عید الفطر کی نماز کا طریقہ مع چند ضروری مسائل

*عیدُ الفِطر کی نماز کا طریقہ مع چند ضروری مسائل* یہ عید الفطر کی نماز کا طریقہ اور ساتھ ہی ساتھ عید الفطر کے ضروری مسائل پر بحث کرنے کی کوشش کی جائےگی

د الفطر کی نماز کا حکم اور اس کی رکعات کی تعداد

عید ین یعنی عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز واجب ہے اور اس کی دو رکعات ہیں۔ (رد المحتار)

عید کی نماز کی شرائط:*

خطبے کے علاوہ عید کی نماز کی شرائط تقریبًا وہی ہیں جو کہ جمعہ کی نماز کی ہیں، اس لیے:

1⃣ خواتین پر عید کی نماز واجب نہیں، اس لیے انھیں عید کی نماز کے لیے مسجد یا عید گاہ جانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (رد المحتار)

2️⃣ عید کی نماز صرف شہر اور ایسے بڑے گاؤں اور دیہات میں واجب ہوتی ہے جہاں جمعہ کی ادائیگی واجب ہو، یہی وجہ ہے کہ جہاں جمعہ کی نماز جائز نہ ہو تو وہاں عید کی نماز بھی جائز نہیں۔ (رد المحتار)

3⃣ عید کی نماز کے لیے جماعت شرط ہے، اس لیے تنہا عید کی نماز ادا کرنا درست نہیں، البتہ جس شخص سے عید کی جماعت چھوٹ جائے اور جماعت کے ساتھ عید کی نماز کی ادائیگی کی کوئی صورت نہ ہو تو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ گھر میں تنہا چار رکعات نفل نماز ادا کرلے۔ (البحر الرائق)

4️⃣ نمازِ جمعہ کی طرح نمازِ عید کی جماعت کے لیے بھی امام سمیت کم از کم چار عاقل بالغ مرد حضرات کا ہونا ضروری ہے، اس سے کم افراد کی شرکت سے نمازِ عید کی جماعت منعقد نہیں ہوتی۔

جہاں تک خطبے کا تعلق ہے تو خطبہ نمازِ جمعہ کے لیے فرض اور شرط ہے جو کہ نماز سے پہلے دیا جاتا ہے، جبکہ خطبہ عید کے لیے سنت ہے جو کہ عید کی نماز کے بعد دیا جاتا ہے۔ (رد المحتار)

📿عید الفطر کی نماز کا وقت

1⃣ سورج طلوع ہوجانے کے بعد جب اشراق کا وقت ہوجائے تو عید الفطر کی نماز کا وقت شروع ہوجاتا ہے، جو کہ زوال سے پہلے تک رہتا ہے، اس دوران کسی بھی وقت عید الفطر کی نماز ادا کی جاسکتی ہے، البتہ عید الفطر کی نماز میں ذرا تاخیر افضل ہے۔

2️⃣ عید الفطر کی نماز اگر شدید عذر کی وجہ سے عید کے پہلے دن زوال سے پہلے تک ادا نہیں کی گئی تو ایسی صورت

میں عید کے دوسرے دن اشراق کے وقت سے لے کر زوال سے پہلے تک عید الفطر کی نماز ادا کی جاسکتی ہے، اور اگر دوسرے دن بھی ادا نہ کی جاسکی تو پھر اس کے بعد ادا کرنا جائز نہیں۔ لیکن اگر کسی عذر کے بغیر عید کے پہلے دن نماز ادا نہ کی جاسکی تو ایسی صورت میں عید کے دوسرے دن ادا نہیں کی جاسکتی، ایسی صورت میں توبہ اور استغفار کا اہتمام کرنا چاہیے۔

☀ جیسا کہ فتاوی ٰہندیہ میں ہے:

