حضور کی مکی زندگی – حضور کا نسب نامہ

حضور تاجدارِ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
کی مکی زندگی شروع سے لے کر آخر تک بالکل تفصیلی معلومات جان کر آپ چونک جائیں گے کہ حضور کی مکی زندگی کتنی مصیبت بھری ہے حضور کا نسب

محمد وہ کتاب کون کا غرائے پیشانی
محمد وہ حریم قدس کا شمع شبستانی
مبشر جس کی بعثت کا ظہورِ عیسیٰ مریم
مصدق جس کی عظمت کا لب موسٰی عمرانی
(علیہم الصلوٰۃ والسلام)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ سَرْمَدًا صَلِّ عَلٰی حَبِیْبِکَ الْمُصْطَفٰی وَاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَبَدًا

حَسْبِیْ رَبِّیْ جَلَّ اللہ نُوْرِ مُحَمَّدْ صَلَّی اللہ
لَا مَقْصُوْدَ اِلاَّ اللہ چل میرے خامہ! بِسْمِ اللہ

حضور کی مکی زندگی کے درخشندہ پہلو

پہلا باب
خاندانی حالات
نسب نامہ

حضور کا نسب نامہ

(۱)حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (۲) بن عبداللہ (۳) بن عبدالمطلب (۴) بن ہاشم (۵)بن عبد مناف(۶)بن قصی(۷)بن کلاب(۸)بن مرہ(۹)بن کعب (۱۰)بن لوی(۱۱)بن غالب(۱۲)بن فہر(۱۳)بن مالک(۱۴) بن نضر (۱۵) بن کنانہ(۱۶) بن خزیمہ(۱۷) بن مدرکہ(۱۸) بن الیاس (۱۹) بن مضر (۲۰) بن نزار(۲۱) بن معد(۲۲)بن عدنان ۔(1)

         (بخاری ج 1، باب مبعث النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)

اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا شجره نسب یہ ہے:
(1) حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم(2) بن آمنہ(3)بنت وہب(4) بن عبد مناف(5) بن زہرہ(6) بن کلاب(7) بن مرہ۔(2)

1۔۔۔۔۔۔صحیح البخا ری،کتاب مناقب الانصا ر،باب مبعث النبی صلی اللہ علیہ وسلم،ج2،ص573
2۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،اولاد عبد المطلب،ص48

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والدین کا نسب نامہ ”کلاب بن مرہ ” پر مل جاتا ہے اور آگے چل کردونوں سلسلے ایک ہو جاتے ہیں۔ ” عدنان” تک آپ کا نسب نامہ صحیح سندوں کے ساتھ باتفاق مؤرخین ثابت ہے اس کے بعد ناموں میں بہت کچھ اختلاف ہے اورحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب بھی اپنا نسب نامہ بیان فرماتے تھے تو ”عدنان” ہی تک ذکر فرماتے تھے۔

(کرمانی بحوالہ حاشیہ بخاری ج 1، ص543)

مگر اس پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ ”عدنان” حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں، اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرزند ارجمند ہیں۔

خاندانی شرافت

حضورِاکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خاندان و نسب نجابت و شرافت میں تمام دنیا کے خاندانوں سے اشرف و اعلیٰ ہے اور یہ وہ حقیقت ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بدترین دشمن کفار مکہ بھی کبھی اس کا انکار نہ کر سکے۔ چنانچہ حضرت ابو سفیان نے جب وہ کفر کی حالت میں تھے بادشاہ روم ہر قل کے بھرے دربار میں اس حقیقت کا اقرار کیا کہ ”ھو فیناذونسب” یعنی نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ”عالی خاندان” ہیں۔(1) (بخاری ج1 ص4)

حالانکہ اس وقت وہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بدترین دشمن تھے اور چاہتے تھے کہ اگر ذرا بھی کوئی گنجائش ملے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات پاک پر کوئی عیب لگا کر بادشاہ روم کی نظروں سے آپ کا وقار گرا دیں۔

1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ، کتاب بدء الوحی ، باب 6، ج1،ص10مفصلاً

مسلم شریف کی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ”کنانہ” کو برگزیدہ بنایا اور ”کنانہ” میں سے ”قریش” کو چنا ،اور ”قریش” میں سے ”بنی ہاشم” کو منتخب فرمایا،اور ”بنی ہاشم” میں سے مجھ کو چن لیا۔(1) (مشکوٰۃ فضائل سید المرسلین)
بہر حال یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ؎

لَہُ النَّسْبُ الْعَالِیْ فَلَیْسَ کَمِثْلِہٖ
حَسِیْبٌ نَسِیْبٌ مُنْعَمٌ مُتَکَرَّم،

یعنی حضورِانور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خاندان اس قدر بلند مرتبہ ہے کہ کوئی بھی حسب و نسب والا اور نعمت و بزرگی والا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مثل نہیں ہے۔

قریش

حضورِاقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خاندانِ نبوت میں سبھی حضرات اپنی گوناگوں خصوصیات کی وجہ سے بڑے نامی گرامی ہیں۔ مگر چند ہستیاں ایسی ہیں جو آسمان فضل و کمال پر چاند تارے بن کر چمکے۔ ان با کمالوں میں سے ”فہر بن مالک” بھی ہیں ان کا لقب ”قریش” ہے اور ان کی اولاد قریشی ”یا قریش” کہلاتی ہے۔
”فہر بن مالک ” قریش اس لئے کہلاتے ہیں کہ ”قریش” ایک سمندری جانور کا نام ہے جو بہت ہی طاقتور ہوتا ہے، اور سمندری جانوروں کو کھا ڈالتا ہے یہ تمام جانوروں پر ہمیشہ غالب ہی رہتا ہے کبھی مغلوب نہیں ہوتا چونکہ ”فہر بن مالک” اپنی شجاعت اور خداداد طاقت کی بنا پر تمام قبائلِ عرب پر غالب تھے اس لئے تمام اہل

