روزہ کی نیت کا طریقہ وقت اور اس کے اہم مسائل

روزہ کی نیت

📚 صحابی رسول عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔

(بخاری حدیث نمبر : ا)

📌اس حدیث سے معلوم ہوا کہ👇

ہرعمل کے لئے نیت ضروری ہے بغیر نیت کے کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں ہے ، روزہ بھی ایک عمل ہے لہٰذا اس کے لئے بھی نیت ضروری ہے، لہٰذا روزہ کی نیت سے متعلق چندمسائل سمجھ لینا چاہئے۔

📍 پہلامسئلہ:

🍃 (ہرروزہ کی علیحدہ نیت)

بعض لوگ کہتے ہیں کہ پورے رمضان کے روزوں کے لئے ایک ہی نیت کافی ہے اورہرروزہ کے لئے الگ الگ نیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ ہردن ہرروزہ کی الگ الگ نیت کرنی ضروری ہے،دلائل ملاحظہ ہوں:

📚 عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ أَنَّہُ کَانَ یَقُول لَا یَصُومُ ِلَّا مَنْ أَجْمَعَ الصِّیَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ(موطأ مالک رقم ٦ واسنادہ صحیح)۔

📚 عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ روزہ صرف وہی رکھے جوفجرسے پہلے اس کی نیت کرلے۔

📚 اماں حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

لَا صِیَامَ لِمَنْ لَمْ یُجْمِعْ قَبْلَ الْفَجْرِ(سنن النسائی رقم ٢٣٣٦واسنادہ صحیح )۔

معلوم ہواکہ ہرروزے کے لئے الگ سے نیت ضروری ہے۔

📍 دوسرا مسئلہ

روزہ کی نیت کا وقت

📌 ہر روزہ کی نیت کا جو وقت ہے وہ مغرب بعد سے لے کر فجر تک ہے ، بہتریہ ہے کہ ہرآدمی شام کو سونے سے پہلے اپنے روزے کی نیت کر لے ، لیکن اگر شام کو نیت نہیں کر سکا تو صبح سحری کے وقت بہرحال نیت کرلینی چاہئے اورسحری کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جوشخص شام کی نیت کرنا بھول جاتاہے اسے سحری کے وقت نیت کا موقع مل جاتاہے ۔

حافظ ابن حجررحمہ اللہ سحری کی برکت اوراس کے فوائدکا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وَتَدَارُکُ نِیَّةِ الصَّوْمِ لِمَنْ أَغْفَلَہَا قَبْلَ أَنْ یَنَامَ (فتح الباری لابن حجر:١٤٠٤تحت الرقم ١٩٢٣)۔

یعنی سحری کی برکت اوراس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جوشخص سونے سے قبل نیت کرنا بھول جاتاہے وہ سحری کے وقت روزہ کی نیت کرلیتاہے۔

الغرض روزے کی نیت کا وقت یہ ہے کہ شام کو سونے سے پہلے نیت کر لی جائے لیکن اگرشام کو نیت نہ ہو سکے تو صبح سحری کے وقت فجرسے پہلے ہرحال میں نیت لازمی ہے۔

📍 تیسرا مسئلہ :

روزہ کی نیت کا طریقہ

📌نیت کا مطلب دل سے کسی کام کے کرنے کا عزم وارادہ کرنا ہے،یعنی یہ دل کا کام ہے ، جیساکہ ہم ہرکام کے لئے دل میں پہلے عزم وارادہ کرتے ہیں پھر ہمارے ذریعہ وہ کام عمل میں آتاہے ۔

عزم وارادہ ، یہ کام ”دل ” سے ہوتا ہے ،لہٰذا یہ کام زبان سے نہیں ہو سکتا، جس طرح سننا یہ کام ” کان” کا ہے اب کوئی زبان سے نہیں سن سکتا، سونگھنا یہ کام ”ناک ” کا ہے اب کوئی زبان سے نہیں سونگھ سکتا ہے، اسی طرح ارادہ نیت کرنا یہ کام بھی ”دل ” کا ہے زبان سے ارادہ ونیت بے معنی ہے ۔ روزہ کی نیت کا طریقہ تو معلوم ہوہی گیا

مزید یہ کہ زبان سے نیت کرنے سے متعلق کوئی موضوع اور من گھڑت روایت تک نہیں ملتی اور لوگ ”نویت بصوم غد من شھر رمضان” یا اس جیسے جو الفاظ بطور نیت پڑھتے ہیں یہ لوگوں کی اپنی ایجاد ہے کسی صحیح تو درکنا ر ضعیف اور موضوع روایت میں بھی یہ الفاظ نہیں ملتے۔

دراصل زبان سے چندالفاظ اداکرنے کا نیت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ، غور کیجئے کہ جوشخص روزہ کا ارادہ نہ رکھے وہ بھی زبان سے یہ الفاظ ادا کر سکتا ہے اگرچہ اس کے دل کا ارادہ کچھ اور ہی ہو، دریں صورت اس کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک لغو چیز اور بدعت ضلالت ہے۔

📍 خلاصہ کلام

یہ کہ روزہ داروں کو چاہئے کہ

📌 ہرروزہ کی الگ الگ نیت کریں۔

📌 نیت ہر رات شام ہی کو کرلیں

📌 اگر بھول جائیں تو فجرسے قبل لازما نیت کرلیں۔

📌 نیت کامطلب دل میں روزہ رکھنے کا عزم وارادہ کرنا ہے۔جس طرح ہرکام کے لئے ہم دل سے عزم وارادہ کرتے ہیں۔

واللہ اعلم

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x