وَوَقْتُ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ من حِينِ تَبْيَضُّ الشَّمْسُ إلَى أَنْ تَزُولَ، كَذَا في «السِّرَاجِيَّةِ» وَكَذَا في «التَّبْيِينِ»، وَالْأَفْضَلُ أَنْ يُعَجَّلَ الْأَضْحَى وَيُؤَخَّرَ الْفِطْرُ، كَذَا في «الْخُلَاصَةِ» … وَتُؤَخَّرُ صَلَاةُ عِيدِ الْفِطْرِ إلَى الْغَدِ إذَا مَنَعَهُمْ من إقَامَتِهَا عُذْرٌ بِأَنْ غُمَّ عليهم الْهِلَالُ وَشُهِدَ عِنْدَ الْإِمَامِ بَعْدَ الزَّوَالِ أو قَبْلَهُ بِحَيْثُ لَا يُمْكِنُ جَمْعُ الناس قبل الزَّوَالِ أو صَلَّاهَا في يَوْمِ غَيْمٍ فَظَهَرَ أنها وَقَعَتْ بَعْدَ الزَّوَالِ، وَلَا تُؤَخَّرُ إلَى بَعْدِ الْغَدِ، وَالْإِمَامُ لو صَلَّاهَا مع الْجَمَاعَةِ وَفَاتَتْ بَعْضَ الناس لَا يَقْضِيهَا من فَاتَتْهُ خَرَجَ الْوَقْتُ أو لم يَخْرُجْ، هَكَذَا في التَّبْيِينِ، وإذا حَدَثَ عُذْرٌ يَمْنَعُ من الصَّلَاةِ في يَوْمِ الْأَضْحَى صَلَّاهَا من الْغَدِ وَبَعْدَ الْغَدِ، وَلَا يُصَلِّيهَا بَعْدَ ذلك، كَذَا في الْجَوْهَرَةِ النَّيِّرَةِ، ثُمَّ الْعُذْرُ هَهُنَا لِنَفْيِ الْكَرَاهَةِ حتى لو أَخَّرُوهَا إلَى ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ من غَيْرِ عُذْرٍ جَازَتْ الصَّلَاةُ وقد أَسَاءُوا، وفي الْفِطْرِ لِلْجَوَازِ حتى لو أَخَّرُوهَا إلَى الْغَدِ من غَيْرِ عُذْرٍ لَا يَجُوزُ، هَكَذَا في التَّبْيِينِ، وَوَقْتُهَا من الْغَدِ كَوَقْتِهَا من الْيَوْمِ الْأَوَّلِ، كَذَا في التَّتَارْخَانِيَّة… (الْبَابُ السَّابِعَ عَشَرَ في صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ)

📿 *عید کی نماز کے لیے اذان واقامت کا حکم:*

عید کی نماز اذان اور اقامت کے بغیر پڑھی جاتی ہے، کیوں کہ صرف پنج وقتہ باجماعت نمازوں اور جمعہ کی نماز کے لیے اذان اور اقامت سنتِ مؤکدہ ہے، ان کے علاوہ سنتوں، نوافل، وتر، تراویح، عیدین، نمازِ جنازہ،

نمازِ استسقا، چاند گرہن اور سورج گرہن کی نماز اور اسی طرح کسی بھی نماز کے لیے اذان واقامت کا حکم نہیں۔

☀️ جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

الْأَذَانُ سُنَّةٌ لِأَدَاءِ الْمَكْتُوبَاتِ بِالْجَمَاعَةِ، كَذَا في «فَتَاوَى قَاضِي خَانْ»، وَقِيلَ: إنَّهُ وَاجِبٌ، وَالصَّحِيحُ أَنَّهُ سُنَّةٌ مُؤَكَّدَةٌ، كَذَا في «الْكَافِي»، وَعَلَيْهِ عَامَّةُ الْمَشَايِخِ، هَكَذَا في «الْمُحِيطِ»، وَالْإِقَامَةُ مِثْلُ الْأَذَانِ في كَوْنِهِ سُنَّةً لِلْفَرَائِضِ فَقَطْ، كَذَا في «الْبَحْرِ الرَّائِقِ»، وَلَيْسَ لِغَيْرِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ وَالْجُمُعَةِ نَحْوِ السُّنَنِ وَالْوِتْرِ وَالتَّطَوُّعَاتِ وَالتَّرَاوِيحِ وَالْعِيدَيْنِ أَذَانٌ وَلَا إقَامَةٌ، كَذَا في «الْمُحِيطِ»، وَكَذَا لِلْمَنْذُورَةِ وَصَلَاةِ الْجِنَازَةِ وَالِاسْتِسْقَاءِ وَالضُّحَى وَالْإِفْزَاعِ، هَكَذَا في «التَّبْيِينِ»، وَكَذَا لِصَلَاةِ الْكُسُوفِ وَالْخُسُوفِ، كَذَا في «الْعَيْنِيِّ شَرْحِ الْكَنْزِ».

