حرام کو جائز سمجھ کر کرنے کا بھیانک انجام

*کیا کسی حرام کو جائز سمجھتے ہوئے کرنا کفر ہے؟👇
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام
اس مسئلہ کے بیچ
کیا کسی حرام کام کو جائز سمجھتے ہوئے کرنا کفر ہے؟

سجدہ تعظیمی کا کیا حکم ہے اور اس کو جائز سمجھتے ہوئے کرنا کیا کفر ہے ؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا رقص اور دھمال کو جائز بلکہ ثواب سمجھ کر کرنا گناہ ہے یا کفر ہے ؟
مھربانی فرماکر جواب ارشاد فرمائیں ۔ بہت شکریہ

سائلہ ماہ جبین پاکستان

حرام کو جائز سمجھ کر کرنے پر شریعت کا حکم


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

الجواب بعونه تعالى عز وجل
١/ایسا حرام کام جس کی ممانعت نص قطعی سے ثابت ہو اسے جائز سمجھنا کفر ہے
حرام کہ۔اس کا چھوڑنا اور بچنا ضروری یعنی جس کے حرام ہونے کا ثبوت قطعی شرعی دلائل سے ہو اس کا منکر کافر ہے جیسے شراب زنا نکاح محارم ۔ایک بار عمدا کرنے والا فاسق مرتکب گناہ کبیرہ اور مستحق عذاب جہنم اس کا چھوڑنا باعث ثواب
(کما فی الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار
مطلب استحلال المعصیة القطعیة کفر لکن فی شرح العقائد النسفیة: استحلال المعصیة کفر إذا ثبت کونہا معصیة بدلیل قطعی، وعلی ہذا تفرع ما ذکر فی الفتاوی من أنہ إذا اعتقد الحرام حلالا، فإن کان حرمتہ لعینہ وقد ثبت بدلیل قطعی یکفر وإلا فلا بأن تکون حرمتہ لغیرہ أو ثبت بدلیل ظنی. وبعضہم لم یفرق بین الحرام لعینہ ولغیرہ وقال من استحل حراما قد علم فی دین النبی – علیہ الصلاة والسلام – تحریمہ کنکاح المحارم فکافر. اہ. [الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 2/ 292)

٢/ سجدہ تعظیمی اگر حرام سمجھتے ہوئے کیا تو حرام گناہ کبیرہ ہے توبہ لازم ہے اور اگر بطور عبادت کیا تو کفر ہے
سجدہ کی دوقسمیں ہیں
١/ سجدۂ عبادت
٢/ سجدۂ تعظیمی
سجدۂ عبادت اللہ کاحق ہے جو غیرخداکےلیےکسی بھی شریعت میں لمحہ بھرکے لیے بھی جائزنہیں ہوا ۔ اگر غیر خدا کو سجدہ عبادت کسی نے کیا تو واضح طور پر کافر ہوجائے گا ،
جبکہ سجدۂ تعظیمی یعنی اللہ کی طرف سےکسی کوملنے والی عظمت کے اظہارکے لیےسجدہ کرنا پچھلی شریعتوں میں جائزتھا جیسے حضرت آدم علیہ السلام کوفرشتوں نے اورحضرت یوسف علیہ السلام کو آپ کے بھائیوں اورآپ کےوالدین نے سجدہ کیا، لیکن  ہماری شریعت میں  یہ سجدۂ تعظیمی منسوخ ہوچکاہے لہذاشریعت محمدیہ میں تاقیامت غیر خدا کےلیے سجدۂ تعظیمی سخت ناجائزوحرام ہےاور تعظیماً سجدہ کرنے والاسخت گنہگار اور عذاب نار کا حقدار ہوگا ، ہاں کافر نہ ہوگا ، کسی قسم کا حکم کفر اس پر عائد نہ ہوگا ۔تفسیرمظہری وتفسیردر منثوروغیرہ میں ہے
أن رجلا قال:يا رسول الله نسلم عليك كما يسلم بعضنا على بعض أفلا نسجد لك قال: لا ولكن أكرموا نبيكم واعرفوا الحق لأهله فانه لا ينبغي أن يسجد لأحد من دون الله.
یعنی ایک صحابی نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم! ہم حضور کو بھی ایسا ہی سلام کرتے ہیں جیسا کہ آپس میں کیا ہم حضور کو سجدہ نہ کریں ؟ فرمایا: نہیں ، بلکہ اپنے نبی کی تعظیم کرو اور سجدہ خاص حق خدا کا ہے۔اسے اسی کے لئے رکھو اس لئے کہ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ جائز نہیں الدرالمنثور ص
250،دارالفکر،بیروت)

