حکمرانو! منصفانہ نظام قائم کرو ورنہ تمھارا بھی حشر وہی ہوگا جو فرعون کا ہوا تھا اس مضمون کو پڑھ کر دل کو سکون ملےگا اسی لیے یہ تمام حکمرانوں تک پہچادو
تحریر: , محمد طلحہ حسین سعدی ثقافی
منصفانہ نظام
میرے وطن عزیز بھارت کی کرسئ سیادت وقیادت پر براجمان قائدین و ذمہ داران سے میرایہ عریضہ ہے۔کہ زمامِ سیادت وقیادت کو مضبوط چابک دستی سے پکڑو اور محبتوں کی ندیاں بہا دو۔تاکہ خطۂ سیادت وقیادت کے ہر گوشے ہر چپے عدل و انصاف کا گہوارہ بن جائے۔
اور آنے والی نسلیں تمہیں بھی عدل ومساوات کے ظفر اعظم حضرت اورنگ زیب عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ کی طرح یاد رکھیں اور عزت وتکریم کے تاج محل تمہارے قبروں کے سرہانے شجرۂ ثمردار بن کر سایہ فگن رہے منصفانہ نظام کی وجہ سے۔اورسینۂ تاریخ میں تمہارے نام کی عقیدتوں کا روشن قطب منار جگمگا تا رہے اور تمہارے سروں پر کلاہ افتخار بلندئ برج ولال قلعہ کی طرح پرچمِ محافظ بن کر سدا لہراتے رہے۔
اور ہاں! یہ بات دھیان رہے کہ ہرگز سایۂ غرور وتکبر کو اپنے صحنِ انصاف میں بھٹکنے نہ دینا ورنہ وادئ خسران میں دھکیل دیے جاؤگے۔کیونکہ لفظِ تکبر یہ کبر سے ماخوذ ہے اس کے معنی ہے جلانا جسے ہم اپنے مادر وطن ہندوستان میں ماچس یا دیا سلائی کہتے ہیں، اسی دیا سلائی کو لغتِ عرب میں کبریت کہتے ہیں۔
کبریت کے معنی جلانے کے آتا ہے لہذا ہوشیار باش کہ کہیں تم نے بھی کبریت کی عفریتی فریب میں آکر ان کی خاصیت اپنا لی تو پھر سن لو انجام تمہارا جل کر خاکستر ہونے والا ہے ۔اوربہت جلد خداۓ کائنات تمہاری رسّئ مہلت کو اپنے دست قدرت کے شکنجے میں کس نے والا ہے۔
اور تم تخت شاہی سے فرش گدائی کے نشیمن ہونے والے ہو کیونکہ امور کائنات میں تصرف و صفت ِکبریائی سے متصف تو فقط خدا ۓ ستار وغفار، قھار وجبار ہی کے شایان شان ہے منصفانہ نظام۔اسی لیے شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ
مر اورا رسد کبریاؤ منی کہ
ملکش قدیمست وذاتش غنی
یکے را بسر بر نہد تاج تخت
یکے را بخاک اندر آرد ز تخت
منصفانہ نظام کس کا
اللہ عزو جل ہی کو بڑائی اور خودی کا حق ہے کیونکہ اس کی سلطنت ادیم وقدیم ہے اور وہ ہر شئ سے بے نیاز ہے۔وہ اس قدر قادر مطلق ہے کہ وہ کسی کے سر پر تاج شاہی کا اعجاز رکھتا ہے اور کسی کو تخت شاہی سے اتار کر پیوند خاک کر دیتا ہے اور اس کی ساری شہرت وثروت عزت و دولت مٹی میں ملا کر رکھ دیتا ہے ۔
اے حکمرانو یہ ذہن نشین کر لو کہ عوام کی خوش حالی وبد حالی کی خشت اول تم ہو یاد رکھو کہ عوام اس ملک کی جڑ ہیں اور تم اس ملک کے تناور درخت ہو ۔
اور اگر عوام اس ملکی درخت کے کلی ہیں تو تم اس ملک کے پھل اور پھول ہو ۔ یاد رکھو کہ درخت کے ہرے بھرے رہنے کا سبب جڑیں ہوتی ہیں اور اسی طرح کلیاں پھل و پھولوں کی سلامتی کا ضامن ہوا کرتی ہیں ۔
اگر عوام آپ کے سیاسی ذمہ داران میں کوتاہی و نا اہلی کے سبب بے روزگاری وپریشان حالی کے شکار اور تعلیمی ترقی سے کوسوں دور رہیں تو پھر ملک وملت کا انجام بد سے بد تر ہوتا جاۓ گا اس لیے شیخ سعدی لکھتے ہیں۔
فراخی دراں مرز وکشور مخواہ۔
کہ دلِ تنگ بینی رعیت ز شاہ۔
اس ملک و ریاست میں چین وسکون کا تصور نہ کر جہاں عوام و رعایہ حکمرانوں اور سیاستدانوں سے پریشان ہو ۔اور اسی طرح ملک میں زہریلے اشیاء جیسے شراب گانجے وغیر دیگر منشیات پر شدید پابندیاں عائد ہونی چاہیے تاکہ منشیات کی غلاظت سے ملک کے بزرگ و بچے سب محفوظ رہیں ۔
اور ترقی کی جانب بڑھیں۔کیونکہ منشیات کے عادی افراد جہاں بستے ہیں وہ جگہ ویران ہو کر رہ جاتی ہے جیسا کہ شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔
نہ دیدم کسے سر گراں ازشراب
مگر ہم خرابات دیدم خراب
میں کسی شراب سے مست انسان کو کامیاب نہیں دیکھا البتہ وہ ریاست اور شراب خانے ویران دیکھے جہاں منشیات کی فراوانی تھیں ۔اسی طرح ملک کے قدیم اثاثے اور علامات و روایات بر قرار رکھنے چاہیے مثلاً سیاحت و بدنی ریاضت کے مقامات اسی طرح اسماء مواضع وشوارع برقرار رکھنے چاہیے کیونکہ اس سے ملکی قدر و منزلت، تہذیب و ثقافت اور شناخت تروتازہ رہتی ہے ۔
اوراس میں یہ راز بھی مضمر ہے کہ اگلوں کے کارناموں کے ترانے گنگنانے سے پچھلے ہمارے ناموں کے قصیدے گائیں گے ۔اس لیے شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔
چوں خواہی کہ نامت بود در جہاں
مکن نامِ نیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بزرگاں نہاں
منصفانہ نظام کیوں
اگرآپ چاہتے ہیں کہ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے نام روشن رہے تو گزرے شاہوں و بزرگوں کے کارناموں و نشانیوں کو نہ مٹائیں اور ان کی خدمات گراں مایہ کو فراموش نہ کریں اور لوگوں کے مقدمات و عرضیات کا صحیح تفتیش کر کے منصفانہ فیصلہ کریں اور انھیں آپس میں شیر و شکر اور انسانیت و اخوت کے ساتھ جینے اور جذبات و احساسات کو قابو میں رکھنے اور تکلیفات و مشکلات کی گھڑیوں میں ضبط صبر سے کام لینے کی تلقین کریں اور ہرگز کسی مظلوم کی فریاد رسی سے چشم پوشی نہ کریں اور بر وقت ان کی حاجت برآری کے لئے حتی الوسع کوشش کریں کیونکہ۔
بترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن
اجا بت از درِ حق بہرِ استقبال می آید
مظلوم کی آہ سے بچیں کیونکہ ان کی آہ و بدعا کے وقت قبولیت خود درحق سے چل کر آتی ہے۔ جیسا کہ واقعہ مشہور ہے کہ شاہی محل کے قریب کسی سن رسیدہ مسکینہ و ضعیفہ بوڑھیا کی جھونپڑی تھی جب باشاہ نے دیکھا کہ شاہی محل کے قریب یہ بدنما اور خیمہ نما جھونپڑی ہے تو لشکروں کو حکم دیا کہ اسے فوراً تباہ کردو اور دیکھتے ہی دیکھتے بلا کسی مزاحمت کے جھونپڑی نیست ونابود کر دی گئی کیونکہ اس وقت بوڑھیا گھر میں نہیں تھیں کسب معاش کے لئے باہر گئی ہوئی تھیں جب شام کو واپس لوٹی تو دیکھتی ہے کہ جھونپڑی کا نام ونشان تک نہیں ہے اور سمجھ جاتی ہے کہ جھونپڑی آشیانہ شاہ ظالم کے زینت گاہ کی بھینٹ چڑھ گئی ہے اور بوڑھیا کی آنکھوں میں بے ساختہ آنسوں کا دھارا بہہ نکلتی ہے اور زبان حال و قال سے پکار اٹھتی ہے اے ظالم! خدا کی گرفت سے ہرگز تم بچ نہیں سکتے پھر۔
لاتأخذه سنة ولا نوم،، جسے نہ نیند آتی ہے اور نہ اونگھ۔کی بارگاہ بے کس پناہ میں ملتفت ہوکر دست بدعا ہوئیں کہ اے مار و مور،مجبوروکمزور کے پالنہار این کنتَ؟ تو کہاں تھا تیرے ہوتے ہوۓ اس ضعیفہ کی جھونپڑی کیوں کر اوجڑی ضعیفہ کی فریاد سن کر رب قہار،جلال میں آیا اور جبرئیل کو حکم دیا کہ جبرئیل فلاں خطۂ زمین پر جاؤ اور آن واحد میں تخت شاہی کو زمیں بوس کردو حکم پاتے ہی سدرہ کےمکیں جبرائیل امیں نے چشم زدن میں سلطنت شاہی کو زمیں بوس کر دیا۔
ہیبت حق دہشت انگیزوں پہ طاری ہو گئی
ہر پلک آنکھیں جھکیں ڈرکر تو بھاری ہوگئی
تاجداری کی جلالت غرقِ خاری ہوگئی
پارہ ، پارہ آبر و ۓ شہر یاری ہو گئی
خون کے بادل اٹھے قلعوں کی جانب مڑ گئے
اور یوں بر سے پہاڑوں کے پر خچے اڑ گئے
کیاغضب ہےجو ڈراتے تھےوہ خودہی ڈرگئے
یہ عجب ہے جی اٹھے مقتول،قاتل مرگئے
یہ مضمون منصفانہ نظام کے متعلق ہے امید ہے پسند آیا ہوگا
محمد طلحہ حسین رضوی سعدی ثقافی
استاذ: جامعہ دارالحبیب صوفیہ ایجو سینٹر مہاراشٹرا