اس مضمون میں قربانی کے 30 ضروری مسائل جن کے جاننے سے کافی معلومات میں اضافہ ہوگا کیوں کہ ان میں انھیں مسائل کا ذکر ہے جن کی ضرورت سب سے زیادہ ہوتی ہے اسی لیے ان مسائل قربانی کو ذہن میں رکھیں
قربانی کے 30 ضروری مسائل
*مسئلہ نمبر1
جس شخص پر صدقۂ فطر واجب ہے، اُس پر قربانی بھی واجب ہے۔یعنی قربانی کے تین ایام (١٢،١١،١٠؍ذو الحجہ) کے دوران اپنی ضرورت سے زائد اتنا مال یا اٙشیاء جمع ہوجائیں کہ جن کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو تو اس پر قربانی لازم ہے، مثلاً: رہائشی مکان کے علاوہ کوئی مکان ہو، خواہ تجارت کے لیے ہو یا نہ ہو، اسی طرح ضروری سواری کے طور پر استعمال ہونے والی گاڑی کے علاوہ گاڑی ہو تو ایسے شخص پر بھی قربانی لازم ہے۔
قربانی کا مسئلہ 2
مسافر پر قربانی واجب نہیں۔
*مسئلہ نمبر 3:*
اگر قربانی کا جانور اس نیت سے خریدا کہ بعد میں کوئی مِل گیا تو شریک کرلوں گا اور بعد میں کسی اور کو قربانی یا عقیقہ کی نیت سے شریک کیا تو قربانی درست ہے اور اگر خریدتے وقت کسی اور کو شریک کرنے کی نیت نہ تھی، بلکہ پورا جانور اپنی طرف سے قربانی کرنے کی نیت سے خریدا تھا تو اب اگر شریک کرنے والا غریب ہے تو کسی اور کو شریک نہیں کرسکتا اور اگر مالدار ہے تو شریک کرسکتا ہے، البتہ بہتر نہیں۔
*قربانی کا مسئلہ 4:*
ایک جانور قربانی کرنے کے لیے خریدا،اگر اس کے بدلے دوسرا جانور دینا چاہے تو جائز ہے، مگر یہ لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ دوسرا جانور کم از کم اسی قیمت کا ہو، اگر اس سے کم قیمت کا ہو تو زائد رقم اپنے پاس رکھنا جائز نہیں، بلکہ صدقہ کرنا ضروری ہے۔ ہاں! اگر زبانی طور پر جانور کو متعین نہ کیا ہو، بلکہ یہ ارادہ کیا ہو کہ اگر اچھی قیمت میں فروخت ہورہا ہو تو فروخت کردیں گے۔ اس صورت میں اصل قیمت سے زائد رقم اپنے پاس رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
*قربانی کا مسئلہ 5:*
قربانی کا جانور گم ہوا، اس کے بعد دوسرا خریدا، اگر قربانی کرنے والا امیر ہے تو ان دونوں جانوروں میں سے جس کو چاہے ذبح کرے، جب کہ غریب پر ان دونوں جانوروں کی قربانی واجب ہوگی۔
*وضاحت:*
اگر کسی آدمی نے قربانی کے لیے جانور خریدا اور خریدنے کے بعد وہ جانور قربانی کرنے سے پہلے گم ہوجائے تو صاحب حیثیت آدمی پر قربانی کے لیے دوسرا جانور خریدنا ضروری ہے، کیونکہ اس پر قربانی شرعاً واجب تھی اور واجب ادا نہیں ہوا، جبکہ فقیر آدمی پر دوسرا جانور خریدنا اور قربانی کرنا لازم نہیں تھا، اس کے باوجود غریب نے دوسرا جانور بھی خریدلیا، اب اگر مالدار اور غریب ہر دو کا پہلا گم شدہ جانور مل جائے تو امیر پر صرف شرعی واجب (قربانی) کا ادا کرنا لازم ہے، جس جانور کو ذبح کردے کافی ہے، جب کہ غریب پر خود سے واجب کردہ جانوروں کی قربانی کرنا لازم ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ امیر آدمی پر نصاب کی وجہ سے قربانی واجب تھی، اس نے وہ ادا کردی، اس کے حق میں جانور متعین نہیں ہوا تھا، اُسے اختیار ہے کہ جس جانور کو چاہے ذبح کردے، جبکہ غریب آدمی پر قربانی لازم نہیں تھی، غریب نے از خود جانور خرید کر اپنے پر قربانی کو لازم کرلیا اور جو جانور اس نے خریدا وہ بھی متعین ہوگیا، اب پہلا جانور جو غریب کے حق میں قربانی کے نام سے متعین ہوچکا، اگر وہ گم ہوجائے تو اس کے بدلے دوسری قربانی لازم نہ تھی، اس کے باوجود غریب نے دوسرا جانور خرید کر اپنے پر قربانی لازم کرلی، اس بنا پر فقیر آدمی پر دوسری قربانی بھی لازم ہوئی۔ لہٰذا غریب آدمی دونوں جانوروں کی قربانی کرے گا۔ بخلاف مالدار کے کہ اس پر صرف قربانی لازم ہے، جانور متعین نہیں ہے، دونوں جانوروں میں سے کسی ایک کی قربانی کردے تو کافی ہے۔
