فتاویٰ رضویہ کے مسئلے پر طاہر گیاوی اور دیگر دیوبندیوں فتاوی رضویہ پر کئے گئے اہم اعتراضات بے بنیاد اعتراض کا دندان شکن جواب
مجیب: شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ
و
محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین مصباحی مدظلہ العالی
ناشر:محمد نوشاد عالم امجدی
خادم التدریس والافتاء دارالعلوم قادریہ غوثیہ مرغیاچک سیتامڑھی بہار
رکن: تحریک علمائے نیپال
فتاوی رضویہ پر کئے گئے اہم اعتراضات
منجانب: تحریک علمائے نیپال
شوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت تیزی سے وائرل ہو رہی ہے جس میں طاہر حسین گیاوی(گدھاوی) فتاویٰ رضویہ کے دو مسئلے پر بے بنیاد اعتراض کر رہا ہے اور حقیقت دیکھئے تو اپنے دیوبندی اسلاف کی روش پر چلتے ہوئے یہ اعتراض کر رہا ہے گیاوی سے پہلے کوئ دیوبندی نے بھی یہی اعتراض کیا تھا جس کا دندان شکن جواب حضور شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ اور محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین مصباحی مدظلہ العالی نے تحقیقات میں دیا۔میں وہی اعتراض اور دندان شکن جواب نقل کر دیتا ہوں۔
(1)دلہن کے پاؤں دھونے کا مسئلہ فتاوی رضویہ پر کئے گئے اہم اعتراضات
فتاویٰ رضویہ جلد:1،صفحہ:455 پر ہے۔”دلہن کو بیاہ کر لائیں تو مستحب ہے کہ اس کے پاؤں دھو کر پانی مکان کے چاروں گوشوں میں چھڑکیں اس سے بر کت ہوتی ہے”
دیوبندی اس کو بیان کرکے زندگی بھر کے سیکھے ہوئے کرتب دکھا ڈالتے ہیں۔اور اکابر علمائے اہلسنت کا نام لے لے کر چیخ چیخ کر چیلینج کرتے ہیں کہ لاؤ دکھاؤ یہ کہاں ہے۔اور یہ بھی مسخرہ پن کرتے ہیں کہ جب اس پانی سے برکت ہوتی ہے تو رضا خانی اسے تبرک کے طور پر اپنے گھروں میں لے جائیں پئیں۔
چونکہ فتاوی رضویہ میں حوالہ نہیں دیوبندی یہ جانتے تھے کہ عامہ کتب میں یہ ہے نہیں کوئ حوالہ کہاں سے نکالے گا۔یہ بات ایک حد تک صحیح بھی تھی کیونکہ جس کتاب میں یہ مذکور ہے وہ نایاب تھی کہیں ملتی نہ تھی لیکن ماضی قریب میں استنبول میں شائع ہوئی اور اس کے کچھ نسخے ہندوستان میں بھی آئے۔دیوبندیو!تم بھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر پڑھو اور اپنے مولویوں کی جہالت اور خیانت پر ماتم کرو۔
امامین جلیلین محمد ابن ابی بکر امام زادہ اور یعقوب بن سید علی”شرعۃ الاسلام”اور اس کی شرح “مفاتیح الجنان”میں لکھتے ہیں۔ “من السنۃ ان یغسل الزوج رجلیھا و یرش ذالک الماء فی زوایا البیت یدخل من ذالک الماء برکۃ” ترجمہ:سنت ہے کہ شوہر دلھن کے پاؤں کو دھوئے اور اس پانی کو گھر کے کونوں میں چھڑک دے اس سے برکت آئے گی۔
فتاویٰ رضویہ میں صرف یہ تھا کہ یہ مستحب ہے اور ان دونوں کتابوں میں اسے سنت کہا گیا ہے۔
دیوبندیوں!اپنے کسی دار الافتاء سے پوچھو سنت کا تمسخر کرنے والے کا کیا حکم ہے یقین رکھو اگر زید و عمرو کے نام سے سوال کروگے تو دیوبندی دارالافتاء سے بھی وہی جواب آئے گا جو مجدد اعظم اعلی حضرت قدس سرہ نے دیوبندیوں کے بارے میں دیا ہے۔
