اپنی رحمت کاملہ کے ساتھ دنیا والوں پر متوجہ ہوتا ہے تو اس کا دریائے رحمت اتنے جوش میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کو بھی معاف کر دیتا ہے اور اپنی بندگی و عبادت اور اطاعت و فرمانبرداری میں سرزد ہوئی کوتاہیوں اور لغزشوں سے درگزر فرما دیتا ہے، مگر کفر اور حقوق العباد (بندوں کے حق) کو معاف نہیں فرماتا اور ان کے معاملے میں اتنی مہلت دیتا ہے کہ اگر وہ توبہ کر لیں تو ان کی توبہ قبول کی جائے اور اگر توبہ نہ کریں اور اپنی بد اعتقادی اور بد عملی سے باز نہ آئیں تو انہیں عذاب میں مبتلا کیا جائے۔
کینہ توز سے مراد وہ آدمی ہے جو شرعی جہت سے نہیں بلکہ نفس امارہ کی فریب کاریوں میں مبتلا ہو کر خواہ مخواہ دوسروں کے لئے اپنے سینے میں بغض و حس کی آگ جلائے رکھتا ہے، ایسا بد باطن آدمی بھی اس با برکت رات کو پروردگار کی عام بخشش سے کوئی حصہ نہیں پاتا شب برأت کو بھی جو بد بخت رحمت الہٰی کے سائے میں نہیں ہوتا، اس طور کہ ان کی بخشش نہیں ہوتی۔
مختلف روایات میں مختلف افراد مذکور ہیں جن کا مجموعہ یہ ہے : کفر کرنے والے، کینہ توز، ناحق کسی کی جان لینے والے، ناتا کاٹنے والے یعنی رشتہ داری اور بھائی بندی کو منقطع کرنے اور کرانے والے، ازار لٹکانے والوں یعنی ٹخنوں سے نیچا پائجامہ، لنگی لٹکانے والے، ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے ، ہمیشہ شراب پینے والے، زنا کرنے والے، عشار یعنی ظلم کے ساتھ محصول لینے والے، جادو کرنے والے، کاہن، عریف یا غیب کی باتیں بتانے والے اور صاحب عرطبہ یعنی باجا بجانے والے۔
خلاصہ یہ کہ یہ وہ محروم قسمت لوگ ہیں جو اس مقدس شب میں پروردگار کی عام رحمت سے محروم رہتے ہیں- [مستفاد از مظاہر حق]
پندرہ شعبان کا روزہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب شعبان کی پندرھویں رات آئے تو اس رات قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو الخ- [سنن ابن ماجہ: رقم الحدیث 1388 ،شعب الایمان للبیہقی: ج3، ص378]
[قلت: اسنادہ ضعیف و الضعیف یعمل بہ فی فضائل الاعمال۔]
اس حدیث میں پندرہ شعبان کے روزے کا تذکرہ ہے اور پہلے یہ بات آچکی ہے کہ آپ ﷺ شعبان میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے ،نیز آپ ﷺ ایام بیض (ہر مہینہ میں ۱۳، ۱۴، ۱۵) کے روزے بھی رکھا کرتے تھے، اور پندرہ شعبان بھی انہی تاریخوں میں سے ہے، ان وجوہ سے بعض علماء کرام نے پندرہ شعبان کا روزہ مستحب قرار دیا ہے، لیکن یہ ملحوظ رہے کہ اسے سنت یا ضروری نہ سمجھا جائے۔
حضرت مفتی عزیز الرحمٰن صاحب رحمہ اللہ (صدر مفتی دار العلوم دیوبند) فرماتے ہیں : ”پندرھویں تاریخ شعبان کا روزہ مستحب ہے، اگر کوئی رکھے تو ثواب ہے اور نہ رکھے تو کچھ حرج نہیں ہے۔ [فتاوی دار العلوم دیوبند : 309/6]
