عید میلاد النبی پر اعلی حضرت کی عبارت سے وہابی کی مکاری

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور فتاویٰ رضویہ کے نام سے وہابی کی مکاری یعنی کہ عید میلاد النبی پر اعلی حضرت
از قلم:شبیر احمد راج محلی۔
قارئین!جیسا کہ آپ جانتے ہیں وہابی فرقہ کے لوگ مکاری،دجالی، فریب دہی،اور فراڈ کاری میں بڑے ماہر ہیں۔وہابیوں کی مکاریت، عیاریت،دجالیت،کذابیت،اور عیاریت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جیسے ہی ماہ ربیع الاول شریف آتا ہے یہ وہابی فرقہ کے عوام و خواص سب مل کر کہتے،بولتے،لکھتے،اور شور مچاتےنظر آتے ہیں کہ عید میلاد النبی پر اعلی حضرت امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی قادری برکاتی علیہ الرحمہ کی تحقیق کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش آٹھ 8 اور تاریخ وصال بارہ 12 ربیع الاول ہے۔
ہم تو بس یہاں پر وہابی مکاروں، دجالوں،عیاروں،اور دغابازوں کے لیے یہی پڑھتے ہیں(لعنة اللہ علی الکاذبین)

عید میلاد النبی پر اعلی حضرت


قارئین!اب آئیں ذرا دیکھتے ہیں کہ امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کی اپنی تحقیق،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش اور تارِیخ وصال کے متعلق کیا ہے؟ساتھ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کا حکم کس تاریخ کو دیا ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے اور وہابیت کی مکاریت مثل آفتاب روشن ہو جائے۔
(1)پہلی بات تو یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی اپنی تحقیق کے مطابق بارہ 12 ربیع الاول نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش مبارکہ کا دن ہے نہ وصال کا۔
(2) دوسری بات یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ہی کے قول کے مطابق قول جمہور، مشہور،معتبر، اور قابل عمل یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش بارہ 12 ربیع الاول ہے اور تاریخ وصال میں بھی مشہور قول اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے قول کے مطابق بارہ ربیع الاول ہی ہے۔
(3)تیسری بات یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ہی کے قول کے مطابق مسلمانوں کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم بارہ 12 ربیع الاول شریف کو ہی منانا چاہیئے۔
(4)چوتھی بات یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ہی کے قول کے مطابق تاریخ وصال کی بنا پر میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے پر اعتراض کرنا جہالت ہے۔
(5)پانچوی بات یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی اپنی تحقیق کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش آٹھ (8) تاریخ ہے اور تاریخ وصال (13) ربیع الاول ہے۔
اب ان پانچوں باتوں کی دلیلیں ملاحظہ کریں!
(1)دلیل اول:اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:اقول(میں کہتا ہوں)ہم نے حساب لگایا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اقدس والے سال محرم کا غرئہ وسطیہ(آغاز)جمعرات کے روز پایا تو اس طرح ماہ ولادت کریمہ کا غرئہ وسطیہ بروز اتوار اور غرئہ ہلالیہ بروز پیر ہوا تو اس طرح پیر کے روز ماہ ولادت مبارکہ کی آٹھ(8)تاریخ بنتی ہے۔
[فتاویٰ رضویہ مترجم جلد 26 صفحہ 412، رسالہ،نطق الہلال بارخ ولاد الحبیب الوصال،ناشر مرکز اہل سنت برکات رضا امام اہل سنت روڈ پور بندر گجرات]
اسی طرح اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:اور علم.ہیہاءت و زیجات کے حساب سے روز ولادت شریف آٹھ(8)ربیع الاول ہے کما حققناہ فی فتاوئٰنا(جیسا کہ ہم نے اپنے فتاویٰ میں اسکی تحقیق کردی ہے۔
[فتاویٰ رضویہ مترجم جلد 26 صفحہ 427، رسالہ،نطق الہلال بارخ ولاد الحبیب الوصال،ناشر مرکز اہل سنت برکات رضا امام احمد رضا روڈ پور بندر گجرات]
مذکور بالا دونوں حوالوں سے معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی اپنی تحقیق کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش مبارکہ کی تاریخ آٹھ (8)ربیع الاول ہے۔
(2)دلیل نمبر دوم: اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:اور اگر ہیہاءت و زیج کا حساب لیتا ہے تو تاریخ وفات شریف بھی بارہ نہیں بلکہ تیرہ (13)ربیع الاول کما حققناہ فی فتاوئٰنا(جیسا کہ ہم نے اپنے فتاویٰ میں اس کی تحقیق کردی ہے۔
[فتاویٰ رضویہ مترجم جلد 26 صفحہ 428، رسالہ،نطق الہلال بارخ ولاد الحبیب الوصال،ناشر مرکز اہل سنت برکات رضا امام احمد رضا روڈ پوربندر گجرات]
مذکورہ بالا حوالہ سے معلوم ہوا کہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کی اپنی تحقیق کے مطابق تاریخ وصال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارہ(12)نہیں بلکہ تیراہ(13)ربیع الاول ہے۔
