دیوالی کی مبارکباد دینے کا حکم

ابھی دیوالی کا ماحول چل رہا ہے جس کی بنیاد پر اسی وقت دیوالی کی مبارکباد دینے کا حکم کیا ہہے جاننا سب کو ضروری ہے تاکہ لوگ اس کی حقیقت سے معلوم ہونے کے بعد اس پر عمل کر سکے یہاں مضمون کو پڑھنے سے پہلے اسلام کے جو اصول ہیں انہیں جانیں اس کے بعد حکم کو سمجھنے میں بہت آسانی ہوگی یہ اہم مضمون ہے مکمل پڑھیں

✍️⁩ : م . ع . اسعد

اصول اسلام

سب سے پہلے بطورِ تمہید اسلام کے کچھ اہم اصول ملاحظہ فرمائیں تاکہ دیوالی کی مبارکبادی پر شرعی حکم کو صحیح سے سمجھ سکیں

1 : اسلام میں صرف دو ہی عیدیں ہیں ؛ عید الفطر اور عید الاضحیٰ ، ان دونوں کے علاؤہ اسلام میں کوئی تیسری عید نہیں ، اور یہ عیدیں بھی ہمیں اللہ کی طرف سے ملی ہوئی ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے

عن أنس – رضي الله عنه – قال : قدم النبي – صلى الله عليه وسلم – المدينة ، ولهم يومان يلعبون فيهما ، فقال : ( ما هذان اليومان ) ؟ قالوا : كنا نلعب فيهما في الجاهلية . فقال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قد أبدلكم الله بهما خيرا منهما : يوم الأضحى ، ويوم الفطر رواه أبو داود

یعنی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو ان ( اہل مدینہ ) کے ( عیدکے ) دو دن تھے جس میں وہ کھیلتے تھے

تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : یہ دو دن کیا ہیں ؟ ، انہوں نے کہا کہ ہم ان دو دنوں میں جاہلیت میں کھیلتے تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ان دو دنوں کے بدلے تمہیں اس سے بہتر دن دئے ہیں ؛ ( اور وہ ہیں ) یوم الفطر اور یوم الاضحیٰ ۔

پس اگر کوئی شخص ان دو عیدوں کے علاؤہ کوئی تیسری عید مناتا ہے تو وہ جائز نہیں ،

2 : اسلام کا ایک اہم اصول یہ بھی ہے کہ غیر قوم سے مشابہت اختیار کرنا جائز نہیں ، حدیث میں ہے

مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ”

(أبو داؤد ، ح : 4031)

یعنی : “جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے ۔”

3 : دین اسلام کا ایک اہم اصول ولاء اور براء کا بھی ہے ، يعنی مسلمانوں سے دوستی اور کافروں سے براءت کا اظہار ، چناچہ قرآن میں ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (51)

اے ایمان والو ! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بیشک انہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا۔

اب ذرا دیوالی کی مبارک باد دینے کو ان اصولوں کی بنیاد پر پرکھ کر دیکھیں ، حقیقت واضح ہو جائے گے ،

بلکہ دیوالی کی مبارک دینا ان تینوں اصولوں کے خالف ہے ،

غور کریں ،

دیوالی کی مبارکباد پو توجہ

یہ ان کی عید ہے ، اس لئے وہ خوش ہیں ، لیکن ہمیں کس بات کی خوشی ؟ اور اگر ہم ان کو دیوالی کی مبارکباد دیتے ہیں تو گویا ہم بھی ان کی اس ( شرکیہ ) عید میں شامل ہوتے ہیں ، جبکہ یہ پہلے اصول کے خلاف ہوا ، کیونکہ ہماری صرف دو ہی عیدیں ہیں

نیز دوسرے اصول میں ہمیں غیر قوم سے مشابہت اختیار کرنے سے منع گیا ہے ، یعنی کوئی ایسی چیز جو ان کا شعار ہو ( اور اگر ہم وہ چیز اپنائیں تو لوگ ہمیں بھی ان ہی میں سے سمجھا جائے ) ، اور یہ دیوالی کی مبارکباد دینا بھی اسی میں شامل ہے

( جبکہ معاملہ آج صرف مبارکباد دینے تک نہیں بلکہ ان کو مٹھائی دینے اور ان کے ساتھ پٹاخے جلانے تک پہنچ چکا ہے جو کہ مشابہت سے بھی بدتر چیز ہے )

