ماہ شعبان ۸ ھ میں جو واقعہ پیش کیا شعبان کے واقعات مکہ کے اندر ایک عجیب حادثہ رونما ہوا‘ بنو خزاعہ اور بنوبکر حدیبیہ کے صلح نامہ کی رو سے اپنی عداوتوں کو فراموش کر کے رسول اللہ ﷺ اور قریش مکہ کے حلیف بن گئے تھے‘ اب وہ ایک دوسرے پر حملہ آور نہیں ہو سکتے تھے‘ بنو بکر کی نیت بگڑی اور ان کے سردار نوفل بن معاویہ نے خزاعہ سے بدلہ لینا چاہا‘ قریش مکہ کا فرض تھا کہ وہ اپنے حلیف بنوبکر کو اس ارادے سے باز رکھتے اور بنو خزاعہ پر جو رسول اللہ ﷺ کے حلیف تھے حملہ نہ کرنے دیتے کیونکہ حدیبیہ میں دس سال کے لیے صلح ہوئی تھی‘ لیکن قریش مکہ نے الٹا بنوبکر کو ہتھیاروں وغیرہ سے مدد دی اور قریش میں سے صفوان بن امیہ‘ عکرمہ بن ابی جہل‘ سہیل بن عمرو وغیرہ نے بنوبکر کے ساتھ حملہ میں شرکت کی‘ بنوبکر معہ سرداران قریش بنو خزاعہ پر جا چڑھے اور اچانک ان کو قتل کرنا شروع کر دیا‘ یہ حملہ رات کے وقت ایسی حالت میں کیا گیا کہ بنو خزاعہ پڑے ہوئے سو رہے تھے‘ بنو خزاعہ مقابلہ سے مجبور ہو کر حرم میں جا چھپے‘ ظالموں نے وہاں بھی ان کو نہ چھوڑا‘ بدیل بن ورقہ خزاعی کے گھر میں گھس کر اس کا تمام گھر بار لوٹ لیا‘ اس شبخون میں بنو خزاعہ کے بیس یا تیس آدمی مارے گئے جن میں سے بعض بیت اللہ کے اندر قتل کئے گئے‘ بدیل بن ورقہ اورعمروبن سالم معہ اپنی قوم خزاعہ کے چند آدمیوں کے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے کہ رسول اللہ ﷺ سے بنوبکر اور قریش کے اس نقض عہد کی شکایت کریں ۔ جس رات مکہ میں معاہدہ صلح کی ایسی ظالمانہ طور پر دھجیاں اڑائی جا رہی تھیں ‘ خزاعہ کے چند آدمیوں نے رسول اللہ ﷺ کا نام لے کر فریاد کی کہ اے خاتم النبیین ہماری مدد کیجئے اور فریاد سنئے بنی بکر نے ہم پر ظلم کیا ہے‘ اس وقت رسول اللہ ﷺ ام المومنین سیدنا میمونہ رضی اللہ عنھا کے حجرے میں وضو کر رہے تھے‘ آپ ﷺ نے خزاعہ والوں کی یہ فریاد جو مکہ میں کر رہے تھے مدینہ میں سنی اور فوراً جواب میں ’’لبیک لبیک‘‘ فرمایا۔ سیدنا میمونہ رضی اللہ عنھا نے عرض کیا کہ لبیک آپ ﷺ نے کس کے جواب میں کہا‘ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ اس وقت بنو خزاعہ کے لوگوں کی فریاد میرے کانوں تک پہنچی ہے اس کا جواب میں نے دیا ہے۔ عجیب تر یہ کہ بنو خزاعہ نے بھی رسول اللہ ﷺ کی آواز اپنی فریاد کے جواب میں سنی۔۱ صبح کو آپ ﷺ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا کہ رات مکہ میں بنو خزاعہ کو بنو بکر اور قریش نے مل کر قتل کیا ہے‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے عرض کیا کہ آپ ﷺ کا گمان ہے کہ قریش بد عہدی کریں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انہوں نے ضرور عہد شکنی کی ہے اور عنقریب اللہ تعالیٰ ان کے حق میں حکم صادر کرنے والا ہے‘ کئی روز کے بعد بدیل بن ورقا اور عمروبن سالم خزاعی مدینے میں پہنچے‘ قریش مکہ کی عہد شکنی اور مظالم کی شکایت کی‘ عمرو بن سالم خزاعی نے ایک نہایت پردرد نظم میں اپنی مظلومی کی داستان سنائی‘ اس نظم کے بعض شعر یہ ہیں ۔ ان قریشا اخلفوک الموعدا ونقضوا میثاقک الموکدا قریش نے آپ ﷺ کے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے! اور انہوں نے مضبوط معاہدہ کو جو آپ ﷺ سے کیا تھا توڑ ڈالا ہے۔ وجعلوا لی فی کداء رصدا وزعموا ان لست ادعوااحدا اور ہمیں خشک گھاس کی طرح پامال کر دیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری مدد کو کوئی نہ آئے گا۔ و ھم اذل و اقل عد داً!ھم بیتونا بالوتیر ھجدا اور وہ ذلیل ہیں اور تعداد میں قلیل ہیں ۔ انہوں نے وتیر (وہ محلہ جہاں بنو خزاعہ آباد تھے) ہم کو سوتے ہوئے جا لیا۔ آپ ﷺ نے بنو خزاعہ کے ان لوگوں کی تسلی تشفی کی اور کہا کہ ہم تمہاری امداد کو ضرور پہنچیں گے‘ ان لوگوں کو آپ ﷺ نے مدینے سے مکہ کی جانب رخصت فرما دیا‘ جب یہ لوگ مدینے سے روانہ ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابوسفیان مکہ سے مدت صلح بڑھانے اور عہد کو مضبوط کرنے کے لیے روانہ ہو گیا‘ لیکن وہ ناکام واپس جائے گا۔