یہ بزم گیتی ہردور میں ایسی باکمال ہستیوں سے معمور رہی ہے اس محفل میں حافظ ملت کا ذکر ہوگا جن کا وجود اسلام اور مسلمین کےلیے رحمت الٰہی کا سرچشمہ رہا ہے. انھیں نفوس قدسیہ میں ایک عظیم المرتبت اور تاریخ ساز شخصیت کا نام، جلالۃ العلم حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مبارک پوری علیہ الرحمہ کی ذات ہے.
ولادت
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی ولادت بروز دوشنبہ 1313ھ/1894ء کوضلع مرادآباد اترپردیش کے موضع بھوج پور میں ہوئی.
تعیلم کی ابتدا
ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول میں حاصل کی. والد ماجد کی نگرانی میں حفظ قرآن کی تکمیل کی، فارسی اور عربی کی ابتدائی کتب جناب عبدالمجيد سے بھوج پوری سے پڑھنے کے بعد جامعہ نعیمہ مرادا آباد میں داخلہ لیا، وہاں متوسطات پڑھیں، تین سال یہاں رہے. پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے شوال 1342ھ میں دارالعلوم معینیہ اجمیر شریف تشریف لے گئے جہاں آپ انتہائی محنت ولگن کے ساتھ حضرت صدرالشریعہ ودیگر استاذہء ذوی الاحترام کی بار گاہ فیض میں اکتساب علم کرتے رہے. اور پھر حضور صدرالشریعہ کی معیت میں بریلی شریف تشریف لا ئے اور 1351ھ میں دارالعلوم منظر اسلام سے دستارِ فضیلت سے نوازے گئے.
درس و تدریس
29شوال 1353ھ میں اپنے استاذ گرامی حضرت صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کے حکم پر مبارک پور بحیثیت صدر مدرس تشریف لائے. پوری دل جمعی کے ساتھ میدان عمل کے اس دشوار ترین سفر کو جاری رکھا، اس چھوٹے سے مدرسے کو جہاں معیار تعلیم فارسی، نحومیر، پنج گنج تک تھا. آپ کے آنے کے بعد، آپ کے طرز تدریس سے اس مدرسہ کی شہرت ہوگئ، لہٰذا طالبان علوم نبویہ کی ایک بڑی تعداد یہاں آگئ. جس کی وجہ سے مدرسہ میں جگہ کم پڑگئ. تو آپ نے 1353ھ دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم کی بنیاد رکھی. جس کا سنگ بنیاد حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی میاں اور حضور صدرالشریعہ علیہما الرحمہ کے مقدس ہاتھوں رکھا گیا.
لیکن جب دارالعلوم کی یہ عمارت بھی اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کرنےلگی تو قصبہ مبارک پور سے باہر ایک وسیع و عریض خطہء زمین، ایک شہرستان علم بسانے کے لیے حاصل کی گئی اور مئ 1972ء/ربیع الاول 1352ھ میں حضور مفتی اعظم ہند ودیگر علما و مشائخ کے ہاتھوں اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور اس کا مختصر نام”الجامعۃ الاشرفیہ” تجویز فرمایا.
حافظ ملت کا فیضان
تعلمی میدان میں مسلمانوں کی پسماندگی نے بھی حافظ ملت کو تڑپا دیا تھا، آپ نے دیکھا کہ مسلمان دنیوی تعلیم میں تو پیش قدمی کر رہے ہیں لیکن دینی تعلیم سے بالکل بے توجہی برت رہے ہیں جو ان کی عاقبت و آخرت کے لیے نقصان دہ ہے، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے آپ نے مسلمانوں کی دستگیری فرمائی اور “جامعہ اشرفیہ” کی شکل میں وہ عظیم سرمایہ قوم کو عطا کیا جو اس وقت پورے ہندوستان ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کی ایک مرکزی درس گاہ ہے. حضور حافظ ملت کا فیضان علمی آج پورے ہندوستان ہی نہیں پورے عالم پر محیط ہے. دنیا کے گوشے گوشے میں فاضلین اشرفیہ اسلام کی بیش بہا خدمات انجام دے رہے ہیں.
