عید کی مبارکباد دینا شریعت کی نظر میں اور عید الفطر کے کچھ اہم مسائل کاذکر بھیں اس مضمون میں سمجھیں گے اور عید کی ایک دوسرے کو مبارک باد دینی چاہیے۔ وہ اس طرح کہ ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو کہے:
تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّاوَمِنْکَ (مسند احمد)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ سے سوال کیا گیا کہ عید کی مبارک باد دینا یعنی عید مبارک یا اس قسم کے الفاظ کہنا شرعاً کیسا ہے ۔ انھوں نے جواب دیا:
عید کے دن مبارک باد دینا اور نماز عید کے بعد تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّاوَمِنْکُمْ وَاَحَالَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ (اللہ ہماری اور تمھاری عید قبول فرمائے اور اسے دوبارہ لائے) اس طرح کے کلمات کہنا صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے مروی ہیں۔
امام احمد بن حنبل اور ان کی طرح دوسرے ائمہ نے اس کی رخصت دی ہے۔ لیکن امام احمدکہتے ہیں کہ میں خود یہ کہنا شروع نہیں کرتا لیکن اگر کوئی مجھ سے کہے تو میں اس کا جواب دے دیتا ہوں۔ کیونکہ تحیہ کا جواب دینا واجب ہے۔ تاہم مبارک باد دینے کی شروعات کرنا کوئی سنت نہیں ہے جس کا حکم دیا گیا ہو اور نہ یہ ان چیزوں سے ہے جن سے منع کیا گیا ہو۔ چنانچہ جس نے ایسا کیا اس کے لیے بھی نمونہ موجود ہے اور جس نے ایسا نہ کیا اس کے لیے بھی نمونہ موجود ہے۔ واللہ اعلم
عید الفطر اور چاند رات کےمسائل*
چھوٹی عید، میٹھی عید کے لئے ابھی سے خود لو تیار کریں
اپنے وقت کا بہترین استعمال کرنے کے لیے، آگے کی منصوبہ بندی کریں۔ ناپسندیدہ گفتگو یا سرگرمیوں میں مشغول نہ ہوں۔ یاد رکھیں، کھویا ہوا وقت کبھی واپس نہیں آتا۔ اپنے اور دوسرے لوگوں کے وقت کی قدر کریں۔ وقت کی قدر کرنے والوں کی زندگی میں وقت اضافہ کرتا ہے۔
شوال کا چاند دیکھنے سے ہی بعض لوگ سارے مہینے کی عبادت و ریاضت کو یکسر بھول جاتے ہیں۔
چاند رات کولڑکیاں چوڑیاں چڑھوانے کے لیے بازاروں میں چلی جاتی ہیں، کسی نے جوتا یا کوئی دوسری ضرورت کی چیز خریدنی ہے۔ بازاروں میں بے انتہا رش ہو جاتا ہے بازاروں میں تیز آواز کے ساتھ ڈیک چلائے گانے بجائے جاتے ہیں ایک شور و گل کا منطر دیکھنے کو ملتا ہے ۔
*چاند رات کو جائزہ لینا*
روزہ تو انسان کو تقویٰ کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ تو نہیں کہ رمضان ختم ہوا تو ہر چیز سے بے نیاز ہو گئے۔
چاند رات کی بھی بہت فضیلت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
منْ قام لَیلَتَی العید محتسبًا لَم یَمتْ قَلْبَہ یَوْمَ تَموتُ القُلُوب (ابن ماجة)
’’جو شخص دونوں عید کی رات نیک نیتی اور خلوص سے قیام کرے گا تو اس کا دل نہیں مرے گا جس دن اوروں کے دل مردہ ہو جائیں گے‘‘۔
*مسلمان کے لئے 2 دن خوشی کے دن*
ہر قوم میں خوشی و مسرت کے ایام ہوتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہاں نو روز اور مہر جان دو خوشی کے دن تھے۔ یہ دونوں دن اہلِ فارس کے ہاں خوشی اور عید کے لیے مشہور تھے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمھیں ان کے بدلہ میں ان سے بہتر دو دن عطا کیے ہیں یعنی فطر اور اضحی کا دن۔ (بخاری)
