خواتین میں پردے کا رجحان کم سے کم تر

جرمنی کے بادشاہ گلیوم جب دورہ ترکی پر روانہ ہوئے یہ خواتین میں پردے کا رجحان سمجھ میں آئےگا تو ترکی کی انجمن اتحاد و ترقی کے ممبران نے ان کو متاثر کرنے کے لیے اسکول کی جواں سال لڑکیاں کو بے پردہ و آراستہ کر کے ان کے استقبال کے لیے کھڑا کر دیا۔ لڑکیوں نے بادشاہ کو گلدستے پیش کیے۔ گلیوم بادشاہ مارے حیرت و افسوس کے کچھ دیر تو بول ہی نہ سکا۔ آخر ان کے زمہ داران سے کہنے لگا کہ میری تو یہ خواہش تھی کہ میں ترکی میں جاہ و حشمت اور پردہ داری کے مناظر دیکھوں کیوں کہ تمھارے دین کا تو یہی حکم ہے، لیکن میں تو یہاں اس بے پردگی کا مظاہرہ دیکھ رہا ہوں جس سے ہم یورپ میں تنگ آچکے ہیں۔ جس کے باعث خاندانوں کے خاندان برباد ہو رہے ہیں۔

ترکی میں تو بے پردگی کو طاقت کے زریعے فروخت دیا گیا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ وہاں کے لوگ اس کے عادی ہو گئے۔ اب حال یہ ہے کہ ترکی کی سرزمین پر کھڑے ہو کر ارد گرد موجود خواتین کے لباس کو صرف ایک نظر دیکھا جائے تو یہ بات کہنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی کہ یہ تو کوئی غیر مسلم ملک لگ رہا ہے۔ جب کہ وہاں جابجا مساجد نظر آئیں گی اور اذان کی آواز بھی سنائی دے گی۔ وہاں ایک کسی ہوئی جینز پر کسی ہوئی شرٹ پہن کر کترن نما کپڑے کو کس کر سر کے گرد لپیٹنے کا نام حجاب دیا گیا، جس میں سینے سے لے کر تمام جسمانی اعضاء اپنے طول و عرض کی مکمل آگاہی فراہم کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ عرصے سے یہی حال ملک خدادا میں بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔ خاص طور پر اپر مڈل کلاس اور اپر کلاس کے ہاں جو لوگ کچھ عرصہ باہر رہ کر واپس پلٹے ہیں یا انتہائی پوش علاقوں میں رہتے ہیں۔ ان کے ہاں حجاب کا وہ ہی مطلب لیا جاتا ہے جو لبرلزم کا شکار ممالک یا غیر مسلم ممالک میں لیا جاتا ہے۔ چلیں یہ تو ایک طبقے کی بات ہوئی لیکن اگر حیا کے مکمل مفہوم والے اس پردے کی بات کی جائے جس کا حکم دین اسلام نے خواتین کو دیا ہے تو وطن عزیز میں اس عظیم حکم ربی یعنی پردے کو میں جس طرح اترتا ہوا دیکھ رہی ہوں، گمان ہے کہ کچھ ہی عرصے میں ہم اس معاملے میں اپنے بھائی ترکی کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ کچھ سالوں پہلے تک بچیوں میں آستینوں کے بغیر کپڑے پہننے کا کوئی رواج عام نہیں تھا مگر اب بازاروں میں مکمل آستین والے کپڑے ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔ باقی دوپٹہ تو بائک صاف کرنے والے کپڑے جتنا سکڑتا جا رہا ہے۔ دس سے پندرہ سال کی بچیوں کے ملبوسات میں نیٹ کا ایک انتہائی پتلا سا پٹا لگا دیا جاتا ہے، جسے دوکاندار بڑے فخر سے دوپٹے کا نام دیتا ہے۔ عام گھریلو خواتین جارجٹ یا نیٹ کے کپڑے سلواتے ہوئے استر کا کپڑا انتہائی چھوٹا رکھتی ہیں اور آستینوں میں تو وہ بھی لگانے کی زحمت نہیں ہوتی۔ موٹے موٹے گول ہاتھ بازووں تک اپنی دستان سنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ کچھ خواتین کا عبایا محض گدے پر استر کے مترادف ہوتا ہے یعنی جسم سے بلکل چپکا ہوا۔ اس پر بڑا سا جوڑا اسکارف سینے سے اوپر گردن میں تین چار بل دیے ہوئے جھول رہا ہوتا ہے۔ شرعی پردہ کرنے والیوں کو آؤٹ آف فیشن سمجھا جاتا ہے۔