📿 *عید کی نماز میں قیام کا حکم:*

عید کی نماز میں قیام فرض ہے کہ کسی مجبوری کے بغیر بیٹھ کر عید کی نماز ادا کرنا جائز نہیں۔

(رد المحتار، عمدۃ الفقہ وغیرہ)

عید کی نماز میں ثنا، اعوذ باللہ اور بسم اللّٰہ پڑھنے کا حکم

عید کی نماز کی پہلی رکعت کے شروع میں ثنا، تعوُّذ اور بسم اللہ پڑھنا سنت ہے، جبکہ دوسری رکعت میں سورتِ فاتحہ سے پہلے صرف بسم اللہ پڑھنا سنت ہے، البتہ مقتدی کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ پہلی رکعت میں قرأت شروع ہونے سے پہلے صرف ثنا پڑھے گا، جبکہ دوسری رکعت کے شروع میں کچھ بھی نہیں پڑھے گا۔

(رد المحتار)

سورتِ فاتحہ کے بعد سورت ملانے کا حکم:*

نمازِ عید کی دونوں رکعتوں میں فاتحہ کے بعد سورت ملانا واجب ہے۔ (رد المحتار کتاب الصلاۃ)

سورتِ فاتحہ کے بعد سورت ملانے کی تفصیل:*

سورتِ فاتحہ کے بعد سورت ملانے کی تفصیل یہ ہے کہ یا تو کوئی بھی سورت ملا لی جائے، یا کم از کم تین چھوٹی آیتیں، یا ایک یا دو ایسی آیات جو تیس حروف کے برابر ہوں وہ مِلا لی جائیں۔ یہ تو کم از کم مقدار ہے، جس سے نماز درست ہوسکے گی۔ (رد المحتار)

عید کی نماز کی مستحب قرأت:*

عید کی نماز کی پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ جبکہ دوسری رکعت میں سورۃ الغاشیہ پڑھنا مستحب ہے کیوں کہ حضور اقدس ﷺ سے عیدین کی نماز میں ان سورتوں کی قرأت ثابت ہے، جیسا کہ مسند احمد میں ہے:

20080- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ وَحَجَّاجٌ قَالَ: حَدَّثَنِي شُعْبَةُ قَالَ:سَمِعْتُ مَعْبَدَ

بْنَ خَالِدٍ يُحَدِّثُ عَنْ زَيْدِ بْنِ عُقْبَةَ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ يَقْرَأُ فِي الْعِيدَيْنِ بِـ«سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى» وَ«هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ».

البتہ یہ واضح رہے کہ کبھی کبھار ان کے علاوہ دیگر سورتیں بھی پڑھنی چاہییں تاکہ لوگ ان سورتوں کو عیدین کے لیے لازم نہ سمجھ لیں۔

❄️ *مسئلہ:*

عید کی نماز میں امام کے لیے بلند آواز سے قرأت کرنا واجب ہے۔ (رد المحتار)

عید الفطر کی نماز کا طریقہ

عید الفطر کی نماز بھی بنیادی طور پر عام دو رکعات نماز ہی کی طرح ہے، کہ عام نماز کی طرح عید کی نماز میں بھی فرائض، واجبات اور سنتوں کی رعایت کی جائے گی۔ البتہ عید کی نماز میں صرف چھ زائد واجب تکبیرات ہیں، جن میں سے تین تکبیرات پہلی رکعت میں ثنا یعنی سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالٰى جَدُّكَ وَلَا إلٰهَ غَيْرُكَ کے بعد کہی جاتی ہیں جبکہ باقی تین تکبیرات دوسری رکعت میں

رکوع میں جانے سے پہلے کہی جاتی ہیں۔

عید الفطر کی نماز کے لیے نیت:*

عید الفطر کی نماز شروع کرنے سے پہلے نیت کرے کہ میں چھ زائد تکبیروں کے ساتھ عید کی دو رکعت واجب نماز ادا کرتا ہوں۔ البتہ مقتدی امام کی اقتدا کی بھی نیت کرے کہ امام کے پیچھے نماز ادا کرتا ہوں۔ نیت درحقیقت دل کے ارادے اور عزم کا نام ہے، اس لیے دل میں نیت کرلینا کافی ہے، زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا ضروری نہیں البتہ اگر کوئی زبان سے بھی نیت کے الفاظ ادا کرلے تب بھی درست ہے۔

نیت کرنے کے بعد سنت کے مطابق کانوں تک ہاتھ اٹھا کر تکبیرِ تحریمہ کہے اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھ لے۔ اس کے بعد امام اور مقتدی دونوں ثنا پڑھیں۔ ثنا کے بعد تین زائد تكبيریں کہی جائیں گی۔