فتاوی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند میں ہے کہ : بعض روایات میں پندرہویں شعبان کی رات میں عبادت کرنے اور دن میں روزہ رکھنے کی ہدایت آئی ہے، یہ روایتیں یعنی ان میں سے اگرچہ ضعیف ہیں، مگر کثرت طرق کی وجہ سے ان کے ضعف کی تلافی ہوگئی اور اس حد تک فضیلت ثابت ہوئی کہ رات میں نماز تلاوت توبہ واستغفار کا انفرادی طور پر اہتمام کرلیا جائے اور دن میں روزہ رکھ لیا جائے بس، یہ کوئی فرض واجب درجہ کا حکم نہیں ہے بلکہ نفل درجہ کا ہے، فضیلت وارد ہونے کی وجہ سے عام نفلوں کے مقابلہ میں اس کا ثواب زیادہ ہے، انتہی بلفظہ-
خود حضور اکرم ﷺ سے اس دن کا روزہ رکھنا روایات میں منقول نہیں، جیسا کہ فتاوی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند میں ہے کہ : پندرہویں شعبان میں روزہ رکھنے کے متعلق حضور اکرم ﷺ کا عمل مجھے کسی روایت میں نہیں ملا البتہ ابن ماجہ میں اس دن روزہ کے متعلق قولی ارشاد مروی ہے، لیکن یہ روایت ایک راوی کے حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے ضعیف ہے، اس لیے یہ روزہ مستحب ہے، رکھنے کی صورت میں ثواب ملے گا اور نہ رکھنے کی صورت میں کوئی گناہ نہ ہوگا، فتاوی دارالعلوم دیوبند (۶:۵۰۰) میں ابن ماجہ کی روایت نقل کرنے کے بعد ہے کہ پس پندرہویں تاریخ شعبان کا روزہ مستحب ہے، اگر کوئی رکھے تو ثواب ہے اور نہ رکھے تو کچھ حرج نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم
واضح رہے کہ سارے ذخیرہ حدیث میں اس روزہ کے بارے میں صرف ایک روایت میں ہے کہ شب برات کے بعد والے دن روزہ رکھولیکن یہ روایت ضعیف ہے، لہٰذا اس روایت کی وجہ سے خاص پندرہ شعبان کے روزے کو سنت یا مستحب قرار دینا بعض علماءکے نزدیک درست نہیں البتہ پورے شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی فضیلت ثابت ہے لیکن 28 اور 29 شعبان کو حضور ﷺ نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے کہ رمضان سے ایک دو روز پہلے روزہ مت رکھو، تاکہ رمضان کے روزوں کیلئے انسان نشاط کیساتھ تیار رہے۔
شب برأت کے اعمال : اس رات میں بعض اعمال مسنون ہیں، مثلا رات میں نفلی عبادت کرنا، پھر دن میں روزہ رکھنا، موقع مل جائے تو چپکے سے قبرستان جاکر مردوں کے لئے دعائے خیر کرنا؛ اور بعض امور قابل ترک ہیں، مثلا آتش بازی، نفل کی جماعت کرنا، قبرستان میں جمع ہوکر تقریب کی صورت بنانا، حلوہ کا التزام کرنا وغیرہ اور وہ امور جو غیر ثابت ہوں اور رائج ہوں وہ سب ترک کرنے کے قابل ہیں، اسی طرح بعض علاقوں میں حضرت اویس قرنی علیہ الرحمہ کے نام اس رات میں فاتحہ کا التزام کسی دلیل سے ثابت نہیں، اگر یہ چیزیں ثواب ہوتیں تو ضرور کتاب و سنت، اجماع، قیاس اور مجتہدین سے ثابت ہوتیں، جب ثابت نہیں تو پھر ان کو ثواب اور دین کا کام سمجھنا بدعت و قابل رد ہے۔ [مستفاد از فتاوی محمودیہ جلد پنجم]
