آج کے دور میں جدید اوزان سےصدقہ فطر کی مقدار کی صحیح تحقیق کیا ہے بحوالہ تحقیق کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں کیوں کہ لوگوں کو صدقہ فطر کی فضیلت تو معلوم ہے لیکن مقدار کیا ہوگی وہ بھی جدید اوزان کے حساب سے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے
صدقہ فطر کی مقدار کی تحقیق
فطرہ…یہ لفظ فطر یا افطار سے یا فطرۃ سے ماخوذ ہے اس کے وجوب کا سبب یوم فطر کی صبح صادق ہے اس لئے اس کو صدقہ فطر کہا جاتا یے.صدقہ فطر روزوں کے اتمام کا شکرانہ ہے اور روزرں میں بتقاضائے بشریت جو کوتاہی ہوگئی ہو اس کا کفارہ ہے ۔صدقہ فطر ہر ایسے آزاد مسلمان پر واجب ہے جو مالک نصاب ہو اور یہ نصاب دین اور حوائج اصلیہ سے فارغ ہو ۔جس پر صدقہ فطر واجب ہے اس پر اپنی طرف سے دینا واجب ہے اور اپنی ان نابالغ اور مجنون اولاد کی طرف سے بھی جو خود مالک نصاب نہ ہوں ۔اور اگر نابالغ یا مجنون مالک نصاب ہیں تو ان کا ولی ان کے مال سے ادا کرے ۔اس کے مصارف بھی وہی ہیں جو زکواۃ کے ہیں ۔اس کی ادائیگی کے لیے بھی تملیک فقیر شرط ہے ۔جو مالک نصاب نہ ہو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں لیکن اگر ادا کردے تو ثواب کا بہر حال مستحق ہے (نزہۃالقادی جلد چار ص 255)
صدقہ فطر ادا کرنا کیا ہے
صدقہ فطر عید کے پہلے ادا کردینا درست ہے اور اسی پر قیاس کرکے یہ بھی درست ہے کہ بعد میں ادا کیا جائے باپ پر اپنی بالغ اولاد کی طرف سے صدقہ فطر دینا واجب نہیں۔اور نہ پوتے اور پوتیوں کی طرف سے واجب ہے لیکن اگر کوئی دے تو ادا ہو جائے گا
(2)امام شافعی کے نزدیک صدقہ فطر فرض ہے.
امام اعظم کے نزدیک واجب ہے
امام مالک کے نزدیک سنت موکدہ ہے
(3) صدقہ فطرہ ہمارے احناف کے یہاں فرض کیوں نہیں ہے.؟ *
صدقہ فطر ہمارے یہاں فرض کیوں نہیں
الجواب ۔اگرچہ حدیث شریف میں صدقہ فطر کے لئے فرض کا لفظ آیا ہے مگر …فرضیت کے ثبوت کے لئے دلیل قطعی کی ضرورت ہے اور صدقہ فطرہ کا ثبوت خبر واحد سے ہے اس کے فرض ہونےکے ثبوت کے لئے کوئی دلیل قطعی نہیں ہے.اسی لئے صدقہ فطر واجب ہے اور ترک واجب مکروہ تحریمی ہے جو گناہ صغائر ہے ہاں اگر بار بار ترک کیا تو گناہ کبائر ہوجانے گا
سوال ۔خبر واحد کی تعریف کیا ہے ؟
الجواب ۔خبر واحد اس حدیث کو کہا گیا ہے جس کو ایک یا دو یا تین راویوں نے روایت کیا ہو حدیث خبر واحد علماء حدیث کے نزدیک ایک مخصوص معنی میں استعمال ہوتا ہے اور وہ معنی یہ ہے ۔خبر الواحد ھوالذی یرویہ الواحد او الاثنان فصاعدا بعد ان یکون دون المشہور والمتواتر یعنی خبر واحد اس حدیث کو کہا جاتا ہے جسے ایک راوی نے یا دو راویوں نے یا دو سے زائد راویوں نے روایت کیا ہو ۔لیکن ان کی تعداد حدیث مشہور و متواتر کے راویوں سے کم ہو ۔خیال رہے کہ خبر واحد حجت ہے کیونکہ اکثر احادیث نبوی صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جو ہم تک پہنچتی ہیں وہ اخبار آحاد ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ خبر واحد کسی خبر مشہور کے مخالف نہ ہو ۔اگر کوئی ایسی خبر واحد ہوئی جو خبر مشہور کے مخالف ہو اور ان میں تطبیق کا امکان بھی نہ ہو تو اسے چھوڑ دیں گے
سوال ۔کیا خبر واحد سے وجوب کا ثبوت ہوتا ہے؟
