شعبان کی خاص عبادت جنہیں ہرگز نہ چھوڑیں

ماہ شعبان، عبادات و اعمال کے اعتبار سے اہم مہینہ ہے، اسی لیے شعبان کی خاص عبادت اس مہینہ میں شب برات بھی ہے جس کے فضائل بھی بعض روایات میں وارد ہوئے ہیں، اس ماہ مبارک میں دینی اعمال میں عوام افراط و تفریط کا شکار ہیں، اسی مناسبت سے یہ چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔ قرآن کریم میں سورہ دخان میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : [إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ ، فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ] *ترجمہ :* بلاشبہ ہم نے اس قرآن کو مبارک رات میں نازل کیا ہے، بلاشبہ ہم ڈرانے والے ہیں، اس رات میں ہر امر حکیم کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ *

شعبان کی خاص عبادت

ان آیات کریمہ میں میں چند امور کا ذکر ہے :* *1- وہ کونسی مبارک رات ہے جس میں قرآن کا نزول ہوا؟ :* جمہور مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس سے رمضان کے مہینہ کی وہ رات مراد ہے جس کو قرآن کریم نے لیلة القدر فرمایا ہے، اس کی تائید میں قرآن کریم کی آیات موجود ہیں : [شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْه الْقُرْاٰنُ] اور دوسری آیت میں آیا ہے : [اِنَّا اَنْزَلْنٰہ فِیْ لَیْلَة ِ الْقَدْرِ] (اس سے معلوم ہوا کہ شب قدر رمضان میں ہے-) *2- اس رات میں برکت کی وجہ کیا ہے؟ :* برکت (خیر کثیر) اس رات میں ہونے کی وجہ یہ ہے سے کہ اسی رات میں قرآن نازل ہوا جو تمام دینی اور دنیوی منافع کا ضامن ہے، اسی رات میں ملائکہ رحمت کا نزول ہوتا ہے اور دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اس مبارک رات سے مراد شب قدر ہے، قتادہ اور ابن زید کا یہی قول ہے، دونوں بزرگوں کا بیان ہے کہ شب قدر میں قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل ہوا، پھر بیس سال میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کی وساطت سے تھوڑا تھوڑا حضور اکرم ﷺ پر اتارا گیا، سو بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اس سے نصف شعبان کی رات مراد ہے، یہ خیال غلط ہے۔ [تفسیر مظہری سورہ دخان] *3- تقسیمِ ارزاق کی رات کونسی ہے؟ :* حضرت عکرمہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ اس آیت میں [لیلة مبارکة] سے مراد شب برات یعنی نصف شعبان کی رات ہے کیونکہ تقسیم ارزاق کی رات کو بعض روایات میں شب برات کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس رات کا مبارک ہونا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول کا ذکر ہے، اس کے ساتھ بعض روایات میں یہ مضمون بھی آیا ہے جو اس جگہ [لیلة مبارکة] کی صفت میں بیان فرمایا ہے یعنی [فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ امراً من عندنا] یعنی اس رات میں ہر حکمت والے معاملہ کا فیصلہ ہماری طرف سے کیا جاتا ہے، مگر یہ بات صحیح نہیں کیونکہ یہاں اس رات میں نزول قرآن کا ذکر سب سے پہلے ہے اور اس کا رمضان میں ہونا قرآنی آیات سے متعین ہے جبکہ شب برات کے متعلق جو یہ مضمون بعض روایات میں آیا ہے کہ اس میں ارزاق وغیرہ کے فیصلے ہوتے ہیں تو امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ روایت مرسل ہے اور ایسی روایت نصوص صریحہ کے مقابلہ میں قابل اعتماد نہیں ہوسکتی۔ پھر قاضی ابوبکر بن عربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نصف شعبان کی رات کے بارے میں کوئی قابل اعتماد روایت ایسی نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ رزق اور موت و حیات کے فیصلے اس رات میں ہوتے ہیں بلکہ انہوں نے فرمایا کہ اس رات کی فضیلت میں بھی کوئی قابل اعتماد حدیث نہیں آئی؛ البتہ روح المعانی میں ایک روایت بلا سند حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رزق اور موت و حیات وغیرہ کے فیصلے نصف شعبان کی رات میں لکھے جاتے ہیں اور شب قدر میں فرشتوں کے حوالے کئے جاتے ہیں اگر یہ روایت ثابت ہو تو اس طرح دونوں قول میں تطبیق ہوسکتی ہے (یعنی کہ فیصلے شبِ برات سے لکھے جاتے ہیں اور شبِ قدر میں حوالے کئے جاتے ہیں-) کیونکہ اصل بات جو قرآن اور احادیث صحیحہ کے ظاہر سے ثابت ہے وہ یہی ہے کہ سورۃ دخان کی آیت میں [لیلہ مبارکہ] اور [فیہا یفرق] وغیرہ کے سب الفاظ شب قدر ہی کے متعلق ہیں، جہاں تک معاملہ شب برات کی فضیلت کا ہے، سو وہ ایک مستقل معاملہ ہے جو بعض روایات میں منقول ہے مگر وہ اکثر ضعیف ہیں تاہم وہ روایات اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعف سے خالی نہیں لیکن تعددِ طرق اور تعددِ روایات سے ان کو ایک طرح کی قوت حاصل ہو جاتی ہے، اس لئے بہت سے مشائخ نے ان کو قبول کیا ہے کیونکہ فضائلِ اعمال میں ضعیف روایات پر عمل کر لینے کی بھی گنجائش ہے۔ واللہ اعلم [مستفاد از معارف القرآن تفسیر سورہ دخان]

