غوث پاک کی کتاب فتوح الغیب میں اصطلاحات صوفیا کی تشریح

حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے فتوح الغیب میں جو اصطلاحاتِ صوفیاء بیان فرمائیں ان کا مختصر تعارف۔۔۔جنہیں جاننے کے بعد آپ کو صوفیاء کے کلام کو سمجھنے میں آسانی ہوگی یہ مضمون بہت ہی کام کا ہے خاص طور اس مضمون کو پڑھنے کے بعد کلام صوفیا کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئےگی

غوث پاک کی کتاب کی اصطلاح

خالقِ ارض و سما نے حضور سیدنا غوث الاعظم، شہباز لا مکانی قندیل نورانی عکس آیات قرآنی محبوب سبحانی کو غوثِ اعظم کا اعزاز بخشا ۔ غوث اہل حق کے نزدیک بزرگی کا ایک خاص مقام ہوتا ہے صدیوں سے روحانی دنیا میں شیخ حضرت عبدالقادر جیلانی غوثِ اعظم کے لقب سے پہچانے جاتے ہیں ۔ ”غوث” کے لغوی معنی ‘ ‘ فریاد رس ” یعنی فریاد کو پہنچنے والا چونکہ آپ غریبوں مسکینوں بے کسوں حاجت مندوں کے مسائل حل کرتے تھے اِس لیے آپ کو غوث اعظم کا خطاب دیا گیا ۔ عقیدت مندو آپ کو ”پیرانِ پیر ” اور دستگیر کے لقب سے بھی یاد کرتے ہیں آپ آسمان ِ تصوف کے روشن ترین چاند اولیائے کرام میں سب سے زیادہ محبوب آپ کا خاندانی نام محمد عبدالقادر اور لقب محی الدین ) مذہب کو زندہ کرنے والا ( آپ کی ولادت 470ھ میں ایران کے شہر جیلان میں ہوئی اولیا ء کے سردار رمضان البارک کی پہلی تاریخ کو اس رنگ و بو کی دنیا میں تشریف لائے ۔

فتوح الغیب کی اصطلاحات

( الف)

احدیت :-

اس سے مراد مخلوق کو چھوڑ کر اللــــــــــــــہ تعالی کی ذاتِ یکتا۔

اسماء توحید :۔

اللــــــــــــــہ تعالی کے اصلی نام سات ہیں۔ ان سات سے پھر کچھ اور نام نکلتے ہیں۔ ان تمام اصلی اور فرعی اسماء کے مجموعے کو اسماء توحیدی کہتے ہیں۔اصلی نام یہ ہیں۔ (لااله الا اللہ۔ ھو، حی ، واحد ، عزیز، ودود ) فرعی چھ نام ۔ (حق ، قھار ، قيوم ، وھاب، مهيمن باسط)

انسیت :۔

دل کے مشاہدہ سے روح کا لطف اندوز ہونا۔

اہل صفہ :۔

حضور ﷺ کے وہ غریب صحابہ رضی اللــــــــــــــہ تعالی عنہم جو سب کچھ چھوڑ کر دعوت و ارشاد کے ہو کر رہ گئے تھے۔

(ب)

بدایت :۔

اسماء و صفات کا عالم ارواح میں تحقق۔

بصیرت :۔

وہ قوت جو اولیاء کے دل سے پھوٹتی ہے اور نور قدسی سے منور ہوتی ہے۔ اس سے انسان اشیاء کی حقیقت اور ان کے باطن کو دیکھتا ہے۔ اسے قوت قدسیہ بھی کہتے ہیں۔

(ت)

تجرید :۔

اس خیال سے کہ اللــــــــــــــہ تعالی کا حق ادا کرنا واجب ہے انسان کا اپنے دل کو اغراض دنیا اور حال و مستقبل کی مصلحتوں سے پاک کر لینا تجرید ہے۔

تجلی :۔

غیبی انوار جو دلوں پر منکشف ہوتے ہیں۔

تجلی ذات :۔

اس سے مراد مکاشفہ ہے۔ اس کا مبداء ذات خداوندی ہے اور یہ صرف اسماء و صفات کے واسطے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔

تجلی صفات :۔

بندے کا صفات خداوندی سے متصف ہونے کو قبول کر لینا تجلی صفات ہے۔

تلبیس:-

کسی شخص کا یہ گمان کرنا کہ میں نے استقامت ، توحید اور اخلاص کا لباس پہن رکھا ہے (لہذا میں اللــــــــــــــہ کا ولی ہوں لیکن حقیقت میں وہ لباس شیطانی دھوکہ ہو۔ اسے تلبیس کہتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسے مدعی ولایت کے ہاتھ پر خرق عادت کا ظہور ہو جاتا ہے وہ کرامت نہیں ہوتی بلکہ اسے مخادعہ (استدراج) کہتے ہیں۔