حافظ ملت اپنی شخصیت سازی
حضرت حافظ ملت اپنی شخصیت سازی سے اس قدر مطمئن تھے کہ بارہا فخریہ انداز میں اپنے خوشہ چینوں کا تذکرہ کرتے ہوئے شکرخداوندی بجالاتے۔
چناں چہ ایک مرتبہ “جشن تاسیس الجامعۃ الاشرفیہ” کے زریں موقع پر ابنائے اشرفیہ قدیم سے خطاب کرتے ہوئے رقت انگیز لہجہ میں فرمایا: میں نے آج تک کوئی کاغذی اخبار و اشتہار تو نہیں شائع کیا مگر ہاں (مفتی شریف الحق امجدی ،بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی، علامہ ارشدالقادری ،علامہ بدرالقادری،علامہ قمرالزماں خان اعظمی اور دیگر موجود ممتاز شاگرد علما کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا) یہ ہیں اشرفیہ کے وہ زندہ جاوید اخبارات و اشتہارات جنھیں ہم نے بڑے اہتمام کے ساتھ خون جگر کی سرخیوں سے شائع کیا ہے . (ملفوظات حافظ ملت. ص : 134.133)
تصنیفی کارنامے
جہاں آپ نے تعمیری کام میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے وہیں تحریر ی خدمات بھی آپ کے پیش نظر تھی.
مندرجہ ذیل کتابیں آپ نے اصلاح امت کی خاطر تصنیف فرمائیں : ارشاد القرآن،معارف حدیث، الإرشاد، انباء الغیب، المصباح الجديد، فرقۂ ناجیہ، فتاویٰ حافظ ملت.
حافظ ملت خصائل حسنہ کے پیکر
حافظ ملت جہاں ایک عظیم مفکر، مدبر ،عالم ربانی، مرشد طریقت، مدرس، خطیب اور اہل سنت والجماعت کے تعلیمی قلعے کے سربراہ اعلی تھے وہیں انسانی فلاح و بہبود کے لیے انتھک کام کرنے والے سماجی کارکن بھی تھے،آپ اسلامی اخلاق و آداب کے معلم ہی نہیں بلکہ اس پر عامل بھی تھے، اسلامی اخلاق انسانی زندگی کے تمام گوشوں کو محیط ہے ،جو انسان اس سانچے میں ڈھل جائے اس کے عادات و اطوار مہذب ہوجاتے ہیں،حافظ ملت کی تحریری کارناموں میں اخلاقیات کے کئی موضوعات پر نہایت عمدہ مضامین پائے جاتے ہیں ،جن میں انہوں نے قوم کو مخاطب کیا ہے مگر جب ہم نظر عمیق سے جائزہ لیتے ہیں تو ان کی تحریروں میں خود ان کی ہی زندگی کی عملی تصویر نظر آتی ہے ۔
حافظ ملت کے اخلاق و اوصاف سے متاثر ہو کر حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں”بعض لوگوں نے انہیں استاذ العلماء اور جلالت العلم ہی سمجھا، لیکن وہ میری نظر میں عارف باللہ اور اللہ کے ولی ہیں ، علم ظاہر و باطن کے ایسے سنگم جہاں ہر پیاسے کو پانی ملے وہ استاد العلماء کی ذات گرامی ہے، ایک ایسا عابد شب زندہ دار کہ زہد و تقوی اور پارسائی جس کے دامن کی حسین جھالریں ہیں ، لباس میں ایسی سادگی جس سے عالمانہ وقار پھوٹ پھوٹ کر برستا ہو ،گفتار میں ایسی نرمی اور مٹھاس گویا ہونٹوں سے پھول جھڑ رہے ہوں، ایسے کریم اور شفیق کے بچے انہیں پاکر ماں کی گود بھول جائیں ” (حیات حافظ ملت ص:١٧٠/١٧١)
آپ کی تقوی شعاری ایک نظر میں
حافظ ملت فرائض و سنن کے بچپن سے ہی پابند تھے، جب سے بالغ ہوئے نماز تہجد بھی شروع کر دی جس پر آخری عمر تک عمل رہا، صلاۃ الاوابین دلائل الخیرات شریف روزانہ بلاناغہ پڑھتے، آخری ایام میں معذور ہوگئے تو دوسروں سے پڑھوا کر سنتے تھے ،صبح کو ہر روز سورۂ یٰسین اور سورۂ یوسف کی تلاوت کا التزام رکھتے اور جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت کا بھی معمول تھا ،حافظ ملت اکثر فرمایا کرتے تھے کہ عمل اتنا کرو جتنا بلاناغہ کر سکو! آپ ہر سال شب برات میں سو رکعت نماز پڑھتے اگر کسی سال چاند کی رؤیت میں اختلاف ہوتا تو انتیس اور تیس دونوں کے اعتبار سے لگاتار دو راتیں سو سو رکعتیں پڑھتے، اگرچہ اس رات حضرت کسی جلسہ یا میلاد کے پروگرام میں مصروف ہوتے (حیات حافظ ملت ص:٧٩/٨٠)