نیز مبارکباد دے کر ہم انہیں یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم سب بھائی بھائی ہیں ، جبکہ تیسرے اصول کی بنیاد پر ہمیں ان کو دوست بنانے سے بھی منع کیا گیا ہے چہ جائیکہ بھائی ،

کچھ شبہات کا ازالہ

1 : کچھ لوگوں کو جب اس کام سے روکا جائے تو وہ کہتے ہیں : ” یہ تو ہم صرف ان کو متاثر کرنے کے لئے کر رہے ہیں ، اس سے وہ ایمان کے قریب آئیں گے “

جوابا : قرآن کی یہ آیت یاد رکھیں کہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا فرمایا : القرآن – سورۃ نمبر 2

وَلَنۡ تَرۡضٰى عَنۡكَ الۡيَهُوۡدُ وَلَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمۡ‌ؕ قُلۡ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الۡهُدٰى‌ؕ وَلَئِنِ اتَّبَعۡتَ اَهۡوَآءَهُمۡ بَعۡدَ الَّذِىۡ جَآءَكَ مِنَ الۡعِلۡمِ‌ۙ مَا لَـكَ مِنَ اللّٰهِ مِنۡ وَّلِىٍّ وَّلَا نَصِيۡرٍ ۞

آپ سے یہودی اور نصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے کے، پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اور نہ مددگار ۔

لہٰذا دعوت کے کچھ اصول ہیں اور جو دعوت ان اصولوں کے خلاف ہوگی وہ کبھی نیکی نہیں ہو سکتی ۔

2 : ایک شبہہ لوگ یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ یہ حسن خلق میں سے ہے ، کیونکہ وہ بھی ہمیں عید پر مبارکباد دیتے ہیں پس اگر ہم انہیں دیوالی وغیرہ پر مبارکباد نہ دیں تو وہ ناراض ہو جائیں گے ۔

جواب : یاد رکھیں : اخلاق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے آئیڈیل تھے ، ان سے بڑھ کر کوئی اعلی اخلاق والا نہیں ہو سکتا ، مگر انہوں نے کبھی کسی بھی کافر یا یہودی کو ، ان کے تہوار میں مبارکبادی نہیں دی ، بلکہ اس کے برعکس یہود کی مخالفت کرتے ہوئے ہمیں دو روزے رکھنے کا حکم دیا ہے ،

نیز صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے دنیاوی امور میں بھی ( جو ان کا شعار ہو ) ہمیں ان کی مخالفت کرنے کا حکم دیا ہے ، مثلاً : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

عن ابن عمر، قال: قال رسول الله r: «أَحْفُوا الشَّوَارِبَ وأَعفوا اللِّحَى»

یعنی : ڈاڑھی کو لمبا کرو اور مونچھوں کو کترو ۔

پس جب یہود و نصاری سے مشابہت جائز نہیں بلکہ ان کی مخالفت کا حکم ہے تو یہ مشرک قوم کی مشابہت سے تجاوز کرتے ہوئے ان کے شرکیہ تہوار میں شریک ہونا کہاں سے جائز ہو سکتا ہے ؟؟؟ یہاں سے معلوم ہوگیا دیوالی کی مبارکباد کیسا ہے اور مزید پڑھیں

تنبیہ : عموماً لوگ دیوالی کی مبارکباد دینے کے مسلئہ کو بہت معمولی سمجھتے ہیں ، جبکہ میں واضح کر دوں کہ یہ مسئلہ صرف مبارکباد دینے کا نہیں بلکہ کفر و شرک کا ہے ،

وہ اس طرح کہ اس دن ان کے یہاں لکشمی دیوی کی پوجا ہوتی ہے ، دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو اللہ کے ساتھ شرک ہوتا ہے ،

ذرا سوچیں کہ آپ انہیں کس چیز کی مبارکبادی دے رہے ہیں ، لکشمی دیوی کی پوجا کرنے کی یا اللہ کے ساتھ شرک کرنے کی ؟؟؟ ( نعوذباللہ )