خواتین میں پردے

پھر ان سب کے بعد وہ خواتین آتی ہیں جو عام زندگی میں بہت اچھے طریقے سے عبایا لیتی ہیں اور اپنے پردے کا خیال رکھتی ہیں مگر شادی بیاہ میں ناجانے ان کو کون سا دورہ پڑتا ہے کہ سارا پردہ بھول بھال کر مس ورلڈ بن کر حسن کے وہ جلوے بکھیرتی ہیں کہ ہر ایرا غیرا نہ صرف دیکھتا ہے بلکہ اکثر تو فرماتے ہیں ارے بھابی آج تو آپ پہچانی نہیں جا رہیں اور بے چارہ بھائی اور بے چاری بھابی اس جملے پر خوشی سے نہال ہو جاتے ہیں۔ مطلب وہ پردے کا نظریہ شادی ہال میں جانے کے لیے تبدیل ہو جاتا ہے۔ کچھ خواتین تیار ہوتی ہیں گھروں سے عبایا یا چادر لے کر شادی ہال میں جا کر اتار دیتی ہیں کوئی پوچھے، بھی کیا یہاں سب آپ کے محرم ہیں؟ آخر مسئلہ کہاں ہے ؟ مسئلہ ہمارے اندر ہے ہم سب اپنی اپنی سوچ اور خوشی کے مطابق پردے کے مفہوم کو سمجھتے اور اس حکم کو بجا لاتے ہیں۔ ہم میں سے ایسی خواتین بہت کم ہیں جو حقیقتاً پردے کو اس طرح ہی لیتی ہیں کہ جس طرح اللہ کریم نے لینے کا حکم دیا ہے۔
آج ہمارے ارد گرد بے حیائی کا راج ہے۔ خواتین کا بے پردہ ہو کر گھومنا کوئی معیوب بات نہیں۔ چھوٹے علاقے ہوں یا پوش علاقے عبایا یا چادر کے بغیر خواتین آپ کو جابجا نظر آئیں گی۔ یہاں صرف خواتین ہی قصور وار نہیں بلکہ پڑھا لکھا کہلانے کے شوق میں وہ مرد جو دیوث بن چکے ہیں، وہ بھی ان کے اس عمل میں پورے پورے شریک ہیں۔ ان کی غیرت کمبل اوڑھ کر سو چکی ہے، نہ انہیں اپنی آخرت کی فکر ہے اور نہ اپنے گھر کی خواتین کی۔ ایک اسلامی معاشرے میں پردے کو ایک اہم اور اولین حیثیت حاصل ہے مگر افسوس کہ آج ہمارے معاشرے میں اس عظیم حکم کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ بے راہ روی اور بے حیائی کا دور دورہ ہے۔ ایک سوچی سمجھیں اسکیم کے تحت مسلمانوں کے اس جاہ و حشمت والے رواج کو زوال پزیر کیا جارہا ہے۔

زرا غور کریں کہ آج ہم نے کن سے متاثر ہو کر طرز زندگی کو ان کی سوچ پر ڈھال دیا ہے؟ جب ایک قوم یا امت اپنے دینی رواج و احکامات سے روگردانی کرتی ہے تو وہ کسی اور امت یا قوم کو فالو کر رہی ہوتی ہے اور آج ہم بھی اغیار کے لائف اسٹائل کو فالو کرنے میں اندھا دھن مگن ہیں اور حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جس نے جس قوم کی تقلید کی وہ ان میں سے ہی ہے۔ جب انسان اپنوں سے دور ہوتا ہے تو غیروں کے قریب ہوجاتا ہے۔ اسلام ہمارا اپنا تھا مگر ہم نے اسے چھوڑ کر کسی اور کے دین کو اپنا بنا لیا۔ یہ وقت ہے فکر کرنے کا ہمارا اسلامی معاشرہ بے حیائی کے دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ ہوش کریں کہیں آپ کی نسل بھی اس دلدل میں نہ گر جائے۔ یہ خواتین میں پردے کا اہتمام کو سمجھنے میں مدد ملےگا
وما علینا الاالبلاغ

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x