(3)دلیل سوم: اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ اعتراف کرتے ہیں کہ بارہ (12) ربیع الاول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش مبارکہ کی تاریخ ہے اور یہ بات مشہور عند الجمہور ہے چناں چہ فرماتے ہیں:شرح مطہر میں مشہور بین الجمہور ہونے کے لیے وقعت عظیم ہے اور مشہور عند الجمہور ہی بارہ(12)ربیع الاول ہے۔
[فتاویٰ رضویہ مترجم جلد 26 صفحہ 427، رسالہ،نطق الہلال بارخ ولاد الحبیب الوصال،ناشر مرکز اہل سنت برکات رضا امام احمد رضا روڈ پور بندر گجرات]
اسی طرح ایک جگہ اور فرماتے ہیں:فائدہ سائل نے یہاں تاریخ سے سوال نہ کیا اس میں اقوال مختلف ہیں دو (2)آٹھ(8)دس(10)بارہ(12)سترہ(17)اٹھارہ(18)بائیس(22) سات قول ہیں مگر اشہر و اکثر و ماخوذ و معتبر بارہوی(ربیع الاول شریف)ہے مکہ معظمہ میں ہمیشہ اسی(بارہ) تاریخ مکان مولد اقدس کی زیارت کرتے ہیں کما فی الموہب و المدارج اور خاص اس مکان جنت نشان میں اسی تاریخ کو مجلس میلاد مقدس ہوتی ہے۔
[فتاویٰ رضویہ مترجم جلد 26 صفحہ 411 رسالہ،نطق الہلال بارخ ولاد الحبیب الوصال،ناشر مرکز اہل سنت برکات رضا امام احمد رضا روڈ پور بندر گجرات]
مذکورہ بالا دونوں حوالوں سے معلوم ہوا کہ امام اہل سنت الشاہ احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے نزدیک مشہور و معتبر اور جس پر مسلمانوں کا عمل ہے عند الجمہور وہ تاریخ پیدائش مبارکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارہ(12)ربیع الاول ہے۔
(4)دلیل چہارم:اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:یعنی مسلمانوں کا روز عید الفطر و عید الاضحیٰ روز عرفہ اُس دن ہے جس دن جمہور مسلمین خیال کریں اگر چہ وہ واقع کے مطابق نہ ہو اس کی نظیر قبلئہ تحری ہے،لا جرم عید میلاد والا بھی عید اکبر ہے قول وعمل جمہور مسلمین ہی کے مطابق ہوگا بہترین و مناسب ترین عمل وہی ہے جس پر جمہور مسلمانوں کا عمل ہو۔
[فتاویٰ رضویہ مترجم جلد 26 صفحہ 414، رسالہ،نطق الہلال بارخ ولاد الحبیب الوصال،ناشر مرکز اہل سنت برکات رضا امام احمد رضا روڈ پوربندر گجرات]
اسی طرح ایک جگہ اور فرماتے ہیں:تعامل مسلمین حرمین شریفین و مصر وشام بلاد اسلام وہندوستان میں بارہ(12)ہی پر ہے اس پر عمل کیا جائے۔
[فتاویٰ رضویہ مترجم جلد 26 صفحہ 428، رسالہ،نطق الہلال بارخ ولاد الحبیب الوصال،ناشر مرکز اہل سنت برکات رضا امام احمد رضا روڈ پوربندر گجرات]
مذکورہ بالا دونوں حوالوں سے معلوم ہوا کہ بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانا اہل اسلام کا طریقہ رہا ہے اور اعلی حضرت علیہ الرحمہ واضح الفاظ میں فرما رہے ہیں کہ ہندوستان میں بھی اسی تاریخ یعنی بارہ(12)ربیع الاول کو منایا جاتا ہے آگے حکم بھی فرماتے ہیں کہ اِس تاریخ کو منایا جائے(یعنی بارہ(12)ربیع الاول کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منایا جائے۔
(5)دلیل پنجم:اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:اور روز ولادت شریف اگر آٹھ(8)ہو یا بفرض غلط نو(9)یا کوئی تاریخ ہو جب بھی بارہ(12)کو عید میلاد کرنے سے کونسی ممانعت ہے وہ وجہ(یعنی ماقبل میں سوال کہ اندر وجہ مذکور ہے کہ بارہ کو تو وفات ہے پھر عید میلاد کیسے منائیں؟ جو فرماتے ہیں:) کہ اُس شخص نے(جو وجہ) بیان کی خود جہالت ہے,اگر مشہور کا اعتبار کرتا ہے تو ولادت شریف اور وفات شریف دونوں کی تاریخ بارہ(12)ہے ہمیں شریعت نے نعمت الٰہی کا چرچا کرنے اور غم پر صبر کرنے کا حکم دیا لہٰذا اس تاریخ کو روز ماتمِ وفات نہ کیا روزِ سرورِ ولادت شریفہ کیا۔
[فتاویٰ رضویہ مترجم جلد 26 صفحہ 428 رسالہ،نطق الہلال بارخ ولاد الحبیب الوصال،ناشر مرکز اہل سنت برکات رضا امام احمد رضا روڈ پور بندر گجرات]
لہٰذا ثابت ہوا کہ اگرچہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی اپنی تحقیق کے مطابق تاریخ ولادت آٹھ ہے مگر چونکہ مشہور و معروف ومعتبر اور اہل اسلام کا عمل بارہ (12 ربیع الاول شریف )کو ہے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کا اس لیے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے بھی حکم دیا کیا کہ بارہ(12)ربیع الاول شریف کو ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد شریف منایا جائے اور اگر بارہ(12 ربیع الاول شریف ) تاریخ وفات کی بات لاکر کوئی وہابی ماتم کرنے کو کہے یا غم کرنے کو کہے تو وہ ماتم کریں یا غم کریں لیکن ہم سنی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بنا پر نعمت الٰہی کا چرچا کرکے خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔
دشمن احمد پہ شدت کیجئے۔
ملحدوں کی کیا مروت کیجئے۔
غیض میں جل جائے بے دینوں کے دل
یارسول اللہ کی کثرت کیجئے۔
طالب دعا :شبیر احمد راج محلی

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x