آج کل جہاں بہت سارے واقعات غوث پاک بیان کیے جاتے وہیں یہ بات بھی بیان کی جاتی ہےغوث اعظم کے دھوبی کے واقعہ کے بارے میں جس کی سچائی کی تلاش تھی علماء کرام و مفتیان عظام کی بارگاہ میں عرض ہے کہ غوث پاک کے دھوبی کا واقعہ جو ممبروں پر بیان کیا جاتا ہے اسکی کیا حقیقت ہے؟
اہل علم حضرات بحوالہ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہونگی۔؟
~🖋️فقیر کوثر رضا قادری
📚بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم📚
غوث اعظم کے دھوبی کے واقعہ
صورت مسئولہ میں جواب یہ ہے کہ آج کل کے علماء حضرات جو یہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دھوبی جب مر گیا تو اس سے فرشتے قبر میں سوالات کرنے آئے تو بار بار یہ جواب دیتا کہ میں سیدنا غوثِ اعظم کا دھوبی ہوں تو اسے بخش دیا گیا یہ روایت من گھڑت اور جھوٹی ہے
حضور غوث پاک اور دھوبی کا جھوٹا واقعہ
بیان کیا جاتا ہے کہ حضور غوث پاک علیہ الرحمہ کا ایک دھوبی تھا، جب اس کا انتقال ہوا تو قبر میں فرشتوں نے اس سے سوال کیے جیسا کہ سب سے کرتے ہیں- اس نے ہر سوال کے جواب میں کہا کہ “میں غوث پاک کا دھوبی ہوں” اور اسے بخش دیا گیا-
اس روایت کے متعلق فقیہ ملت، حضرت علامہ مفتی محمد جلال الدین احمد امجدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں غوث اعظم کے دھوبی کے واقعہ کے متعلق کہ یہ روایت بے اصل ہے- اس کا بیان کرنا درست نہیں لہذا جس نے اسے بیان کیا وہ اس سے رجوع کرے اور آئندہ اس روایت کے نہ بیان کرنے کا عہد کرے، اگر وہ ایسا نہ کرے تو کسی معتمد کتاب سے اس روایت کو ثابت کرے-
(انظر: فتاوی فقیہ ملت، کتاب الشتی، ج2، ص411، ط شبیر برادرز لاہور، س2005ء)
شارح بخاری، حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ حکایت نہ مَیں نے کسی کتاب میں دیکھی ہے اور نہ کسی سے سنی ہے- احادیث میں تصریح ہے کہ اگر (مرنے والا) مومن ہوتا ہے تو قبر کے تینوں بنیادی سوالوں کا جواب دے دیتا ہے، منافق یا کافر ہوتا ہے تو یہ کہتا ہے کہ ہاے ہاے میں نہیں جانتا لہذا یہ روایت حدیث کے خلاف ہے مگر یہ بات حق ہے کہ حضرات اولیاے کرام، ائمۂ دین، بزرگان دین اپنے مریدین، معتقدین اور متعلقین کی قبروں میں نکیرین کے سوالات کے وقت تشریف لاتے ہیں اور جواب میں آسانی پیدا کرتے ہیں-
(ملخصاً و ملتقطاً: فتاوی شارح بخاری، کتاب العقائد، ج2، ص125، ط دائرۃ البرکات گھوسی، س1433ھ)
مفتی اعظم ہالینڈ، حضرت علامہ مفتی عبد الواجد قادری رحمہ اللہ مذکورہ روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ غالباً یہی واقعہ یا اس کے مثل “تفریح الخاطر” میں ہے لیکن اس کے بیان میں تحقیق ضروری ہے- یوں ہی مبہم طور پر بلا توضیح کے بیان کرنا خلاف احتیاط ہے جس سے بچنا ضروری ہے-
(انظر: فتاوی یورپ، کتاب الصلوٰۃ، ص220)
حضرت مولانا محمد اجمل عطاری صاحب اس غوث اعظم کے دھوبی کے واقعہ والی روایت کو نقل کرنے کے بعد فقیہ ملت کا قول بیان کرتے ہیں کہ روایت مذکورہ بے اصل ہے- اس کا بیان کرنا درست نہیں لہذا جس نے اسے بیان کیا وہ اس سے رجوع کرے…. الخ
وللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
السلام علیکم
یہ اگر توجیح کے ساتھ بیان کیا جائے کہ دھوبی نے جواب دیا مجھ سے پوچھتے ہو جو عبد القادر کا دھوبی ہوں اگر انہوں نے مجھے نہ سکھایا ہو گا تو اور کس کو سکھایا ہو گا