اس لئے اللہ کے واسطے ذرا ہوش کے ناخن لیں ، اپنی اولاد کو اسلامی تعلیمات دیں ، حلال اور حرام میں فرق بتلائیں ، جس طرح ان کے دل میں بھوت پریت کا ڈر پیدا کرتے ہیں اس کے بدلے کفر و شرک اور بدعات و خرافات کا ڈر و خوف پیدا کریں ، ابھی سے ہمارے ایمان میں ملاوٹ نظر آ رہی ہے ، آنے والی نسل کے پاس اگر ایمان کی دولت ہی نہیں بچی تو پھر کیا فائدہ ایسی زندگی کا ، لہٰذا جس طرح دینی اعتبار سے ان کے مستقبل کی آپ ہمیشہ فکر کرتے ہیں اسی طرح دینی اعتبار سے فکر کرنا بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے

اور یہ وقت غیر قوموں کو مبارکباد دیکر مداہنت کا ثبوت دینے کا نہیں بلکہ ایمان پر استقامت اختیار کر کے انہیں اسلام کی صحیح دعوت دینے کا ہے

اللہ ہم سب کو ایمان پر استقامت اختیار کرنے کی توفیق دے اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے دیوالی کی مبارکباد پر حکم شرعی سمجھ میں آگیا ہوگا، آمین

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

ایک اور بھی تحریر کو دیکھیں

دیوالی کی مبارکباد اور ہم

اشہد شیرازی فلاحی

اس وقت میری تحریر کا موضوع نہ دیوالی کی مبارک باد پیش کرنے کی شرعی حیثیت سے متعلق ہے اور نہ مبارک باد پیش کرنے والوں کو صحیح یا غلط قرار دینے سے بلکہ سرِ دست جو بات پیشِ نظر ہے وہ ان فقہی مباحث سے پرے خالص ایک مسلمان کے مقام و منصب اور اس مقام و منصب کے تقاضوں سے متعلق ہے….گزشتہ کل سے ہی ہمارے مسلم بھائیوں کی طرف سے دیوالی کی مبارک باد پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے، غیر اسلامی تہواروں کی مبارک باد پیش کرنے کے سلسلے میں اپنے مسلم بھائیوں کی اس گرمجوشی کو دیکھ کر اور پھر یہ سوچ کر بڑی حیرت ہوئی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ غیر مسلم بھائیوں کو ہولی، دیوالی اور رکھشا بندھن کی مبارکباد دینے کی تاریخیں ہمیں خوب یاد رہتی ہیں، لیکن ان تک توحید کا پیغام پہنچانے کا خیال ایک مرتبہ بھی نہیں آتا… جس طرح ہم اپنے غیر مسلم دوستوں کو ان کے تہواروں پر wish کرنے کے لیے exited رہتے ہیں کیا اسی طرح کبھی ہمارے ذہنوں میں ان کو صحیح اور غلط کا فرق سمجھانے کا نیک خیال بھی آتا ہے؟؟ اگر نہیں… تو کیوں ؟؟ جان لیجیے کہ اسلام کی دعوت ہی مسلم اور غیر مسلم کے آپسی Relation کی واحد بنیاد ہے، مسلم قوم کا رشتہ دنیا کی دیگر اقوام سے داعی اور مدعو کا رشتہ ہے، خدا کی طرف سے ہم انسانوں کو توحید اور دینِ حق کی طرف بلانے کے مکلّف بنائے گئے ہیں نہ کہ انسانوں کے گمراہ کن تہواروں کی مبارک باد پیش کرکے ان کی گمرہی کی مزید حوصلہ افزائی کرنے کے، لیکن کس قدر حیرت کی بات ہے کہ جن چیزوں میں ہمارے وطنی بھائیوں کا خسارہ ہی خسارہ ہے، اس کی مبارک باد تو ہم بڑھ چڑھ کر پیش کرتے ہیں، لیکن جن چیزوں میں اللّہ کے بندوں کے لیے خیر ہی خیر ہے اسے پیش کرنے میں ہم شرماتے ، لجاتے اور ہچکچاتے ہی رہ جاتے ہیں-

اس وقت مسلمانوں کی جتنی تعداد دیوالی کی مبارک باد پیش کرنے میں پرجوش ہے اگر دین کے صحیح فہم کے حصول اور اس کی دعوت کو لوگوں تک پہنچانے میں سرگرم ہوجائے تو پھر صورتحال کا نقشہ بدل سکتا ہے-

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x