شاعر وشاعرہ جوڑی کی ایک فصاحت وبلاغت پر مشتتمل ایک نایاب مکالمہ جس کو پڑھنے کے بعد دل باغ باغ ہوجائےگا اور من خوش ہوجائےگا
شعراء حضرات چونکہ لفظوں کے جادوگر اور میدان تخیلات کے راہئ سبک رفتار و شہسوار ہوا کرتے ہیں،اسی فطرت وجبلت کے بناءپر ان کے رگ و ریشہ میں یہ جذبات پیوست ہو تے ہیں ۔ کہ وہ کسی بھی ہستی کے مکمل صحیفۂ حیات کو ایک سطر اور مسافات ہفت اقلیم کی حدود لامتناہی کو ایک قدم۔ اور فترت آدم و این دم کو لمحۂ چشم زدن کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کر دے۔ اور اگر شرعی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو شعر گوئی میں حسن وقبح،مذموم و محمود دونوں پہلو پاۓ جاتے ہیں، لیکن یہاں میں دنیاوی عام شعراء سے مخاطب ہوں۔ اس لیے کہ شاعرِمعظم دینی اور ثناء خوانِ ثقلین کا مقام ومرتبہ تو بہت اعلیٰ و ارفع ہیں، اگرچہ شاعری کا راستہ نہایت پر خار و تیز دھار کی طرح ہے کیونکہ اس راہ کے مسافر اکثر ڈرتے اور کانپتے نظر آتے ہیں کہ کہیں قدم ڈگمگا نہ جائےاور دامن شریعت ہی ہاتھ سے چھوٹ نہ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے بہتوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ۔
شاعر وشاعرہ جوڑے کا مکالمہ
کہاں میں،کہاں مدحِ ذات گرامی نہ
سعدی،نہ رومی،نہ قدسی،نہ جامی
پسینے پسینے ہوا جا رہا ہوں کہاں
یہ زباں اور کہاں نامِ نامی
اسی طرح شرعی حدود میں رہ کر شعر گوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خود شہزادۂ اعلیٰ حضرت ،حضور مفتئ اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خان نوری رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔
گلہائے ثنا سے مہکتے ہوئے ہار
سُقْمِ شرعی سے ہیں مُنَزَّہْ اشعار
بہر کیف شریعت کے دائرے میں رہ کر شعر گوئی کی جاۓ تو اس میں کوئی قباحت نہیں اور اس سے ہٹ کر ہو تو سخت ممانعت ہے۔ تاہم بعض آزاد خیال شعراء جو اسلامی تعلیمات ونظریات اور دین وعقیدے کی بنیادی معلومات سے نابلد اور عاقبت نااندیش ہوتے ہیں وہ اس کوشش میں سرگرداں اور سعی لا حاصل کرتے رہتے ہیں۔ کہ کسی بھی صورت وہ صفات الہٰی کے گہرے سمندر میں غوطہ زنی کرکے اس کی حدود وانتہا کو پہنچ جاۓ اور ماہیت الہٰی کے وسیع ترین میدان میں،اپنی عقلی وخیالاتی گھوڑےکو سرپٹ دوڑا نے میں کامیاب ہو سکے ۔ لیکن سچ و حق تو یہ ہے کہ لوگ اللہ کی کنہ و ماہیت اور اس کی حدود وانتہا کی پہنچ سے عاجزوقاصر ہیں۔ کیونکہ اللہ کی ذات و صفات اور اس کی کنہ و ماہیت اور حدود وانتہا کی تہہ تک،انسان کی عقلی وقلبی ،جسمانی و روحانی ،اور خیالی وفراستی قوتیں ہرگز نہیں پہنچ سکتیں۔ سواۓ مقربین بارگاہ کے جسے رب تبارک وتعالی چن لے۔ کیونکہ جن پر رب کا خاص فضل وکرم ہوجائے۔پھر تو طبقات ارض و سماء ان کے لیے مثل کف دست اور عرش و فرش کی وسعتیں ایک قدم کے مانند ہے۔ اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ شبِ معراج نگاہ مصطفیٰ کریم میں مسافات ِ عرش و فرش اور وسعت مکاں و لامکاں کی پوشیدگی چہ معنی دارد۔ جیساکہ حضرت شیخ نظام الدین گنجوی علیہ الرحمہ سکندر نامہ میں لکھتے ہیں ۔