مسجد میں جمع ہو کر عبادت کرنا : خاص اس رات میں لوگوں کا مساجد جمع ہوکر اجتماعی عبادت کرنا درست نہیں، بہتر یہی ہے کہ اپنے اپنے مقام پر تلاوت ونوافل میں مشغول رہیں؛ البتہ اگر مسجد کے ماحول میں عبادت کرنے میں جی لگتا ہے تو مسجد میں کرلے۔[مستفاد از فتاوی محمودیہ جلد پنجم]
صلوٰۃ التسبیح کی جماعت
صلوٰة التسبیح کی جماعت کرنا : بعض لوگ ۱۵ شعبان کی رات شبِ برأت میں صلوٰة التسبیح کی جماعت کرتے ہیں جبکہ یہ نفلی نماز ہے جس کا کرانا ثابت نہیں، شریعت نے عبادت کو جس انداز میں مشروع کیا ہے، اس کو اسی طریقے سے ادا کرنا مطلوب ہے، شریعت نے نمازِ پنج گانہ اور جمعہ و عیدین وغیرہ کو باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن نوافل کو انفرادی عبادت تجویز کیا ہے، اس لئے کسی نفلی نماز (خواہ صلوٰة التسبیح ہو یا کوئی اور) جماعت سے ادا کرنا منشائے شریعت کے خلاف ہے، اس لئے حضراتِ فقہاء نے نفل نماز کی جماعت کو (جبکہ مقتدی دو سے زیادہ ہوں) مکروہ لکھا ہے، اور خاص راتوں میں اجتماعی نماز ادا کرنے کو بدعت قرار دیا ہے، اس لئے صلوٰة التسبیح کا جماعت سے ادا کرنا صحیح نہیں۔ [مستفاد از فتاوی یوسفی]
صلوٰۃ التسبیح
صلوٰۃ التسبیح نفلی نماز ہے اور اس کی جماعت حنفیہ کے مسلک میں مکروہ تحریمی ہے، لہٰذا یہ نماز تنہا پڑھنی چاہئے۔[فتاوی عثمانی]
اس رات میں شریعت نے عبادت، نوافل، تلاوت، ذکر، تسبیح، دعا، استغفار کی ترغیب دی ہے، پھول وغیرہ سے سجانے کی ترغیب نہیں دی؛ البتہ مسجد میں عام حالات میں بھی خوشبو کی ترغیب آئی ہے، تاکہ نمازیوں کو اذیت نہ پہنچے بلکہ راحت پہنچے، ان مخصوص متبرک راتوں میں مسجد میں جمع ہوکر اجتماعی حیثیت سے جاگنا مکروہ و ممنوع ہے- [مستفاد از فتاوی محمودیہ جلد پنجم]
نماز کی نوعیت اور شبینہ کا حکم : شب برأت میں بلا کسی قید و خصوصیت کے مطلق نماز کا ثبوت ہے، ہرشخص اپنے طور پر عبادت کرے جس میں نمائش یا کسی رسم اور ہیئت مخصوصہ کی پابندی نہ ہو تو مستحسن ہے۔ [مستفاد از فتاوی محمودیہ جلد پنجم]
شعبان کی ۱۳-۱۴-۱۵ کو بعض علاقوں میں شبینہ کیا جاتا ہے، اس میں حفاظ پارے پڑھتے ہیں، ایسے شبینہ میں نیت باندھ کر امام کی اقتداء میں قرآن سنتے ہیں، تو واضح رہے کہ حنفی مسلک میں نوافل کی جماعت مکروہ تحریمی ہے، لہٰذا مذکورہ شبینہ جائز نہیں، ایسے شبینہ کا انتظام و اہتمام، اس میں امامت یا اقتداء یا اس میں لوگوں کو دعوت دینا یہ تمام باتیں شرعا جائز نہیں۔ [مستفاد از فتاوی عثمانی]
