خصائص فتاوی رضویہ : ایک جائزہ ✺
تصنیف: مفتی محمد کمال الدین اشرفی مصباحی راۓ بریلی
تعارف و تبصرہ ✍️ وزیر احمد مصباحی بانکا
_
عہد حاضر میں اختلاف و انتشار کی مسموم فضا بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ آئے دن سوشل میڈیا کے توسط سے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی و کردار کشی کو جس طرح کچھ افراد نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے وہ واقعی افسوس ناک ہے۔ لیکن ہماری جماعت میں اب بھی کچھ ایسے سنجیدہ مزاج، علم دوست اور تحقیق و تصنیف سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں، جن کی موجودگی خوشی و مسرت کا باعث ہے۔ ان گوہر نایاب کو دیکھ کر یہ یقین ہوتا ہے کہ نہیں؛ علمی و ادبی اور فکری و تعمیری فتوحات کی جہت سے ہماری جماعت نہ تو کبھی افسردگی کے زد میں آئے گی اور نہ ہی علمی یتیمی کا رونا روئے گی۔ ان شاءاللہ
انہی نوجوان اصحابِ علم کی جماعت میں ایک باکمال نام مفتی محمد کمال الدین اشرفی مصباحی [صدر مفتی و شیخ الحدیث: ادارۂ شرعیہ اتر پردیش، رائے بریلی] کا بھی ہے خصائص فتاوی رضویہ کے مصنف ۔ حالیہ دنوں منظر عام پر آنے والی ان کی کتاب “خصائص فتاویٰ رضویہ” اہل علم و دانش کے یہاں خوب چرچے میں ہے۔ یہ اس عظیم فقہی انسائیکلوپیڈیا کی خصوصیات و امتیازات اور محاسن و کمالات پر مشتمل ہے، جسے فقیہ اسلام، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی [۱۸۵۶ء/۱۹۲۱ء] کا تحقیقی شاہکار کہا جاتا ہے۔
خصائص فتاوی رضویہ
زمانہ شاہد ہے کہ مفکر اسلام، مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان حنفی بریلوی قدس سرہٗ العزیز نے اپنی پوری زندگی دین حنیف کی آبیاری اور اعلاے کلمۃ اللہ میں صرف کر دی خصائص فتاوی رضویہ دیکھے تو معلوم ہوگا۔ رب کریم نے علم و عمل اور فکر و نظر کی ایسی قوت عطا فرمائی تھی کہ آپ نے جہاں دینی و ملی مسائل کا حل شافی و وافی انداز میں عنایت فرمایا وہیں تصنیف و تالیف کی جہت سے بھی آپ کا قلم حق رقم کبھی رکنے نہ پایا، بلکہ وہ بگٹٹ دوڑتا ہی رہا یہاں تک کہ اہل زمانہ نے ان کے علمی فتوحات کا بسر و چشم اعتراف کا اور ان کی بارگاہ سے علم و ہنر کی روشنی کشید کرنے والوں نے زمانے بھر کو تابندگی بخشی۔
مؤلف کتاب ہذا [خصائص فتاویٰ رضویہ] بلاشبہہ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے امام احمد رضا قدس سرہٗ کے اس گوہر کمال [فتاویٰ رضویہ شریف] کی جانب توجہ کرکے افادہ و استفادہ کی راہیں آسان کر دیں۔ آج الم غلم لکھنے والے خوب پائے جاتے ہیں، مگر تحقیقی شعور کے متحمل افراد انتہائی قلیل۔ خدا کا شکر ہے کہ موصوف گروہ ثانی میں اپنا نام کمال ہنر مندی کے ساتھ اوج کی طرف لے جا رہے ہیں۔ مؤلف کی تعمیری شخصیت کے حوالے سے مبلغ اسلام، علامہ عبد المبین نعمانی مصباحی لکھتے ہیں کہ: “مقالہ نگار بڑی خوبیوں کے عالم ہیں، جد و جہد کے خوگر ہیں، علمی دینی کاموں میں جب جٹ جاتے ہیں تو کمال کا جوہر دکھاتے ہیں، بہترین مدرس ہیں اور ایک اچھے مفتی بھی، درجن کے قریب کتابوں کے مصنف اور باصلاحیت خطیب بھی، خاصی تعداد میں مقالات و مضامین بھی آپ کے قلم حقیقت رقم سے نکل کر جلوے بکھیر رہے ہیں، آپ سنجیدگی کے پیکر ہیں، انانیت اور تعلی سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ فراغت کے بعد بیس سال کی مختصر سی عمر میں آپ کی دینی و علمی خدمات دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اور مسرت بھی۔ بالجملہ مولانا موصوف آج کے نوجوان علما کے لیے ایک قابل تقلید اور لائق عبرت شخصیت کے مالک ہیں۔” [کتاب ہذا، ص:۳۲، ملخصاً] مادر علمی “جامعہ اشرفیہ مبارکپور” میں طلبۂ جماعت تخصص کو فرداً فرداً کسی فقہی موضوع پر ماہر استاد کی نگرانی میں تقریباً سو صفحات پہ مشتمل تحقیقی مقالہ تحریر کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے دو سال کی معیاد متعین ہوتی ہے تا کہ مواد اور زبان و بیان کے اعتبار سے اس کی جانچ کرکے انھیں نمبر و تخصص کی سند سے سرفراز کیا جائے۔ مجھے لگتا ہے کہ مذکورہ اقتباس میں لفظ “مقالہ نگار” لکھنے کی وجہ غالباً یہی ہے۔ چونکہ زیر تبصرہ کتاب بھی اسی سو صفحات پر محیط مقالہ کی جدید شکل ہے جسے مرتب موصوف نے تخصص فی الفقہ الحنفی میں داخلہ کے بعد خیر الاذکیا، صدر العلما حضرت علامہ محمد احمد مصباحی دام ظلہ العالی [سابق صدر المدرسین و موجودہ ناظم تعلیمات: جامعہ اشرفیہ مبارک پور] کے منتخب کردہ عنوان “خصائص فتاویٰ رضویہ” کے تحت رقم کیا تھا۔ اس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے مؤلف موصوف خود لکھتے ہیں کہ: “۲۰۰۱ء میں راقم السطور نے جب فضیلت سے فراغت حاصل کرکے تخصص فی الفقہ الحنفی میں داخلہ لیا خیر الاذکیا، صدر العلما حضرت علامہ محمد احمد مصباحی دام ظلہ العالی نے ناچیز کے لیے” خصائص فتاویٰ رضویہ” کا عنوان منتخب فرمایا اور میں نے فتاویٰ رضویہ کی متعدد جلدوں و مقامات سے کچھ خصائص اور محاسن و کمالات سپرد قرطاس کرکے مصباحی صاحب کے پاس جمع کیا، جسے استاد گرامی علامہ صدر الوری قادری مصباحی نے چیک کرکے امتیازی نمبروں سے نوازا۔ خصائص فتاوی رضویہ پھر ۲۰۰۸ء/ بمطابق ۱۴۲۹ھ میں اسی عنوان پر جامعہ کے تخصص فی الفقہ کے مختلف طلبا سے چند سالوں میں جلد دوم سے دوازدہم تک متعدد مقالات لکھوائے گیے۔ ۲۰۱۸ء میں ان تمام مقالات پر نظر ثانی کے بعد “فتاویٰ رضویہ جہان علوم و معارف” کے نام سے تین جلدوں میں وہ سارے مقالات المجمع الاسلامی مبارک پور سے شائع بھی ہوئے لیکن میرا مقالہ شائع ہونے سے رہ گیا۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ میرا مقالہ کسی خاص جلد کے تحت نہیں تھا۔ حضرت صدر العلما دام ظلہ العالی نے مجھے فون پر اس کو الگ سے مستقل طور پر شائع کرنے کا مشورہ دیا اور اب مزید اضافہ اور دیدہ زیب ہو کر کتابی شکل میں قارئین کے مطالعہ کی میز پر ہے۔ خصائص فتاوی رضویہ” [ کتاب ہذا، ص: ۱۳ تا ۱۶، ملخصاً] ویسے تو یہ کتاب ۳۰۴/ صفحات پر مشتمل ہے، مگر اصل مضمون کی ابتدا ص:۴۰/ سے ہوتی ہے اور ماقبل کے تمام صفحات کلمات تقریب و تقدیم کے ساتھ متعدد تقاریظ جیسے: تقریظ جلیل، جمیل، عدیل اور نبیل وغیرہ کے نذر ہو کر رہ گیے ہیں۔ شروع میں فہرست کتاب بھی شامل ہے جسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ صاحب کتاب نے اس کی نوک و پلک سنوار کر طباعت و اشاعت کا منصوبہ بخوبی پایہ تکمیل کو پہنچایا ہے۔ تقریظ و دعائیہ کلمات تحریر کرنے والوں میں سراج الفقہاء مفتی محمد نظام الدین رضوی برکاتی مصباحی خصائص فتاوی رضویہ [ شیخ الحدیث و صدر شعبہ افتا و تدریس: جامعہ اشرفیہ مبارک پور] فقیہ النفس مفتی مطیع الرحمن مضطر رضوی، مفتی محمد ایوب خان صاحب قادری نعیمی، حضرت علامہ عبد الودود فقیہ، مبلغ اسلام علامہ عبد المبین نعمانی مصباحی، ڈاکٹر امجد رضا امجد اور محدث عصر حضرت مولانا صدر الوری قادری مصباحی وغیرھم کے نام بالترتیب شامل ہیں۔ فتاوی رضویہ شریف کے خصائص و کمالات پر جس جامعیت کے ساتھ مؤلف موصوف نے سیر حاصل بحث کی ہے وہ فتاوی رضویہ کے تعارف و تبصرہ کے لیے بھرپور ہے۔ بلاشبہ فقہ و حدیث میں امام احمد رضا قدس سرہ کی رمز شناسی انتہائی کمال کو پہنچی ہوئی تھی، چودہویں صدی کی کتب فقہ میں فتاوی رضویہ کو جو انفرادیت حاصل ہے وہ کسی بھی کتاب کے حصے میں نہیں آئی۔ قرآن و حدیث سے مزین فتاوی کی بدولت آپ نے پوری امت مسلمہ کو اپنی فقہی بصیرت سے فیض پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی ایک ایک دن میں پانچ پانچ سو سوالات جمع ہو جاتے تھے۔ آپ لکھتے ہیں: ” فقیر کے یہاں علاوہ رد وہابیہ خد لھم اللہ تعالیٰ و دیگر مشاغل کثیرہ دینیہ کے کار فتاوی اس درجہ اس قدر وافر ہے کہ دس مفتیوں کے کام سے زائد ہے، شہر و دیگر بلاد و امصار و جملہ اقطار ہندوستان و بنگال و پنجاب و مالیبار و برہما و ارکان و چین و غزنی و امریکہ و افریقہ حتی کہ سرکار حرمین محترمین سے استفتا آتے ہیں اور ایک وقت میں پانچ پانچ سو جمع ہو جاتے ہیں۔” خصائص فتاوی رضویہ [ فتاویٰ رضویہ، جلد:۴، ص: ۱۴۸، مطبوعہ: رضا اکیڈمی،بحوالہ کتب ھذا، ص: ۴۳] محدث بریلوی کی اسی فقہی مہارت کو دیکھتے ہوئے کثیر اہل علم نے آپ کی شان فقہات کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ سید اسماعیل بن خلیل مکی نے فتاویٰ کے فقہی عناصر کو دیکھ کر فرمایا کہ: “ہمارے آقا نے فتاویٰ پر مشتمل ہمیں نمونے کے طور پر چند اوراق عنایت فرمائے، ہمیں اللہ عزشانہٗ سے امید ہے کہ ان کی تکمیل کے لیے آپ کے اوقات میں آسانی اور جلدی کے مواقع عطا فرمائے گا چونکہ وہ خالص علمیت پر مبنی ہیں ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آپ کو آخرت میں سرخروئی عطا فرمائے گا اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ ان فتوؤں کو اگر امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ دیکھتے تو یقیناً ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچتی اور اس کے مؤلف کو اپنے خاص تلامذہ میں شامل فرماتے۔”
[الاجازت المتنیہ، ص: ۹/ بحوالہ، خصائص فتاویٰ رضویہ،ص: ۴۵]
