خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی ایک مشہور رباعی شاہ است حسین محرم الحرام میں بہت سے لوگ پڑھتے اور لکھتے ہیں اور سنتے ہیں لیکن شاید اس کا درست مطلب کم لوگوں کو معلوم ہے۔ خواجہ صاحب ؒ اس رباعی کے زریعہ ہمیں کیا پیغام دے رہیے ہیں دھیان رہے یہ کلام رباعی خواجہ صاحب کا نہیں ہے
شاہ است حسین مکمل اشعار
”شاہ است حسینؑ، ،،بادشاہ است حسینؑ
دین است حسینؑ، دین پناہ است حسینؑ
سر داد،،،،،، نہ داد دست درِ دست یزید
حقا کہ بنائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لا الہ است حسینؑ“
اشعار کا مطلب
شاہ است حسین ،بادشاہ است حسین
شاہ کا مطلب ہے روحوں کا مالک۔ بادشاہ کا مطلب ہے جسموں کا مالک۔ یعنی کہ امامؑ عالیٰ مقام ہماری روح اور جسم دونوں کا مالک ہے۔
دین است حسینؑ، دین پناہ است حسینؑ!
سر دے دیا یعنی قتل ہونا قبول کرلیا لیکن ہاتھ نہیں دیا یعنی یزید کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی۔ اور فرمایا مجھ جیسا تجھے جیسے کی بیعت نہیں کریگا رہتی دنیا تک یہ پیغام دیا کبھی بھی حسینی کردار والا یزیدی کردار والے کی بیعت نہیں کرئیگا۔
سر داد، نداد دست درِ دست یزید۔
امام عالیٰ مقام نے سر تو کٹا دیا لیکن بیعت نہیں کی یزید کی۔ نبی کریم ﷺ نے سب کی زبان سے اللہ کا اقرار کروالیا تھا لیکن کچھ منافق ایسے بھی موجود تھے جن کی آستیینوں میں ابھی بھی بُت موجود تھے۔ ان کے دل لا الہ کہنے کو تیار نہیں تھے۔ حسینؑ نے ایک زمینی خدا کا انکار کرکے لا الہ کی بنیاد مضبوط کی
حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؑ
اور ہمیشہ کے لئے منافقین کے چہرے عیاں ہوگئے اور تا قیامت حسین ؑ زندباد ہوگئے اور یزید گالی بن کر رہ گیا۔
شاہ است حسین پر مکمل تحقیق
اس رباعی کے حوالے سے چند معروضات پیش کروں گا لیکن اس سے قبل ایک حقیقت بیان کرنا ضروری ھے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈہ ذیادہ ھے حقیقت بہت کم ھے یہ بات کسی حد تک صحیح ھے لیکن ہر شخص تک اس کی رسائی نے 15 سے 30سال کے نوجوانوں کو بہت ضروری معلومات بھی فراہم کی ہیں کم از کم اس عمر کے پڑھے لکھے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو صرف آپ یہ کہ کر مطمئن نہیں کرسکتے کہ “فلاں حضرت “نے یہ فرمایا ھے وہ جب کوئی فرمان ذی شان سنتا یا پڑھتا ہے تو اس کی خواہش ہوتی ھے کہ وہ جانے اس فرمان کی حقیقت کیا ھے آپ کو قرآن اور حدیث یا علمی طور پر ہر صورت اس کو بتانا یا سمجھانا ہوگا ورنہ فی زمانہ ایک نوجوان طالب علم آپ کی بات سے اتفاق نہیں کرے گا اور یو ٹیوبر اور سوشل میڈیا کے اسکالرز کے اس فلسفے کو وہ درست جانے گا سب قصہ کہانی ھے
حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے حوالے سے بہت سے تحفظات لوگوں نے واقعہ کربلا کے بعد شروع کئے اور جس کا تسلسل ابھی تک ھے واقعہ کربلا کے تعلق سے مختلف نظریات سامنے آئے اور آرہے ہیں اب اس کی سچائی کے لئے ہم کو قرآن اور حدیث کی طرف ہی رجوع ہونا ھے یا پھر تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا تاریخ بھی مختلف ہیں اور ہر تاریخی روایت پر بھی بحث کی جاتی ھے کوئی تاریخی روایت کو تسلیم کرتا اور کسی کو انکار کرتا ہوا بھی دیکھا جاسکتا ہے اکثریت اس حقیقت کا اعتراف کرتی ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے رفقاء کے ساتھ کربلا میں ذیادتی اور ظلم ہوا ہے حسین بن علی پر ظلم اور ذیادتی کرنے والا یزید بن معاویہ تھا ایک طبقہ کا کہنا ہے کہ کربلا میں اس ظلم اور جبر کی داستان کو بیان تو کرنا چاہئیے لیکن ہر سال 10 محرم یعنی یوم عاشور کو غم کے طور پر منانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے
ہم اپنے زمانہ طالب علمی سے دیکھتے آرہے ہیں کہ اس طرح کے بحث و مباحثے اشتہار بازی اخبارات میں بیانات کے ذریعے سے محرم الحرام کے نزدیک شروع ہوتے تھے اور اس موضوع پر نثر نگار محرم کے قریب کتابچہ اور کتابیں بھی لوگوں کو فراہم کرتے تھے جس میں امام حسین علیہ السلام کی قربانی کے تعلق سے مختلف نظریات سامنے آتے تھے بالکل اسی طرح ربیع الاول کے نزدیک عید میلادالنبی کے موقع پر لوگوں کے بحث و مباحثے کا یہ
بہترین وقت ہوتا تھا اور جیسے ہی محرم اور ربیع الاول ختم ہوتا تھا بازار میں اس حوالے سے سرد مہری آجاتی تھی فتوے وعظ شاعری محافل اور مجالس کے شب و روز ماند پڑ جاتے تھے سال کے بعد یہ قصہ کہانی ان مہینوں میں پھر شروع ہوجاتی تھی کون کتنا بدلتا تھا کس کی شعلہ بیانی کا کس کے وعظ کا کس کی نوحہ خوانی اور کس کی نعت خوانی کا کتنا اثر ہوتا تھا یہ الگ بحث ہے لیکن یہ ضرور ہوتا تھا کچھ ہنر مندوں کی سنی جاتی تھی ،مشاھدہ یہی ھے کے آج سوشل میڈیا کے دور میں اس مشق میں مختلف جہتوں کے ساتھ اضافہ ہوا ہے عید میلادالنبی اور غم حسین منانے والوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے اس سے ایک بات تو ظاہر ہوچکی ہے ان دو موضوعات پر بحث فضول ہے
اب ایک مسئلہ جو کافی حد تک واضح ہوگیا ہے وہ طبقہ جو عید میلادالنبی اور بزرگوں کے اعراس یعنی عرس ایک عرصہ سے ببانگ دھل مناتا ھے اور خوب مناتا ھے اس میں ایک طبقہ کھل کر سامنے آگیا ہے جو 10 محرم کو امام حسین کی شہادت پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے اس دن کچھ اور رسومات کی دعوت دیتا ہے اور غیر ضروری طور پر نکاح شادی بیاہ عقیقہ اور دیگر خوشی کی تقریبات کے محرم الحرام میں نہ صرف جواز کے فتوے دیتا ہے بلکہ تلقین کی جاتی ھے ایسا کرنے میں کوئی قباحت نہیں، اس طبقے کے نزدیک امام حسین علیہ السلام ان کے رفقاء کی شہادت اور واقعہ کربلا واجبی سا واقعہ ھے اسی لئے وہ امام حسین کی شہادت اور واقعہ کربلا پر سطحی اور واجبی گفتگو ہی کرتے ہیں ،دو روایات جو ام المومنین حضرت سیدہ ام سلمہ سلام اللہ علیھا سے روایت ہیں پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے بچپن میں ان کی شہادت کی پیشن گوئی حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعہ سے فرما دی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس وقت گریا فرمایا تھا آپ اشکبار ہوگئے تھے اس کے بعد 61 ھجری میں اللہ کےآخری نبی سید المرسلین