ماء مستعمل کے مختلف احکام اور تحقیق.
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ میں کہ ایک آدمی نے دہ دردہ سے کم پانی میں اپنی انگلی ڈالی تو اس پانی کا کیا حکم ہے ۔نیز اس پانی سے نماز کے لئے وضو بنایا جاسکتا ہے یا نہیں ؟
المستفتی ۔محمد شاہد رضا قادری کرناثک
ماء مستعمل پر مکمل اہم جانکاری
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔
اگر کسی بالغ یا بالغہ نے بضرورت پانی میں ہاتھ ڈالا تو پانی مستعمل نہ ہوگا ۔اور بے ضرورت یا رفع حدث اور طلب ثواب کی نیت سے ہاتھ یا انگلی یا ناخن ہی پانی میں ڈال دیا تووہ پانی مستعمل ہوجایے گا اس پانی سے وضو جائز نہیں ہوگا
اسی طرح بالٹین ۔لوٹا یا پلاسٹیک یا سیمنٹیڈ سے بنے چھوٹے حوض میں کسی نے بلا ضرورت ہاتھ بلکہ انگلی یا ناخن پانی میں ڈال دیا تو ماء مستعمل ہوگیا کہ خود پاک ہے مگر نجاست حکمیہ کے پاک کرنے کی صلاحیت اب اس میں باقی نہیں رہی پس اس پانی سے وضو و غسل نہیں کرسکتے ہیں اگر کوئی وضو یا غسل کرے گا تو نہ اس سے غسل اترے نہ وضو کی پاکی حاصل ہو اگر ںابغ بچہ ہاتھ ڈال دیا تو پانی مستعمل نہ ہوگا ۔
اگر کوئی شخص جو محدث ہے کسی گھڑے یابالٹی میں ہاتھ ڈال دے تو اس پانی وغیرہ سے وضو و غسل کرنا کیا صحیح ہے.
الجواب ۔حضور بحر العلوم حضرت علامہ مولانا مفتی عبد المنان عظیمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
اگر برتن بڑا ہے کہ اس کو ٹیڑھا کرکے پانی انڈیلا نہیں جاسکتا اور وہاں چھوٹا برتن بھی نہیں کہ اس سے پانی نکالے تو ہاتھ کی تین انگلی ملاکر برتن سے پانی نکال کر ہاتھ دھو سکتا ہے ۔تین انگلیوں کا پانی میں ڈالنا معاف ہوگا اور اگر یہ اعذار نہ ہوں اور بلا ضرورت ہاتھ بلکہ انگلی یا ناخن ہی پانی میں ڈال دیا تو وہ پانی مستعمل ہوجایے گا اور اس سے وضو جائز نہ ہوگا ۔
قاضی خاں میں ہے ماء مستعمل کے متعلق
المحدث والجنب اذا دخل اذا ادخل یدہ فی الاناء للاغتراف و لیس علیہ نجاسۃ لایفسد الماء و کذا اذا وقع الکوب فی الجب وادخل الید فی الجب الی المرفق لا خراج الکوب لا یصیر الماء مستعملا
بے وضو اور جس کو غسل کی حاجت ہو ان دونوں نے جب برتن سے چلو میں پانی لیا اور ہاتھ پر نجاست نہ تھی تو پانی فاسد نہ ہوگا ۔یونہی مٹکے سے پیالہ نکالنے کی خاطر پانی میں ہاتھ ڈال دیا تو پانی مستعمل نہ ہوگا ۔اس سے معلوم ہوا کہ
اگر بضرورت پانی میں ہاتھ ڈالا تو پانی مستعمل نہ ہوگا ۔اور بے ضرورت یا رفع حدث اور طلب ثواب کی نیت سے ہو تو پانی مستعمل ہوگا.(فتاوی بحر العلوم جلد اول ص 69 بحوالہ قاضی خاں فصل فی الماء المستعمل ۔جلد اول ص 14)
ضرورۃ ہاتھ ڈالنے سے پانی مستعمل نہیں ہوتا..
جس عضو کا جہاں تک پانی میں ڈالنا ضرورت ہو اتنا معاف ہے ۔پانی مستعمل نہ کرے گا ۔مثلا
(1) پانی لگن یا چھوٹے حوض میں ہے کہ دہ دردہ نہیں ۔اور کوئی برتن نہیں جس سے نکال کر وضو کرے ۔تو چلو لینے کے لئے اس میں ہاتھ ڈالنے سے مستعمل نہ ہوگا.
(2) اسی صورت میں اگر ہاتھ مثلا کہنی یا نصف کلائی تک ڈال کر چلو لیا ۔یعنی جس قدر کے ادخال کی چلو میں حاجت نہ تھی مستعمل ہوجایے گا کہ زیادت بے ضرورت واقع ہوئی.