الجواب ۔حدیث خبر واحد سے حرام قطعی کا ثبوت نہ ہوگا لیکن واجب کا ثبوت حاصل ہوتا ہے اور اس کا ترک مکروہ تحریمی ہے حضور فقیہ الہند شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔احناف کے نزدیک فرضیت خبر واحد سے ثابت نہ ہوگی اس کے لیے دلیل قطعی کی حاجت ہے اور خبر واحد ظنی الثبوت ہے اس سے اگر ثابت ہوتا ہے تو وجوب ثابت ہوگا (نزہۃالقاری جلد 3 ص 216) احکام میں خبر واحد حجت ہے یہ صدقہ فطر کی مقدار کی تحقیق اب اس کے بعد سمجھیں گے
اس سے معلوم ہوا کہ خبر واحد سے وجوب ثابت ہوگا اور ہمارے یہاں صدقہ فطر واجب ہے کیونکہ صدقہ فطر والی حدیث خبر واحد ہے اس لئے صدقہ فطر ہمارے یہاں فرض نہیں ہے
سوال ۔ظنی الثبوت سے خبر واحد کا ثبوت ہوتا ہے تو ظنی الثبوت کسے کہتے ہیں؟
الجواب ۔دلیل قطعی وہ ہے جس کا ثبوت قرآن پاک یا حدیث متواترہ سے ہو اور دلیل ظنی وہ ہے جس کا ثبوت قرآن پاک یا حدیث متواترہ سے نہ ہو بلکہ حدیث آحاد یا محض اقوال ائمہ سے ہو
(4)صدقہ فطر کس چیز سے نکالی جائے….بخاری شریف حدیث نمبر 2180,مسلم شریف حدیث نمبر 2179 ,صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر 2417 سے معلوم ہوتا ہے کے مندرجہ ذیل اشیاء سے صدقہ فطر نکالی جائے.
فطرہ نکالنے والی اشیاء
- صدقہ فطر میں دی جانے والی اشیا
- (1) کھجور…….ایک صاع (4 کلو 94 گرام 64 ملی گرام)
- (2) جو………….ایک صاع (4 کلو 94 گرام 64 ملی گرام)
- (3) منقی……….ایک صاع(4 کلو 94 گرام 64 ملی گرام
- (4) پنیر…………ایک صاع(4 کلو 94 گرام 64 ملی گرام)
- (5) کشمش…….ایک صاع(4 کلو 94 گرام 64 ملی گرام
- (6) گیہوں……نصف صاع(2 کلو 47 گرام 32 ملی گرام)
حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ گیہوں ۔جو ۔کھجور اور منقی کے علاؤہ اگر کسی دوسری چیز سے فطرہ ادا کرنا چاہیں مثلا چاول ۔باجرہ ۔اور کوئی غلہ تو آدھے صاع گیہوں یا ایک صاع جو کی قیمت کا۔ لحاظ کرنا ہوگا ۔(انوار شریعت ص 259)
ان تمام اشیاء اتنی وزنوں میں یا اتنی وزنوں کی قیمت
(5)باقی اشیاء ایک صاع اور گیہوں نصف صاع کیوں؟
صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر2406.. حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ
لَم تَکُنِ الصَّدَقَۃُ عَلَی عَھدِ رَسُولِ اللہ صَلّی اللہُ عَلَیہِ وَ سَلَّمَ اِلَّا التَّمرُوَالزَّبیبُ وَالشَّعِیرُ,ولم تَکُنِ الحِنطَۃُ یعنی حضور علیہ السلام کے زمانے میں صدقہ فطرہ صرف کھجور ,منقی اور جو سے نکالا جاتا تھا آپ کے زمانے میں گندم نہیں تھی
اس سے معلوم ہوا کے اس وقت گیہوں نیہں تھا.لیکن امام ابوداود سند صحیح کے ساتھ سنن ابوداود شریف جلد اول صفہ 228,229 میں جو حدیث نقل کیا حضرت عبداللہ بن عبی صعیر بیان کرتے ہے کے حضور علیہ السلام نے فرمایا کے ایک صاع گندم دو آدمیوں کی طرف سے دیا جائے اس سے پتا چلا کے نصف صاع گیہوں خود حضور علیہ السلام سے ثابت ہے.لیکن ابن خزیمہ والی حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں گیہوں نہ تھا ہوسکتا ہے کہ گیہوں اس عہد میں اس مبارک شہر میں بہت نایاب تھا اسی لئے گیہوں سے صدقہ فطر نہیں نکالا جاتا یا گیہوں بالکل نہیں تھا
بحوالہ صحیح ابن خزیمہ باب نمبر 392 حدیث نمبر 2408 سے معلوم ہوتا ہے کے امیر معاویہرضی اللہ عنہ نے شامی گندم کے دو مُدّ کو ایک صاع کھجور کے برابر سمجھا
ہمارے علمائے احناف کے یہاں گیہوں سے صدقہ فطر مقدار نصف صاع ہے اور خلفائے اربعہ اور ان کے علاوہ اجلہ صحابہ کرام کا بھی یہی مزہب ہے.
