ڈاکٹر اقبال سب سے پہلے ڈاکٹر علامہ اقبال کی شاعری بیان کردی جائے تاکہ علامہ اقبال کی شاعری کی حیثیت بالکل اجاگر ہوجائے ناصر سنیت مناظر اہل سنت مفتی ابوالطاہر طیب صدیقی قادری برکاتی داناپوری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: ’’ڈاکٹر اقبا ل صاحب نے اپنی فارسی اور اردو نظموں میں دہریت اور الحاد کا زبردست پروپیگنڈہ کیا ہے۔ کہیں اللہ عز وجل پر اعتراضات کی بھرمار ہے کہیں علمائے شریعت و ائمۂ طریقت پر حملوں کی بوچھار ہے ۔ کہیں سیدنا جبریل امین و سیدنا موسی کلیم اللہ و سیدنا عیسی مسیح اللہ علیہم الصلاۃ والسلام کی تنقیصوں توہینوں کا انبار ہے۔ کہیں شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا وآلہ الصلاۃ والتحیہ واحکام مذہبیہ و عقائد اسلامیہ پر تمسخر و استہزا اور انکار ہے کہیں اپنی زندیقیت و بے دینی کا فخرو مباہات کے ساتھ کھلا ہوا اقرار ہے۔ ‘‘(تجانب اہل السنۃ عن اہل الفتنۃ ص:۴۷۵)
علامہ اقبال کی شاعری
ڈاکٹر اقبال کے کچھ اشعار اب ڈاکٹر اقبال کے کچھ ان اشعارکی مثالیں بھی ذکر کردی جائیں کہ جن سے کفر و الہاد کا اظہار ہوتا ہے:
(۱) تیرے شیشے میں مئے باقی نہیں ہے! بتا کیا تو مرا ساقی نہیں ہے!! سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم! بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے! (بال جبریل ص:۶)
غور کیجئے !ان اشعار میں ڈاکٹر صاحب نے رب العزت جواد کریم ذوالفضل العظیم جلَّ جلالہ کو بخیل بتایا اس کے رازق نہ ہونے کا گیت گایاہے۔
(۲) اسے صبح ازل انکار کی جرأت ہوئی کیوں کر! مجھے معلوم کیا وہ راز داں تیرا ہے یا میرا (بال جبریل ص:۷)
اس شعر میں ڈاکٹر صاحب نے رب تبارک وتعالیٰ سے مخاطب ہوکر یہ کہا ہے کہ ابلیس کو تیرے حکم پر عمل کرنے سے انکار کی جرأت کیوں کر ہوئی یہ مجھے کیا معلوم! آخر وہ تیرا ہی تو راز دار ہے، میرا راز دار تو ہے نہیں میں کیا جانوں کہ ابلیس کو تیرا کون سا ایسا راز معلوم ہوگیا جس کی وجہ سے وہ تیرا حکم بجا لانے سے انکار کی جرأت کر بیٹھا۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ انداز گفتگو ایسا ہی ہے جیسے کسی کے خفیہ عیب در پردہ بیان کئے جاتے ہیں۔معاذ اللہ رب العالمین
(۳) حاضر ہیں کلیسا میں کباب و مئے گلگوں مسجد میں دھرا کیا ہے بجز موعظ وپند احکام تیرے حق ہیں مگر اپنے مفسر تاویل سے بنا سکتے ہیں قرآن کو پازند فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا افرنگ کا ہر قریہ فردوس کی مانند کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق نے ابلہِ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند! چپ رہ نہ سکا حضرت یزداں میں بھی اقبالؔ کرتا کوئی اس بندۂ گستاخ کا منہ بند ان اشعار میں ڈاکٹر اقبال نے رب تبارک و تعالیٰ کی جناب میں گستاخی کرتے ہوئے کھری کھوٹی سنانے کی کوشش کی ہے۔ کہتے ہیں کہ گرجا گھر میں تو شراب و کباب حاضر ہیں ۔ مسجد میں وعظ و نصیحت کے علاوہ کیا رکھا ہے؟
اے اللہ! تیرے احکام تو حق ہیںلیکن ہمارے مفسرین نے قرآن عظیم کی تاویلیں کر کر کے اس کو پاژند یعنی پارسیوں کی مذہبی تفسیر بتا دیا ہے۔ تیرے فردوس کو تو کسی نے دیکھا ہی نہیں لیکن یوروپ کا ہر ایک گاؤں فردوس ہی کی مانند ہے میں وہی بات کہتا ہوں جسے حق سمجھتا ہوں۔ نہ تومیں مسجد کا بے وقوف ملاَّ ہوں۔ نہ تہذیب کا فرزند ہوں۔ یہ وہ اعتراضات ہیں جو ڈاکٹر صاحب نے حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ کی بارگاہ بے نیاز پر جڑے ہیں۔ یہ استہزاءات و تمسخرات ہیں جو اقبال صاحب نے اللہ رب العزت جل جلالہ سے کئے ہیں۔ مقطع میں اس امر کا کھلم کھلا اقرار بھی کرلیا کہ شاعر مشرق صاحب اللہ عز وجل کی جناب میں گستاخیاں ضرور کرتے ہیں ۔ نوٹ: مفتی محمد اعظم صاحب مفتی رضوی دارالافتابریلی شریف فرماتے ہیںکہ حضور مفتی اعظم ہند مصطفی رضا خاں بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان نے فرمایا: بے شک اس (اقبال) سے اس کی جہالت کی بنا پر کفر تک پہونچانے والی غلطیاں ہوئی ہیںمگر آخری وقت میں مرنے سے پہلے اس کی توبہ مشہور ہے۔انتہی کلامہ توبہ کے مشہور ہونے کی وجہ سے قائل پر حکم کفر تو نہیں لگایا جائے گا لیکن اس کے کفریہ کلمات ہمیشہ کفریہ ہی رہیں گے اگرچہ توبہ حقیقۃ ہی کیوں نہ کر لی ہو۔ لہذا ان کفریہ کلمات سے اگر کوئی استدلال کرے تو وہ بھی مجرم قرار پائے گا۔
محمد راحت خان قادری غفرلہ القوی خادم تدریس و افتا دار العلوم فیضان تاج الشریعہ بریلی شریف