مارہرہ شریف کے مشہور عالم دین سید شاہ اولاد رسول محمد میاں مارہروی فقہی بصیرت کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ:
“اعلی حضرت کو میں ابن عابدین پر فوقیت دیتا ہوں کیوں کہ جو جامعیت اعلی حضرت کے ہاں ہے وہ ابن عابدین شامی کے ہاں نہیں۔” [مقدمہ امام احمد رضا کی فقہی بصیرت، ص: ۲۴، بحوالہ خصائص فتاویٰ رضویہ، ص: ۴۴]
اسی طرح شاعر مشرق علامہ اقبال نے فرمایا کہ:
“میں نے ان کے فتاویٰ کے مطالعہ سے یہ رائے قائم کی ہے کہ ہندوستان کے دور آخر میں ان جیسا طباع و ذہین فقیہ پیدا نہیں ہوا، ان کے فتاویٰ ان کی ذہانت، فطانت، جودت طبع، کمالات فقاہت اور علوم دینیہ میں تبحر علمی کے شاہد عدل ہیں۔” خصائص فتاوی رضویہ
[مقالات یوم رضا لاہور، ص:۹، شمارہ: ۱۹۷۱ء بحوالہ: خصائص فتاویٰ رضویہ]
یہ فقہی تدریس کا ہی کمال تھا کہ آپ اپنے سائلین و مستفتیان کو انہی کی زبان میں جواب عنایت فرماتے، یہی وجہ ہے کہ احکام شرعی جاننے والوں میں ایک بڑی تعداد ان حضرات کی ہے جو خود ماہر فکر و دانش تھے۔ جہاں دینی درسگاہوں کے علما و فضلا نے آپ کی طرف رجوع فرمایا وہیں عصری دانش گاہوں کے اہل علم و ادب نے بھی مسائل کی دریافت کے لیے بریلی کا رخ کیا۔ ایک دفعہ مشہور ریاضی داں اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر سید ضیاء الدین مرحوم ریاضی کے ایک مسئلے میں الجھ گیے۔ اس کو حل کرنے کے لیے وہ جرمنی جانا چاہتے تھے لیکن قدرت ان کو امام احمد رضا قدس سرہ کی علمی چوکھٹ پر لے آئی، مسئلہ پیش کیا، ایک لمحہ میں آپ نے اسے حل فرما دیا، انھوں نے حیران ہو کر ارشاد فرمایا: “یہ علم لدنی ہے کسب و ریاضت سے حاصل نہیں ہوتا، یہ عطاے ربانی ہے۔”[ کتاب ہذا، ص: ۴۸] بلاشبہ فتاوی رضویہ میں ایسے مسائل بھی بیان ہوئے ہیں جن کو پہلے کسی جن اور انسان نے ہاتھ تک نہیں لگایا، جیسا کہ صاحب فتاوی رضویہ نے خود خطبہ میں اس امر کا اظہار فرما دیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں: ” لم یطمثھن قبلی انس و لا جان۔”[ صفۃ الکتاب، فتاوی رضویہ کامل ۱/۳۰۶، مطبوعہ امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف، بحوالہ کتاب ہذا،ص:۱۱] مؤلف کتاب لکھتے ہیں کہ: “فتاویٰ رضویہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام احمد رضا اس انداز سے تحقیق فرماتے ہیں کہ مسائل کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں، دلائل و شواہد فراوانی اس قدر کہ ایک اصل کے تحت کثیر جزئیات جمع کر لیتے ہیں، اصولوں کی روشنی میں استخراج و استنباط کرتے ہیں، فقہاے کرام کے اقوال میں اختلاف دیکھتے ہیں تو اپنی بالغ نظری سے ان میں تطبیق کی صورت پیش کرتے ہیں، اگر کہیں خفا یا ابہام محسوس کرتے ہیں تو ان کی توضیح پیش کرتے ہیں،علماے محققین سے اگر انجانے میں لغزش و خطا ہوئی ہے تو آپ اس کی بھی نشاندہی کرتے ہیں اور پوری تحقیق پیش کرتے ہیں، اور اگر خامیاں نظر آتی ہیں تو ان کی وضاحت کرتے ہوئے ادب کے ساتھ ان کا شمار تطفلات میں کرتے ہیں۔”