شب برات کا لفظ کس حدیث سے ثابت ہے اہم اعتراض

کیا فرماتے ہے علماء کرام اس سوال میں کے بارے میں یہ شب برات کا لفظ
کہ زید کا یہ ماننا ہے کہ لیل عربی لفظ ہے شب فارسی لفظ ہے رات کو عربی میں لیل اور فارسی میں شب کہتے ہیں اگر شب برات ثابت ہوتی تو نبی ﷺ اسکا نام ليلة البراة فرماتے نہ کہ شب برات جواب عنیت فرما دیں۔

شب برات کا لفظ کہاں سے ثابت ہے اس کو سمجھیں

نمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

الجواب بعونه تعالى عز وجل
شب برات کا لفظ حدیث پاک میں نہیں ہے یہ فقہاء کے دئے ہوئے الفاظ ہیں ۔ضروری نہیں کہ ہر نام کتاب و سنت میں موجود ہو نماز روزہ کا لفظ حدیث پاک میں نہیں ہے بلکہ عربی کا ترجمہ ہے صلات و صوم کے معانی نماز و روزہ ہیں اسی طرح شب فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں رات اور براءت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں آزادی اس رات کو شبِ برات اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس رات میں اللہ تعالیٰ بنوں کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں
 کو جہنم سے نجات دیتا ہے۔

شب برات کا لفظ حدیث میں

جو حدیث صحیح سے ثابت ہے حدیث پاک میں شب برات کے لئے نصف شعبان کے الفاظ وارد ہیں ۔
واضح رہے کہ براۃ کے معنیٰ ہیں نجات، اور شبِ برات کا معنیٰ ہے گناہوں سے نجات کی رات۔ گناہوں سے نجات توبہ سے ہوتی ہے۔ یہ رات مسلمانوں کے لئے آہ و گریہ و زاری کی رات ہے، رب کریم سے تجدید عہد کی رات ہے، شیطانی خواہشات اور نفس کے خلاف جہاد کی رات ہے، یہ رات اللہ کے حضور اپنے گناہوں سے زیادہ سے زیادہ استغفار اور توبہ کی رات ہے۔ اسی رات نیک اعمال کرنے کا عہد اور برائیوں سے دور رہنے کا عہد دل پر موجود گناہوں سے زنگ کو ختم کرنے کاموجب بن سکتا ہے۔

اللہ رب العزت نے ارشاد ہے حٰم وَالْکِتٰبِ الْمُبِيْنِ اِنَّـآ اَنْزَلْنٰـهُ فِیْ لَيْلَةٍ مُّبٰـرَکَةٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِيْنَ فِيْهَا يُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِيْمٍ
حا میم (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں) اس روشن کتاب کی قسم بے شک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے۔ بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کردیا جاتاہے۔
(الدخان، 44: 1تا4)

ابو قاسم زمخشری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نصف شعبان کی رات کے چار نام ہیں
١/ لیلۃ المبارکہ
٢/ لیلۃ البراۃ
٣/ لیلۃ الصک
٤/ لیلۃ الرحمۃ
یہ سب عربی اسماء ہیں اور کہا گیا ہے کہ اس کو شب برات اور شب صک اس لئے کہتے ہیں کہ بُندار یعنی وہ شخص کہ جس کے ہاتھ میں وہ پیمانہ ہوکہ جس سے ذمیوں سے پورا خراج لے کر ان کے لئے برات لکھ دیتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اس رات کو اپنے بندوں کے لئے بخشش کا پروانہ لکھ دیتا ہے۔ اس کے اور لیلۃ القدر کے درمیان چالیس راتوں کا فاصلہ ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک قول ہے کہ یہ رات پانچ خصوصیتوں کی حامل ہوتی ہے۔

شب برات کا لفظ اور اس کے نام اورکام

١/ اس میں ہر کام کا فیصلہ ہوتا ہے۔
٢/ اس میں عبادت کرنے کی فضیلت ہے۔
٣/ اس میں رحمت کانزول ہوتا ہے۔
٤/ اس میں شفاعت کا اتمام ہوتا ہے۔
٥/ اور پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس رات میں یہ عادت کریمہ ہے کہ اس میں آب زمزم میں ظاہراً زیادتی فرماتا ہے۔
نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیرہ شعبان کی رات کو اپنی امت کی بخشش کے بارے میں سوال کیا تو آپ کو تیسرا حصہ عطا فرمایا گیا۔ پھر چودھویں رات کو دعا مانگی تو آپ کو دو تہائی امت عطا فرمائی گئی۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پندرھویں شعبان کی رات کو دعا مانگی تو آپ کی تمام امت سوائے چند نافرمان اشخاص کے آپ کے سپرد کردی گئی۔
(تفسیر الکشاف 4: 269، تفسیر سورة الدخان)

امام بغوی نے نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مرفوع روایت نقل کی ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
شعبان سے شعبان تک اموات لکھی جاتی ہیں یہاں تک کہ آدمی نکاح کرتا ہے اور اس کے گھر اولاد پیدا ہوتی ہے حالانکہ اس کا نام مُردوں میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔
(تفسير ابن ابی حاتم، 10 3287، رقم 18531) اس سے ثابت ہوگیا ہے کہ شب برات کا لفظ کہاں سے چابت ہوگیا

والله و رسوله أعلم بالصواب

كتبه/ محمد مجيب قادري لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x