دوستی کس سے کریں اچھے دوست کی پہچان – ایک دلربا واقعہ

دوست کی صفت یہ ہے کہ وہ عقل مند ہو دوستی کس سے کریں مکمل جانکاری اس کو پڑھ کر حاصل کرلیں گے امام غزالی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : بےوقوف کے ساتھ بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں ، اس کا ساتھ کتنا ہی طویل ہو انجامِ کار وَحْشَت اور جدائی ہوتا ہے۔ عقل مند کی صحبت اختیار کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ بےوقوف شخص اگر تمہیں فائدہ پہنچانے اور تمہاری مدد کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو پھر بھی تمہیں نقصان پہنچاتا ہے اور اسے اس بات کا علم بھی نہیں ہوتا۔ کہا گیا ہے کہ بے وقوف سے دوری اختیار کرنا اللہ پاک کے قُرْب کا ذریعہ ہے۔
(احیاء العلوم ، کتاب : آداب الالفۃ …الخ ، باب : الاول ، جلد : 2 ، صفحہ : 211 ملتقطًا)

ایک دلربا واقعہ

کہتے ہیں دوستی کس سے کریں اس پر یہ واقعہ سمجھیں : ایک شِکاری ایک مرتبہ جنگل میں شِکار کرنے گیا ، اس نے دیکھا کہ وہاں ایک بندر ہے ، جس کے پاؤں میں کانٹا چبھا ہوا ہے ، شِکاری کو بندر پر ترس آیا اور اس نے وہ کانٹا نکال دیا ، بس! اسی ہمدردی کی بِنا پر بندر اور شِکاری کی دوستی ہو گئی ، بندر شِکاری کے ساتھ ہی رہنے لگا ، لوگوں نے شِکاری کو بہت سمجھایا کہ بندر ایک بےوقوف جانور ہے ، اس کی دوستی تمہیں نقصان پہنچائے گی مگر شِکاری نے کسی کی بات پر توجہ نہ دی۔

ایک دِن یوں ہوا کہ شِکاری سو رہا تھا ، بندر اس کے قریب بیٹھا اسے ہوا دے رہا تھا ، اچانک ایک مکھی کہیں سے آئی اور شِکاری کے ناک پر بیٹھ گئی ، بندر نے شِکاری سے ہمدردی کرتے ہوئے اس مکھی کو اُڑایا مگر مکھی ذرا ضِدِّی ہوتی ہے ، بندر نے ایک بار مکھی اُڑائی ، وہ پھر وہیں آ کر بیٹھ گئی ، چند بار یونہی ہوا؛ آخر بندر کو غُصَّہ آیا اور اس نے اپنی طرف سے اپنے دوست سے ہمدردی کرنی چاہی اور ایک پتھر اُٹھا کر ناک پر بیٹھی مکھی کو دے مارا ، مکھی تو اُڑ سکتی تھی ، وہ اُڑ گئی ، پتھر شِکاری کے ناک پر لگا اور وہ زخمی ہو گیا۔ بےوقوف کی دوستی کا یہی انجام ہوتا ہے ، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم عقل مند کے ساتھ دوستی کریں

ہم جس سے دوستی کریں وہ دُنیا کا حریص نہ ہو

ہمیں جسے دوست بنانا ہے ، اس کی خوبی یہ ہو کہ وہ دُنیا کا لالچی نہ ہو۔ کیونکہ لالچی انسان چار پیسوں کی لالچ میں کچھ کا کچھ کر ڈالتا ہے۔

