یہ شب معراج پر اشعار کا بہترین گلدستہ جمع کیا گیا ہے جس کو پڑھنے کے بعد دل کی کلی کھل جائےگی اور من ہی من میں معراج کو تصور کرنے لگیں گے تو لیجیے پڑھیے اشعار بر معراج
شب معراج پر اشعار
پُوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفے کہ یُوں
کَیف کے پَر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یُو
قَصرِ دَنیٰ کے راز میں عقلیں تو گُم ہیں جیسی ہیں
رُوحِ قُدس سے پوچھیے تم نے بھی کچھ سُنا کہ یُوں
میں نے کہا کہ جلوۂ اَصل میں کس طرح گُمیں
صبح نے نورِ مِہر میں مِٹ کے دِکھا دیا کہ یُوں
عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں اسمان ہے
جانِ مُراد اب کِدھر ہائے تِرا مکان ہے
عرش پہ جا کے مُرغِ عقل تَھک کے گِرا غَش ا گیا
اور ابھی منزلوں پَرے پہلا ہی استان ہے
شانِ خدا نہ ساتھ دے اُن کے خِرام کا وہ باز
سِدرہ سے تا زمیں جسے نرم سی اِک اُڑان ہے
کعبہ و عرش میں کُہرام ہے ناکامی کا
آٓہ کِس بزم میں ہے جلوۂ یکتائیِ دوست
تاج والوں کا یہاں خاک پہ ماتھا دیکھا
سارے داراؤں کی دارا ہوئی دارائیِ دوست
طُور پر کوئی کوئی چرخ پہ یہ عرش سے پار
سارے بالاؤں پہ بالا رہی بالائیِ دوست
عرش جس خوبیِ رفتار کا پامال ہوا
دو قدم چل کے دِکھا سَروِ خِراماں ہم کو
تاجِ رُوحُ القدس کے موتی جسے سجدہ کریں
رکھتی ہیں واللہ وہ پاکیزہ گوہر ایڑیاں
فرش والے تِری شوکت کا عُلُو کیا جانیں
خُسروا عرش پہ اُڑتا ہے پَھریرا تیرا
زہے عزّت و اِعتِلائے محمد ﷺ
کہ ہے عرشِ حق زیرِ پائے محمد ﷺ
مکاں عرش اُن کا فلک فرش اُن کا
مَلَک خادمانِ سَرائے محمد ﷺ
طُور کیا عرش جَلے دیکھ کے وہ جلوۂ گرم
اپ عارض ہو مگر ائینہ دارِ عارِض
یہ اُن کے جلوہ نے کیں گرمِیاں شبِ اَسرا
کہ جب سے چرخ میں ہیں نُقرہ و طِلائے فلک
تجمّلِ شبِ اَسرا ابھی سِمٹ نہ چکا
کہ جب سے ویسی ہی کوتَل ہیں سبزہائے فلک
تِرا مسندِ ناز ہے عرشِ بریں ، تِرا محرمِ راز ہے رُوحِ امیں
تُو ہی سَروَرِ ہَر دو جہاں ہے شہا ، تِرا مثل نہیں ہے خدا کی قسم
شمعِ بزمِ دَنیٰ ھُو میں گُم کُن اَنا
شرحِ متنِ ہُویت پہ لاکھوں سلام
کس کو دیکھا یہ موسیٰ سے پوچھے کوئی
انکھوں والوں کی ہمّت پہ لاکھوں سلام
شبِ اَسریٰ کے دولھا پہ دائم درود
نو شہِ بزمِ جنّت پہ لاکھوں سلام
اور کوئی غیب کیا تم سے نِہاں ہو بَھلا
جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروڑوں درود
وہ شبِ معراج راج وہ صفِ محشر کا تاج
کوئی بھی ایسا ہوا تم پہ کروڑوں درود
طارِم اعلیٰ کا عرش جس کفِ پا ہے فرش
انکھوں پہ رکھ دو ذرا تم پہ کروڑوں درود
آے مسندت عرشِ بریں وے خادِمت روحِ امیں
مِہرِ فلک ماہِ زمیں شاہِ جہاں زیبِ جِناں
قصرِ دنیٰ تک کس کی رسائی
جاتے یہ ہیں اتے یہ ہیں
یہ طُور کُجا سِپہر تو کیا کہ عرشِ عُلا بھی دُور رہا
جہت سے وَرا وِصال ملا یہ رفعتِ شاں تمہارے لئے
نہ حجاب چرخ و مسیح پر نہ کلیم و طُور نِہاں مگر
جو گیا ہے عرش سے بھی اُدھر وہ عرب کا ناقہ سوار ہے
کبھی خاک پر پڑا ہے سرِ چرخ زیرِ پا ہے
کبھی پیشِ دَر کھڑا ہے سرِ بندگی جُھکایا
تو قدم میں عرش پایا
خم ہوگئی پُشتِ فلک اِس طعنِ زمیں سے
سُن ہم پہ مدینہ ہے وہ رتبہ ہے ہمارا
بندہ ملنے کو قریبِ حضرتِ قادر گیا
لمعۂ باطِن میں گُمنے جلوۂ ظاہر گیا
غُنچے مَا اَوْحیٰ کے جو چَٹکے دَنیٰ کے باغ میں
بلبلِ سدرہ تک اُن کی بُو سے بھی مِحرم نہیں
وہی لامکاں کے مکیں ہوئے سرِ عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں
عرش جس خوبیِ رفتار کا پامال ہوا
دو قدم چل کے دِکھا سَروِ خِراماں ہم کو
لطفِ بَرق جلوۂ معراج لایا وَجد میں
شعلۂ جَوّالہ ساں ہے اسمانِ سوختہ
جس کو شایاں ہے عرشِ خدا پر جُلُوس
ہے وہ سلطانِ والا ہمارا نبی ﷺ
عرش و کُرسی کی تھیں ائینہ بندیاں
سوئے حق جب سِدھارا ہمارا نبی ﷺ
تنگ ٹھہری ہے رضاؔ جس کے لئے وسعتِ عرش
بس جگہ دل میں ہے اُس جلوۂ ہرجائی کی
نہ عرشِ اَیمَن نہ اِنِّی ذاہِبٌ میں میہمانی ہے
نہ لطفِ اُدْنُ یا اَحمد نصیبِ لَن تَرانِی ہے
عرش پر جس کی کمانیں چَڑھ گئیں
صدقے اُس بازو پہ قوّت کیجیے
ہیں عرشِ بریں پر جلوہ فگن
ہیں عرشِ بریں پر جلوہ فگن محبوبِ خدا سبحان اللہ
اک بار ہوا دیدار جسے سو بار کہا سبحان اللہ
حیران ہوئے بَرْق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر
راکب نے کہا اللہ غنی مَرْکَبْ نے کہا سبحان اللہ
طالب کا پتہ مطلوب کو ہے مطلوب ہے طالب سے واقف
پردے میں بلا کر مل بھی لیے پردہ بھی رہا سبحان اللہ
ہے عبد کہاں معبود کہاں معراج کی شب ہے راز نہاں
دو نور حجابِ نور میں تھے خود ربّ نے کہا سبحان اللہ
جب سجدوں کی آخری حدوں تک جا پہنچا عبودیت والا
خالق نے کہا ما شآء اللہ حضرت نے کہا سبحان اللہ
سمجھے حامد انسان ہی کیا یہ راز ہیں حسن والفت کے
خالق کا حبیبی کہنا تھا خلقت نے کہا سبحان اللہ
حد کر دی یا ر آپ نے کیا اشعار جمع کیا یے جزاک اللہ فی الدارین