دوسری اقوام میں عید صرف کھانے پینے اور لہو و لہب کے لیے ہوتی ہے۔ لیکن اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمارا کوئی بھی دن اللہ کے ذکر سے خالی نہ ہو۔ اس لیے عید کے دن خاص طور پر دو رکعت نماز ادا کرنا مسنون ہے۔ جمعہ کے دن اور دونوں عیدوں کے دن غسل کرنا سنت موکدہ ہے۔
*نماز عید سے پہلے کچھ کھانا*
عید الفطر کی نماز سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ کھا کر نکلتے۔ عموماً آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ یا سات کھجوریں کھاتے:
کان رسولُ اللّٰہ لا یَغْدُوا یَومَ الفِطْرِ حَتّٰی یَاْکُلُ تَمَراتٍ ویأ کُلُہُنَّ وِتْراً (بخاری)
جبکہ عید الاضحی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ کھائے بغیر نماز کے لیے چلے جاتے۔ نماز عید کے لیے پیدل جانا سنت ہے اور واپسی میں راستہ تبدیل کر کے آنا بھی سنت ہے۔
نماز عید کا وہی وقت ہے جو اشراق کی نماز کا وقت ہے۔ عید کی نماز کا وقت زوال تک رہتا ہے۔ بہتر ہے کہ عید الاضحی کی نماز طلوع آفتاب کے بعد فوراً پڑھی جائے۔ تاکہ لوگ قربانی جلد کر سکیں۔
*عید الفطر کی نماز*
عید الفطر کی نماز ذرا تاخیر سے پڑھی جائے تاکہ لوگ صدقہ فطر کی ادائیگی نماز سے پہلے کر سکیں۔
عید کی نماز شہر سے باہر نکل کر کھلے میدان میں ادا کرنا مسنون ہے۔ البتہ اگر ابر آلود موسم ہو تو مسجد میں نماز ادا کی جا سکتی ہے۔ عید گاہ جاتے ہوئے تکبیرات پڑھنا مسنون ہے۔ جبکہ عید الاضحی کو ۹ ذی الحجہ کی فجر سے لے کر ۱۳ ذی الحجہ کی عصر تک تکبیرات کہنا مسنون ہے۔
عید کا دن مسلمانوں کے لیے اظہارِ شان و شوکت کا دن ہے۔ اس لیے سب لوگوں کو وقت پر تیار ہو کر عید گاہ پہنچنا چاہیے۔
*عورتوں کا نماز عید ادا کرنا*
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو بھی تاکید کرتے تھے کہ عیدگاہ میں جا کر نماز عید ادا کریں۔ وہ عورتیں جو اپنے مخصوص ایام میں ہوں۔ وہ بھی عید گاہ جائیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں۔
عن ام عطیۃ رضی اللہ عنہا قالت اَمَرَنَا ان نُخْرِجَ الْحُیَّضَ یومَ العِیدَین و ذواتِ الخُدُورِ فیشہَدْن جماعةَ المسلمین دَعْوَتِہِمْ وَتَعْتَزِل الحُیَّضَ عن مُصَلَّاہُنَّ قالت اِمْرَءةٌ یا رسولَ اللّٰہِ اِحداہُنَّ لیس لہا جَلْبَابٌ؟ قَالَ لِتَلْبِسَہَا صَاحِبَتَہَا مِنْ جَلْبَابِہَا (متفق علیہ)
’’سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔ ہمیں حکم دیا گیا کہ عیدین کے دن حیض والی اور پردہ دار دوشیزاؤں کو نکالیں تاکہ وہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کی دعا میں شریک ہوں۔ حائضہ عورتیں نماز والی جگہ سے الگ رہیں۔ ایک عورت نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے کسی کے پاس بڑی چادر نہ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اس کے ساتھ والی چادر اوڑھا دے‘‘۔
*تکبیرات کے الفاظ:*
تکبیرات کے الفاظ احادیث میں مختلف ہیں۔ کوئی بھی الفاظ ادا کیے جا سکتے ہیں۔
اَللّٰہُ اَکْبَرُاَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُوَلِلّٰہِ الْحَمْدُ
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ الفاظ مسنون ہیں:
اَللّٰہُ اَکْبَرُکَبِیْرًا اَللّٰہُ اَکْبَرُکَبِیْرًا۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ (ابن ابی شیبة)
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے تکبیرات کے الفاظ اس طرح بیان کیے ہیں:
اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُکَبِیْرًا (بیہقی)