حضور غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال زریں ویسے تو علما نے بہت لکھا ہے لیکن غوث پاک کے چنندہ اقوال زریں پر توجہ ڈالیں خود غوث پاک ‘الفتح الربانی’ میں فرماتے ہیں کہ ”ہمارا پروردگار موجود ہے اور اُسے دیکھا جا سکتا ہے۔ اور صاحبِ یقین و معرفت انسان کے لیے دو ظاہری اور دو باطنی آنکھیں ہیں۔ پس وہ ظاہری آنکھوں سے زمین پر بسنے والی مخلوق کو دیکھتا ہے اور باطنی آنکھوں سے آسمان پر بسنے والی مخلوق کو دیکھتا ہے۔ اِس کے بعد اُس کے دل سے تمام پردے اُٹھا دیے جاتے ہیں اور پھر وہ اللّٰہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کو بلاشبہ و بلاکیف دیکھتا ہے اور مُقرب و محبوبِ خُدا بن جاتا ہے۔” یہ غوث پاک کے چندہ اقوال
یہ حقیقت ہر باشعور انسان پر عیاں ہے کہ انسان کا ایک ظاہری جسم ہے جو دیکھا جا سکتا ہے اور ایک باطنی جسم ہے جسے روح, دل یا قلب کے اندر کا انسان یا ضمیر کہا جاتا ہے, جو کہ ظاہری نظروں سے چھپا ہُوا ہے۔ یہ باطنی انسان ہی اصل انسان ہے۔ ظاہری جسم اِس باطنی انسان کے لیے اِس دنیا میں محض لباس کا کام دیتا ہے۔ یہ جسم اِسی دنیا میں تخلیق ہوتا ہے اور باطنی انسان یا روح کے, اپنے اصل وطن واپسی کے وقت, یہ جسم اسی دنیا میں ہی رہ جاتا ہے۔ وہ انسان جو اللّٰہ کی طرف سے آیا اور جسے واپس لوٹ کر اللّٰہ کے ہاں جوابدہ ہونا ہے, باطن کا حقیقی انسان ہے۔ “بے شک ہم اللّٰہ کی طرف سے ہیں اور اللّٰہ کی طرف ہی ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔”
اللّٰہ کا دیدار کرنا, اللّٰہ کی معرفت اور پہچان حاصل کرنا, اِسی باطنی انسان یا روح کا کام ہے کیونکہ اِس کا تعلق اللّٰہ سے ہے۔ اور اِس تعلق کی وضاحت قرآن پاک کی اِس آیت سے ہوتی جہاں اللّٰہ تعالیٰ فرشتوں سے ارشاد فرماتا ہے کہ ”جب میں اِسے ٹھیک بنا لوں اور ”اِس میں اپنی روح پھونک دوں” تو تم اِس کے آگے سجدے میں گر پڑنا” (سورہ الحجر, آیت 29)
یہی روح, اللّٰہ کا قُرب و دیدار حاصل کرنے کے لیے, بےتاب رہتی ہے۔ جو ارواح نور بصیرت حاصل نہیں کرتیں اُن کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے “کیا اِن لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی ہے کہ اُن کے پاس ایسے دل ہوتے جو سمجھ سکتے اور ایسے کان ہوتے جو سُن سکتے, اس لئے کہ دَرحقیقت آنکھیں اندھی نہیں ہوتی ہیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں کے اندر پائے جاتے ہیں۔” (سورہ الحج, آیت 46) یہی غوث پاک کے چنندہ اقوال زریں
پس، اللّٰہ کا دیدار بھی ظاہری آنکھوں نے بصارت سے نہیں بلکہ روح نے نورِ بصیرت سے کرنا ہے۔
مرشد اور کمہار کی بہترین مثال
مرشد کو سمجھنے کے لئے غوث پاک کے چنندہ اقوال زریں میں سے ایک اہم مثال کو سمجھیں تمھیں کمہار کو گھڑا بناتے دیکھنا پڑے گا کمہار گھڑے کو گھڑتا ھے مرشد بھی تمھیں گھڑے کی طرح گھڑتا ھے تا کہ تم بھرے جا سکو گھڑا تو خالی پن کا نام ھے تمھارے اندر جو سکون اور طمانیت کا سمندر موجزن ھے وہ مرشد تمھارے چاروں طرف مٹی کی پتلی سی دیوار تعمیر کر رھا ھوتا ھے اور تمھارے باطن کو نفسانی کثافتوں سے پاک کر رھا ھوتا ھے کمہار گھڑا گھڑتے وقت اندر سے تو گھڑے کو سہارا دیتا ھے لیکن باھر سے چوٹ لگاتا ھے مرشد کا مرشد ھونا بھی یہی ھے کہ وہ اندر سے تمھیں سہارا دیتا ھے لیکن باہر سے تمھیں چوٹ مارتا ھے اور اگر آپ نے مرشد کی صرف باھر کی چوٹ دیکھی تو آپ بھاگ کھڑے ھوں گے لیکن اگر آپ نے مرشد کے اس ھاتھ کو دیکھ لیا جو آپ کو اندر سے سہارا دے رھا ھے تو ھی آپ مرشد کے قدموں میں بیٹھ سکیں گے یہ چوٹ اور یہ سہارا دونوں ضروری ھیں اگر گھڑے کو اندر سے سہارا نہ دیا جائے تو اس کی دیوار تعمیر نھیں ھو سکے گی اور اس کے ٹوٹ جانے کا خطرہ ھوگا یہ دیوار باھر کی چوٹ سے مضبوط ھوتی ھے گھڑے کو مضبوط بنانے کیلئے باھر سے چوٹ دینا ضروری ھوتا ھے کیونکہ یہی چوٹیں بعد میں گھڑے کو ٹوٹنے سے بچائیں گی اسی قسم کی چوٹ مرشد لگاتا ھے مرشد آپ کو اندر سے سہارا دے گا تا کہ تم گھڑنے کے وقت ھی نہ ٹوٹ جاو وہ باھر سے چوٹ دے گا تا کہ تم کبھی بھی ٹوٹ نہ پاو یہ زبردست غوث پاک کے چندہ اقوال میں سے ہے جسے پڑھ کر انسان کو درس لینا چاہیے
سلامت رہیں ســـــــلامتی چاہتے رہیں
Sarkar ghous e Azam nazr e Karam khudara