*مسئلہ نمبر 6:*
قربانی کے جانور میں اگر کئی شرکاء ہیں تو گوشت وزن کرکے تقسیم کریں۔
*مسئلہ نمبر 7:*
بھیڑ، بکری جب ایک سال کی ہوجائے، گائے، بھینس دوسال کی، اور اونٹ پانچ سال کا، تو اس کی قربانی جائز ہے، اگر اس سے کم ہے تو جائز نہیں۔ ہاں! دُنبہ اور بھیڑ (نہ کہ بکرا) اگر اتنا موٹا تازہ ہو کہ سال بھر کا معلوم ہو تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
*قربانی کا مسئلہ 8:*
موجود ہ دور میں جانوروں کو تول کر (وزن کرکے) خرید وفروخت کی جاتی ہے، وزن کرکے خریدے ہوئے جانور کی قربانی بھی بلاشبہ درست ہے۔
*قربانی کا مسئلہ 9:*
قربانی کا جانور اگر اندھا ہو، یا ایک آنکھ کی ایک تہائی یا اس سے زائد روشنی جاتی رہی ہو،یا ایک کان ایک تہائی یا اس سے زیادہ کٙٹ گیا ہو، یا دُم ایک تہائی یا اس سے زیادہ کٙٹ گئی ہو تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔
*مسائل قربانی 10:*
گائے اور بھینس کے دو تھن یا بکری کا ایک تھن خشک ہو چکا ہو یا پیدائشی طور پر نہ ہوں تو ایسے جانور کی قربانی بھی درست نہیں۔
*مسئلہ نمبر 11:*
اسی طرح اگر جانور ایک پاؤں سے لنگڑا ہے، یعنی تین پاؤں سے چلتا ہے، چوتھے پاؤں کا سہارا نہیں لیتا، تو ایسے جانور کی قربانی بھی جائز نہیں۔ ہاں! اگر وہ چوتھے پاؤں سے سہارا لیتا ہے، لیکن لنگڑا کے چلتا ہے تو ایسے جانور کی قربانی درست ہے۔
*مسئلہ نمبر 12:*
قربانی کا جانور خوب موٹا تازہ ہونا چاہیے، اگر جانور اس قدر کمزور ہو کہ ہڈیوں میں گودا بالکل نہ رہا ہو، تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔
*مسائل قربانی 13:*
بعض لوگ موٹا تازہ جانور محض دکھلاوے یا ریا ونمود نمائش کے لیے خریدتے ہیں، ایسے لوگ قربانی کے ثواب سے محروم ہوتے ہیں، ان پر لازم ہے کہ وہ موٹا تازہ جانور تلاش کرتے ہوئے محض ثواب کی نیت کریں۔
*مسائل قربانی 13:*
اگر کسی جانور کے تمام دانت گِر گئے ہوں تو اس کی قربانی جائز نہیں ہے اور اگر اکثر دانت باقی ہوں، کچھ گِر گئے ہوں تو قربانی جائز ہے۔
*مسئلہ نمبر14:*
اگر کسی جانور کی عمر پوری ہو اور دانت نہ نکلے ہوں تو بھی قربانی ہوسکتی ہے، تاہم اس سلسلہ میں صرف جانوروں کے عام سوداگروں کی بات معتبر نہیں ہے، بلکہ یقین سے معلوم ہونا ضروری ہے یا یہ کہ خود گھر میں پالا ہوا جانور ہو تو اس کی قربانی کی جاسکتی ہے۔
*مسئلہ نمبر 15:*
جس جانور کے پیدائشی کان ہی نہ ہوں، اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔
*مسئلہ نمبر 16:*
اگر کسی جانور کے سینگ بالکل جڑ سے ٹوٹ چکے ہوں، اس طور پر کہ دماغ اس سے متأثر ہوا ہو تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں اور اگر معمولی ٹوٹے ہوں یا سرے سے سینگ ہی نہ ہوں، جیسے: اونٹ تو بلا کراہت جائز ہے۔
اسی طرح گائے، بکری وغیرہ کے اگر پیدائشی سینگ نہ ہوں تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
*مسئلہ نمبر 17:*
خارش زدہ جانور کی قربانی جائز ہے، البتہ اگر خارش کی وجہ سے بے حد کمزور ہوگیا ہو تو پھر جائز نہیں۔
*مسئلہ نمبر 18:*
