فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ۞ کی اصل تفسیر جو ایمان کو تازہ کردے اس کی اصل تفسیر کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ اس پر عمل کیا جا سکے اور سب سے پہلے اس کا ترجمہ کیا جائے پھر اس کی اصل تفسیر کو ملاحظہی فرمائیں گے
ترجمہ:
پس تم اپنے ربّ ہی کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ 2
تفسیر:
سورة الکوثر 2
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ
اس کی مختلف تفسیریں مختلف بزرگوں سے منقول ہیں۔ بعض حضرات نے نماز سے مراد پنج وقتہ فرض نماز لی ہے، بعض اس سے بقر عید کی نماز مراد لیتے ہیں، اور بعض کہتے ہیں کہ بجائے خود نماز مراد ہے۔ اسی طرح وانحر یعنی نحر کرو سے مراد بعض جلیل القدر بزرگوں سے یہ منقول ہے کہ نماز میں بائیں ہاتھ پر دایاں ہاتھ رکھ کر اسے سینے پر باندھنا ہے، بعض کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد نماز شروع کرتے وقت دونوں ہاتھ اٹھا کر تکبیر کہنا ہے۔ بعض کا قول یہ ہے کہ افتتاح نماز کے وقت، اور رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھ کر رفع یدین کرنا مراد ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد بقر عید کی نماز پڑھنا اور اس کے بعد قربانی کرنا ہے۔ لیکن جس موقع پر یہ حکم دیا گیا ہے اس پر اگر غور کیا جائے تو اس کا مطلب صریحا یہ معلوم ہوتا ہے کہ ” اے نبی، جب تمہارے رب نے تم کو اتنی کثیر اور عظیم بھلائیاں عطا کی ہیں تو تم اسی کے لیے نماز پڑھو اور اسی کے لیے قربانی کرو “۔ یہ حکم اس ماحول میں دیا گیا تھا جب مشرکین قریش ہی نہیں تمام عرب کے مشرکین اور دنیا بھر کے مشرکین اپنے خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرتے تھے اور انہی کے آستانوں پر قربانیاں چڑھاتے تھے۔ پس حکم کا منشا یہ ہے کہ مشرکین کے برعکس تم اپنے اسی رویے پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہو کہ تمہاری نماز اللہ ہی کے لیے ہو اور قربانی بھی اسی کے لیے، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۔ لَا شَرِيْكَ لَهٗ ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ ۔ ” اے نبی کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں، سی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا ہوں “۔ (الانعام۔ 162 ۔ 163) یہی مطلب ابن عباس، عطا، مجاہد، عکرمہ، حسن بصری، قتادہ، محمد بن کعب قلرظی، ضحاک، ربیع بن انس، عطاء الخراسانی، اور بہت سے دوسرے اکابر مفسرین رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے ( ابن کثیر) البتہ یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب مدینہ طیبہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے بقر عید کی نماز اور قربانی کا طریقہ جاری کیا تو اس بنا پر کہ آیت اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ اور آیت فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ میں نماز کو مقدم اور قربانی کو موخر رکھا گیا ہے، آپ نے خود بھی یہ عمل �