شب برات میں نفل باجماعت نہ پڑھنے کی وجہ

بات دراصل یہ ہے کہ شب برات میں نفل الگ الگ پڑھنے کا حکم ہے لیکن فرض کو باجماعت ایسا کیوں اس کو سمجھنے کی مکمل کوشش کریں گے فرائض دین کا شعار ہیں، دین کی علامت ہیں لہذا ان کو جماعت کے ساتھ مسجد میں ادا کرنا ضروری ہے کہ کوئی آدمی یہ سوچے کہ اگر میں مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھوں گا تو اس میں ریا کاری کا اندیشہ ہے، اس لیے میں گھر ہی میں نماز پڑھ لوں ، اس کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ، اس کو حکم یہ ہے کہ مسجد میں جا کر جماعت پڑھو، اس لیے کہ اس کے ذریعہ دین اسلام کا ایک شعار ظاہر کرنا مقصود ہے، دین اسلام کی ایک شوکت کا مظاہرہ مقصود ہے، اس لیے اس کو مسجد ہی میں ادا کرو۔

نوافل میں تنہائی مقصود ہے

لیکن نفل ایک ایسی عبادت ہے، جس کا تعلق بس بندہ اور اس کے پروردگار سے ہے، بس تم ہو اور تمہارا اللہ ہو، تم ہو اور تمہارا پروردگار ہو، جیسا کہ حضرت صدیق اکبر کے واقعہ میں آتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تلاوت اتنی آہستہ سے کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے جواب میں فرمایا کہ ” اسمعت من ناجیت ” (ابوداؤد، کتاب الصلاة، باب رفع الصوت ، حدیث نمبر ۱۳۲۹)

یعنی جس ذات سے یہ مناجات کر رہا ہوں، اس کو سنا دیا، اب دوسروں کو سنانے کی کیا ضرورت ہے؟ لہذا نفلی عبادت کا تو حاصل یہ ہے کہ وہ ہو، اور اس کا پروردگار ہو کوئی تیسرا شخص درمیان میں حائل نہ ہو، اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ میرا بندہ براہ راست مجھ سے تعلق قائم کرے، اس لیے نفلی عبادتوں میں جماعت اور اجتماع کو مکروہ قرار دے دیا، اور یہ حکم دے دیا اکیلے آؤ، تنہائی اور خلوت میں آؤ، اور ہم سے براہِ راست رابطہ قائم کرو، یہ خلوت اور تنہائی کتنا بڑا انعام ہے، ذرا غور تو کرو، بندہ کو کتنے بڑے انعام سے نوازا جارہا ہے، کہ خلوت اور تنہائی میں ہمارے پاس آؤ۔

تنہائی میں ہمارے پاس آؤ

بادشاہ کا ایک عام دربار ہوتا ہے ، اسی طرح جماعت کی نماز اللہ تعالیٰ کا عام دربار ہے، دوسرا خاص دربار ہوتا ہے۔ جو خلوت اور تنہائی کا ہوتا ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ جب تم ہمارے عام دربار میں حاضری دیتے ہو، تو اب ہم تمہیں خلوت اور تنہائی کا بھی موقع دیتے ہیں ۔ اب اگر کوئی شخص اس تنہائی کے موقع کو جلوت میں تبدیل کر دے اور جماعت بنادے تو ایسا شخص اس خاص دربار کی نعمت کی ناقدری کر رہا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالی تو یہ فرما رہے ہیں کہ تم تنہائی میں آؤ، ہم سے مناجات کرو، ہم تنہائی میں تمہیں نوازیں گے۔ لیکن تم ایک جم غفیر اکھٹا کرکے لے جارہے ہو۔

