اللہ و رسول کی شان میں حاضر و ناظر کا لفظ استعمال کرنا کیسا ہے؟ علمائے کرام ومفتیان عظام جواب عنایت فرمائیں ۔
المستفتی ۔ محمد شفیق اللہ نوری جوہر باڑاوی سیتامڑھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب بعون الملک الوھاب:
اللہ تعالی کے لئے حاضر و ناظر کا لفظ استعمال کرنا منع ہے لیکن اگر پھر بھی کوئی شخص حاضر و ناظر کا لفظ اللہ تعالی کے لئے استعمال کرے تو وہ کفر نہ ہوگا جیسا کہ درمختار میں ہے۔ ویا حاضر ویا ناظر لیس بکفر (الدرمختار ج٦ ص٤٠٨ کتاب الجہاد باب المرتد دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان )
حضرت مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ تحریر فرمائیں ہیں کہ اگر حاضر و ناظر بہ معنی شہید وبصیر اعتقاد رکھتے ہیں یعنی ہر موجود اللہ تعالی کے سامنے ہے اور وہ ہر موجود کو دیکھتا ہے تو یہ عقیدہ حق ہے مگر اس عقیدے کی تعبیر لفظ حاضر و ناظر سے کرنا یعنی اللہ تعالی کے بارے میں حاضر و ناظر کا لفظ استعمال کرنا نہیں چاہیے لیکن پھر بھی کوئی شخص اس لفظ کو اللہ تعالی کے بارے میں بولے تو وہ کفر نہ ہوگا ۔ ( فتاوی الرسول جلد ١ ص٣ )
مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں ۔ اللہ عزوجل کو حاضر وناظر کہنے والا کافر تو نہیں مگر اللہ عزوجل کو حاضر وناظر کہنا منع ہے کہ اللہ عزوجل کے اسماتوقیفی ہیں یعنی شریعت نے جن اسما کا اطلاق باری تعالی پر کیا ہے اسی کا اطلاق درست اور جن اسما کا اطلاق نہیں فرمایا ان سے احتراز چاہیے۔ (فتاوی شارح بخاری جلد ١ ص ٣٠٥)
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حاضر و ناظر کا لفظ استعمال کرنا جائز و درست جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ۔ یایھاالنیی انا ارسلناک شاھدا وبشیرا ونذیرا ۔ ترجمہ اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی ) بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر وناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈرسناتا ۔(سورہ احزاب آیت نمبر ٤٥ ترجمہ کنز الایمان)
حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
لان روح النبی صلی اللہ علیہ وسلم حاضرة فی بیوت جمیع اھل الاسلام ۔(شرح شفا شریف ج٢ ص١١٨ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان )
واللہ تعالی اعلم
کتبہ ۔ محمد نظر عالم قادری شمسی
٢٢جمادی آخر ١٤٤٤