شب برات پر 4 اعتراضات ؟👇 جن کا جواب کوئی نہیں دے سکتا

اس ماہ شعبان پر شب برات پر 4 اعتراضات ایسے ہیں جن کوکسی کے پاس کوئی جواب نہیں یقین نہیں ہے تو خودسے مطالعہ کریں اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور کود ہی فیصلہ کریں

شب برات پر 4 اعتراضات

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین ان مسائل کے متعلق کہ
1/ کیا شب برات میں خصوصی نوافل پڑھنا حدیث سے ثابت ہے؟
2/ کیا شب برات کی صبح قبروں کی زیارت کے لئے جانا حدیث سے ثابت ہے؟
3/ کیا شب برات کے موقع پر گھروں اور مساجد میں راستوں کو روک کر جلسے منعقد کرنا حدیث سے ثابت ہے؟
4/ کیاشب برات کی کوئی مخصوص دعا حدیث سے ثابت ہے؟

مندرجہ بالا سوالات کے بارے میں شرعی راہنمائی فرما دیں:
جزاک اللہ خیرا

سائلہ نویدہ شہر کتوال گروپ فقہی مسائل برائے خواتین شرعی سوال و جواب لاہور پاکستان

شب برات پر 4 اعتراضات کے مکمل جوابات

نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته۔

الجواب بعونه تعالى عز وجل
١/ شب برات میں مخصوص نوافل حدیث پاک سے ثابت تو نہیں ہے البتہ دن میں روزہ اور رات میں نوافل پڑھنے کا حکم آقا علیہ السلام نے دیا ہے
حدیث پاک میں ہے آقا علیہ السلام نے فرمایا جب شعبان کی پندرھویں رات ہو تو رات کو جاگا کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو۔
جاگنے سے مراد عبادت و ریاضت ہے چاہے تسبیح و تہلیل میں کریں یا نوافل پڑھ کر رات گزارے ۔تفصیلات ذیل میں ہیں ۔
٢/ نصف شعبان کی رات آقا علیہ السلام خود جنت البقیع میں تشریف لےگئے اور وہاں اہل قبور کےلئے دعا فرمائی اس لئے شب برات کی رات قبرستان جانا سنت ہے ۔ شب برات پر 4 اعتراضات کو مزید جان جائیں گے
اب رہی صبح کی بات تو صبح بھی جا سکتے ہیں شرعا منع نہیں ہے ۔تفصیلات ذیل میں ملاحضہ کریں ۔
٣/ شب برات میں راستے روک کر جلسہ و میلاد تو کوئی نہیں کرتے یہ جھوٹ ہے البتہ لوگوں کا مجمع زیادہ ہوجائے تو الگ بات ہے اگر کہیں ایسا ہو رہا ہو تو پھر راستے پر یا راستے روک کر ایسا کرنا درست نہیں ہے اس کے لئے الگ انتظام کیا جائے حاصل کلام یہ ہے کہ شب برات میں جلسہ میلاد کرنا شرعا جائز و مباح ہے ۔جلسہ و میلاد کوئی فرض و واجب سمجھ کر نہیں کرتے موجودہ دور میں جس طرح بھی اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا جائے غنیمت ہے اسے شدت سے روکنا جہالت ہے ۔
٤/شب برات کی مخصوص دعا حدیث پاک سے ثابت ہے
امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ شعبان کی پندرہویں شب یہ دعا فرماتے تھے
اللّٰہُمَ اِنّیِْ اَعُوذُ بِعفوکَ مِن عِقابِک، اَعُوذُ بِرضاکَ مِن سَخطِکَ واَعُوذُ بِکَ مِنکَ جَلّ وجھِکَ، اللّٰھُمِّ لا اُحصی ثنآءً َ علیکَ، اَنتَ کمااَثنیتَ علیٰ نفسِکَ ۔
اے اللہ میں تیرے عفو کی پناہ چاہتا ہوں۔ تیری سزا سے اور تیری رضا کی پناہ چاہتا ہوں۔ تیرے غصے اور ناراضی سے اور پناہ چاہتا ہوں تیری سختیوں سے، یا اللہ، میں آپ کی تعریف شمار نہیں کر سکتا،آپ کی ذات ایسی ہی بلند وبالا ہے،جیسے آپ نے خود فرمایا۔(سنن بیہقی)

یاد رہے کہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم، صحابۂ کرام علیہم الرضوان اور اولیائے عِظام رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم شعبانُ الْمُعَظَّم  بالخصوص اس کی پندرھویں
(15ویں) رات میں عبادات کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے معمولات
 اُمّ المؤمنین حضرت سیّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں:میں نے حُضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو 
شعبانُ الْمعظّم سے زیادہ 
کسی مہینے میں روزہ رکھتے نہ دیکھا۔
(ترمذی،ج2،ص182، حدیث: 736)
 آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا 
 مزید فرماتی ہیں ایک رات میں نے حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نہ پایا۔ میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تلاش میں نکلی تو آپ مجھے جنّتُ البقیع میں مل گئے۔نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں(15ویں) رات آسمانِ دنیا پر تجلّی فرماتا ہے، پس قبیلۂ بنی کَلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی 
زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔(ترمذی،ج2، ص183، حدیث: 739 ملتقطاً) 

معلوم ہوا کہ شبِ براءت میں عبادات کرنا، قبرستان جانا سنّت ہے۔(مراٰۃ،ج2،ص290)