توحید :-

اللــــــــــــــہ تعالی کی وحدانیت ، یکتائی اور اس کے لاشریک ہونے کا حکم لگانا توحید ہے۔ توحید کے کئی ارکان اور مراتب ہیں۔

(ج)

جسم جسمانی :۔

وہ جسم جو عالم ملک میں ہوتا ہے۔

جسم جلالی : ۔

اس سے مراد قہر ، عظمت، کبریائی، بزرگی، بلندی اور اقتدار کی صفت ہے ۔

(ح)

حجابات ظلمانی :۔

طالب اور مطلوب کے درمیان حائل پردے۔ دراصل یہ شہوات و لذات جیسی جسم کی ظلمتوں کا دوسرا نام ہے۔

حجابات نورانی :۔

یہ بھی طالب و مطلوب کے درمیان پردے ہیں لیکن ان کا تعلق محرکات باطنیہ سے ہے مثلا عقل ، سر ، روح ،خفی جیسے نور روح کے پردے۔

حجلہ انس :۔

اس سے مراد عالم لاہوت ہے۔

حق الیقین :۔

یقین کی وہ انتہاء جو واصلین کی غایت ہے اس سے مراد صدق یقینی ہے اور اس کی شہادت وہ سالک دیتے ہیں جو مقامات علیا پر فائز ہوتے ہیں۔ یہ فناء فی اللــــــــــــــہ کا مقام ہے۔

حقیقت محمدیہ :۔

اس سے مراد حیات روحی اور حیات حیوی کا مصدر ہے۔ یہ اہل ایمان کے دلوں کی زندگی ہے۔ حقیقت محمدیہ خلق کی پیدائش کا سبب اور ماسوای اللــــــــــــــہ کی اصل ہے۔

د

درجات :۔

شریعت (علم ظاہری) پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے انسان کو جو ثواب ملتا ہے اسے درجات کہا جا تا ہے۔

دار فروانی :۔

اس سے مراد وہ گھر ہے جو مقاماتِ عالیہ پر فائز لوگوں کو ارزانی ہوتا ہے۔ اسی گھر میں اللــــــــــــــہ تعالی عارفین کی حفاظت فرماتا ہے اور کائنات کی نگاہوں سے انہیں پوشیدہ رکھتا ہے۔ عارفین اس گھر میں جلوہ فرما ہوں گے اور ان پر بلند و بالا گنبد ہوں گے یہ ان کے درجات کا صلہ ہوگا۔

روی :۔

وہ علمی راز جو اللــــــــــــــہ تعالی اپنے کسی مخلص بندے کے دل میں ودیعت فرماتا ہے ۔

روح اعظم :۔

عقل اول، حقیقت محمدیہ ، نفس واحدہ ، سب سے پہلے جسے اللــــــــــــــہ تعالی نے پیدا فرمایا، خلیفہ اکبر ، جوہر نورانی جسے جوہریت کے اعتبار سے نفس واحدہ نورانیت کے اعتبار سے عقل کہتے ہیں۔ اسی کے لیے عالم میں مظاہر کا وجود ہے۔ اسی سے عقل اول، قلم اعلی ، نور ، نفس کلیہ اور لوح محفوظ جیسے اسماء کا وجود ہے۔

روح روانی :۔

عالم ملکوت میں نورانی ارواح کا لباس۔ اسے روح سیرانی بھی کہتے ہیں۔

روح سلطانی :۔

اللــــــــــــــہ تعالی کا وہ نور جو اس نے دونوں عالم ، عالم لاہوت اور عالم جبروت کے در میان ارواح کو عطا فرمایا۔

روح سیرالی :۔

اس سے مراد روح روانی ہے جس کا تعارف پہلے گزر چکا ہے۔

روح قدسی :۔

عالم لاہوت میں نور کا لباس۔

ریاضت :۔

دل کو طبیعت کے تقاضوں اور اس کی خواہشات سے پاک کرنا۔

(س)

سواد الوجہ فی الدارین :۔

کلیتہً اللــــــــــــــہ تعالی میں فنا ہو جانا۔ اس طرح کہ انسان کا مطلقاً اپنا وجود نہ رہے۔ نہ ظاہراً نہ باطنا ۔ نہ دنیاوی اعتبار سے اور نہ اخروی اعتبار ہے ۔ یہی فقر حقیقی اور رجوع الی العدم ہے۔

ط

طریقت :۔

شانتی کی راہ جو انہیں واصل بحق کرتی ہے۔ مثلا منازل سلوک کا طے کرنا اور مقامات میں ترقی کرنا۔