تم نے اس نعمت کی ناقدری کی

مثلا اگر کوئی بادشاہ ہے تو اس سے ملاقات کے لیے دربار میں گئے وہ بادشاہ تم سے یہ کہے کہ آج رات کو 9 بجے تنہائی میں میرے پاس آجانا تم سے کچھ پرائیویٹ بات کرنی ہے، جب رات کے 9 بجے تو آپ نے اپنے دوستوں کا ایک جملہ جمگھٹا اکھٹا کر لیا، اور سب دوستوں کو لے کر بادشاہ کے دربار میں حاضر ہو گے، بتائیے کہ آپ نے اس بادشاہ کی قدر کی ناقدری کی؟ اس نے تو تمہیں یہ موقع دیا تھا کہ تم تنہائی میں میرے پاس آؤ تم سے تنہائی میں بات کرنی تھی تمہیں خلوت میں خاص ملاقات کا موقع دیا تھا اور اپنے ساتھ رابطہ اور تعلق استوار کرنا تھا اور تم پوری جماعت بنا کر اس کے پاس لے گئے، تو یہ تم نے اس کی ناقدری کی۔ اس لیے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نفلی عبادت کی اس طرح ناقدری نہ کرو نفلی عبادت کی قدر یہ ہے کہ تم ہو اور تمہارا اللہ ہو، تیسرا کوئی نہ ہو، لہذا نفلی عبادات جتنی بھی ہیں، ان سب کے اندر اصول یہ بیان فرما دیا کہ تنہائی میں اکیلے عبادت کرو، اس کے اندر جماعت کہ مکروہ تحریمی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو یہ ندا دی جارہی ہے کہ : الأهل من مستغفر فاغفرله

کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں اس کی مغفرت کروں؟ یہاں لفظ ”مستغفر“ مفرد کا صیغہ استعمال کیا، یعنی کوئی تنہائی میں مجھ سے رحمت طلب کرنے والا ہے اب اللہ تعالیٰ تو یہ فرمارہے ہیں کہ تنہائی میں میرے پاس آکر مجھ سے مانگو لیکن ہم نے کیا کیا کہ شبینہ کا انتظام کیا، چراغاں کیا ، اور لوگوں کو اس کی دعوت دی کہ میرے پاس آکر میری اس خلوت میں شریک ہوجاؤ ، حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کے انعام کی ناقدری ہے، لہذا شبینہ ہو، یا صلوٰۃ التسبیح کی جماعت ہو، یا کوئی اور نفلی جماعت ہو یہ سب ناجائز ہے۔

شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا خطاب

گوشہ تنہائی کے لمحات

یہ فضلیت والی راتیں شور و شغب کی راتیں نہیں ہیں، میلے ٹھیلے کی راتیں نہیں۔ یہ اجتماع کی راتیں نہیں بلکہ یہ راتیں اس لئے ہیں کہ گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلقات استوار کرلو ، اور تمہارے اور اس کے درمیان کوئی حائل نہ ہو۔ لوگ یہ عذر کرتے ہیں کہ اگر تنہائی میں عبادت کرنے بیٹھے ہیں تو نیند آجاتی ہے مسجد میں شبینہ اور روشنی ہوتی ہے اور ایک جم غفیر ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے نیند پر قابو پانے میں آسانی ہو جاتی ہے، ارے اس بات پر یقین کرو کہ اگر تمہیں چند لمحات گوشہ تنہائی میں اللہ تعالی سے ہم کلام ہونے کے میسر آگئے تو وہ چند لمحات اس ساری رات سے بدر جہاں بہتر ہیں جو تم نے میلے میں گزاری۔ اس لئے کہ تنہائی میں جو وقت گزارا وہ سنت کے مطابق گزارا اور وہ خلاف سنت گزارا، وہ رات اتنی قیمتی نہیں جتنے وہ چند لمحات قیمتی ہیں۔ جو آپ نے اخلاص کے ساتھ ریا کے بغیر گوشہ تنہائی میں گزار لئے۔

وہاں گھنٹے شمار نہیں ہوتے :