عید کی تین زائد تکبیرات ادا کرنے کا طریقہ

عید کی تین زائد تکبیرات ادا کرتے وقت پہلی اور دوسری تکبیر کے لیے کانوں تک ہاتھ اٹھا کر چھوڑ دیے جائیں گے، البتہ تيسری تکبیر کہنے کے بعد ہاتھ باندھ لیے جائیں گے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ:

▪ کانوں تک ہاتھ اٹھا کر پہلی تکبیر کہے اور ہاتھ چھوڑ دے۔

▪ پھر کانوں تک ہاتھ اٹھا کر دوسری تکبیر کہے اور ہاتھ چھوڑ دے۔

▪ پھر کانوں تک ہاتھ اٹھا کر تیسری تکبیر کہے اور اس کے بعد ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے۔

❄️ *مسئلہ:*

تین زائد تکبیریں ادا کرتے وقت ان کے مابین تین تسبیحات کے بقدر وقفہ کرنا بہتر ہے، لیکن اگر اس سے کم وقفہ کیا جائے تب بھی کوئی حرج نہیں۔ (البحر الرائق، بدائع الصنائع، رد المحتار مع الدر المختار)

اس كے بعد امام اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھ کر عام نمازوں کی طرح سورتِ فاتحہ اور اس کے بعد کوئی سورت پڑھ کر رکوع اور پھر دو سجدے کرکے پہلی رکعت مکمل کرلے۔

دوسری رکعت ادا کرنے کا طریقہ:*

دوسری رکعت کے لیے اٹھنے کے بعد امام بسم اللہ، پھر سورتِ فاتحہ پھر کوئی سورت پڑھے گا، اس کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے تین زائد تكبيریں ادا کی جائیں گی، جس کا طریقہ پہلی رکعت کی طرح ہے کہ ہر تکبیر کے لیے کانوں تک ہاتھ اٹھائے جائیں گے اور ہر تکبیر کے بعد ہاتھ باندھنے کی بجائے چھوڑ دیے جائیں گے، تيسری تکبیر کہنے کے بعد رکوع کی تکبیر کہہ کر رکوع میں چلے جائیں گے۔ پھر اس کے بعد بقیہ نماز پوری کر لینی ہے۔

قتدی اگر تکبیرات ادا ہوجانے کے بعد نماز کے لیے پہنچے تو اس کا حکم:*

مقتدی اگر عید کی نماز کے لیے تکبیرات ادا ہوجانے کے بعد پہنچے تو اس کی متعدد صورتیں ہیں، ہر ایک کا حکم درج ذیل ہے:

1⃣ اگر کوئی شخص عید کی نماز کے لیے ایسے وقت میں پہنچا کہ امام عید کی تکبیرات کہہ کر قرأت شروع کر چکا تھا، تو اس صورت میں تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھنے کے بعد فورًا تین تکبیرات کہہ لے، اس کے بعد امام کی قرأت خاموشی سے سنے۔

2️⃣ اگر کوئی شخص پہلی رکعت میں اس وقت پہنچا کہ امام رکوع میں جا چکا تھا، تو اگر اس کو یہ غالب گمان ہو کہ میں قیام یعنی کھڑے ہونے کی حالت میں ہی تین تکبیرات کہہ کر امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہوجاؤں گا، تو نیت باندھنے کے بعد قیام کی حالت میں تین تکبیرات کہہ کر رکوع میں شامل ہوجائے۔ اور اگر یہ اندیشہ ہو کہ اگر میں قیام کی حالت میں تین تکبیرات کہنے لگ گیا تو امام رکوع سے اٹھ جائے گا، تو ایسی صورت میں نیت باندھنے کے بعد سیدھا رکوع میں چلا جائے اور رکوع ہی میں ہاتھ اٹھائے بغیر تینوں تکبیرات کہہ لے اور رکوع کی تسبیحات بھی پڑھے، البتہ اگر تسبیحات پڑھنے کا وقت نہ ہو تو صرف عید کی تکبیرات ہی کہہ لے۔

اگر رکوع میں تین تکبیرات کہنے سے پہلے ہی امام رکوع سے اٹھ جائے تو یہ مقتدی بھی کھڑا ہوجائے، اور جو تکبیرات رہ گئی ہیں وہ معاف ہیں۔ (فتاویٰ عالمگیریہ، فتح القدیر، رد المحتار)