حضرت مفتی محمد عاشق الہی بلند شہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : بعض حضرات نے فرمایا ہے كہ چونكہ اس رات (شب قدر) میں تمام مخلوقات كا نوشتہ آئندہ سال كے اسی رات كے آنے تك ان فرشتوں كے حوالے كر دیا جاتا ہے جو كائنات كی تدبیر اور تنفیذ امور كے لیے مامور ہیں، اس لیے اس كو [لیلة القدر] كے نام سے موسوم كیا گیا، اس میں ہر انسان كی عمر اور مال اور رزق اور بارش وغیرہ كی مقادیر مقررہ فرشتوں كے حوالہ كر دی جاتی ہیں، محققین كے نزدیك چونكہ سورۃ دُخان كی آیت [فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍۙ] كا مصداق شب قدر ہی ہے، اس لئے یہ كہنا درست ہے كہ شب قدر میں آئندہ سال پیش ہونے والے امور كا فیصلہ كر دیا جاتا ہے یعنی لوح محفوظ سے نقل كركے فرشتوں كے حوالے كردیا جاتا ہے، شعبان كی پندرہویں شب جسے [لیلة البرأت] كہا جاتا ہے كہ اس كی جو فضیلتیں وارد ہوئی ہیں، ان كی اسانید ضعیف ہیں، ان میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا كی روایت میں یہ بھی ہے كہ شعبان كی پندرہویں رات كو لكھ دیا جاتا ہے كہ اس سال میں كونسا بچہ پیدا ہوگا اور كس آدمی كی موت ہوگی اور اس رات میں بنی آدم كے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اسی میں ان كے رزق نازل ہوتے ہیں- مشكوٰۃ المصابیح صفحہ ١١٥ میں یہ حدیث كتاب الدعوات للامام البیہقی سے نقل كی گئی ہے جسے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے اور بعض حضرات نے شب قدر اور شب برأت كے فیصلوں كے بارے میں یہ توجیہ كی ہے كہ ممكن ہے كہ واقعات شب برأت میں لكھ دیئے جاتے ہوں اور شب قدر میں فرشتوں كے حوالے كر دیئے جاتے ہوں۔ [مستفاد از انوار البیان تفسیر سورہ قدر]

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x