دیوبندیت ایسی بیماری ہے کہ اس کا علاج،علاج بالمثل کے سوا کچھ بھی نہیں قرآن حکیم پڑھو ایٹھتے رہیں گے،حدیث پاک سناؤ منھ بسورتے رہیں گے ہاں اگر ان کے کسی حضرت جی کا ارشاد سناؤ تو گھر میں گھس جائیں گے۔
[تھانوی جی کا نسخہ] دیوبندی کے حکیم جی تھانوی صاحب بہشتی زیور حصہ ہفتم میں لکھتے ہیں۔
“اگر کسی کو نظر لگ جائے جس پر شبہ ہو کہ اس کی نظر لگی ہےاس کا منھ اور دونوں ہاتھ کہنی سمیت اور دونوں پاؤں اور دونوں زانوں استنجا کا موقع(پیشاب پاخانہ کا مقام)کو دھلوا کر پانی جمع کرکے اس شخص کے سر پر ڈالو جس کو نظر لگی ہے اس کو شفا ہو جائے گی”
انصاف پسند حضرات غور کریں کہ”شرعۃ الاسلام اور مفاتیح الجنان”میں تو صرف یہ تھا دلھن کے دونوں پاؤں دھوئیں گھر کے کونوں پر چھڑکیں اس سے برکت ہوتی ہے۔اس پر دیوبندی اپنا سارا کرتب دکھاتے ہیں اور یہاں یہ کہ صرف پاؤں ہی نہیں اس کے پیشاب کا مقام بھی دھوئیں اس کے پاخانہ کا مقام بھی دھوئیں مریض کے سر پر ڈالیں اس کو شفا ہو جائیگی۔اگر یہ بات ہماری کسی کتاب میں ہوتی تو دیوبندی نقال خوب خوب چک پھیریاں کرتے کرتب دکھاتے۔جب دین نہیں،دیانت نہیں خدا کا خوف نہیں،رسول سے شرم نہیں،آخرت کے مواخذہ کا اندیشہ نہیں تو پھر ڈر کاہے کا۔دیوبندیو!جب یہ پیشاب پاخانہ کا دھوون آب شفا ہے تو تم اس کو گھروں میں لے جا کر رکھو،پیو پلاؤ تقسیم کرو۔
(2)دوسرا مسئلہ “ماء مستعمل کی بحث”
فتاوی رضویہ جلد اول میں یہ مسئلہ مذکور ہے۔”اگر کوئ عورت حیض و نفاس کی حالت میں بے نیت قربت غسل کرے تو غسالہ مستعمل نہیں۔اس سے وضو جائز ہے”
دیوبندی پھکڑ باز اس مسئلہ پر اپنے مسخرہ پن کا ایسا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اس سے لکھنؤ کے بھانڈ بھی شرما جائیں جس سے دیوبندی مقررین کو یہ فائدہ ضرور حاصل ہوتا ہے کہ ان کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔اور جاہل دیوبندی ان کی اجرت بھی بڑھا دیتے ہیں۔عوام جاہل سمجھ نہیں پاتے اور مزہ لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں یہ مسئلہ فقہ کی ایک دو نہیں دسیوں کتابوں میں مذکور ہے،جن سے چند کے نام یہ ہیں۔خلاصہ،خانیہ،بحر الرائق،غنیہ،عالمگیری،رد المحتار، مجدد اعظم اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے جہاں یہ مسئلہ ذکر فرمایا ہے وہیں خلاصہ،اور خانیہ کا حوالہ بھی لکھ دیا ہے۔اگر دیوبندیوں کے اندر ذرہ برابر حیا دیانت ہوتی تو اس کو اپنے تمسخر کا نشانہ بنانے سے پہلے حوالہ سے مطابقت کر لیتے اگر حوالہ صحیح نہ ہوتا تو جتنا چاہتے چلاتے۔۔۔۔