حافظ ملت کی شان معلّمانہ
آپ نے کئی ہزار علماء بلاواسطہ یا بالواسطہ پیدا فرمائے اور ان میں اکثر ایسے انمول و بیش قیمت ہیرے موتی ہیں جو دنیائے دین و سنیت کی شان اور وقت کے عظیم معلم،قائد،قلمکار یا مدبر و مدرس تھے اور ہیں۔
طلبہ کو علم و عمل اور اخلاق و کردار سے آراستہ کر کے ان کی شخصیت کو اجاگر کرنا اور انہیں اس طور پر نکھارنا کہ وہ جس سرزمین پر قدم رکھیں علمی و ایمانی روشنی بکھیرتے اور پھیلاتے ہوئے جائیں اور وہ خود اللہ کے احسان یافتہ عاجز بندے، عشق رسول میں غوطہ زن،نائب رسول رہ کر امت کو صراط مستقیم پر گامزن کر دیں۔ اور یہ کارنامہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے بخوبی انجام دیا۔
اس تعلق سے رئیس القلم علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ یوں رقمطراز ہیں” استاد شاگرد کا تعلق عام طور پر حلقہ درس تک محدود ہوتا ہے لیکن اپنے تلامذہ کے ساتھ حافظ ملت کے تعلقات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ پوری درس گاہ اس کے ایک گوشے میں سما جائے ،یہ انہی کے قلب و نظر کی ناپید کنار وسعت اور انہی کے جگر کا بے پایاں حوصلہ تھا کہ اپنے حلقہ درس میں داخل ہونے والے طالب علم کی بے شمار ذمہ داریاں اپنے سر لیتے تھے۔ طالب علم درس گاہ میں بیٹھے تو کتاب پڑھائیں، باہر رہیں تو اخلاق و کردار کی نگرانی کریں ،مجلس خاص میں شریک ہوں تو ایک عالم دین کے محاسن و اوصاف سے روشناس فرمائیں، بیمار پڑے تو نقش و تعویذات سے اس کا علاج کریں، تنگدستی کا شکار ہوجائے تو مالی کفالت فرمائیں، پڑھ کر فارغ ہو تو ملازمت دلوائیں اور ملازمت کے دوران کوئی مشکل پیش آئے تو اس کی بھی عقدہ کشائی فرمائیں، طالب علم کی نجی زندگی، شادی، بیاہ یا دکھ سکھ سے لے کر خاندان تک کے مسائل میں دخیل و کارفرما، طالب علم زیر درس رہے یا فارغ ہو کر چلا جائے ایک باپ کی طرح ہر حال میں سر پرست اور کفیل ہوتے تھے۔
یہی ہے وہ جوہر منفرد جس نے حافظ ملت کو اپنے اقران و معاصرین کے درمیان ایک معمار زندگی کی حیثیت سے ممتاز اور نمایاں کر دیا ہے ۔(حیات حافظ ملت ص:١٢٨)
*علامہ ارشدالقادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
*حضور حافظ ملت گئے، مگر اس شان سے گئے کہ زبان تو بند کر لی ہے مگر لاکھوں منہ میں زبان دے گئے. قلم تو رک گیا مگر لاکھوں ہاتھوں میں دریا کی روانی کی طرح چلتے ہوئے قلم دے گئے. چلنا بند کر دیا مگر لاکھوں پیروں میں دین کی راہ میں چلنے کی تڑپ بخش گئے. فکر وتدبر کا سلسلہ بند کر دیا، مگر لاکھوں ذہنوں کو فکرو شعور اور علم و آگہی کی دولت دے گئے. درس دنیا چھوڑ دیا مگر لاکھوں اہل علم پیدا کرگئے جو ان کی مسند تدریس کی یادگار ہیں. بہ ظاہر تبلیغ و ارشاد کی مسند خالی ہے مگر سیکڑوں روحانی فرزند چھوڑ گئے جو آج بھی روحانیت کے علم بردار ہیں. (حافظ ملت. ص:79)
آپ کی حب الوطنی