تیسری روٹی کہاں گئی…؟

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام کی خدمت میں ایک آدَمی نے عرض کیا : یَا رُوْح اللہ! میں آپ کی صحبتِ بابَرَکت میں رہ کر خدمت کرنا اور علمِ شریعت حاصِل کرنا چاہتا ہوں ، آپ عَلَیْہِ السَّلام نے اُس کو اجازت دے دی ، چلتے چلتے جب دونوں ایک نَہَر کے کَنارے پہنچے تو آپ عَلَیْہِ السَّلام نے فرمایا : آؤ کھانا کھا لیں! آپ عَلَیْہِ السَّلام کے پاس 3 روٹیاں تھیں ، جب ایک ایک روٹی دونوں کھا چکے تو حضرتِ عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام نَہَر سے پانی نوش فرمانے لگے ، اُس شخص نے تیسری روٹی چُھپا لی ۔ جب آپ عَلَیْہِ السَّلام پانی پی کر واپَس تشریف لائے تو روٹی موجود نہ پا کر فرمایا : تیسری روٹی کہاں گئی ؟ اُس نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا : مجھے نہیں معلوم ، آپ عَلَیْہِ السَّلام خاموش ہو رہے ۔
تھوڑی دیر بعد فرمایا : آؤ آگے چلیں! رستے میں ایک ہرنی ملی جس کے ساتھ 2 بچّے تھے ، آپ عَلَیْہِ السَّلام نے ہرنی کے ایک بچّے کو اپنے پاس بلایا ، وہ آگیا ، آپ عَلَیْہِ السَّلام نے اُسے ذَبح کیا ، بُھونا اور دونوں نے مل کر کھایا۔ گوشت کھا چکنے کے بعد آپ نے ہڈِّیّوں کوجَمْع کیا اور فرمایا : قُمْ بِاِذْنِ اللہ ( اللہ پاک کے حکم سے زندہ ہو کر کھڑا ہوجا ) ہِرنی کا بچّہ زندہ ہو کر اپنی ماں کے ساتھ چلا گیا۔ آپ عَلَیْہِ السَّلام نے اُس شخص سے فرمایا : تجھے اللہ پاک کی قسم! جس نے مجھے یہ معجزہ دکھانے کی قُدرت عطا کی ۔ سچ بتا ، وہ تیسری روٹی کہاں گئی ؟ وہ بولا : مجھے نہیں معلوم۔ فرمایا : آؤ آگے چلیں۔ چلتے چلتے ایک دریا پر پہنچے ، آپ عَلَیْہِ السَّلام نے اُس شخص کا ہاتھ پکڑا اور پانی کے اُوپر چلتے ہوئے دریا کے دوسرے کَنارے پہنچ گئے ، آپ عَلَیْہِ السَّلام نے اُس شخص سے فرمایا : تجھے اُس خدا کی قسم! جس نے مجھے یہ مُعجِزہ دکھانے کی قُدرت عطا کی ، سچ بتا کہ وہ تیسری روٹی کہاں گئی ؟ وہ بولا : مجھے نہیں معلوم۔ آ پ عَلَیْہِ السَّلام نے فرمایا : آؤ آگے چلیں۔ چلتے چلتے ایک ریگستان میں پہنچے ، آپ عَلَیْہِ السَّلام نے ریت کی ایک ڈھیری بنائی اور فرمایا : اے ریت کی ڈھیری! اللہ پاک کے حُکم سے سونا بن جا۔ وہ فوراً سونا بن گئی ، آپ عَلَیْہِ السَّلام نے اُس کے 3 حصّے کئے پھر فرمایا : یہ ایک حصّہ میرا ہے اور ایک حصّہ تیرا اور ایک حصّہ اُس کا جس نے وہ تیسری روٹی لی۔ یہ سُنتے ہی وہ شخص جھٹ بول اُٹھا : یَارُوْح اللہ! وہ تیسری روٹی میں نے ہی لی تھی۔ آپ عَلَیْہِ السَّلام نے فرمایا : یہ سارا سونا تُوہی لے لے۔ پھر اس شخص کو چھوڑ کر آگے تشریف لے گئے ۔ یہ شخص سونا چادر میں لپیٹ کر اکیلا ہی روانہ ہوا ، راستے میں اسے 2 شخص ملے ، اُنہوں نے جب دیکھا کہ اس کے پاس سونا ہے تو اس کو قتل کر دینے کے لیے تیّار ہو گئے تا کہ سونا لے لیں۔ وہ شخص جان بچانے کی خاطر بولا : تم مجھے قتل کیوں کرتے ہو ! ہم اس سونے کے 3 حصّے کر لیتے ہیں اور ایک ایک حصّہ بانٹ لیتے ہیں۔ وہ دونوں شخص اس پرراضی ہو گئے ۔ وہ شخص بولا : بہتر یہ ہے کہ ہم میں سے ایک آدمی تھوڑا سا سونا لے کر قریب کے شہر میں جائے اور کھانا خرید کر لے آئے تا کہ کھا ، پی ، کر سونا تقسیم کرلیں۔ چُنانچِہ ان میں سے ایک آدمی شہر پہنچا ، کھانا خرید کر واپَس ہونے لگا تو اس نے سوچا ، بہتر یہ ہے کہ کھانے میں زَہر ملا دُوں تا کہ وہ دونوں کھا کرمر جائیں اور سارا سونا میں ہی لے لوں ۔ یہ سوچ کر اس نے زَہر خرید کر کھانے میں ملا دیا۔ اُدھر اُن دونوں نے یہ سازش کی کہ جیسے ہی وہ کھانا لے کر آئے گا ہم دونوں مل کر اُس کو مار ڈالیں گے اور پھر سارا سونا آدھا آدھا بانٹ لیں گے۔چُنانچِہ جب وہ شخص کھانا لے کر آیا تو دونوں نے اُس کوقَتْل کر دیا۔ اس کے بعد خوشی خوشی کھا نا کھانے کے لئے بیٹھے تو زَہرنے اپنا کام کر دکھایا اور یہ دونوں بھی تڑپ تڑپ کر ٹھنڈے ہو گئے اور سونا جُوں کا تُوں پڑا رہا۔ پھر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام واپَس لوٹے تو چند آدَمی آپ عَلَیْہِ السَّلام کے ہمراہ تھے آپ عَلَیْہِ السَّلام نے سونے اور تینوں لاشوں کی طرف اشارہ کر کے ہمراہیوں سے فرمایا : دیکھ لو دُنیا کا یہ حال ہے پس تم پر لازِم ہے کہ اس سے بچتے رہو۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ دوستی کس سے کریں
(اِتحافُ السَّادَۃِ المُتّقِینَ ، کتاب : ذم البخل و ذم حب المال ، جلد : 9 ، صفحہ : 835)

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x