[ص:۵۱، ملخصاً] زیر نظر کتاب کے ص:۵۲/ پر صاحب کتاب نے چند عناوین کی ایک فہرست پیش کی ہے اور پھر ان کی روشنی میں آئندہ صفحات پر اپنی محنت و لگن اور تلاش و تحقیق کے جوہر لٹائے ہیں۔ عناوین کچھ اس طرح ہیں: خصائص فتاوی رضویہ ✺ فتاویٰ رضویہ کا موضوعاتی اشاریہ ✺ رسائل رضویہ کی خصوصیات ✺ خطبہ کی فصاحت و بلاغت ✺ سائل اور مستفتی کی زبان و بیان کی رعایت ✺ متعارض اقوال میں تطبیق ✺ مختلف اقوال میں ترجیح ✺ غیر منصوص احکام کا استنباط اور ان کا حل ✺ غایت تحقیق و تنقیح ✺ حل اشکالات و توضیح مبہمات ✺ کثرت دلائل و شواہد ✺ کثرت علوم و فنون اور فتاوی میں ان کا استعمال ✺ اصلاح و موعظت ✺ لغزش و خطا پر تنبیہات ✺ علماے متقدمین پر تنقیدات ✺ مخالفین پر تعقبات
ص: ۷۴/ پر رسائل رضویہ کی خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے مؤلف موصوف نے چار اہم و موٹی خصوصیات کا شمار کچھ اس طرح کیا ہے کہ:
✺رسالوں کے نام عربی میں ہوتا ہے خواہ وہ رسالہ کسی بھی زبانمیں ہو۔
✺تمام رسالوں کے نام دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے اور دونوں حصوں کا آخری حرف ایک ہی ہوتا ہے۔ یعنی سجع کا پورا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔
✺ ہر نام اسم با مسمی ہوتا ہے
✺ ہر نام تاریخی ہوتا ہے
لگے ہاتھوں ص:۷۷ پر محدث بریلوی کے خطبہ کی فصاحت و بلاغت پہ مع تشریح سیر حاصل گفتگو شامل ہے۔ آپ دلکش اشارات، تلمیحات، استعارات، تشبیہات اور براعت استہلال و رعایت سجع وغیرہ اس طرح ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں کہ خطبے کی سلاست و روانی میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آتا۔ فتاوی رضویہ کا یہ وصف خاص ہے کہ یہاں مستفتی کے انداز سوال کا بھرپور خیال رکھا گیا ہے۔ جس زبان میں سوال ہوتا آپ جواب بھی اسی زبان میں عنایت فرماتے، چاہے وہ منظوم ہو یا غیر منظوم۔ صاحب کتاب نے (ص: ۸۵ تا ۱۰۰) اس حقیقت کی ترجمانی کے لیے جو فتاویٰ نقل فرمایا ہے ان کی تعداد کچھ اس طرح ہے: خصائص فتاوی رضویہ
✺اردومنظوم [۲] غیر منظوم [۱] ✺عربی منظوم مع ترجمہ [۱]
✺فارسی_ مع ترجمہ منظوم[۱] غیر منظوم [۱] ✺انگریزی غیر منظوم مع ترجمہ [۱]
متعارض اقوال میں تطبیق اور مختلف اقوال میں ترجیح کا فن یقیناً نہایت مشکل اور پیچیدہ ہے۔ ایک فقیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس امر کے اسرار و رموز سے بھی واقف ہوں تا کہ وہ بوقت ضرورت اپنے اور مستفتی کے ذہنی خلجان کو دور کر سکیں۔ امام احمد رضا کی اس دقیقہ سنجی پہ روشنی ڈالنے کے لیے مؤلف کتاب نے تقریباً ۲۵/ صفحات کا سہارا لیا ہے اور متعدد مسائل میں تطبیق و ترجیح کو نقل کیا ہے۔
متعارض اقوال میں تطبیق کے حوالے سے پانچ اہم مسائل: خصائص فتاوی رضویہ
❁اسراف پانی
❁ دفن میت کے بعد میت کے مکان پر رسم تعزیت
❁ غیر مسلموں کے ہدایا و تحائف قبول کرنا
❁ غیر حنفی المذہب کی اقتدا میں حنفی المذہب کی نماز
❁ الفاظ نکاح کے متعدد اقوال