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کا تعلق جس زمانے سے ہے اور آپ نے جس ماحول میں دینی معاشرتی فلاح و بہبود کے لیے کارنامے انجام دیے وہ مسلمانوں کے لیے انتہائی مشکل اور آزمائش کا دور تھا ۔
ملک ہندوستان کے مسلم و غیر مسلم تمام باشندے انگریزوں کے خلاف صف آراء ہو کر وطن عزیز کو آزاد کرانے کے لیے بےچینی سے کوشاں تھے بالآخر قید و بند، قتل و خونریزی، صلیب و جلاوطنی کے تمام مراحل سے گزر کر سنہ ١٩٤٧ء میں ملک کو آزادی ملی اس وقت بھی حضور حافظ ملت سمیت دیگر تمام علماء پیش پیش رہے، مگر آزادی کے بعد تقسیم ہند و پاک کا بھیانک بازار گرم ہوا، ایک ہی وطن میں ہزاروں سالوں سے امن و چین سے زندگی گزارنے والے حتی کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر انگریزوں سے ملک کو آزاد کرانے والے ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے، ہمسائیگی، بھائی چارہ قرب و جوار کے تمام آداب بھول کر عصبیت اور گندی سیاست کے جال میں پھنس گئے ، لوگ گھربار،مال و دولت اپنی عبادت گاہیں ویران کرنے پر مجبور کر دئیے جا رہے تھے ایسے موقع پر حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے حب الوطنی کا درس دینا شروع کر دیا اور اس بات سے قطع نظر کہ نظریہ پاکستان کے بارے میں علماء نے کیا احکام صادر کیے حافظ ملت نے اس اہم موقع پر نہایت حکمت عملی سے کام لیا اور تذبذب کے شکار لوگوں کو ترک وطن سے منع کیا، اس موقع پر حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے پروگرام رکھا اور حضور صدر الشریعہ کو بلایا اور ترک وطن کے خلاف زبردست تقریر کروائی اور خود آپ نے بھی اسلام ،مسلمان ،مدارس ، مساجد اور خانقاہیں وغیرہ کی اہمیت اور اور ان کی قدر و منزلت بتانے کے ساتھ ترک وطن کی صورت میں ان کی بے حرمتی اور ویرانی کو وضاحت سے روشناس کرایا، ہم سمجھتے ہیں کہ اعظم گڑھ اور اس کے اطراف و اکناف میں جو کثرت سے مسلمان پائے جاتے ہیں یہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ کی حب الوطنی اور ترک وطن کے خلاف عمل پیہم اور انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے۔
بیسویں صدی کے عظیم شخصیتوں کے صف میں آپ کا مقام ومرتبہ اور آپ کے کارناموں کو کوئی انصاف پسند مؤرخ ہرگز نظر انداز نہیں کر سکتا، آپ کی شخصیت ایک مرکزی شخصیت تھی، آپ نے اپنے مشن کا اصل نشانہ ایسی چیزوں کو بنایا جو مرکزی اور اصولی حیثیت کی حامل ہیں، آپ صرف نہروں پر قانع نہ تھے بلکہ دریا ،سمندر کو بھی اپنا مقصد حیات تصور کیا کرتے تھے۔
جذبۂ دینی سے سرشار ہو کر فرمایا کرتے”مسجد بنانا ثواب ،سرائے بنانا ثواب، یتیم خانہ بنانا بھی یقینا ثواب مگر مدرسہ سب سے بنیادی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اگر علماء نہ پیدا ہوں گے تو ان سب کو کون آباد کرے گا میں نے مدرسہ کو بہت سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے
اہم کارنامے
اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی کے بعد یوں تو بہت سے علماء و صلحاء تشریف لائے اور انہوں نے دین و سنیت کے فروغ میں نمایاں کردار بھی ادا کیا اور ہمارے درمیان بڑے بڑے فقیہ ،محدث ،متکلم وغیرہ پیدا بھی ہوئے مگر علمائے اہل سنت کو ایک عظیم علمی قلعہ کی سخت ضرورت تھی جس میں ہزاروں کی تعداد میں تشنگان علوم نبویہ اپنے علمی پیاس بجھا سکیں، کیونکہ اہل سنت کے پاس کوئی بڑی درسگاہ نہ تھی کچھ مدارس تھے تو بہت چھوٹے تھے اور جو مدارس بڑے تھے وہ آزادی سے قبل انگریزوں کے سرمائے سے تعمیر شدہ انگریزوں کے پروردہ بد عقیدوں کے زیر انتظام تھے۔