میں ہمیشہ کہتا رہا ہوں کہ اپنی عقل کے مطابق کام کرنے کا نام دین نہیں، اپنا شوق پورا کرنے کا نام دین نہیں، بلکہ ان کے کہنے پر عمل کرنے کا نام دین ہے ، ان کی پیروی اور اتباع کا نام دین ہے۔ یہ بتاؤ کہ کیا اللہ تعالیٰ تمہارے گھنٹے شمار کرتے ہیں کہ تم نے مسجد میں کتنے گھنٹے گزارے؟ وہاں گھنٹے شمار نہیں کئے جاتے ، وہاں تو اخلاص دیکھا جاتا ہے۔ اگر چند لمحات بھی اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ساتھ رابطہ میں میسر آگئے ، تو وہ چند لمحات ہی انشاء اللہ بیڑا پار کردیں گے لیکن اگر آپ نے عبادت میں کئی گھنٹے گزار دیئے ، مگر سنت کے خلاف گزارے تو اس کا کچھ بھی حاصل نہیں۔

اخلاص مطلوب ہے :

میرے شیخ حضرت ڈاکٹر عبد الحئی قدس اللہ سرہ بڑے کیف کے عالم میں فرمایا کرتے تھے کہ جب تم لوگ سجدے میں جاتے ہو تو سجدہ میں “سبحان ربی الاعلی” کئی مرتبہ کہتے ہو لیکن مشین کی طرح زبان پر یہ تسبیح جاری ہو جاتی ہے، لیکن اگر کسی دن یہ کلمہ سبحان ربی الاعلی ایک مرتبہ اخلاص کے ساتھ دل سے نکل گیا تو یقین کیجئے کہ اللہ تعالیٰ اس ایک مرتبہ سبحان ربی الاعلیٰ کی بدولت بیڑہ پار کر دیں گے۔ لہذا یہ مت خیال کرو کہ اگر تنہا گھر میں رہ کر عبادت کریں گے تو نیند آ جائے گی۔ اس لیے کہ اگر نیند آجائے تو سو جاؤ لیکن چند لمحات جو عبادت میں گزارو، وہ سنت کے مطابق گزارو، حضور اقدس ﷺ کی سنت یہ ہے کہ فرماتے ہیں کہ اگر قرآن شریف پڑھتے پڑھتے نیند آ جائے تو سو جاؤ ، اور سو کر تھوڑی سی نیند پوری کر لو، اور پھر اٹھ جاؤ ، اس لیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ نیند کی حالت میں قرآن شریف پڑھتے ہوئے تمہارے منہ سے کوئی لفظ غلط نکل جائے۔ لہذا ایک آدمی ساری رات سنت کے خلاف جاگ رہا ہے اور دوسرا آدمی صرف ایک گھنٹہ جاگا لیکن سنت کے مطابق جاگا ، اور اپنے پروردگار کے حکم کے مطابق جاگا، تو یہ دوسرا شخص پہلے شخص سے کئی درجہ بہتر ہے۔

ہر عبادت کو حد پر رکھو :

اس لیے کہ اللہ تعالی کے یہاں اعمال کی گنتی نہیں ہے، بلکہ اعمال کا وزن ہے، وہاں تو یہ دیکھا جائے گا کہ اس کے عمل میں کتنا وزن ہے؟ لہذا اگر تم نے گنتی کے اعتبار سے اعمال تو بہت کر لئے لیکن ان میں وزن پیدا نہیں کیا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے فرمایا کہ نیند آ جائے تو پڑ کر سو جاؤ، اور پھر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اٹھ کر پھر عبادت میں لگ جاؤ لیکن سنت کے خلاف کام نہ کرو، لہذا جو عبادت جماعت کے ساتھ جس حد تک ثابت ہو، اسی حد تک کرو، مثلاً فرض کی جماعت ثابت ہے، رمضان المبارک میں تراویح کی جماعت ثابت ہے، رمضان میں وتر کی جماعت ثابت ہے، اسی طرح نماز جنازہ کی جماعت واجب علی الکفایہ ہے، عیدین کی نماز باجماعت ثابت ہے، نماز استسقاء اور نماز کسوف اگر چہ سنت ہے، لیکن ان دونوں میں چونکہ حضور ﷺ سے جماعت ثابت ہے، اور شعائر اسلام میں سے ہیں، لہذا ان کو جماعت سے ادا کرنا جائز ہے، ان کے علاوہ جتنی نمازیں ہیں، ان میں جماعت نہیں ہے، ان میں تو اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ بندہ مجھ سے تنہائی میں ملاقات کرے اللہ تعالیٰ نے تنہائی میں ملاقات کا جو اعزاز بخشا ہے، یہ معمولی اعزاز نہیں ہے، اس اعزاز کی قدر کرنی چاہیے۔