مسجد میں چراغاں کرنا : لیلۃالقدر اور لیلۃالبرأت میں ساری رات مسجد میں روشنی کرنا اور وہ بھی ضرورت سے زیادہ کرنا ثابت نہیں، یہ شرعاً ناجائز اور حرام ہے-
جیسا کہ ’’الحموی‘‘ شرح الاشباہ والنظائر میں ہے : [و من المفاسد مایجعل فی الجوامع من ایقاد القنادیل و ترکہا الی ان تطلع الشمس و ترتفع و، ھو من فعل الیہود فی کنائسہم و اکثر ما یفعل ذلک فی العید و ھو حرام] [غمز عیون البصائر، شرح الاشباہ والنظائر ص۵۶۱]
تنقیح فتاوی حامدیہ میں بصراحت مذکور ہے کہ مسجد کے وقف کے مال سے جو ایسا کرے گا، اس کے ذمہ ضمان لازم ہوگا، اگر متولی ایسا کرتا ہے تو نمازیوں کو لازم ہے کہ اس کو روکیں۔
[من البدعة المنکرۃ ما یفعل فی کثیر من البلدان من ایقاد القنادیل الکثیرۃ العظیمة والسرف فی لیال معروفة من السنة کلیلة النصف من شعبان فیحصل بذٰلک مفاسد کثیرۃ،منہا مضاہاۃ المجوس فی الاعتناء بالنار فی الاکثار منہا ومنہا اضاعة المال فی غیر وجہه ومنہا مایترتب علٰی ذلٰک من المفاسد من اجتماع الصبیان واہل البطالۃ الخ] [تنقیح الفتاویٰ الحامدیہ ۳۲۶/۲] [مستفاد از فتاوی محمودیہ جلد پنجم]
پندرہ شعبان کو جتنی روشنی کی مسجد میں فی الواقعہ ضرورت ہے اس سے زائد چراغاں کرنا درست نہیں، اگر کوئی شخص اگر اپنے مال سے چراغاں کرادے تو اس سے مسجد کا مال غیر مصرف میں خرچ کرنے کا گناہ تو نہ ہوگا لیکن اسراف اور تشبہ بالکفار کا گناہ پھر بھی ہوگا، لہٰذا یہ ناجائز ہے۔ [مستفاد از فتاوی عثمانی]
قبرستان جانا : شب برأت میں عشاء کے بعد کسی بھی وقت قبرستان پر جانا کافی ہے؛ البتہ اس کو کبھی کبھی ترک بھی کردے، پہلے بھی گزر چکا ہے کہ حضور اکرم ﷺ سے پوری زندگی میں اس رات ایک مرتبہ قبرستان جانا ثابت ہے، پندرہویں شعبان کو قبرستان جانا منع نہیں، لیکن پندرہویں شعبان کی وجہ سے مسنون بھی نہیں؛ البتہ اسی تاریخ میں اگر جمعہ، پیر، جمعرات یا سنیچر آجائے تو اس میں افضل ہے مگر یہ فضیلت پندرہویں شعبان کی وجہ سے نہیں ہوگی بلکہ ان دنوں کی وجہ سے ہوگی۔ [مستفاد از فتاوی محمودیہ جلد پنجم]
شب برأت میں کھانا تقسیم کرنا
شب برأت میں کھانا تقسیم کرنا : اس رات میں کھانا تقسیم کرنے کے متعلق کوئی روایت نظر سے نہیں گذری؛ البتہ اس شب کی فضیلت غروب آفتاب سے طلوع فجر تک ہے، اس لئے مغرب و عشاء کے درمیان ہی عبادت کرلی جائے اور اللہ تعالی توفیق دے تو اس کے بعد بھی کرلے ورنہ آرام کرلے، جو لوگوں میں مشہور ہے کہ رات بارہ بجے شروع ہوتی ہے، وہ بے اصل ہے۔ [مستفاد از فتاوی محمودیہ جلد پنجم]
قبروں پر روشنی اور اگربتی جلانا : اس رات میں قبروں پرروشنی کرنا اور اگربتی جلانا رسم جہالت ہے ،جس سے بچنا ضروری ہے- [مستفاد از فتاوی محمودیہ جلد پنجم]