۲ مکہ والوں کو جب اپنے کرتوت کے نتائج پر غور کرنے کا موقع ملا تو وہ بہت خائف ہوئے اور ابوسفیان کو روانہ کیا کہ مدینے میں جا کر شرائط صلح از سر نو قائم کرے‘ ادھر رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ سفر اورلڑائی کی تیاری شروع کر دو‘ ساتھ ہی آپ ﷺ نے جنگ کی اس تیاری کے پوشیدہ رکھنے کی تاکید فرمائی‘ ادھر بدیل بن ورقا معہ ہمراہوں کے مدینے سے باہر جا رہے تھے‘ اور ابوسفیان مکہ سے مدینے کو آ رہے تھے‘ راستہ میں دونوں کی ملاقات ہوئی‘ ابوسفیان نے پوچھا کہ کہاں سے آ رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم اسی وادی تک آئے تھے‘۱ ابوسفیان کو یہ یقین تھا کہ ابھی تک رسول اللہ ﷺ تک مکہ کے اس واقعہ کی خبر نہ پہنچی ہو گی‘ اسی لیے وہ صلح نامہ کی تجدید جلد از جلد کرنا چاہتا تھا۔ ابوسفیان نے مدینے میں آ کر رسول اللہ ﷺ ‘ ابوبکرصدیق ؓ عمرفاروق ؓ ‘ علی ؓ سے الگ الگ باتیں کرنا چاہیں ‘ مگر کسی نے اس کو کوئی جواب نہ دیا‘ اس کو بڑی مایوسی ہوئی‘ آخر سیدنا علی ؓ نے اس کے ساتھ یہ مذاق کیا کہ اس سے کہا کہ تو بنی کنانہ کا سردار ہے‘ مسجد نبوی ؓ میں خود کھڑے ہو کر بآواز بلند یہ اعلان کر دے کہ میں صلح کی میعاد کو بڑھاتا اور عہد و اقرار کو مضبوط کئے جاتا ہوں ‘ ابوسفیان نے اسی طرح کھڑے ہو کر مسجد میں اعلان کیا اور فوراً مدینہ سے روانہ ہو گیا‘ جب وہ مکہ میں پہنچا تو قریش مکہ نے ان کا خوب مذاق اڑایا اور کہا کہ علی ؓ نے تیرے ساتھ تمسخر کیا تھا‘ بھلا معاہدے کہیں اس طرح کرتے ہیں ۔ ابوسفیان کو اپنی اس حماقت پر بڑی ندامت ہوئی‘ ابوسفیان کی روانگی کے بعد رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو مکہ کی طرف روانگی کا حکم دیا اس وقت تک خفیہ خفیہ جنگ کی تیاریاں تو تمام صحابہ رضی اللہ عنھم کر ہی رہے تھے لیکن یہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ اسلامی لشکرکس طرف کو روانہ ہو گا اور کس قوم یا علاقہ پر حملہ ہوگا‘ اس احتیاط سے آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ قریش کو پیشتر سے اس حملہ کی خبر نہ ہونے پائے۔ ایک صحابی حاطب ؓ بن ابی بلتعہ نے قریش کو مسلمانوں کے حملہ آور ہونے کی اطلاع دینے کے لیے ایک خط کسی عورت کے ہاتھ ان کے پاس روانہ کیا‘ رسول اللہ ﷺ کو الہام الہی کے ذریعہ اس کی اطلاع ہو گئی‘ آپ ﷺ نے علی ؓ بن ابی طالب اور زبیر بن العوام کو روانہ کیا کہ فلاں عورت قریش مکہ کے نام ایک خط لے جا رہی ہے اس سے خط برآمد کر لائو‘ انہوں نے روضہ خاخ میں پہنچ کر اس کو گرفتار کیا‘ اس کا تمام اسباب و سامان دیکھا‘ خط کا پتہ نہ چلا‘ سیدنا علی ؓ نے کہا‘ کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ رسول اللہ ﷺ کو غلط خبر ملے خط ضرور اس کے پاس ہے‘ چنانچہ انہوں نے عورت کو ڈرایا دھمکایا تو اس نے اپنے جوڑے یعنی سر کے بالوں میں سے خط نکال کر دیا‘ دیکھا تو خط سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کا تھا‘ عورت اور خط کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لائے‘ سیدنا حاطب ؓ طلب کئے گئے‘ انہوں نے کہا چونکہ مکہ میں میرے عزیز و اقارب ہیں اس لیے میں نے چاہا کہ اہل مکہ پر ایک احسان کر دوں اور ان کو اطلاع دے دوں کہ تم پر حملہ ہونے والا ہے تاکہ اہل مکہ ممنون ہو کر میرے عزیز و اقرباء کو ضرر نہ پہنچائیں ‘ یہ سن کر سیدنا عمرفاروق ؓ نے برافروختہ ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! حکم دیجئے کہ اس منافق کی گردن اڑادوں ‘ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے عمر ؓ ! حاطب ؓ کی غلطی ہے جو قابل عفو ہے‘ چنانچہ سیدنا حاطب ؓ کی یہ حرکت بے جا معاف فرما دی گئی۔
شعبان کے واقعات جو دل کودھلا دے
Tagged Inشعبان