خاتم النبین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عالم خواب میں حضرت ام سلمہ کو امام حسین کی شہادت سے آگاہ فرمایا ام سلمہ فرماتی ہیں میں نے حضور کو اشکبار دیکھا اور میں خواب میں دیکھتی ہوں حضور بہت غم ذدہ تھے اب کوئی غم مناتا ھے یا نہیں ظلم جبر اور ذیادتی کے تذکرے پر وہ گریا کرتا ھے یا نہیں کم از کم حضور کے غم اور اشکوں کی حیا تو کلمہ گو کرنی چاہیے کہا جاتا ہے کہ یوم عاشور کو غم حسین کے نام پر بہت سی خرافات کی جاتی ہیں اس لئے غم سے اجتناب ہی بہتر ھے اب دیکھئیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب مدینہ ہجرت فرمائی تو آپ کو بتایا گیا کہ ایک قوم یوم عاشور پر روزہ رکھتی ہے آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کو مخاطب کر کے فرمایا ھم صرف عاشورہ والے دن روزہ نہیں رکھیں گے بلکہ 10 محرم کے ساتھ ایک اور دن ملا کر روزہ رکھیں گے جو تم میں استطاعت رکھتا ہے وہ 9 اور 10 یا 10 اور 11محرم کا روزہ رکھے تاکہ ہماری امتیازی شناخت ہو یاد رھے یہ روزے نفلی عبادت ہیں ہم کو صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقے کو اختیار کرنا ھے اور حضور نے حضرت سیدنا امام حسین کی شہادت پر گریا فرمایا ھے حضرت ام المومنین ام سلمہ کی یہ روایت ہمارے پیش نظر ہونی چاہیے
اب رھی بات مذکور بالا رباعی کی تو غیر ضروری طور پر اس رباعی کو ہم موضوع بحث بناتے ہیں اور زور اس بات پر ھے کہ یہ رباعی حضرت خواجہ غریب نواز سید معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ کی نہیں ہے حضرت معین الدین چشتی کے علاوہ معین سنجری، معین کاسکی اور معین کاشکی سے یہ رباعی منسوب کی جاتی ہے یہ تینوں ایرانی شاعر ہیں ابھی تک کوئی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا کہ یہ رباعی کس کی ھے؟رباعی کے آخری مصرعہ کو خاص طور پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے
حقاکہ بنائے لا الہ است حسین
کہنے والے کہتے ہیں یہ شرک ھے حالانکہ مصرعہ مکمل طور پر واضح ھے کہ لا الہ کی بنیاد اور اساس امام حسین ہیں یزید اور اس کے حواریوں نے دین اسلام کی شکل بگاڑ دی تھی تمام مورخین نے لکھا ہے کہ حرام کو یزید نے حلال کردیا تھا اللہ کے دین کے احیاء کے لئے تجدید دین کے لئے امام حسین نے جو عظیم قربانی پیش کی اس نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کلمہ کو بھی زندگی عطا کی، حیرت ہوتی ہے کہ ہم حضور غوث اعظم شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کو “محی الدین “یعنی دین کو زندہ کرنے والا تو مانتے ہیں لیکن امام حسین کو بنانے لا الہ ماننے کو تیار نہیں ہیں جبکہ غوث پاک کی ولایت امام حسین ہی کی مرہون منت ھے ،حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی سے اگر شاہ است حسین رباعی صحیح منسوب ہے تو اس میں حضرت خواجہ غریب نواز کی ہی عظمت اور فضیلت ھے امام حسین کی منقبت کے لئے قرآن و حدیث ہی کافی ھے اور یقینی طور پر خواجہ غریب نواز نے یہ رباعی قرآن وحدیث کی روشنی میں ہی کہی ھے
سید فصیح الدین سھروردی