بزرگانِ دین کے معمولات
 بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین بھی یہ رات عبادتِ الٰہی میں بسر کیا کرتے تھے حضرت سیّدُنا خالد بن مَعدان، حضرت سیّدُنا لقمان بن عامر اور دیگر بزرگانِ
 دین رحمہم اللہ المبین
 شعبانُ المُعَظَّم کی پندرھویں
(15ویں) رات اچّھا لباس پہنتے، خوشبو، سُرمہ لگاتے اور رات مسجد میں (جمع ہو کر) عبادت کیا کرتے تھے۔
(ماذا فی شعبان، ص75) 

امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ العزیز بھی شبِ براءت میں عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔
(تفسیرروح البیان، پ25، الدخان،تحت الآیۃ:3،ج8،402)

اہلِ مکّہ کے معمولات تیسری صدی ہجری کے بزرگ ابو عبدالله محمد بن اسحاق فاکِہی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں جب شبِ براءت آتی تو اہلِ مکّہ کا آج تک یہ طریقۂ  کار چلا آرہا ہےکہ مسجد ِحرام شریف میں آجاتےاور نَماز ادا کرتے ہیں، طواف کرتے اور ساری رات عبادت اور تلاوتِ قراٰن میں مشغول رہتےہیں، ان میں بعض  لوگ 100 رکعت (نفل نماز) اس طرح ادا کرتے کہ ہر  رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھتے۔ زم زم شریف پیتے، اس سے غسل کرتے  اور اسے اپنے مریضوں کے لئے محفوظ کر لیتے اور اس  رات میں ان اعمال کے ذریعے خوب برکتیں سمیٹتے ہیں۔
(اخبار مکہ، جز: 3،ج2،84 ملخصاً

اس کی فضیلت میں مُتعدَّ د احادیث مَروی ہیں حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایاکہ جب شعبان کی پندرھویں رات ہو تو رات کو جاگا کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو جب سورج غروب ہوتا ہے تو اس وقت سے اللّٰہ تَعَالٰی آسمانِ دنیا کی طرف نُزولِ رحمت فرماتاہے اور اعلان کرتاہے کہ ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا تاکہ میں اس کوبخش دوں ، ہے کوئی رِزق طلب کرنے والا تاکہ میں اس کورِزق دوں ،ہے کوئی مصیبت زَدہ تاکہ میں اس کواس سے نجات دوں ۔یہ اعلان طلوعِ فجر تک ہوتا رہتا ہے۔
اسی طرح  حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْھَا سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضور کو اپنے بستر پر نہ پایا تو میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کی تلاش میں نکلی میں نے حضو ر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جنّتُ البقیع میں پایا، حضور سرورِ کائنات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:
’اللّٰہ تَعَالٰی نصف شعبان کی رات کو آسمانِ دنیا کی طرف نُزولِ رحمت فرماتاہے اور قبیلۂ بنی کَلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔

جمع ہوکر عبادت کرنا جائز ومستحسن ہے ۔
فتاویٰ رضویہ میں بحوالہ لَطائِفُ المعارِف ہے
اہلِ شام میں آئمہ تابعین مثل خالد بن مَعدان و امام مکحول و لقمان بن عامر وغیرہُم (رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْھِم) شبِ براءت کی تعظیم اور اس رات عبادت میں کوششِ عظیم کرتے اور انہیں سے لوگوں نے اس کا فضل ماننا اور اس کی تعظیم کرنا اَخذ کیا ہے۔

اسی طرح گھروں کو مساجد کو سجابا جائز ومستحسن ہے کیونکہ اس سے مقصود اس رات کی تعظیم ہوتا ہے اور بحوالہ لطائِفُ المعارف گزر چکا کہ ائمہ تابعین اس رات کی تعظیم کیا کرتے تھے۔ 
(بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلسنت،ح دوم،ص ۱۱۷تا۱۱۹)

سنن ابوداؤد میں ہے
حدیث نمبر: 879
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَسْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا هُوَسَاجِدٌ وَقَدَمَاهُ مَنْصُوبَتَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ يَقُولُ:‏‏‏‏ أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ، ‏‏‏‏‏‏لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ.
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک رات (اپنے پاس بستر پر) نہیں پایا تو میں نے آپ کو نماز پڑھنے کی جگہ میں ٹٹولا تو کیا دیکھا کہ آپ ﷺ سجدہ میں ہیں اور آپ کے دونوں پاؤں کھڑے ہیں اور آپ یہ دعا کر رہے ہیں: أعوذ برضاک من سخطک وأعوذ بمعافاتک من عقوبتک وأعوذ بک منک لا أحصي ثناء عليك أنت کما أثنيت على نفسک

یعنی اے اللہ! میں تیرے غصے سے تیری رضا مندی کی پناہ مانگتا ہوں اور تیرے عذاب سے تیری بخشش کی پناہ مانگتا ہوں اور میں تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں، میں تیری تعریف شمار نہیں کرسکتا، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف کی ہے ۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ٤٢ (٤٨٦)، سنن النسائی/الطھارة ١١٩، باب ١٢٠(١٦٩)، والتطبیق ٤٧ (١١٠١)، ٧١ (١١٣١)، والاستعاذة ٦٢ (٥٥٣٦)، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٣ (٣٨٤١)، (تحفة الأشراف: ١٧٨٠٧)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ القرآن ٨ (٣١)، مسند احمد (٦/٥٨، ٢٠١) (صحیح )

والله و رسوله أعلم بالصواب

كتبه/ محمد مجيب قادري لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x