شب از چتر معراج او سایہ
و زان نزد بان آسمان پای
رات اس کے چتر معراج کی سایہ اور اس سیڑھی سے آسمان ایک پایہ (مطلب یہ ہے کہ جس طرح گھوڑے پر سوار شخص کے سر کے اوپر ایک چھوٹی سی چھتری ☂️ ہوتی ہے اوراس چھتری کے سایہ اورگھوڑ سوار کے درمیان میں جو دوری ہوتی ہے بلاشبہ سفر معراج کی دوری بھی فقط اتنی ہی ہے) اس لیے علمائے کرام و بزرگانِ عظام نے ہمیں قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بتلاۓ ہیں کہ اللہ کی ذات وصفات اور ماہیت کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ کہتے ہیں,,فکرو فی خلق اللہ ولا تفکرو فی اللہ ,, یعنی خلق خدا میں غور فکر کرو ذاتِ خالق میں نہیں ۔ اسی تصور کی غمازی کرتے ہوئے حضرت شیخ سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ بوستان میں لکھتے ہیں کہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔جہاں متفق بر الہیتش ۔۔۔۔۔۔۔فروماند در کنہ ماہیتش
۔۔۔۔۔۔۔بشر ما وراۓ جلاش نیافت
۔۔۔۔۔۔۔بصر منتہائے جمالش نیافت
نہ بر اوج ذاتش پرد مرغ وہم
نہ درذیل وصفش رسددست فہم
۔۔۔محیط ست علم ملک بر بسیط
۔۔۔قیاس تو بروۓ نہ گردد محیط
۔۔۔نہ ادراک در کنہ ذاتش رسد
۔۔۔نہ فکرت بغور صفاتش رسد
۔تواں در بلاغت بسحبان رسید
۔نہ در کنہ بے چونِ سُبْحان رسید
کہ خاصاں دریں رہ فرسراندہ اند
بلا احصی از تگ فرو ماندہ اند
نہ ہر جاۓ مرکب تواں تاختن کہ جاہا سپر باید انداختن کل کائنات اس کی خدائی پر متفق ہے اور اس اتفاق سے ایک سر مو بھی کسی میں انحراف کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے اور اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ لوگ اس کی ماہیت کی حقیقت تک پہنچ نہیں سکتے ،بیشک انسان اس کے ذرات تجلئ جلال کے کڑورہاں حصے کے سوا مزید کچھ حاصل نہ کر سکے اور نہ ہی اس کے جمال کے انتہاہ کو پہنچ سکے، واضح رہے کہ اس کی بلندۂ ذات تک تو وہم و گمان کی چڑیا بھی نہیں اڑسکتی ہے اور نہ ہی اس کی دامن صفات تک فراست کی دست رسی ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ قادر مطلق کے بھنور معرفت میں ہزاروں کشتیاں غرق ہوگئیں اور ان میں کا ایک تختہ بھی کنارے پر نمودار نہ ہوا، بالیقین علم باری تعالیٰ کائنات کے ہر شئ کو محیط ہے اور اے نحیف و ناتواں انسان تیرےاندازے اور قیاس وتخمینے اسے اپنے احاطے میں نہیں لا سکتے۔ انسانی فہم وفراست اور علم و دانش اس کی ذات کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ ہی غور وفکر اس کی صفات کی حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں ۔ فصاحت میں سحبان تک تو کوئی پہنچ سکتا ہے (کہا جاتاہے کہ سحبان ایسا متبحر عالم اللسان تھے کہ کسی شئ کے نام دوبارہ نہیں بولتے تھے جب تک کہ اس بولے ہوۓ لفظ پر مکمل پورا سال نہ گزر جاۓ سال بھر الگ الگ زبانوں میں اس کا نام بولتے رہتے مثلاً پانی،آب،ماؤ،جل،واٹر،ویلم وغیرہ غیرہ) لیکن سبحانِ بے مثل کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے،کیونکہ بعض خاصان خدا اس راستے میں گھوڑے دوڑائے ہیں اور لا احصی یعنی ہرگز تم نعمت خداوندی کو گن نہیں سکتے حکم کے مطابق دوڑ نے سے عاجز رہے ہیں ہاں مقربین بارگاہ میں سے جسے رب چن لے۔ ہر جگہ عقل کے گھوڑے دوڑائے نہیں جاسکتے ہیں بلکہ بہت سے مواقع پر ڈھال پھیک دینے پڑتے ہیں ۔ خیر میاں و بیوی کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ ملک عرب میں ایک مشہور و معروف شاعر تھے جو شاعرانہ مشغولیت و مصروفیت کے بنا پر اکثر وبیشتر گھر سے دور رہتے تھے۔ جہاں دھر وہیں گھر کے بموجب خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے تھے ان کی زندگی کے ایام سفر درسفر کے خاک چھاننے میں بسر ہوتےرہے۔ بالآخر انھوں نے سوچا کہ گھر جاکر بیوی بچوں سے ملتے ہیں کیونکہ انھیں کسی بڑے مہم میں جانا تھا جس کے لئے بیوی بچوں سے ایک طویل مدت مفارقت در کار تھی ۔ خیر گھر آیا اور چند دن ٹھہر نے کے بعد پھر دوبارہ سفر کے لیے تیار ہوا اور جاتے وقت اس نے اپنی بیوی سے مخاطب ہوکر یہ شعر کہا شوہر ۔
عدی السنین لغیبتی وتصبری
و ذری الشھور فانھن قصار
سالوں کو گن اور مہینوں کو چھوڑ دے، مت گن یہ تو چھوٹے اور بہت قلیل مدت کے ہیں۔
بیوی
اذکر صبابتنا الیک و شو قنا
و ارحم بناتک انھن صغا ر
میری شدت محبت اور سورش شوق جو آپ کے تئیں میرے سینے میں موجزن ہے اسے ہمہ وقت یاد رکھا کیجیے اور بچیوں پر رحم وکرم کرتے رہیے۔
تشریح ۔۔۔میرےایام غیابت کے سالوں کو گن اور مہینوں کو نہ گن کیونکہ یہ مہینے بچارے تو بہت چھوٹے اور کم مدت کے ہوتے ہیں یہ جلدی گزر جاتے ہیں ۔
دراصل انھیں سفر میں لمبے عرصے تک رہنا تھا سو انہوں نے ایک شعر میں سارا فلسفہ بیوی کو سمچھاناچاہا۔
لکین بیوی کی یہ خواہش تھی کہ شوہر سفر سے جلدی واپس آئے تاکہ ان کی دید سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچے اور دل کی حسرت بھی پوری ہو۔
میاں بیوی کے اسی موج تلاطمِ محبت اور الفتِ بیکراں کو دیکھ کر مجھے ایک غزل گو شاعر کے ،قرابت داروں سے مفارقت وجدائی کے درد بھری غزل کے چند اشعار یاد آ رہے ہیں سو میں سپرد قرطاس کیے دیتا ہوں
جا شوق سے لیکن پلٹ آنے کے لیے جا
ہم دیرتک خودکو سنبھالے نہ رہیں گے
اے ذوق سفر خیر ہو نزدیک ہے منزل
سب کہتےہےکہ اب پاؤں میں چھالےنہ رہیں گے
آنکھوں کے چراغوں میں اجالے نہ رہیں گے
آجاؤ کہ پھر دیکھنے والے نہ رہیں گے
جن نالوں کی ہو جائے گی تا دوست رسائی
وہ سانحے بن جائیں گے نالہ نہ رہیں گے
میں توبہ کر لوں مگر اک بات ہے واعظ
کیا آج سے گردش میں پیالے نہ رہیں گے
کیوں ظلمت غم سے ہو خمار اتنے پریشان
بادل یہ ہمیشہ ہی تو کالے نہ رہیں گے
محمد طلحہ حسین سعدی ثقافی