1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم، کتاب الفضائل ، باب فضل نسب النبی صلی اللہ علیہ وسلم…الخ، الحدیث:2276، ص1249

عرب ان کو ”قریش” کے لقب سے پکارنے لگے۔ چنانچہ اس بارے میں ”شمرخ بن عمرو حمیری” کا شعر بہت مشہور ہے کہ ؎

وَ قُرَیْشٌ ھِیَ الَّتِیْ تَسْکُنُ الْبَحْرَ بِھَا سُمِّیَتْ قُرَیْشٌ قُرَیْشًا

یعنی ”قریش” ایک جانور ہے جو سمندر میں رہتا ہے۔اسی کے نام پر قبیلۂ قریش کا نام ”قریش ” رکھ دیا گیا۔(1) (زرقانی علی المواہب ج 1 ص76)

حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ماں باپ دونوں کا سلسلۂ نسب ”فہر بن مالک” سے ملتا ہے اس لئے حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ماں باپ دونوں کی طرف سے ”قریشی” ہیں۔

ہاشم

حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پردادا ”ہاشم” بڑی شان و شوکت کے مالک تھے۔ ان کا اصلی نام ”عمرو” تھا انتہائی بہادر ،بے حد سخی، اور اعلیٰ درجے کے مہمان نواز تھے۔ ایک سال عرب میں بہت سخت قحط پڑ گیااور لوگ دانے دانے کو محتاج ہو گئے تو یہ ملکِ شام سے خشک روٹیاں خرید کر حج کے دنوں میں مکہ پہنچے اور روٹیوں کا چورا کرکے اونٹ کے گوشت کے شوربے میں ثرید بنا کر تمام حاجیوں کو خوب پیٹ بھر کر کھلایا۔اس دن سے لوگ ان کو”ہاشم”(روٹیوں کاچورا کرنے والا)کہنے لگے۔(2) ( مدارج النبوۃ ج2 ص8)

چونکہ یہ ”عبدمناف” کے سب لڑکوں میں بڑے اور با صلاحیت تھے اس لئے

1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،المقصد الاول فی تشریف اللہ تعالٰی…الخ،ج1،ص144
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم اول ، باب اول ، ج2،ص8وشرح الزرقانی علی المواھب، المقصد الاو ل فی تشریف اللہ تعالٰی…الخ ،ج1،ص138

عبد مناف کے بعد کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین ہوئے بہت حسین و خوبصورت اور وجیہ تھے جب سن شعور کو پہنچے تو ان کی شادی مدینہ میں قبیلہ خزرج کے ایک سردار عمرو کی صاحبزادی سے ہوئی جن کا نام ”سلمیٰ” تھا۔اور ان کے صاحبزادے ”عبد المطلب” مدینہ ہی میں پیدا ہوئے چونکہ ہاشم پچیس سال کی عمر پاکر ملک شام کے راستہ میں بمقام ”غزہ” انتقال کر گئے۔ اس لئے عبدالمطلب مدینہ ہی میں اپنے نانا کے گھر پلے بڑھے،اور جب سات یا آٹھ سال کے ہو گئے تو مکہ آکر اپنے خاندان والوں کے ساتھ رہنے لگے۔

عبدالمطلب

حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دادا ”عبدالمطلب”کااصلی نام ”شیبہ” ہے۔ یہ بڑے ہی نیک نفس اور عابد و زاہد تھے۔ ”غار حرا” میں کھانا پانی ساتھ لے کر جاتے اور کئی کئی دنوں تک لگاتار خداعزوجل کی عبادت میں مصروف رہتے۔ رمضان شریف کے مہینے میں اکثر غارِ حرا میں اعتکاف کیا کرتے تھے، اور خداعزوجل کے دھیان میں گوشہ نشین رہا کرتے تھے۔ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نورِ نبوت ان کی پیشانی میں چمکتا تھااور ان کے بدن سے مشک کی خوشبو آتی تھی۔ اہل عرب خصوصاً قریش کو ان سے بڑی عقیدت تھی۔ مکہ والوں پر جب کوئی مصیبت آتی یا قحط پڑ جاتا تو لوگ عبدالمطلب کو ساتھ لے کر پہاڑ پر چڑھ جاتے اور بارگاہِ خداوندی میں ان کو وسیلہ بنا کر دعا مانگتے تھے تو دعا مقبول ہو جاتی تھی۔ یہ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے لوگوں کو بڑی سختی کے ساتھ روکتے تھے اور چور کا ہاتھ کاٹ ڈالتے تھے۔ اپنے دسترخوان سے پرندوں کو بھی کھلایا کرتے تھے اس لئے ان کا لقب ”مطعم الطیر”(پرندوں کو کھلانے والا) ہے۔ شراب اور زنا کو حرام جانتے تھے اور عقیدہ کے لحاظ سے ”موحد” تھے۔ ”زمزم شریف” کا کنواں جو بالکل پٹ گیا تھا آپ ہی نے اس کو نئے سرے سے کھدوا کر درست کیا، اور لوگوں کو آب زمزم سے سیراب کیا۔ آپ بھی کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین ہوئے۔اصحاب فیل کا واقعہ آپ ہی کے وقت میں پیش آیا ۔ایک سو بیس برس کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔(1)(زرقانی علی المواہب ج1 ص72)

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x