3⃣ اگر کوئی شخص ایسے وقت میں نماز میں شریک ہوا کہ امام پہلی رکعت کے رکوع سے اٹھ چکا تھا، یا دوسری رکعت شروع کرچکا تھا، تو اب چوں کہ پہلی رکعت نکل چکی ہے اس لیے تکبیرات کہنے کا وقت نہیں رہا بلکہ ایسی صورت میں یہ شخص امام کے ساتھ نماز میں شامل ہوجائے، پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد جب اپنی بقیہ نماز پوری کرے گا تو اس میں یہ تکبیرات کہے گا۔

❄️ *مسئلہ:* امام کے سلام کے بعد یہ پہلی رکعت ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلےثنا پڑھے، پھر اعوذ باللہ، پھر بسم اللہ، پھر سورة الفاتحہ، اور پھر کوئی سورت ملائے اور پھر رکوع میں جانے سے پہلے عید کی تین زائد تکبیرات کہہ لے، جس کا طریقہ وہی ہے جو دوسری رکعت میں رکوع سے قبل تکبیرات ادا کرنے کا ہے۔ لیکن اگر عید کی یہ زائد تکبیرات ثنا کے بعد قرأت سے پہلے ہی کہہ لے تب بھی درست ہے۔

4️⃣ اگر کوئی شخص دوسری رکعت میں ایسے وقت میں پہنچا جب امام عید کی تکبیرات کہہ کر رکوع میں جا چکا تھا، تو اس صورت میں بھی پہلی رکعت کی طرح عمل کرے کہ اگر اس کو یہ غالب گمان ہو کہ میں قیام یعنی کھڑے ہونے کی حالت میں ہی تین تکبیرات کہہ کر امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہوجاؤں گا، تو نیت باندھنے کے بعد قیام کی حالت میں تین تکبیرات کہہ کر رکوع میں شامل ہوجائے۔ اور اگر یہ اندیشہ ہو کہ اگر قیام کی حالت میں تین تکبیرات کہنے لگ گیا تو امام رکوع سے اٹھ جائے گا، تو ایسی صورت میں نیت باندھنے کے بعد سیدھا رکوع میں چلا جائے اور ہاتھ اٹھائے بغیر تینوں تکبیرات کہہ لے اور رکوع کی تسبیحات بھی پڑھے، البتہ اگر تسبیحات پڑھنے کا وقت نہ ہو تو صرف عید کی تکبیرات ہی کہہ لے۔

اور اگر رکوع میں تین تکبیرات کہنے سے پہلے ہی امام رکوع سے اٹھ جائے تو یہ مقتدی بھی کھڑا ہوجائے، اور جو تکبیرات رہ گئی ہیں وہ معاف ہے۔ اس صورت میں امام کے سلام کے بعد جب اپنی بقیہ نماز پوری کرے گا تو اس کا طریقہ وہی ہے جو ماقبل میں بیان ہوچکا۔

5️⃣ اگر کوئی شخص عید کی نماز میں ایسے وقت میں پہنچا کہ امام دوسری رکعت کے رکوع سے اٹھ چکا تھا یعنی اس سے عید کی دونوں رکعتیں نکل چکی تھیں، تو وہ امام کے ساتھ شریک ہوجائے اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد عید کی یہ دونوں رکعتیں ادا کرے، جس کو ادا کرنے کا طریقہ وہی ہے جو عید کی نماز کا ہے، یعنی پہلی رکعت میں ثناء کے بعد تین تکبیرات کہے گا، پھر اس کے بعد قرأت کرلے، اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد اور رکوع سے پہلے تین تکبیرات کہے گا۔

6️⃣ اگر کوئی شخص ایسے وقت میں نماز کے لیے پہنچا کہ امام آخری قعدے میں تھا تو مقتدی کو چاہیے کہ نیت باندھ کر جماعت میں شامل ہوجائے اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی دو رکعتیں ادا کرے، جس کا طریقہ وہی ہے جو عید کی نماز کا ہے جیسا کہ ماقبل میں بیان ہوچکا۔ (رد المحتار، فتاویٰ عالمگیری ودیگر کتب فقہ)