(6) صاع سے کیا مراد ہے
فیزوزالغات میں ہے کہ 234 تولہ کا ایک وزن ہے.ہمارے علماء کے یہاں صاع عراقی 270 تولہ اور روپیہ سے 288 روپیہ بھر ہے اورفتوی امجدیہ جلد اول صفہ* 384 پر ہے صاع کی مقدار*1040 درہم ہے
خیال رہے صاع کوئی وزن نہیں ہے بلکہ ایک پیمانہ ہے اور ہر پیمانہ کسی چیز کو تول کر بنتا ہے.کس چیز کو تولا جائے اس میں اختلاف ہے
(7)صاع کس اناج کا تھا؟
(الف) امام ابو شجا ثلجی نے فرمایا صدقہ فطر کے لئے جو صاع بنائیں وہ ماش یا مسور تول کر بنائے
(ب) امام صدرالشریعہ نے شرح وقایہ میں فرمایا احوط یہ ہے کہ ہھر عمدہ کھرے گیہوں تول کر بنایا جائے
(ت) علامہ ابن عابدین شامی نے ردالمحتار میں ‘جو’ تول کر صاع بنانے کو احوط بتایا اور اپنے اس احوط والے قول پر سید محمد امین میرغنی کے حاشیہ زیلعی سے دلیل نقل فرمائی کہ فرماتے ہے کے حرم مکہ میں ہمارے مشائخ اور ان سے پہلے ان کے مشائخ اس پر ہے کے آٹھ رطل ‘جَو ‘ تول کر صاع بنایا جائے یہ اکابر اسی پر فتوی دیتے تھے یہ ادا کے لئے تقینی طور پر واجب کی ادائیگی سے بری الزمہ ہونے میں احتیاط کی جائے.اس لئے امام سرخسی نے مسبوط میں فرمایا اِن الاحتیاط فی باب العبادات واجب یعنی عبادات میں احتیاط واجب ہے.
(ث) ہمارے سرکار امام اہل سنت مجدد اعظم سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علامہ شامی کے زیادہ احتیاط والے حساب کی تائید وہ تحسین کرتے ہوئے فرمایا کے
صاع لیا جائے جَو کا اس کے وزن کے گیہوں دیئے جائے
صدقہ فطر کی صحیح مقدار
(7)صدقہ فطر کی صحیح مقدار کیا ہے؟
الجواب(1) صدقہ فطر کی صحیح مقدار اور غایت احتیاط اور اعلی درجہ تحقیق پر جدید اوزان میں دو کلو سینتالیس گرام بتیس ملی گرام ہے.(2.47.32)..
اور آسانی کے لئے آپ دو کلو پچاس گرام بھی نکال سکتے ہیں.
(2)اور جو آج کل کے پوسٹ میں دو کلو پینتالیس گرام 2.45گرام لکھا ہوتا ہے وہ کسی بھی حساب سے صحیح نہیں ہے..
(3) اور جو حضرت تحریر فرماتے ہیں کہ اعلی درجہ کے مسلمان کشمش متوسط درجہ کے مسلمان کھجور اور پچھلے طبقے کے مسلمان گیہوں سے صدقہ فطر نکالے یہ قول صحیح نہیں ہے سب کے لئے ایک ہی نصاب ہاں زیادہ نکالے تو بہتر ہے سب کھجور سے نکال سکتے ہیں یا سب گیہوں سے اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے.