(3) کولی یا مٹکے میں کٹورا ڈوب گیا اس کے نکالنے کو جتنا ہاتھ ڈالنا ہو مستعمل نہ کرے گا اگرچہ بازو تک ہو کہ ضرورت یے.
(4) برتن میں پاؤں پڑگیا پانی مستعمل ہوگیا کہ اس کی ضرورت نہ تھی.
(5) کنوئیں یا حوض میں ٹھنڈ لینے کو غوطہ مارا یا صرف ہاتھ یا پاؤں ڈالا مستعمل ہوگیا کہ ضرورت نہیں.(تلخیص فتاوی رضویہ جلد اول ص 137.138)
ماء قلیل میں اگر بچہ ہاتھ ڈال دے تو وہ پانی قابل وضو وغسل ہے؟.
الجواب ۔حضور سابق آمین شریعت ادارہ شرعیہ پٹنہ حضرت علامہ مولانا مفتی عبد الواجد صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
جب تک اس بچہ کے ہاتھ پر نجاست کا لگنا یقینی طور پر معلوم نہ ہو ۔وہ پانی قابل طہارت ہے ۔کیونکہ نابالغ اگر اپنے پورے جسم کے ساتھ بھی چھوٹے حوض میں داخل ہوجایے تو حوض کا پانی مستعمل نہیں ہوگا اس لئے کہ اس کے مرفوع القلم ہونے کی وجہ سے اس کے حدث و قربت کا وجود کالعدم ہے ۔( فتاوی یورپ ص 151)
فتاوی ہندیہ میں ہے ماء مستعمل پر
اذا ادخال الصبی یدہ فی کوز ماء او رجلہ فان علم ان یدہ طاھرۃ بیقین یجوز التوضوبہ وان کان لایعلم انھا طاھرۃ او نجسۃ فالمستحب ان یتوضاء بغیرہ ومع ھذا لو توضاء اجزاہ کذا فی الحیط یعنی اگر بچہ نے ہاتھ یا پاؤں کو کوزہ میں ڈالا تو اگر یقین سے معلوم ہے کہ اس کا ہاتھ پاک ہے تو اس پانی سے وضو جائز ہے ۔اور اگر یقین سے نہیں معلوم ہے کہ اس کا ہاتھ پاک تھا یا ناپاک تو مستحب یہ ہے کہ دوسرے پانی سے وضو کیا جائے اور اگر دوسرا پانی ہونے کے باوجود کسی نے اسی پانی سے وضو کرلیا تو جائز ہے (فتاوی ہندیہ فصل فیما لا یجوز بہ الوضو جلد اول ص 25)
حضور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ نابالغ اگرچہ ایک دن کم پندرہ برس کا ہو ۔جبکہ آثار بلوغ مثل احتلام و حیض ہنوز شروع نہ ہوئے ہوں ۔اس کا پاک بدن جس پر کوئی نجاست حقیقۃ نہ ہو ۔اگرچہ تمام و کمال اب قلیل میں ڈوب جائے ۔اسے قابلیت وضو و غسل سے خارج نہ کرے گا : لعدم الحدث ۔اگرچہ بحال احتمال نجاست ) جیسے ناسمجھ بچوں میں ہے) بچنا افضل ہے ۔
ہاں بہ نیت قربت سمجھ دال بچہ سے واقع ہو تو مستعمل کردے گا ماء مستعمل (تلخیص فتاوی رضویہ۔ جلد اول ص 137)
اب اس ماء مستعمل کو قابل وضو یا غسل بنانے کے دو طریقے ہیں.
اولا جتنا پانی حوض میں ہے اس سے زائد مقدار میں طاہر و مطہر پانی اس میں ملا دیا جائے تو سارا کا سارا پانی قابل وضو و غسل ہوجایے گا۔ جیسے اس سے نجاست حقیقیہ کو پاک کیا جاسکتا ہے اسی طرح نجاست حکمیہ بھی پاک کیا جاسکتا ہے
(2) دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس حوض کے پانی کو جاری پانی بنا دیا جائے یعنی حوض کے ایک طرف سے اس میں پاک پانی ملایا جائے اور دوسری طرف سے نکالا جائے ۔اگرچہ ادخال و اخراج میں کمی بیشی ہو جب بھی وہ سب کا سب پانی طاہر و مطہر ہوجایے گا کما فی الدرمختار والرد المحتار
غلبۃ المخالط لومعا ثلا کمستعمل فبا لاجزاء فان المطلق اکثر من النصف جاز التطھیر بالکل والا لا یعنی ملنے والے پانی کا غلبہ اگر ماء مستعمل کے مثل ہو تو اعتبار مقدار کا ہوگا اگر ماء مطلق نصف سے زائد ہے تو سب سے پاکی کرنا جائز ہے ورنہ نہیں۔( فتاوی یورپ ص 147)
واللہ اعلم باالصواب
فقیر محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرہاوی سیتا مڑھی
مورخہ 13 شوال المکرم 1444
4 مئی 2023 ماء مستعمل