عید کی نماز میں سجدہ سہو کا حکم

جن غلطیوں کی وجہ سے عام نمازوں میں سجدہ سہو واجب ہوتا ہے انھی کی وجہ سے عید کی نماز میں بھی سجدہ سہو واجب ہوجاتا ہے، البتہ اگر مجمع زیادہ ہونے کی وجہ سے سجدہ سہو کرنے سے لوگوں کی نماز خراب ہونے یا انتشار پیدا کرنے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں سجدہ سہو معاف ہے۔ یہی حکم ہر اس نماز کا بھی ہے جس میں مجمع زیادہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ صورتحال پیش آنے کا اندیشہ ہو۔ (فتاویٰ ہندیہ)

عید کی نماز کے لیے خطبے کا حکم

عید کی نماز کے لیے خطبہ دینا سنت ہے جو کہ عید کی نماز کے بعد دیا جائے گا۔ (رد المحتار)

📿 *سکون واطمینان سے خطبہ سننے اور اس دوران خاموش رہنے کا حکم:*

جب عید کا خطبہ دیا جارہا ہو تو وہاں موجود حضرات کے لیے اس وقت خاموش رہنا اور اس کو سننا واجب ہے، اس دوران بات چیت کرنا، ذکر وتلاوت کرنا یا اس طرح کسی اور دینی یا دنیوی کام میں مشغول ہونا ناجائز ہے، خطبہ چاہے جمعہ کا ہو، عید کا ہو، حج کا ہو، نکاح کا ہو یا کوئی اور خطبہ ہو؛ سب کا یہی حکم ہے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عید یا جمعے کے خطبے کے دوران چندہ جمع کرنا اور چندہ دینا دونوں گناہ ہیں۔

☀ البحر الرائق:

وفي «الْمُجْتَبَى»: الِاسْتِمَاعُ إلَى خُطْبَةِ النِّكَاحِ وَالْخَتْمِ وَسَائِرِ الْخُطَبِ وَاجِبٌ، وَالْأَصَحُّ الِاسْتِمَاعُ إلَى الْخُطْبَةِ من أَوَّلِهَا إلَى آخِرِهَا وَإِنْ كان فيها ذِكْرُ الْوُلَاةِ. ا هـ

☀ حاشية الطحطاوي على المراقي:

وفي «الخلاصة»: كل ما حرم في الصلاة حرم حال الخطبة ولو أمرا بمعروف. وفي «السيد»: استماع الخطبة من أولها إلى آخرها واجب وإن كان فيها ذكر الولاة، وهو الأصح، «نهر». وكذا استماع سائر الخطب كخطبة النكاح والختم.

📿 *عید الفطر کی نماز کے بعد دعا کا شرعی حکم:*

عید الفطر کی نماز کے بعد بھی دعا کرنا جائز بلکہ مستحب ہے، اس کو بھی شرعی حدود میں رکھنا چاہیے، اس کو ضروری سمجھنا اور دعا نہ کرنے والے کو ملامت کرنا ہرگز درست نہیں، البتہ عیدین میں دعا کرتے وقت یہ واضح رہے کہ بہتر اور مناسب یہ ہے کہ خطبے کی بجائے عید کی نماز کے بعد دعا کی جائے، اسی پر حضرات اکابر کا معمول چلا آرہا ہے۔ (امداد الفتاویٰ، امداد المفتین، امداد الاحکام، فتاویٰ دار العلوم دیوبند، فتاوی محمودیہ)

عید کی نماز سے پہلے اور ان کے بعد نفل ادا کرنے کا حکم

عید کے دن عید کی نماز سے پہلے کوئی بھی نفل نماز (چاہے اشراق ہو، چاشت ہو یا عام نفل نماز) ادا کرنا جائز نہیں، چاہے گھر میں ہو، مسجد میں ہو یا عیدگاہ میں، البتہ عید کی نماز ادا کرلینے کے بعد مسجد یا عیدگاہ میں تو نفل نماز ادا کرنا جائز نہیں، لیکن گھر آکر ادا کرنا جائز ہے چاہے اشراق ہو، چاشت ہو یا عام نفل نماز۔

(رد المحتار، عمدۃ الفقہ)

عید کی نماز سے پہلے اور عید کی نماز کے بعد قضا نماز ادا کرنے کا حکم

عید کی نماز سے پہلے اور عید کی نماز کے بعد قضا نماز ادا کرنا جائز ہے، چاہے گھر میں ادا کرے، مسجد میں ادا کرے یا عیدگاہ میں ادا کرے، البتہ بہتر یہ ہے کہ عید کی نماز سے پہلے اور عید کی نماز کے بعد مسجد اور عید گاہ میں قضا نماز ادا نہ کرے تاکہ غلط فہمی پیدا نہ ہو۔ (فتاوی ہندیہ)

✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x