ہندوستان اور نیپال میں لوگ زیادہ تر گیہوں کا کھیتی کرتے ہیں اس لئے ہر آدمی بآسانی گیہوں سے صدقہ فطر نکال دیتے ہیں اور یہ قید لگا دیا جائے کہ اعلی طبقے کے لوگ کشمش متوسط طبقے کے لوگ کھجور اور پچھلے طبقے کے لوگ گیہوں سے فطرہ نکالیں تو دیہات کے لوگوں کے لئے باعث پریشانی ہوگی انہیں کشمش اور کھجور خریدنے کے لئے بڑے شہر میں جانا ہوگا اور کسی متوسط طبقے کے گھر میں بیس افراد ہیں اگر پانچ سو روپیہ کلو کے حساب سے کھجور ہے تو بیس لوگوں کا فطرہ نکالنے کے کثیر رقم دینا ہوگا یعنی دس ہزار روپیہ پتہ چلا کہ لوگ صدقہ فطر بھی نکالنا بند کردیں گے کہ ہر جگہ کھجور اور کشمش کی کھیتی نہیں ہوتی ہے اور نہ درخت ہے اسی لئے یہ سب قید لگانا مسلمانوں کو پریشانی میں ڈالنا ہو گا ہاں جن کو جو آسانی سے میسر ہو اسی اجناس یا اس کی قیمت سے صدقہ فطر نکالیں ۔
(۱) مولانا محمد محی الدین جہانگیر صاحب
شرح سنن ابن ماجہ جلد سوم صفہ 237
خشک انگور چونکہ حضرت امام اعظم رحمۃاللہ کے یہاں گیہوں کی مانند ہے اس لئے اس میں سے صدقہ فطر کے طور پر نصف صاع یعنی ایک کلو 233 گرام دینا چاہئے البتہ صاحبین خشک کھجوروں کو چونکہ ‘جَو’ میں مانند سمجھتے ہیں اس لئے ان حضرات کے نزدیک اس میں سے صدقہ فطر کے طور پر ایک صاع یعنی تین کلو 366 گرام دینا چاہئے.امام حسن رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام اعظم کا بھی ایک قول یہں نقل کیا ہے.
“دومد” سے مراد آدھا صاع ہے کیونکہ ایک مد غلہ کا وزن چودہ چھٹانک کے قریب ہوتا ہے اور ایک صاع ساڑھے تین سیر کے برابر ہوتا ہے لہٰزا صدقہ فطر کے طوع پر گیہوں پونے دوسیر یعنی ایک کلو 336 گرام دینا چاہئے چونکہ گیہوں کا آٹا یا گیہوں کاستو بھی گیہوں ہی کے مثل ہے اس لئے یہ دونوں چیزیں بھی اسی مقدار میں دینی چاہئیں.
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں “اب لوگوں نے گندم کے دومُدّ کو اس کے مساوی قرار دیا ہے.
(۲) حضرت ابوحمزہ مفتی ظفر جبار چشتی صاحب صحیح ابن خزیمہ جلد سوم حدیث نمبر 2392 ,2399 میں ایک صاع کو ساڑھے چار کلو لکھا اس حساب سے نصف صاع 2 کلو 250 گرام ہوتا ہے
(۳) فقیہ الہند حضرت مفتی محمد شریف الحق صاحب رحمت اللہ علیہ نے صدقہ فطر 2 کلو45گرام گیہوں دینے کا حکم فرمایا (نزہۃالقاری جلد دوم ص 81)
اقول (محمد ثناءاللہ خان)
قسم کے کفارہ میں دس مسکین کو کھلانے کا حکم شرعی ہے اور حالت احرام میں کسی عذر شرعی کی بناء حاجی اپنا سر منڈوا لیاتو اب اس کا فدیہ دینا ہوگا اس فدیہ کے متعلق حضور فقیہ الہند شارح بخاری حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ نزہۃالقاری جلد نہم کے صفحہ 82 پر فرماتے ہیں کہ ہر مسکین کو نصف صاع گیہوں یا ایک صاع جو ہے موجودہ اعشاریہ وزن سے دو کلو .سینتالیس گرام ( 2کلو 47 گرام 32 ملی گرام )نصف صاع ہے وہ دینا ہوگا کیونکہ یہ عذر غیر اختیاری کی وجہ سے حکم ہے مگر کوئی بلاعذر احرام کی حالت میں سر منڈائے گا کل یا چوتھائی تو اس پر دم نہیں واجب ہے کہ یہ جرم اختیاری ہے (نزہۃالقاری جلد نہم ص 82) اس سے صاف واضح ہوگیا کہ حضور شارح بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک بھی نصف صاع گیہوں 2کلو 47گرام ہے اور حضور شارح بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے نزہۃالقادی جلد دوم ص 81 میں جو یہ فرمایا کہ گیہوں کا وزن ایک سو پچھتر روپئے اٹھنی بھر ہوا ۔