اس ماہ شوال میں شوال کے چھ روزے کی مکمل حقیقت شوال کے روزے رکھنا سنت ہے، ان کے متعلق احادیث رسول ﷺ میں ترغیب دلائی گئی ہے۔
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ
“جس نے پورے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے پیچھے پیچھے شوال کے چھ روزے رکھے، یہ ایسے ہے جیسے سارے سال کے روزے رکھے ہوں”۔
[صحيح مسلم: 1164]
یہ سارے سال کے روزے کیسے ہوئے؟
مَن جَآءَ بِٱلۡحَسَنَةِ فَلَهُۥ عَشۡرُ أَمۡثَالِهَاۖ
[الأنعام: 160]
جو ایک نیکی لائے گا، پس اس کے لئے اُس جیسی دس نیکیاں ہیں”۔
اس کی تفصیل ایک حدیث میں یوں آئی ہے:
صِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ بِعَشَرَةِ أَشْهُرٍ، وَصِيَامُ سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ بِشَهْرَيْنِ، فَذَلِكَ صِيَامُ سَنَةٍ
“پورے رمضان کے روزے دس مہینوں كے روزوں کے برابر (اجر میں)۔ اور شوال کے چھ روزے دو مہینوں کے برار، پس یہ سارے سال کے روزے ہوئے”۔
[سنن النسائي الكبرى: 2873]
کیا شوال کے علاوہ چھ روزے رکھنے سے یہی اجر وثواب ملے گا؟
30 + 6 = 36 روزے 360 روزوں کے برابر ہی لکھے جائیں گے، مگر شوال کا احادیث میں ذکر کئے جانے سے یہ سمجھ آتی ہے کہ اس کی ضرور کوئی خصوصیت ہوگی۔
کیا بیماری، مرض یا کسی اور شرعی عذر سے چھوڑے ہوئے رمضان کے روزے شوال کے روزوں سے پہلے رکھنا لازمی ہیں؟
رمضان کے روزے واجب ہیں، جن کی پوچھ ہوگی، لہذا انسان جب بھی واجب ادا کرنے کی استطاعت رکھے اسے واجب ہی ادا کرنا چاہیئے، تاکہ انسان کے ذمے میں کچھ باقی نہ رہے، زندگی اور حالات کا کسی کو بھی علم نہیں کہ کب زندگی ختم ہو جائے یا حالات نا ساز ہو جائیں۔
اگر کوئی شوال کے روزے رمضان کے چُھوٹے ہوئے روزوں سے پہلے رکھ لے تو کیا اسے یہی اجر وثواب ملے گا؟
جی، جب وہ رمضان کے روزے قضا کر لے گا تو 36 روزے 360 روزوں کے برابر ہی لکھے جائیں گے، مگر وہ خاص فضیلت جو رمضان کے روزے رکھ کر پھر شوال کے روزے رکھنے سے حاصل ہوگی، اس کے متعلق علماء کی دو رائے ہیں:
1۔ خاص فضیلت حاصل نہیں ہوگی۔
2۔ خاص فضیلت حاصل ہوگی۔
لہذا احتیاط اسی میں ہے کہ رمضان کے چُھوٹے ہوئے روزے رکھنے کے بعد ہی شوال کے روزے رکھے جائیں۔
سنت اور نفلی روزوں کے کچھ خاص مسائل:
1۔ فرض روزے کی طرح سنت یا نفل روزے کے لئے رات ہی سے نیت کرنا لازمی نہیں، اگر فجر کے بعد مغرب سے پہلے تک کسی بھی وقت روزے کا ارادہ ہو جائے اور فجر کے بعد سے کچھ بھی نہ کھایا پیا ہو تو روزہ رکھنا جائز ہے۔
اس کے لیے آئندہ آنے والی حدیث دیکھیں۔
جو لوگ ظہر سے پہلے تک نیت کرنے کا کہتے ہیں ان کے پاس کوئی صریح دلیل نہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مسئلے کے متعلق یہ باب باندھا ہے:
«بَابُ إِذَا نَوَى بِالنَّهَارِ صَوْمًا»
“باب اس بارے میں کہ اگر کوئی دن کے وقت روزے کی نیت کرے”
اور اس کے تحت کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم کے آثار کی طرف اشارہ کیا ہے، جن میں حذیفہ رضی اللہ عنہ کا اثر بھی ہے جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہ نے ظہر کے بعد نفلی روزے کی نیت کی۔
2۔ سنت یا نفلی روزہ، پورا کیے بغیر افطار کر لینے سے نہ ہی کوئی گناہ لازم آتا ہے اور نہ ہی اس کی قضا دینی پڑتی ہے، چاہے کسی شرعی عذر سے افطار کیا جائے یا بغیر کسی شرعی عذر کے۔
صحيح مسلم (1154) میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
ایک دن رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: “اے عائشہ، کیا تمھارے پاس (کھانے کی) کوئی چیز ہے؟”
تو میں نے عرض کی:
اے اللہ کے رسول ﷺ، ہمارے پاس کوئی چیز نہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
“تو پھر میں روزے سے ہوں”۔
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لے گئے تو ہمارے پاس ہدیہ بھیجا گیا، جب رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لائے، میں نے عرض کی:
اے اللہ کے رسول ﷺ، ہمیں ہدیہ دیا گیا ہے، اور میں نے آپ ﷺ کے لئے کچھ محفوظ کرکے رکھا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
“وہ کیا ہے؟”،
میں نے عرض کی: وہ حیس (کھجور، گھی اورپنیر سے بنا ہوا کھانا) ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
“اسے لایئے”، تو میں اسے لے آئی اور آپ ﷺ نے اسے کھا لیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا:
“میں نے تو روزے کی حالت میں صبح کی تھی”۔
اس حدیث کے بعد امام مجاہد رحمہ اللہ (عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد) سے نبی کریم ﷺ کے اِس فعل کے متعلق پوچھا تو کہنے لگے کہ:
نفلی روزہ رکھنا ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی شخص اپنے مال سے صدقہ نکالتا ہے، اگر وہ چاہے تو دے دے، اور اگر وہ چاہے تو اس کو روک لے اور نہ دے۔