اس سخت ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے علمائے حق نے دن رات کوششیں کیں جن میں نمایاں اور ممتاز حافظ ملت علیہ الرحمہ ہیں انہوں نے جو خواب دیکھا تھا عظیم درسگاہ کی اسے شرمندۂ تعبیر فرمایا مدرسہ مصباح العلوم کی تعمیر بعدازاں الجامعۃ الاشرفیہ کی پر شکوہ تعلیمی قلعہ جو اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے مبارک پور قصبہ میں آج بھی نگاہوں کے سامنے ہے ،جسے ازہر ہند کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
درحقیقت اہل سنت میں تعلیمی مساعی اور اس کی بیداری میں عمل پیہم کا تاج حافظ ملت علیہ الرحمہ کے سر سجتا ہے اور ایسی تعلیمی تڑپ حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کی صحبت کا فیضان ہے کیونکہ حافظ ملت نے صدرالشریعہ سے صرف علم ہی نہیں بلکہ عمل بھی حاصل کی معاً جذبۂ دعوت وتبلیغ اور طریقۂ تعلیم بھی سیکھا۔
تلاوت کلام پاک
حافظ ملت ہمہ وقت تلاوت میں مصروف رہتے
¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯
حضور محدث کبیر مد ظلہ العالی فرماتے ہیں کہ :
حضور حافظ ملت اٹھتے بیٹھے ہوئے، چلتے ہوئے تلاوت کرتے رہتے، گھر سے مدرسہ جانے کے لیے نکلتے نگاہیں جھکا کر، بالکل سیدھے، قدم برابر رکھتے ہوئے اور زبان پر تلاوت کا ورد کرتے ہوئے چلتے، اوقات درس میں ایک جماعت پڑھ کر نکلتی اور دوسری جماعت آنے والی ہوتی اس دوران جو دو چار منٹ کا وقت ملتا اس میں دو ایک رکوع کی تلاوت فرمالیتے ۔ ہم نے یہاں تک اندازہ کیا کہ رات میں جب بستر پر لیٹ جاتے تو جب تک پاؤں سمیٹے رہتے تلاوت کرتے رہتے وہ یہ سوچتے تھے کہ جب تک نیند نہ آئے قرآن پڑھ لوں۔
فرماتے ہیں کہ : میرے والد نے اپنی حیات میں ایک لاکھ قرآن ختم کیا، میں نے بھی اللہ سے دعا کی ہے کہ اللہ مجھے بھی ایسی توفیق دے ۔
محدث کبیر فرماتے ہیں کہ: میرا خیال ہے کہ حافظ ملت نے ایک لاکھ سے زیادہ ختم فرمایا
وصال پرملال
یکم جمادی الآخرہ 1396ھ/ 31مئ 1976ء بروز دوشنبہ رات گیارہ بج کر پچپن منٹ پر یہ آسمان علم و فضل دنیا سے رخصت ہو گیا.
انا للہ وانا الیہ راجعون.
جس نے پیدا کیے کتنے لعل وگہر
حافظ دین و ملت پہ لاکھوں سلام
محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی. رام گڑھ (جھارکھنڈ )
منقبت در شان حافظ ملت
گل باغ امام اہلسنت حافظ ملت
دعائے حضرت صدر شریعت حافظ ملت
بناکے اشرفیہ کی عمارت حافظ ملت
مبارک پور کو دیدی ہے شہرت حافظ ملت
زبان علم و دانش پر یہی ہے تذکرہ اب بھی
یقیناً خوبصورت خوب سیرت حافظ ملت
کبھی دربار عالی سے کوئی لوٹا نہیں خالی
بہت مشہور ہے تیری سخاوت حافظ ملت
خوشی سے کیوں نہ جھومیں اس گھڑی اپنے مقدر پر
ملی ہیں جنکو دستار فضیلت حافظ ملت
ہجوم عاشقاں ہے اسلئیے عرس عزیزی میں
برستی ہے یہاں روضہ پہ رحمت حافظ ملت
وہابی کا مناظر نام سنکر کانپ جاتا ہے
عطاکی عبد کو تونے یہ عزت حافظ ملت
از قلم مفتی عبدالمقتدر خان جالوی
MOB.9955639110