اہل سنت کا اسی پر عمل ہے یہ وزن موجودہ اعشاریہ کے وزن سے دو کلو پینتالیس گرام (2کلو 45گرام )ہوتا ہے اس قول میں کئی احتمالات ہیں اول ہوسکتا ہے اس وقت یہی وزن مشہور ہو اور یہی وزن نقل ہوتے ہوئے آریا ہو یا حضور کو اس وقت اس موجودہ اعشاریہ کے وزن کا یقینی علم نہ ہوا ہو اسی لئے مشہور قول کو نقل فرمایا اور ایسا نقل در نقل ہوتا ہے یا پھر کاتب کی غلطی ہوگی یا اگر صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ نزہۃالقاری جلد دوم 81 کی تحریر ہے اور وہ جلد جس میں نصف صاع گیہوں کا جدید وزن حضور شارح بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے 2کلو 47 گرام لکھا یہ جلد نہم کے ص 82پر ہے گویا جلد نہم لکھتے وقت صحیح وزن کا یقینی علم ہوگیا ہوگا اس لئے اس قول سے پہلا قول منسوخ ہوگیا اور ایسا ہوتا بھی ہے پس معلوم ہوا کہ نصف صاع کا صحیح جدید وزن دو کلو سینتالیس گرام بتیس ہوائنٹ ہے اور اب علماء اہل سنت اسی پر عمل کرتے ہیں لھذا دو کلو پینتالیس گرام والا قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے
خیال رہے کہ کسی بھی عالم کو یکایک مکمل علم ہوجائے ایسا نہیں ہوتا ہے بلکہ اہستہ اہستہ علم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اس لئے کسی پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ایک دعا بھی اس قول کی تائید میں کہ آپ پڑھا کرتے تھے رب زدنی علما یعنی اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما
(۴) سرکار سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ
نے فتاوی رضویہ جلد سوم جدید صفہ 262 پر فرمایا کہ ایک صاع ہمارے امام کے نزدیک 8 رطل کا ہوتا ہے. ہر رطل 20 استار کا, ہر استار 4.5 مثقال کا,ہر مثقال 4.5 ماشہ کا تو ہر رطل 33 تولہ 9 ماشہ تو ایک صاع 270 تولہ کا ہوا.
مقدار صدقہ فطر میں بکثرت اختلاف ہے.کیونکہ صاع کے وزن میں اختلاف ہے.اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ نے خود فرمایا ایک صاع کے بارے میں بعض نے 8رطل اور بعض نے 10 رطل کہا ہے.اس کے علاوہ اور بھی قول یے فتوی رضویہ جلد سوم صفہ 264.
اختلاف کی دوسری وجہ یہ ہے کہ پیمانے مُدّ اور صاع کسی اناج کے تھے .ماس ,مسور ,گیہوں یا جو کا تھا.علامہ شامی نے جو کے پیمانہ کو احوط فرمایا.غلہ کے وزن میں فرق ہونے کی وجہ سے اختلاف ہوا.
اصل صحیح قول یہ ہے کے ایک صاع کا وزن صاع عراقی سے تولوں میں 270 تولے اور روپیوں سے 288 روپیہ بھر
خیال رہے صاع کی جو مقدار 288 روپے لکھی ہے وہ صاع بنانے کے لئے ہے اس سے یہ مراد نہیں کے 288 روپیہ کے اعتبار سے فطرہ نکالا جائے.جیسا کہ بعض علماء کرام نے سمجھا.اس کا معنی یہ ہے اتنے وزن کوئی چیز تول کر برتن بنایا جائے اور اسی برتن سے ناپ کر صدقہ فطر ادا کیا جائے
اس لئے ہمارے امام سرکار اعلی حضرت قدس سرہ العزیز نے 27 رمضان المبارک 1327 ھ میں نصف صاع ایک سو چوالیس روپے (جو 288 کا نصف) بھر جو تول کر ایک تامچن کے پیالے میں بھرا یہ اس پیالے میں پورا پورا آگیا ,نہ کم رہا نہ زیادہ .پھر اس پیالے میں عمدہ سے عمدہ گیہوں بھر کر تولا تو اس گیہوں کا وزن ایک سو پچہتر روپے اٹھنی بھر ہوا
ہم اہلسنت کا اسی پر عمل ہے.جو آج کے موجودہ وزن سے
2کلو47 گرام32ملی گرام ہوتا ہے
یہی صدقہ فطر میں گندم دیا جائے. .