عورتوں کی جماعت :

ایک مسئلہ عورتوں کی جماعت کا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ عورتوں کی جماعت پسندیدہ نہیں ہے، چاہے وہ فرض نماز کی جماعت ہو، یا سنت کی ہو، یا نفل کی ہو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو یہ حکم فرما دیا کہ اگر تمہیں عبادت کرنی ہے تو تنہائی میں کرو ، جماعت عورتوں کے لیے پسندیدہ نہیں ، جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ دین اصل میں شریعت کے اتباع کا نام ہے اب یہ مت کہو کہ ہمارا تو اس طرح عبادت کرنے کو دل چاہتا ہے ، اس دل کے چاہنے کو چھوڑ دو، اس لیے کہ دل تو بہت ساری چیزوں کو چاہتا ہے اور صرف دل چاہنے کی وجہ سے کوئی چیز دین میں داخل نہیں ہو جاتی ، جس بات کو رسول اللہ ﷺ نے پسند نہیں کیا ، اس کو محض دل چاہنے کی وجہ سے نہیں کرنا چاہیے۔

رسم حلوہ :

اس کو بھی ایسا لازم کر لیا گیا ہے کہ اس کے بغیر شب برات ہی نہیں ہوئی، فرائض و واجبات کے ترک پر اتنی ندامت وافسوس نہیں ہوتا جتنا اس کے ترک پر اور جو شخص نہیں کرتا اس کو کنجوس و بخیل وغیرہ کے القاب دے کر شرمایا جاتا ہے۔ جس میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ ایک غیر ضروری چیز کا واجب کی طرح اہتمام کرنا۔ فضول خرچی وغیرہ وغیرہ۔ اور اس نو ایجاد شریعت کے لیے طرح طرح کی لغو ضرورتیں تراشی جاتی ہیں ، کوئی کہتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کا دندان مبارک جب شہید ہوا تو آپ نے حلوہ نوش فرمایا تھا، یہ اس کی یادگار ہے اور کوئی کہتا ہے کہ حضرت امیر حمزہ اس تاریخ میں شہید ہوئے تھے ان کی فاتحہ ہے۔ اول تو سرے سے یہی غلط ہے کہ دندان مبارک ان دنوں میں شہید ہوا ہو یا امیر حمزہ اس تاریخ میں شہید ہوئے ہوں کیونکہ دونوں حادثے ماہ شوال میں واقع ہوئے ہیں۔ اور پھر بالفرض اگر ہوں تو اس قسم کی یادگاریں بغیر کسی شرعی امر کے قائم کرنا خود بدعت اور نا جائز ہے اس کے علاوہ یہ عجیب طرح کی فاتحہ ہے کہ خود ہی پکایا اور خود ہی کھاگئے یا دو چار اپنے احباب کو کھلا دیا، فقیر اور مساکین جو اس کے اصلی مستحق ہیں وہ یہاں بھی دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ بالخصوص جب کہ واجبات کی طرح اہتمام ہونے لگے تو ایسی صورت میں مباح بلکہ مستحبات بھی فقہا کے نزدیک قابل ترک ہو جاتے ہیں۔

شب برات اور حلوہ :