مشکوٰۃالمصابیح میں بحوالہ ترمذی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا لو كنت آمر أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها“یعنی اگرمیں کسی کوکسی
(مخلوق)کے لئے سجدہ کرنے کاحکم دیتا توعورت کوضرورحکم دیتاکہ وہ اپنے شوہرکوسجدہ کرے۔
(مشکاۃالمصابیح،کتاب النکاح،ج02،ص972،المکتب الاسلامی،بیروت)
اس حدیث کے تحت حضرت ملاعلی قاری علیہ رحمۃ الباری تحریرفرماتے ہیں
إن السجدة لا تحل لغير الله
یعنی غیراللہ کے لئے سجدہ حلال نہیں ہے۔                (مرقاۃالمفاتیح،کتاب النکاح، ج06،ص369،مطبوعہ کوئٹہ)
 
فتاوی عالمگیری میں ہے
من سجد للسلطان على وجه التحية أو قبل الأرض بين يديه لا يكفر ولكن يأثم لارتكابه الكبيرة هو المختار۔قال الفقيه أبو جعفر-رحمه الله تعالى وإن سجد للسلطان بنية العبادة فقد كفر
یعنی جس نے کسی حاکم کو بطور تعظیم سجدہ کیایااس کےسامنے زمین چومی وہ کافر نہ ہوگا ہاں گناہگارضرور ہے کیونکہ ا س نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔یہی مختارہے۔امام ابوجعفرعلیہ الرحمۃنے فرمایاکہ اگرحاکم کو سجدہ بطور عبادت کیا تو کافر ہوگا۔
(ملتقطااز الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراھیۃ، ج05،ص369،مطبوعہ کوئٹہ)
  
بہار شریعت میں ہے
سجدہ تحیت یعنی ملاقات کے وقت بطورِ اکرام کسی کو سجدہ کرنا حرام ہے اور اگر بقصد عبادت ہو تو سجدہ کرنے والا کافر ہے کہ غیر خدا کی عبادت کفر ہے۔
(بہارِشریعت،ج03،ص473،مکتبۃالمدینہ،کراچی)

٣/ رقص ناچ گانا ڈھول یہ سب حرام ہے اگر کوئی جائز سمجھ کر کرے تو خارج از اسلام ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے 
ومن الناس من يشترى لهو الحديث ليضل عن سبيل الله بغير علم ويتخذها هزوا آولئك لهم عذاب مهين۔
(سورہ لقمان:آیت:6)

حدیث پاک میں ہے
ليكونن من امتى اقوام يستحلون الحر والحرير والخمر والمعازف
(صحیح بخاری: کتاب الاشربہ: باب ماجاء فیمن یستحل الخمر ویسمیه بغير اسمه:حدیث نمبر: 5590)

اور در مختار میں ہے
قلت:وفي البزازية:استماع صوت الملاهى كضرب قصب ونحوه حرام لقوله عليه الصلاة والسلام:استماع صوت الملاهى معصيةوالجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر:
أي، بالنعمة۔
(درمختار مع رد المحتار ج9 ص 504 دارعالم الكتب الرياض)
اور فتاوی رضویہ میں ہے”مختصرا اسی طرح یہ گانے باجے کہ ان بلاد میں معمول ورائج ہیں بلاشبہ ممنوع و ناجائز ہیں (ج9ص77نصف اول)
نیز اسی میں ہے
قوالی کی طرح پڑھنے سے اگر یہ مراد کہ ڈھول ستار کیساتھ جب تو حرام سخت حرام ہے (ج9ص 185نصف آخر)
اور فتاوی امجدیہ میں ہے
ڈھول بجانا،عورتوں کا گانا،ناچ،باجا،یہ سب حرام ہیں(ج4 ص75)

والله و رسوله أعلم بالصواب

كتبه عبده المذنب محمد مجيب قادري لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x