کی روشنی میں فقیہ فقید المثال کی مہارت کو خوب اجاگر کیا گیا ہے۔ اسی طرح مختلف اقوال میں ترجیح کے حوالے سے بھی امام احمد رضا کی خدا داد صلاحیت، فقہی تبحر، دقت نظر اور وسعت فکر کا جامع نقشہ کھینچنے کے لیے چار اہم مسائل: خصائص فتاوی رضویہ
❁ پیدائشی عیب والے قربانی کے جانور
❁ وکیل نکاح کا دوسرے سے نکاح پڑھوانا
❁ وقت عصر،اور
❁ جنبی کی تلاوت قرآن
کا ذکر کیا ہے اور پوری شرح و بسط کے ساتھ من و عن نقل فرما دیا ہے۔ اہل ذوق قارئین واقفیت حاصل کرنے کے لیے کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔
بلا شبہ غیر منصوص احکام کے استنباط اور ان کے حل کے لیے دقت نظر کے ساتھ روز مرہ کے مسائل سے بھی واقفیت ہونا انتہائی ضروری ہے۔ امام احمد رضا قدس سرہ اس میدان کے بھی عظیم شہسوار تھے۔ قدرت نے اس باب میں آپ کو واقعی ملکہ راسخہ سے نوازا تھا۔
آپ کے زمانے میں رام پور، اتر پردیش میں انگریزوں کی “روسر” نامی ایک کمپنی شکر بنانے کا کام کرتی تھی اور یہ یقین کے ساتھ پتہ نہیں تھا کہ وہاں جن ہڈیوں کے ذریعے شکر صاف کیا جاتا ہے وہ کس جانور کی ہے، حلال یا حرام؟ جب محدث بریلوی سے اس کے استعمال کا شرعی حکم دریافت کیا گیا تو آپ نے دس مقدمہ قائم کرنے کے ساتھ تقریباً ۳۸/ صفحات پر اس کا تفصیلی جواب عنایت فرمایا۔ اسی طرح ” کرنسی نوٹ” اور “امور شرعیہ میں تار کی خبر” کے حوالے سے تحقیقی فتوے نقل کیے گیے ہیں۔ تفصیل کے لیے ص:۱۲۵ تا ۱۴۶/ کا مطالعہ فرمائیں۔ خصائص فتاوی رضویہ کا
فاضل بریلوی کا تحقیقی شعور اس قدر پختہ اور بالغ تھا کہ آپ نے ہر مسئلے کی تحقیق و تنقیح میں آخری حد تک رسائی پانے میں کامیابی حاصل کی۔ آپ کے تحقیقی فتاوے دیکھ کر یقین ہوتا ہے کہ وہ علم و حکمت کے سمندر ہیں اور طالبین فقہ و افتا برابر ان سے مستفیض ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
جن چیزوں سے تیمم کرنا درست ہے ان کی تعداد فقہاے کرام کی سابقہ کتب میں ۷۴/ ہیں، جب کہ امام احمد رضا نے مزید ۱۰۷، چیزوں کا شمار کروایا، اسی طرح جن اشیا سے تیمم کرنا درست نہیں ہے ان کی تعداد ۵۸، منقول تھیں، مگر آپ نے خصائص فتاوی رضویہ میں ۷۲، چیزوں کا مزید اپنی تحقیق سے اضافہ فرمایا۔ یوں ہی حلال جانور کے حرام اجزا میں بھی دس چیزوں کا اضافہ فرمایا اور ساتھ میں آپ نے وہ دلائل بھی پیش کیے ہیں جن کی روشنی میں ان اشیا کا استخراج فرمایا۔
زیر تبصرہ کتاب مطالعہ کرتے ہوئے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مؤلف موصوف نے فتاویٰ رضویہ سے خصوصیات و کمالات؛ بڑی بیدار مغزی سے چُن چُن کر اس میں یکجا کر دیے ہیں۔ حل اشکالات و توضیح مبہمات پہ بھی محدث بریلوی کو بڑا کمال حاصل تھا، کثرت دلائل و شواہد دیکھ کر یہ یقین ہوتا ہے کہ آپ کی نظر فقہ و حدیث کی تمام کتب معتبرہ پر تھی۔
