خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اور غلے والے کا واقعہ

“حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے جلیل القدر خلفاء، اکابر اولیاء اور عظیم القدر صوفیا میں سے تھے اور بڑے مقبول بزرگ تھے، ترکِ دُنیا اور فقر و فاقہ میں ممتاز تھے اور یاد الٰہی میں بڑے مستغفرق اور محو تھے، اگر کوئی آپ سے ملنے کے لیے آتا تو تھوڑی دیر کے بعد افاقہ ہوتا اور آپ اپنے آپے میں آتے، اس کے بعد آنے والے کی طرف متوجہ ہوتے، اپنی یا آنے والے کی بات کہہ سن کر فرماتے کہ اب مجھے معذور رکھو، اور پھر یاد الٰہی میں مشغول ہوجاتے اگر آپ کی کوئی اولاد فوت ہوجاتی تو اس وقت خبر نہ ہوتی تھوڑی دیر کے بعد آپ کو خبر ہوتی۔

خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کا واقعہ مکمل

آپ کے پڑوس میں ایک غلہ بیچنے والا رہتا تھا، شروع شروع میں آپ اس سے قرض لیتے تھے اور اس سے فرما دیتے کہ جب تمہارا قرض تیس درہم تک ہوجائے تو اس سے زیادہ نہ دینا، جب آپ کو فتوحات حاصل ہوتیں تو آپ قرض ادا فرمادیتے، اس کے بعد حضرت قطب الدین بختیار کاکی نے پختہ ارادہ فرمالیا کہ کبھی قرض نہ لوں گا، اس کے بعد اللہ کے فضل و کرم سے ایک روٹی مصلے کے نیچے سے نکل آتی اسی پر تمام گھر والے گزارا کرلیتے، اس بنیے نے خیال کیا کہ شاید حضرت شیخ مجھ سے ناراض ہوگئے جو قرض نہیں لیتے، اس نے اپنی بیوی کو حالات معلوم کرنے کے لیے حضرت خواجہ کے گھر بھیجا، حضرت شیخ کی اہلیہ محترمہ نے صحیح صحیح حالت اس کی بیوی کو بتادی، اس کے بعد سے وہ روٹی ملنا بند ہوگئی (چونکہ آپ کو منجانب اللہ مصلے کے نیچے سے روٹیاں ملا کرتی تھیں جس پر آپ کے گھرانے کی گزر اوقات تھی اس لیے آپ کو کاکی کہتے ہیں کہ کاک افغانی زبان میں روٹی کو کہا جاتا ہے، اور چونکہ آپ بلا دیارا الہند کے قصبہ ازش کے رہنے والے تھے اس لیے آپ کو اوشی کہا جاتا ہے)۔

شیخ نظام الدین اولیاء سے منقول ہے، فرماتے ہیں کہ شیخ معین الدین اجمیری نے شیخ قطب الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو پانچ سو درہم تک قرض لینے کی اجازت دیدی تھی، لیکن جب آپ درجہ کمال پر پہنچے تو اس سے بھی ہاتھ اٹھالیا۔

خواجہ قطب الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے ابتدائی دور میں نیند کے غلبہ کے بعد تھوڑا سولیتے تھے لیکن آخری زمانہ میں یہ بھی بیداری سے تبدیل ہوگیا۔

شیخ محمد نور بخش نے اپنی کتاب ’’سلسلہ الذھب‘‘ میں آپ کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ ’’بختیار اوشی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بڑے ولی، سالک، مجاہد و ریاضت میں ممتاز اور خلوت و عزلت کو پسند کرنے والے، اپنے چلوں میں کم سونے والے، کم کھانے والے، کم بولنے والے اور ہمیشہ یاد الٰہی میں رہنے والے اور باطنی حالات و مکاشفات میں بڑے بلند پایہ تھے۔

مزار اقدس سرکار قطب الدین بختیار کاکی کون بختیار کاکی جن کے مرشد کریم سرکار غریب نواز سے کسی نے پوچھا سرکار اپ کا فیضان لینا ہو تو کہا ملے گا فرمایا

