حضرت صابر پیا سرکار یعنی کہ صابر کلیری اور بابا فرید گنج شکرکا خوبصورت واقعہ جسے پڑھنے کے بعد دونوں اللہ کے ولی کی محبت دل میں بیٹھ جائےگی اور اس سے سیکھ ملےگی کہ پہلے زمانے میں پیر اور مرید کا تعلق کتنا بہتر تھا ایک بہت جلال کی طبعیت رکھنے والے بزرگ تھے اور جن واقعات کا ذکر کیا گیا ہے یہاں وہ بلکل صحیح ہیں جلال کا مطلب جو لوگ سمجھتے ہیں صرف وہی اس تحریر کو تسلیم کر سکتے ہیں۔
اللّه پاک ہمیں اللّه والوں کی محبّت عطا کرے ۔ اور صابر کلیری اور بابا فرید گنج شکر جیسا بنائے کیوں کہ اسی میں بھلائی ہے
حضرت علاؤالدین علی احمد صابر کلیریؒ گیارہ ربیع الاول ۵۹۲ ہجری کو میں افغانستان کے شہر ہرات میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام عبد اللہ تھا جو بڑے متقی ،صاحب دل اور با فیض بزرگ تھے آپ کی والدہ ماجدہ بی بی ہاجرہ حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کی سگی بہن تھی۔ آپ کے والد کے انتقال کے بعد آپ کی والدہ آپ کو لے کر ہرات سے اجودھن (پاکپتن) میں حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور حضرت علاؤالدین علی احمد صابر کلیریؒ کو با با فرید کے سپرد کرتے ہوئے فرما یا کہ اب اس بچے کی پرورش و تربیت آپ کریں ۔
صابر کلیری اور بابا فرید گنج شکر
حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکرؒ نے بچے کی صورت دیکھتے ہی فرمایا یہ بچہ بڑا ہو کر اولیاء وقت میں سے ہو گا اور ایک دنیا اس سے فیض یاب ہو گی با با فرید نے خود آپ کو تعلیم دینا شروع کی آپ کی ذہانت کا کمال تھا کہ آپ نے تین سال کے اندر ہی تمام علوم ظاہری حاصل کر لئے ، تین برس کے بعدآپ کی والدہ بھائی سے یہ کہہ کر ہرات واپس چلی گئیں کہ اب بھانجے کو علوم باطنی میں بھی کامل کر دیجئے اور کوئی تکلیف نہ ہو نے دیجئے گا حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کو بہن سے بہت محبت تھی حضرت با با فریدؒ نے بہن کے سامنے ہی بھانجے کومرید کر کے تقسیم لنگر کا کام حضرت علاؤالدین علی احمد صابر کلیریؒ کے سپرد کر دیا ۔
حضرت علاؤالدین علی احمد صابر کلیریؒ کی عمر گو کہ کم تھی مگر پھر بھی آپ نے یہ اہم کام نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا ایک عرصے کے بعد جب آپ کی والدہ ماجدہ نے واپس آ کر آپ کو دیکھا تو آنکھوں سے آنسو نکل پڑے آپ سوکھ کر کانٹا ہو گئے تھے۔ بھائی سے جاکر شکوہ کیا تو حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکرؒ نے فرمایا کہ تم خود گواہ ہو کہ تمہارے سامنے ہی میں نے تقسیم لنگر کی خدمت اس کے سپرد کی تھی۔
حضرت علاؤالدین علی احمد صابر کلیریؒ سے پوچھا گیا تو آپ نے جواب دیا آپ نے تقسیم لنگر ہی کا مجھے حکم دیا تھا یہ کب فرمایا تھا کہ اس میں سے کھا بھی لینا یہ جواب سن کر ماموں پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی اور آپ نے شفقت سے فرمایا ” علائوالدین صابر است ” اور اسی وقت سینے سے لگا کر خدا جانے کیا کیا عطا فر ما دیا اس کے علاوہ بھی آپ کے مجاہدے اور کرامتیں اس درجہ شدید صبر آزما تھیں کہ انہیں سن کر حیرت ہوتی ہے کثرت مجاہدہ اور فاقوں سے آپ کی طبیعت میں بہت ہی قہر و جلال پیدا کر دیا تھا۔
صابر پاک کی روانگی
حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکرؒ نے آپ کو دہلی کے لئے متعین کیا اور فر ما یا پہلے ہانسی جا کر اپنے بھائی جمال سے اس پر مہر ثبت کرا لینا جب آپ سند لے کر ہانسی پہنچے تو حضرت شیخ جمال الدین ہانسوی نے نہایت محبت اور احترام سے آپ کی مہمان نوازی فرمائی اور پیر روشن ضمیر با با فرید الدین مسعودگنج شکر کے حالات صحت اور معلومات کی متعلق گفتگو کرتے رہے اسی دوران مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا۔ نماز سے فارغ ہو نے کے بعد حضرت مخدوم صابر کلیری نے دہلی کی خلافت کے لئے حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کی سند خلافت حضرت جمال الدین ہانسوی کو پیش کی اور فر ما یا کہ آپ اس پر مہر ثبت کر دیجئے اسی وقت چراغ گل ہو گیا تو جمال الدین ہانسوی نے فر ما یا بھائی چراغ گل ہو گیا ہے۔ صبح مہر ثبت کردونگا لیکن آپ نے فر ما یا نہیں دوسرا چراغ منگوا کر اسی وقت مہر لگا دیجئے جمال الدین ہانسوی نے دوسرا چراغ منگوایا ابھی آپ مہر لگوانا ہی چاہتے تھے کہ دوسرا چراغ بھی گل ہو گیا اب آپ صبح مہر لگوا لینا۔
اسی وقت حضرت علاؤالدین صابر کلیریؒ نے اپنی انگلی پر دم کیا تو انگلی روشن ہو گئی آپ نے جمال الدین ہانسویؒ سے فرمایا اب آپ مہر ثبت کر دیجئے حضرت جمال الدین ہانسوی نے یہ رنگ دیکھاتو حضرت علاؤالدین صابر کلیریؒ کی سند چاک کر دی اور فرما یا تمہارے دم مارنے کی تاب دہلی میں کہاں تم تو ایک دم مارتے ہی دہلی کو جلا کر خاک کر دو گے جواباً حضرت مخدوم علاؤالدین صابر کلیریرحمتہ اللہ علیہ نے حالت جلال میں فر ما یا کہ آپ نے میری سند خلافت چاک کی ہے میں نے آپ کا سلسلہ چاک کردیا اور اجودھن جا کر حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکررحمتہ اللہ علیہکو ساری تفصیل گوش گزار کی۔
حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ نے دوسری سند لکھ کر فر ما یا میں کلیر شریف کاعلاقہ تمہارے سپرد کر تا ہوں وہاں تکبرو غرور اور گمراہی کا ایک طوفان عظیم بر پا ہے وہاں پہنچ کر خلق خدا کو ہدایت کرو اور اسلام کو تقویت پہنچائو کلیر اس عہد میں عظیم الشان با رونق شہر تھا امیر کلیر نے آپ کو شاہ ولایت تسلیم کر لیا مگر قاضی شہر نے ور غلایا کہ یہ جادو گرہے آپ رحمتہ اللہ علیہ نے سن کر فر ما یا اس طرح آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اس فقیر عاصی کے حق میں تازہ ہو ئی ہے یہ فر ما کر وہاں سے واپس چلے آئے۔
حضرت علائوالدین علی احمد صابر کلیریؒ ۱۳ ربیع الاول ۶۶۴ ہجری کوعین حالت سماع اور وجد میں اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔آپ کی آخری قیام گاہ کلیر شریف میں ہے۔
شیخ عبد القدوس مزار صابر پاک
حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ ایک دن حسب معمول اپنے دادا مرشد حضرت شیخ عبدالحق ؒ کے مزار پر جھاڑو دینے میں مشغول تھے کہ آواز آئی کہ ہمارے مزار پر بھی جھاڑو دے دیا کرو!۔ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ یہ نہ سمجھ سکے کہ کس بزرگ کی آواز ہے۔چنانچہ آپ نے مزار شریف پر بیٹھ کر مراقبہ شروع کیا تو پتہ چلا کہ یہ آواز حضرت صابر کلیریؒ کی ہے۔
حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ اپنے مردوں کے ہمراہ مزار اقدس پر پہنچے ۔وہاں قرآن خوانی و فاتحہ کروائی اور حلوہ شریں کے توشہ پر حضورﷺ کی روح کو ثواب پہچا کر حاضرین میں تقسیم کیا۔ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ نے تین روز وہاں قیام کیا اور مزار اقدس کی حد بندی کی۔بانس کے ستون بنا کر لکڑیوں کی چھت سےمزار اقدس پر سایہ کیا۔اس کے بعد حضرت علائوالدین علی احمد صابر کلیریؒ کی جلالت آپ کی دعا سے ختم ہو گئی اور لوگ آپ کے مزار اقدس کی زیارت کے لیے آنے جانے لگے۔ یہ صابر کلیری اور بابا فرید گنج شکراور شیخ عبد القدوس کی اہم حکایت ہے جسے پڑھ کر سمجھنا چاہیے