طفل معافی :۔

عالم لاہوت میں روح کی پہلی صورت جس صورت پر اللــــــــــــــہ تعالی نے

اسے پیدا کیا۔ اسے انسان حقیقی بھی کہتے ہیں۔

(ع)

عالم اصلی :۔

وہ عالم جس میں اللــــــــــــــہ تعالی نے نور محمدی سے تمام ارواح کو پیدا فرمایا۔ اسے عالم لاہوت بھی کہتے ہیں۔

عالم جبروت :۔

عالم لاہوت سے ارواح جس دوسرے عالم کی طرف اتریں اس

دوسرے عالم کو عالم جبروت کہتے ہیں۔ عالم جبروت دو عالموں، عالم لاہوت اور عالم ملکوت کے درمیان واقع ہے۔ عالم جبروت کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں احکام خداوندی کے مطابق امور سر انجام پاتے ہیں۔

عالم حقیقت :۔

یہ عالم لاہوت میں انبیاء و اولیاء کا مقام ہے ۔ اس کی تشریح میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد محل وصال ہے جہاں انسان واصل بحق ہوتا ہے۔۔ اس سے متعلق ایک تیسرا قول بھی ہے کہ عالم حقیقت سے مراد عالم احسان میں دخول ہے۔ اس کو عالم قربت کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

عالم قربت :۔

اسے عالم حقیقت بھی کہتے ہیں۔ جس کی تشریح بھی آپ پڑھ کر آئے ہیں۔

عالم لاہوت :۔

روحوں کا پہلا وطن جہاں وہ تخلیق ہوئیں۔ اس عالم میں محو و فنا ہے۔ کیونکہ فانی کو اسی عالم میں قرب خداوندی حاصل ہوتا ہے۔ اس عالم تک ملائکہ نہیں پہنچ سکتے۔

عالم الملک :۔

عالم شهادت یا عالم اجسام واعراض۔ اس عالم میں روحیں جسموں میں داخل ہوتی ہیں۔اس کا دوسرا نام عالم سفلی ہے۔

عالم الباطن :۔

دل میں ظاہر ہونے والا علم نہ کہ ظواہر میں۔ صوفیاء کرام علیہم الرحمۃ کی جماعت نے اس کی کئی قسمیں بیان کی ہیں۔ مثلا علم ، حال ، خواطر ، یقین ، اخلاص، اخلاق نفس کی معرفت ، اقسام دنیا کی معرفت ، توبہ کی ضرورت ، توبہ کے حقائق ، توکل ، زهد ، انابت ، فنا، علم لدنی۔

علم حقیقت :۔

اس سے مراد علم ظاہری اور باطنی کا مجموعہ ہے ۔ اس علم کا حصول ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اسی کو علم شریعت کہتے ہیں۔

علم العرفان :۔

یہ علم دل کا چراغ ہے۔ اس کی روشنی میں انسان خیر و شر کو دیکھ سکتا ہے۔ انسان جس قدر اللــــــــــــــہ تعالی کی بادشاہی ، اس کی پیدا کردہ کائنات اور اس کی صفات میں غور و فکر کرتا ہے اسی قدر اس کا اشتیاق بڑھتا ہے اور وہ اللــــــــــــــہ تعالی کے جمال کو منکشف دیکھنا چاہتا ہے ۔ وہ اسماء و صفات خداوندی میں اور زیادہ غور و تدبر کرتا ہے۔ اسے علم تفکر بھی کہتے ہیں۔

علم یقین :۔

یہ علم عطائی ہے اور صرف اولیاء کاملین و مقربین کو نصیب ہو تا ہے۔ اس کا طریق الہامات ، تجلیات فتوحات، مکشوفات اور مشاہدات ہیں۔ اس کو علم لدنی کہتے ہیں۔

عین الروح :۔

اسے بصیرت بھی کہتے ہیں۔ بصیرت کی تعریف پہلے گزر چکی ہے۔

عین الیقین :۔

یہ عطیہ ربانی ہے یہ علم الیقین کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔

(ف)

فانی :۔

اس شخص کو کہتے ہیں جو حظوظ نفس کے شہود سے فنا ہو گیا۔

فقر :۔

یہ تصوف میں بہت بلند مقام ہے۔ اس مقام پر فائز لوگ دنیا و مافھا سے بے نیاز ہو جاتے ہیں اور انہیں بجز اللــــــــــــــہ تعالی کے کسی کی ضرورت نہیں رہتی۔

فناء :۔

بشریت کی صفات ذمیمہ کو اللــــــــــــــہ تعالی کی ذات سے نہیں صفات سے بدل دینا۔

(ق)