لیکن دیوبندی مولویوں نے اپنا یہ اصول بنا رکھا ہے کہ اپنے عوام کو خوش کرنے کے لئے اور ان سے زیادہ سے زیادہ فیس وصول کرنے کے لئے مجدد اعظم اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے تحریر کردہ فرمودہ ایسے مسائل کو عوام میں پھیلاؤ کہ جاہل اس کو سمجھ نہ پائیں۔اور اعلٰی حضرت قدس سرہ سے بھڑک جائیں۔خواہ اس میں حنفیت ذبح ہو۔مشائخ احناف کا استہزاء ہو انہیں اس کی کوئ پرواہ نہیں۔
ہم ناظرین کے اطمینان کے لئے خانیہ کی عبارت نقل کئے دیتے ہیں۔
“ولو وقعت الحائض بعد انقطاع الدم و لیس علی اعضائھا نجاسۃ فھی کالرجل الجنب۔فان وقعت قبل انقطاع الدم و لیس علی اعضائھا نجاسۃ فھی کالرجل الطاھر اذا انغمس للتبرد لانھا لا تخرج عن الحیض بھذا الوقوع فلا یصیر الماء مستعملا”
(جلد اول صفحہ 9علی ھامش الھندیۃ)
ہو سکتا ہے جیسے ڈوبنے والا تنکے کا سہارا لیتا ہے کو ئ دیوبندی مولوی یا اسے کرایہ پر بلانے والے یہ کہدیں کہ خانیہ کی عبارت میں شرط ہے کہ حائضہ کے جسم پر نجاست نہ ہو۔اور فتاویٰ رضویہ میں یہ شرط غائب ہے۔اس کے جواب کے لئے غنیہ کی عبارت لکھتا ہوں اس میں یہ شرط مذکور نہیں۔
“لو وقعت الحائض ان کان بعد انقطاع الحیض۔فھی کالجنب۔و ان قبل الانقطاع فکالطاھر”۔
جس بنا پر غنیہ میں یہ شرط مذکور نہیں مجدد اعظم اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے بھی یہ قید ذکر نہیں فرمائ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بات یہ ہے کہ مجدد اعظم اعلیٰ حضرت قدس سرہ بحث یہ فرما رہے تھے کہ کون سی صورتیں ہیں جن میں استعمال کرنے کے باوجود پانی مستعمل نہیں ہوتا۔
انہیں میں ایک صورت یہ بھی ہے کہ عورت ایام حیض میں ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے نہائے یا کسی برتن میں پانی ہو اس میں ہاتھ ڈال دے یا اس میں پورا جسم ڈبا دے پانی مستعمل نہیں ہوا۔یہ سب کو معلوم ہے کہ اگر کسی بدن پر نجاست لگی ہو اور بدن کا وہ حصہ پانی میں چلا جائے تو وہ پانی ناپاک ہو جائے گا۔علماء کا قاعدہ ہے کہ جو باتیں معلوم و مشہور ہوتی ہے اور اس سے بحث بھی نہیں ہوتی ہے۔تو اس سے صَرف نظر کرکے صرف موضوع کے متعلق تحریر فرماتے ہیں۔یہی علامہ امیر الحاج نے کیا اور یہی مجدد اعظم اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے کیا۔
اس مسئلہ کی توضیح یہ ہے کہ ماء مستعمل وہ پانی ہے جس سے حدث دور ہوا ہو یا کیا گیا ہو۔یا بہ نیت عبادت استعمال کیا گیا ہو۔حائضہ اور نفاس والی عورت ایام حیض و نفاس میں لاکھ نہائے پاک نہ ہوگی تو جب وہ ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے پانی میں گئ تو اس پانی سے نہ تو حدث دور ہوا اور نہ بہ نیت قربت اسے استعمال کیا گیا۔اس لئے یہ پانی مستعمل نہ ہوا۔اصلی حالت پر طاہر و مطہر رہا۔لیکن فقہی دقائق کو سمجھنا سب کے بس کی بات نہیں۔یہ ملکہ اسی کو دیا جاتا ہے جو الله عزوجل کا بندہ خاص ہوتا ہے۔حدیث میں ہے۔ من یرد اللّٰہ بہ خیرا یفقھه فی الدین ۔
الله عزوجل کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والے پھکڑ بازی کرنے والے اس سے محروم ہیں۔