اگر قربانی کے جانور میں کوئی عٙیب پیدا ہوا جس کے ہوتے ہوئے قربانی درست نہ ہو تو مالدار شخص کے لیے یہ ضروری ہے کہ دوسرا جانور اس کے بدلے خرید کر قربانی کرے، غریب ہے تو اسی جانور کی قربانی کرسکتا ہے۔
*مسئلہ نمبر 19:*
اگر قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کے لیے گِراتے ہوئے کوئی عٙیب پیدا ہوجائے، مثلاً: ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ جائے یا سینگ وغیرہ ٹوٹ جائے تو اس سے قربانی پر اثر نہیں پڑے گا، البتہ جانور کو گِراتے وقت احتیاط کرنا چاہیے۔
*مسئلہ نمبر 20:*
قربانی کی کھال کسی کو خیرات کے طور پر دے یا فروخت کرکے اس کی قیمت فقراء کو دے، البتہ اگر کسی دینی تعلیم کے مدرسہ اور جامعہ کو دے دے تو سب سے بہتر ہے، کیونکہ علم دین کا احیاء سب سے بہتر ہے۔
*مسئلہ نمبر21:*
قربانی کی کھال کی قیمت مسجد کی مُرمّٙت یا اِمام ومؤذّن یا مُدرّس یا خادم کی تنخواہ میں نہیں دی جاسکتی، نہ اس سے مدارس کی تعمیر ہوسکتی ہے اور نہ شفاخانوں یا دیگر رفاہی اداروں کی۔
*مسئلہ نمبر 22:*
قربانی کی کھال قصائی کو اُجرت میں دینا جائز نہیں۔
*مسئلہ نمبر 22:*
اگر کسی کی قربانی کی کھال چوری ہوگئی یا چِھن گئی تو اُسے چاہیے کہ وہ کھال کی رقم صدقہ کردے، اگر استطاعت نہ ہو تو کوئی حٙرج نہیں، قربانی پر فرق نہیں پڑے گا۔
*مسئلہ نمبر 23:*
اگر قربانی کے تین دن گزر گئے اور قربانی نہیں کی تو اب ایک بکری یا بھیڑ کی قیمت خیرات کردے، اور اگر جانور خریدا تھا، مگر قربانی نہیں کی تو بعینہ وہی جانور خیرات کردے۔
*مسئلہ نمبر 24:*
ایصال ثواب کے لیے قربانی کاگوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور دوسروں کو بھی کِھلا سکتا ہے۔
*مسئلہ نمبر 25:*
اگر کسی شخص کے حکم کے بغیر اس کی طرف سے قربانی کی تو قربانی نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو اس کے حکم واجازت کے بغیر قربانی میں شریک کیا تو کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی، اسی طرح اگر حصہ داروں میں سے کوئی ایک صرف گوشت کی نیت سے شریک ہے تو کسی کی قربانی صحیح نہ ہوگی۔
*مسئلہ نمبر 26:*
قربانی کا گوشت غیر مسلم کو بھی دے سکتا ہے، البتہ کسی کو اجرت میں نہیں دے سکتا۔
*مسئلہ نمبر 27:*
گابھن جانور کی قربانی صحیح ہے، اگر بچہ زندہ نکلے تو اس کو بھی ذبح کردے۔ اور گوشت آپس میں تقسیم کرنے کی بجائے صدقہ کردیا جائے۔
*مسئلہ نمبر 28:*
قربانی کے جانور کے بال کاٹنا یا دودھ دوھنا درست نہیں ہے، اگر کسی نے ایسا کیا تو اُسے صدقہ کرے، اگر بیچ دیا تو اس کی رقم کو صدقہ کرنا واجب ہے،(تاھم اگر چارہ گھر پر کھاتا ہو تو پھر استعمال کی گنجائش ہے۔) (بدائع،ج:۵،ص:۷۸)
*مسئلہ نمبر29:*
خٙصِی جانور کی قربانی جائز، بلکہ افضل ہے۔رسول اللہ نے جو مینڈھے ذبح کئے تھے وہ خٙصی تھے۔(مشکوة)
نیز خصی جانور کا گوشت دوسرے کی بہ نسبت زیادہ اور لذیذ ہوتا ہے۔
*مسئلہ نمبر 30:*
کسی نے مرتے وقت وصیت کی کہ میرے مال سے قربانی کی جائے تو اس قربانی کا سارا گوشت خیرات کرنا ضروری ہے، خود کچھ بھی نہ کھائے۔
اللہ تعالیٰ اُمتِ مسلمہ کو قربانی کی روح اور حقیقت سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری یہ ظاہری قربانی حقیقی قربانی کے لیے پیش خیمہ ہو اور ہم اس ظاہری ومادی قربانی کی طرح اللہ کے حکم پر اپنی جان کی قربانی کے لیے بھی ہمیشہ تیار رہیں