حساب یوں سمجھیں
سرکار سیدی امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تول کے مطابق
گیہو کا وزن 175.50 روپیہ بھر
ایک سکہ کا وزن 11.664 گرام
اس طرح 175.50×11.664 برابر 2047.032 گرام یعنی
2047 گرام ۔032پوائنٹ برابر 2 کلو 47 گرام اور 32 ملی گرام ہوگا*
کچھ علمائے اہلسنت کے نزدیک حساب اس طرح ہے
ایک تولہ (11.664 گرام)میں 12 ماشے ہوتے ہیں
انگریزی روپیہ ایک تولہ 12 ماشہ سے کم 11.25ماشہ ہوتا ہے
اب ایک روپیہ سکہ کا وزن…(12÷11.664)×11.25 برابر 10.935 گرام
اب اس حساب سے صدقہ فطر کی رقم….175.5×10.935 گرام برابر 1919.0925 گرام جو کلو میں ایک کلو ,,919 گرام اور 92 ملی گرام ہوا
*یہ وہی حساب ہے جس کی بنا پر سونے کی زکوۃ 87 گرام 48 ملی گرام اور چاندی کی زکوۃ 612 گرام 36 ملی گرام ہوتا ہے اور اس حساب کو جو علماء کرام مانتے ہے تو ان کے لحاظ سے تو صدقہ فطرہ ایک کلو 919 گرام اور 92 ملی گرام ہوتا ہے جو علماء کرام صدقہ فطر 2.047کلو مانتے ہیں تو اس حساب سے نصاب سونا 93 گرام 312ملی گرام اور نصاب چاندی 653گرام 184ملی گرام ہوگا اور یہی صحیح نصاب ہے
محمد ثناءاللہ خاں ثناءالقادری مرپاوی کا اپنی تحقیق یہ ہے کے آج کل جدید وزن سے صدقہ فطر 2کلو 47 گرام اور 32 ملی گرام ہی نکالا جائے .کیونکہ یہ تمام اقوال واضح ہو جانے کے بعد یہ جاننا چاہئے کہ صدقہ فطر دو کلو سینتالیس گرام اور بنتیس ملی گرام ادا کرنے پر اس تمام اقوال پر عمل ہو جائے گا جس مقدار کو علماء کرام نے لکھا ہے اور واجب کی ادائیگی میں کوئی شک بھی باقی نہیں رہے گا اور اس سے اطمینان قلب بھی حاصل ہوگا اور عبادات میں احتیاط واجب ہے اس پر بھی عمل ہوجائے گا اور اس سے کئی فائدے ہیں *
(۱) اس مقدار پر عمل کرنے سے باقی تمام مقدار جو علماء کرام نے اس مقدار سے کم لکھا ہے اس تمام پر عمل ہو جائے گا.
(۲)اگر کم مقدار سے نکالا اور کم مقدار والا حساب صحیح ہوگا تو صدقہ فطر کی ادائیگی ہو جائے گی اگر غلط ہوا تو صدقہ فطر کی ادائیگی نہیں ہوگی.جو ہم پر واجب ہے.
*(۳) دو کلو سینتالیس گرام اور 32 ملی گرام سے نکالا جائے تو
احوط والا قول کے عبادات میں احتیاط واجب ہے اور وانفع للفقراء یعنی فقراء کو نفع ہونے کی وجہ سے زیادہ محتاط قول یہی ہے.اور اصح قول یہی ہے.جو علماء 175.50 روپیہ کو دو کلو پینتالیس گرام مانتے ہیں وہ خلاف حساب اور خلاف تحقیق ہے.طوالت کے لئے معذرت چاہتا ہوں.
واللہ اعلم باالصواب
ناشر. .تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی د دارالعلوم امجدیہ ثناءالمصطفے مرپا شریف سیتامڑھی بہار 29 مئی 2019
از شرف قلم. مفتی محمد ثناءاللہ خاں ثناءالقادری مرپا سریف 9006464004