بعض دیوبندی مقرر(جیسے طاہر حسین گیاوی گدھاوی)اس پر یہ کہتے ہیں جب خون آرہا ہے اور عورت پانی میں جائگی تو حیض کا خون پانی میں ملے گا جس سے یقیناً پانی ناپاک ہو جائگا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اولاً عورتیں ان دنوں میں کُرسُف استعمال کرتی ہیں جس سے خون باہر نہیں آتا۔اس لئے یہ ضروری نہیں کہ حائضہ جب پانی میں جائیگی تو اس کا خون بھی پانی میں جائے۔ثانیاً یہ ضروری نہیں کہ حیض کے دنوں میں مسلسل خون آئے بلکہ ایام حیض میں خون گھنٹہ دو گھنٹہ نہیں چوبیس گھنٹے کبھی خون بند رہتا ہے۔
بلکہ فرض کیجئے ایک عورت کو عادت کے دنوں میں ایک گھنٹہ خون آیا پھر ستّر گھنٹے تک نہیں آیا اس کے بعد آگیا تو بھی ستّر گھنٹہ یا کل بہتر گھنٹے ایام حیض کے مانے جائیں گے۔اس سلسلے میں فقہ کی چھوٹی چھوٹی کتابوں میں یہ مذکور ہے۔
“الطھر المتخلل بین الدمین دم”
لیکن بات وہی ہے کہ دیوبندی علم دین سے محروم ہیں۔عزیز اسعد و ارشد حضرت علامہ مفتی نظام الدین صاحب زید مجدھم مفتی جامعہ اشرفیہ مبارک پور نے اس پر اضافہ فرمایا۔
حائضہ کے اس مسئلے کو لیکر پوری دیوبندی برادری مجدد اعظم اعلیٰ حضرت قدس سرہ کو گندہ ذہن اور غلیظ آدمی بتاتے پھرتی ہے۔اب آئیے دیوبندی برادری کے امام اہلسنت مولوی عبد الشکور کاکوروی اپنی کتاب”علم الفقہ”میں لکھتے ہیں۔
“حائضہ یا وہ عورت جس کو بچہ پیدا ہونے کے بعد خون آتا ہے(یعنی نفاس والی عورت)خون بند ہونے سے پہلے اگر نہائے اور جسم اس کا پاک ہو تو یہ پانی مستعمل نہیں۔اور وضو و غسل اس سے درست ہے”۔(جلد:1،صفحہ:9)
(طاہر حسین گیاوی گدھاوی) اور پوری دیوبندی برادری بتائے کہ ان کے یہ امام گندہ ذہن غلیظ آدمی ہوئے یا نہیں۔
کیوں نہیں بولتے صبح کے طیور
کیا شفق نے کھلا دئے سیندور
[دیوبندی شریعت] اب ناظرین کی ضیافت طبع کے لئے دیوبندی مکتب فکر کے صرف ایک مسئلے ذکر کئے جاتے ہیں۔
بہشتی زیور حصہ دوم صفحہ70 پر ہے
“اگر ہاتھ میں کوئ نجس چیز لگی تھی اس کو کسی نے زبان سے تین دفعہ چاٹ لیا تو بھی پاک ہو جائیگا”
اب کوئ دیوبندی یہ کہ سکتا ہے کہ ہاتھ کی تخصیص نہیں جسم کے کسی بھی حصہ میں نجاست لگی ہو تو زبان سے چاٹ لینے سے پاک ہو جائیگا۔اسی طرح نجس چیز اپنے عموم کے اعتبار سے پیشاب پاخانہ کو بھی شامل ہے۔۔۔۔اب دیوبندیوں کو مبارک ہو تمہارے حکیم الامت نے طہارت کا بڑا آسان طریقہ بتا دیا پیشاب کرو تو اپنی بیگم سے کہو کہ پیشاب کا مقام تین مرتبہ چوس لے تو پاک ہو جائیگا۔پاخانہ کرکے اپنی بیگم سے گذارش کریں کہ تین مرتبہ چاٹ لو طہارت ہو جائیگی۔نہ لوٹے کی ضرورت نہ پانی کی حاجت۔
۔۔۔۔دیوبندیو!طہارت کا کتنا عمدہ طریقہ ہے۔
(ماخوذ از۔تحقیقات صفحہ22,136)
آخر میں طاہر گیاوی گدھاوی اور دیگر دیوبندیوں کو اتنا ہی کہوں گا
خدا جب دین لیتا ہے
تو عقل چھین لیتا ہے