زیر نظر کتاب خصائص فتاوی رضویہ میں ص: ۱۶۶ تا ۲۰۶/ ” پہ کثرت دلائل و شواہد” کی بحث موجود ہے۔ اس کے تحت مؤلف نے یہ دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ امام احمد رضا کس قدر آیات قرآنی، احادیث کریمہ اور فقہی جزئیات سے استدلال فرماتے تھے۔ ص: ۱۶۸، پہ داڑھی کاٹنے سے متعلق ایک مسئلہ مذکور ہے، اس میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ امام احمد رضا نے داڑھی بڑھانے کے ثبوت میں دو طرح کی جن آیات[ عموم، خصوص] سے استدلال فرمایا ہے ان کی تعداد ۱۷ ہیں، نماز عیدین کے بعد دعا کے اثبات پر ۱۴، حدیثیں، عمامہ کے ساتھ نماز کی فضیلت پر تقریباً ۲۰، اور اسی طرح سیاہ خضاب کی حرمت پر ۱۶، احادیث نقل فرمائیں اور تکرار نماز جنازہ کے عدم جواز پر فاضل بریلوی نے گیارہ انواع کے تحت فقہ حنفی کی معتبر و مستند کتابوں سے جو جزئیات نقل فرمائی مؤلف موصوف نے ان کی تعداد تقریبا ۲۰۰، بتانے کے ساتھ فتاویٰ رضویہ کی یہ عبارت بھی نقل کر دی ہے کہ:
” النہی الحاجز” میں چالیس کتابوں کی اکیاون عبارتیں تھیں، یہ پچاسی کتب متون و شروح و فتاوی کی دو سو سات عبارات ہیں، غرض صورت مذکورہ استثنا کے سوا نماز جنازہ کی تکرار ناجائز و گناہ ہونے پر مذہب حنفی کا اجماع قطعی ہے اور اس کا مخالف، مخالف مذہب حنفی ہے۔” [فتاویٰ رضویہ ،ج:۴،ص:۶۷، مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی، بحوالہ کتاب ھذا،ص:۲۰۳]
زیر مطالعہ کتاب میں فتاویٰ رضویہ کی اس خصوصیت کا بھی تذکرہ ہوا ہے کہ امام احمد رضا اپنے فتاویٰ میں کثیر علوم و فنون کا استعمال کرکے غیروں سے بھی اپنی لیاقت و صلاحیت کا لوہا منوا گیے ہیں۔ علم تفسیر، اصول حدیث، نقد رجال، اسماء الرجال، علم کلام، اصول فقہ، طبعیات، ہندسہ لوگارثم، ریاضی، توقیت، ہئیت، تجوید و قرأت، قوافی و عروج اور علم زبان و بیان وغیرہ کے استعمال پر متعدد مثالیں ص: ۲۰۴ تا ۲۴۲، مذکور ہیں۔
اس کے علاوہ صاحب کتاب نے فتاویٰ رضویہ کی خصوصیات کے ضمن میں ” اصلاح و موعظت، لغزش و خطا پر تنبیہات، علماے متقدمین پر تنقیدات” اور ” مخالفین پر تعقبات” وغیرہ بھی تحریر فرمایا ہے۔
علماے متقدمین پر تنقیدات کے حوالے سے صاحب کتاب نے صاحب فتاویٰ شامی ابن عابدین، قاضی خان صاحب قنیہ، علامہ سید احمد طحطاوی و صاحب منح الروض پہ تطفل کا تذکرہ کیا ہے اور اس میں بیع و ثمن، نکاح و وکیل نکاح اور غیر اللہ کو سجدہ کرنے سے متعلق مسائل مذکور ہوئے ہیں۔
پند و نصائح کے حوالے سے بھی اہم فتوے نقل کیے گیے ہیں اور یہ دکھایا گیا ہے کہ آپ کا اندازِ ناصحانہ اس قدر عمدہ اور نفیس تھا کہ مخاطب و مستفتی فراخ دلی کے ساتھ ان باتوں پہ عمل پیرا ہونے کی کوشش میں جٹ جاتے۔ ظہر کی جماعت چھوڑ کر تہجد کے لیے قیلولہ کرنے والے، فرض زکوٰۃ چھوڑ کر نفلی صدقات کرنے والے اور نکاح خواں غیر وکیل، وغیرہ کی اصلاح کا کام آپ نے اپنے فتاویٰ کے ذریعے بڑی خوبصورتی سے سر انجام دیا ہے۔ ذرا یہ انداز گفتگو دیکھیں کہ یہاں ناصحانہ کلمات کس قدر عمدہ اور نفیس ہیں جو انھوں نے فرض زکوٰۃ چھوڑ کر نفلی صدقات کرنے والوں کے نام کیا کہ:
“اے عزیر! فرض خاص سلطانی قرض ہے اور نفل گویا تحفہ و نذرانہ۔ قرض نہ دیجیے اور بالائی بےکار تحفے بھیجیے وہ قابل قبول ہوں گے؟ خصوصاً اس شہنشاہ غنی کی بارگاہ میں جو تمام جہان و جہانیاں سے بے نیاز ہے۔ یوں یقین نہ آئے تو دنیا کے چھوٹے حاکموں کو ہی آزما لے، کوئی زمین دار مال گزاری تو بند کر لے اور تحفے میں ڈالیاں بھیجا کرے، دیکھو تو سرکاری مجرم ٹھہرتا ہے یا اس کی ڈالیاں کچھ بہبود کا پھل لاتی ہیں! ذرا آدمی اپنے ہی گریبان میں منہ ڈالے۔” [کتاب ہذا خصائص فتاوی رضویہ ، ص: ۲۵۴] امام احمد رضا نے ان تمام چیزوں کے علاوہ بھی غلط اور فاسد استدلال کرنے والوں کی جہاں زور دار گرفت فرمائی وہیں دلائل کی روشنی میں علمی جواب بھی مرحمت فرمایا۔ مؤلف موصوف نے اس حوالے سے متعدد مثالیں رقم کی ہیں، انھیں پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ رب کریم نے آپ کو بصارت و بصیرت کے ساتھ نور علم سے خوب خوب سرفراز فرمایا تھا۔ ص: ۲۷۵، پہ موجود ” رشید احمد گنگوہی کا تعاقب” پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ کس طرح مجدد اہل سنت نے ۱۸/ اٹھارہ طریقوں سے ان کا تعاقب فرما کر حق کا چہرہ روشن فرمایا ہے۔ خصائص فتاوی رضویہ کتاب پڑھ کر یہ یقین ہو جاتا ہے کہ صاحب کتاب نے اپنے موضوع کے ساتھ بھرپور ایمانداری و دیانتداری سے کام لیا ہے اور تطویل و لا طائل سے گریز کرتے ہوئے سادہ و سلیس انداز میں بہترین خامہ فرسائی کی ہے۔ موصوف کی اس سے قبل بھی چند کتابیں راقم الحروف کے مطالعہ کی میز سے گزری ہیں، جو واقعی اپنے اپنے موضوع پر خوب ہیں۔ آخر کتاب میں مفتی ذاکر حسین نوری مصباحی فناء القادری نے صاحب کتاب کا ایک جامع و مختصر تعارف تحریر فرمایا ہے۔ اس کے بعد ہی ماخذ و مصادر کا بھی ذکر شامل ہے، جسے دیکھ کر یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ تقریباً ۵۱/ اکیاون کتب کی گھنی امدادی چھاؤں میں رہ کر گلدستہ ھذا کو منصہ شہود پر لانے کا کام بڑی خوبی سے سر انجام دیا گیا ہے۔ پچھلے ٹائٹل پیج پر مصنف کی مطبوعہ تصانیف کی ایک عکسی تصویر موجود ہے۔ اس کے رطب و یابس سے پاک ہونے کا امکان اس لیے بھی مزید قوی ہو جاتا ہے کہ نظر ثانی کا کام مبلغ اسلام علامہ عبد المبین نعمانی مصباحی مد ظلہ العالی اور تصحیح حروف کا کام مفتی مشتاق احمد امجدی اویسی نے مکمل فرمایا ہے۔ خصائص فتاوی رضویہ میں سمجھتا ہوں کہ موصوف کا یہ کام یقیناً ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عنقریب ہی ہند و پاک سے اس کا پانچواں ایڈیشن شائع ہونے والا ہے۔ جب کہ پہلا ایڈیشن امام احمد رضا اکیڈمی سے ستمبر ۲۰۲۱ء میں، دوسرا ایڈیشن مولانا نورالدین اکیڈمی سے اکتوبر ۲۰۲۱ء میں، تیسرا ایڈیشن اکبر بک سیلر لاہور سے نومبر ۲۰۲۱ء میں اور چوتھا ایڈیشن طلبۂ بزم فیضان مظہر اعلی حضرت، ساکی ناکہ ممبئی سے فروری ۲۰۲۲ء میں شائع ہوا۔ عمدہ کاغذ اور طباعت کا نفیس اہتمام بھی اس کی مقبولیت کے راز میں شامل ہیں۔ خواہش مند حضرات اس اہم گلدستہ کو امام احمد رضا اکیڈمی بریلی، حق اکیڈمی، مکتبہ حافظ ملت مبارک پور سنی پبلیکشن دہلی مولانا نور الدین اکیڈمی اتر دیناج پور وغیرہ سے حاصل کر سکتے ہیں۔ خصائص فتاوی رضویہ
ما شاء اللہ مضمون بہت محنت سے لکھا گیا ہے