دہلی میں ایک قطب الدین بختیارکاکی ھے اسے مل لو

وہ بختیار کاکی جو بارگاہِ رسلت مآب صل اللہ علیہ وسلم میں روزانہ تین ہزار بار درود و سلام کا نذرانہ پیش کرے وہ بختیار کاکی جو مرشد کریم بابا فرید گنج شکر ہوں وہ بختیار کاکی جو ماں کے شکم سے پندرہ پاروں کا حافظ ہوں وہ بختیار کاکی جو مادر زاد ولی ہوں وہ بختیار کاکی جن کے مزار اقدس پر جاکر کوئی قادری غلام کہے میں قادری غلام ہوں نگاہ کرم سرکار اس کو فیوض و برکات فوراً عطا ہوں وہ بختیار کاکی جن کو سید اولیاء سرکار غوث پاک اپنا خرقہ عطا کرے رب کریم ہم سب کو اپنے مقربین کی محبت عطاء فرماے سرکار قطب الدین بختیار کاکی کے روحانی فیوض و برکات سے ملامال کرے قیامت کے دن ہمارا حشر و نشر بھی ان نفوس قدسیہ کے ساتھ فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین صل اللہ علیہ وسلم

فلک کے چاند ستاروں سے کوئی پوچھے مقام ان کا

تجلی ہی تجلی ہے جہاں لکھا ہوں نام………… ان کا

حضرت قطب الدین بختیار کاکی کی وفات پر ایک عجیب شخص کی آمد

حضرت خواجہ قطب الدین کاکی رحمۃاللہ علیہ کی جب وفات ہوئی

نماز جنازہ کے لیے میت کو لایا گیا تمام بڑا مجمع تہا ایک آدمی مجمع سے روتا ہوا باہر میت کے قریب پہنچا ۔کہنے لگا مجہے بختیار کاکی رحمت اللہ علیہ نے وصیت کی تھی میرا نماز جنازہ وہ شخص پڑھائے جس میں چار خوبیاں ہوں

۔۔۔1۔۔۔میری نماز وہ شخص پڑہائے جس نے پوری زندگی میں تکبیر تحریمہ قضا نہ ہو

۔۔۔2۔۔۔میری نماز جنازہ وہ شخص پڑہائے جس نےپوری زندگی میں عصر نماز کی چار رکعت سنت غیرمؤکدہ کی قضا نہ ہو

۔۔۔3۔۔۔خواجہ قطب الدین کی نماز جنازہ وہ شخص پڑھائے جس نے پوری زندگی میں تہجد کی قضا نہ ہو

۔۔۔4۔۔۔۔میری نماز جنازہ وہ شخص پڑھائے جس نے پوری زندگی میں غیر محرم عورت پر نظر نہ ڈالی ہو ۔۔۔۔۔۔

اتنے میں پورے مجمع میں سناٹا قائم ہوگیا

تہوڑی دیر کے بعد ایک آدمی روتا ہوا مجمع سے باہر نکلا میت کے قریب آکرکہنے لگا اے قطب الدین بختیار کاکی تودنیاسےچلا گیا لیکن مجہے دنیا میں خوار کردیا پہر کہنے لگا ۔۔۔۔۔ قسم اٹھا کر کہا الحمدللہ یے خوبیاں میرےاندر موجود ہیں یے شخص کون تہا وقت کا بادشاہ حضرت شمس الدین التمش تہا۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے حکمران نصیب فرمائے۔

بیــعت بھی عجیب چیز ہے

حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے عرض کی کہ:

” میں نے عجیب کیفیت دیکھی ہے۔پہلے آپ کا رنگ متغیر ہو گیا تھا اور پِھر کچھ وقت کے بعد بحال ہو گیا تھا اس کی کیا وجہ تھی؟ ”

فرمایا:

” جب لوگ اس میّت کو دفن کر کے چلے گئے تو اسے عذاب دینے کے لیے دو فرشتے آئے۔وہ اسے عذاب دینا چاہتے تھے کہ حضرت عثمان ہارونی ( رحمۃ اللّٰه علیہ )

کی صُورت سامنے آ گئی۔آپ ہاتھ میں عصا لیے ہوئے تھے۔آپ نے فرمایا اے فرشتو! یہ ہمارے مُریِدوں میں سے ہے اسے عذاب نہ دو۔فرشتوں نے کہا!

آپ کا یہ مُریِد آپ کے طریقے پر نہ چلتا تھا۔آپ نے فرمایا! اگرچہ یہ میرے طریقے کے خلاف چلتا تھا،لیکن اس نے اپنا ہاتھ فقیر کے دامن میں ڈالا ہُوا ہے۔

غیب سے حُکم ہُوا اے فرشتو! اسے چھوڑ دو ہم نے اس کے پِیر کے طفیل اس کے گناہ بخش دیے۔طریقت کی بیعت ایسے کٹھن مرحلے میں کام آتی ہے۔

( مرآت العاشقین،صفحہ۲۲۱،۲۲۲ )

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x