قربت :۔

اسماء و صفات سے بندے کا علم و معرفت میں مستحکم ہو جانا اس طرح کہ کوئی چیز اسے مقصود سے دور نہ کر سکے۔

قدرت :۔

وہ قوت جو ممکنات کو عدم سے وجود میں لاتی ہے۔ اسے صفت ربوبیت بھی کہتے ہیں۔

الكسوة العصریہ ۔

( لباس عنصری) اس سے مراد نور کا لباس ہے جو روحوں کو عالم الملک میں عطا ہوا ہے۔

ک

کنز :-

ذات احدیت جو غیب کے پردوں میں چھپی تھی۔

(م)

محویت :۔

بندے کا اللہ کی ذات کے علاوہ ہر وجود سے لا تعلق ہو جاتا۔

مشاہدہ :۔

دل کی آنکھ سے حق کو دیکھنا۔

معرفت :۔

یہ ولی اللــــــــــــــہ کی صفت ہے جو حق سبحانہ تعالیٰ کو اس کے اسماء صفات سے پہچانتا ہے۔ اور اللــــــــــــــہ تعالی اس کے معاملات میں سچائی پیدا کر دیتا ہے۔ اور اس کو اخلاق رذیلہ اور اس کی آفات سے پاک و صاف کر دیتا ہے۔ اس تزکیہ کے بعد وہ اللــــــــــــــہ تعالی کا ہو کر رہ جاتا ہے وہ “سر ” میں اللــــــــــــــہ تعالی کے ساتھ مناجات کرتا ہے اور ہہاں اس کی حاضری دائمی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ ایسے میں وہ حق کا ترجمان بن جاتا ہے۔اس کے اسرار قدرت کو بیان کر تا ہے ۔اور تصرفات کے بارے گفتگو کرتا ہے۔ معرفت کے حامل شخص کو عارف کہتے ہیں۔

مقام :-

اس سے مراد بندے کا وہ مر تبہ ہے جو وہ توبہ ، زھد ، صبر و توکل جیسی عبادات، ریاضات اور مجاہدات کے ذریعے بارگاہ خداوندی میں حاصل کرتا ہے۔ جب تک وہ ایک مقام کے احکام پر پورا نہیں اترتا دوسرے مقام کی طرف ترقی نہیں کر سکتا۔

مکاشفہ :۔

اتصال یا تعلق باللــــــــــــــہ کا نام مکاشفہ ہے۔ مکاشفہ سے چھپے راز عیاں ہو جاتے ہیں اور انسان باطن کی آنکھ سے سب کچھ دیکھنے لگتا ہے۔

(ن)

نفس امارہ :۔

جو نفس بشری شھوانی طبیعت کے تقاضوں کا مطیع و فرمانبردار ہو نفس امارہ کہلاتا ہے۔ نفس امارہ اوامر و نواہی کی کچھ پرواہ نہیں کرتا اور لذات نفسانی میں منہمک رہتا ہے۔

نفس مطمئنہ :۔

ایسا نفس جسے حق سے سکون حاصل ہو اور وہ طمانیت کی کیفیت پاچکا ہو۔

نفس ملھمہ :۔

ایسا نفس الہام خداوندی سے بھلائی کے کام کرتا ہے۔ لیکن بتقاضائے

طبیعت اس سے برے کام بھی ہو جاتے ہیں۔

نہایت :۔

روح کا اس صفاء کی طرف رجوع جو اسے تعلق بالجسد سے پہلے حاصل تھی۔

نور قدسی :۔

وہ نور جس کا فیض عالم ملکوت اور عالم جبروت کو پہنچتا ہے۔

( و )

وجد :۔

حق کے راز کو پا کر روح کا خشوع اختییار کرنا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب انسان ذکر کی حلاوت محسوس کرتا ہے تو اس کے دل میں عشق کی چنگاری بھڑک اٹھتی ہے جسے وہ برداشت نہیں کر سکتا اور ضبط کے باوجود بھی کسی نہ کسی رنگ میں اظہار ہو جاتا ہے۔ اظہار کی کیفیت وجد ہے۔

وجود :۔

سلطان حقیقت کے غلبے کے وقت بشریت کا فنا وجود ہے۔

وصال :۔

اتصال بالحق کا دوسرا نام ہے وصال مخلوق سے انقطع کی قدر ہوتا ہے۔ ادنیٰ وصال دل کی آنکھ سے مشاہدہ ہے ۔ جب حجاب اٹھ جاتا ہے اور بجلی پڑتی ہے تو سالک کو اس وقت واصل کہا جاتا ہے۔

(ی)

یقین :۔

شک کا ازالہ ۔ اس کی تین قسمیں ہیں۔ علم الیقین ، عین الیقین اور حق الیقین۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x