بہر حال ! یہ شب الحمد اللہ فضیلت کی رات ہے اور اس رات میں جتنی عبادت کی توفیق ہو، اتنی عبادت کرنی چاہیے، باقی جو اور فضولیات اس رات میں حلوہ وغیرہ پکانے کی شروع کر لی گئی ہیں ، ان کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ، اس لیے کہ شب برات کا حلوے سے کوئی تعلق نہیں، اصل بات یہ ہے کہ شیطان ہر جگہ اپنا حصہ لگا لیتا ہے، اس نے سوچا کہ اس شب برات میں مسلمانوں کے گناہوں کی مغفرت کی جائے گی، چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ اتنے انسانوں کی مغفرت فرماتے ہیں جتنے قبیلہ کلب کی بکریوں کے جسم پر بال ہیں۔

شیطان نے سوچا کہ اگر اتنے سارے آدمیوں کی مغفرت ہوگئی پھر تو میں لٹ گیا ، اس لیے اس نے اپنا حصہ لگا دیا۔ اس نے لوگوں کو یہ سکھا دیا کہ شب برات آئے تو حلوہ پکایا کرو، ویسے تو سارے سال کے کسی دن بھی حلوہ پکانا جائز اور حلال ہے، جس شخص کا جب دل چاہے، پکا کر کھالے، شب برات سے اس کا کیا تعلق ؟ نہ قرآن میں اس کا ثبوت ہے ، نہ حدیث میں اس کے بارے میں کوئی روایت نہ صحابہ کے آثار میں ، نہ تابعین کے عمل میں، اور بزرگان دین کے عمل میں کہیں اس کا کوئی تذکرہ نہیں، لیکن شیطان نے لوگوں کو حلوہ پکانے میں لگایا دیا، چنانچہ سب لوگ پکانے اور کھانے میں لگ گئے۔ اب یہ حال ہے کہ عبادت کا اتنا اہتمام نہیں، جتنا اہتمام حلوہ پکانے کا ہے۔

بدعات کی خاصیت:

ایک بات ہمیں یاد رکھنے کی ہے، وہ یہ کہ میرے والد ماجد حضرت مفتی شفیع صاحب قدس اللہ سرہ فرمایا کرتے تھے کہ بدعات کی خاصیت یہ ہے کہ جب آدمی بدعات کے اندر مبتلا ہوجاتا ہے، تو اس کے بعد پھر اصل سنت کے کاموں کی توفیق کم ہو جاتی ہے، چنانچہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو لوگ صلوۃ التسبیح کی جماعت میں دیر تک کھڑے رہتے ہیں ، وہ لوگ پانچ وقت کی فرض جماعتوں میں کم نظر آئیں گے ۔ اور جو لوگ بدعات کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ مثلاً حلوہ مانڈا کرنے اور کونڈے میں لگے ہوئے ہیں ، وہ فرائض سے غافل ہوتے ہیں، نمازیں قضا ہورہی ہیں، جماعتیں چھوٹ رہی ہیں۔ اس کی تو کوئی فکر نہیں لیکن یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔

اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے تو سب سے زیادہ تاکید اس کی فرمائی تھی کہ جب کسی کا انتقال ہو جائے تو اس کی میراث شریعت کے مطاق جلدی تقسیم کرو لیکن اب یہ ہو رہا ہے کہ میراث تقسیم کرنے کی طرف تو دھیان نہیں ہے، مگر نتیجہ ہورہا ہے، دسواں ہو رہا ہے ، چالیسواں ہورہا ہے، برسی ہورہی ہے، لہذا بدعات کی خاصیت یہ ہے کہ جب انسان اس کے اندر مبتلا ہوتا ہے تو سنت سے دور ہوتا چلا جاتا ہے، اور سنت والے اعمال کرنے کی توفیق نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے، آمین ۔۔۔۔۔۔ بہر حال ان فضولیات اور بدعات سے بچنا چاہیے۔ باقی یہ رات فضیلت کی رات ہے، اور اس رات کے بارے میں بعض لوگوں نے جو خیال ظاہر کیا کہ اس رات میں کوئی فضیلت نہیں، یہ خیال صحیح نہیں ہے

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x